برما :مسلمان بدھ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر

از عبد الستار اعوان
برما پھر لہو لہو ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بد ھ بھگشوؤں نے حکومت کی مکمل آشیر باد سے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔ بدھ دہشت گرد تنظیم ماگھ ملیشیا اور دیگر بودھ انتہاپسندوں نے مسلمانوں کے سینکڑوں گھروں کو آگ لگادی ہے ۔ جان بچانے کے لئے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی جاری ہے ، لاتعداد خاندان پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں جبکہ برما حکومت نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ مسلمانوں کو شہریت نہیں مل سکتی، وہ برما میں جائیداد یا کاروبار کے مالک بن سکتے ہیں اور نہ انہیں تعلیم و صحت جیسی سہولتیں دی جا سکتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حکومت اور اس کے پالتو دہشت گردوں کا مطالبہ ہے کہ برما کے مسلمان یہ دھرتی چھوڑ دیں کیونکہ ان کا اس پر کوئی حق نہیں ۔ یاد رہے کہ برما کی حکومت نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی تمام اپیلیں مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کر رکھا ہے جبکہ اقوام متحدہ اور مسلم ریاستیں ان مظلوموں کی مدد کے لئے تیار نہیں ۔برما کا صوبہ اراکان تو کسی قبرستان کا منظر پیش کرنے لگا ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں بیس ہزار سے زائد مسلمان مرد ، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ، ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں اور مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے۔ معصوم بچوں کو نیزوں کی انیو ں پر اچھال کر پورے عالم میں پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے ایمان اور جذبہ جہاد کو پرکھا جا رہا ہے ‘ ان کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے اور ان کی ایمانی غیرت کو للکا را جا رہا ہے ۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ گزشتہ سال جب برما کے صوبہ اراکان میں ہزاروں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا تھا تو دوسری طرف برما کے رہنما آنگ سوچی کو امن کا نوبل انعام دیا جا رہا تھا‘یعنی دوسرے لفظوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ جو جس قدر مسلمانوں کا قتل عام کرے گا وہی امن کے نوبل انعام کا حق دار ٹھہرے گا ۔

برما جس کانیا نام میانمار ہے سات لاکھ مربع میل رقبے کا حامل ملک ہے جو بھارت ، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے درمیا ن گھرا ہوا ہے ، یہاں کی کل آبادی چھ کروڑ کے لگ بھگ ہے ، بدھ مت یہاں کی سب سے بڑی اکثریت ہے۔برما میں مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے اوریہ متعصب بودھوں کے رحم و کرم پر کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں ، ان کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔صوبہ اراکان ایک مسلم اکثر یتی صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے متجاوز ہے، تین جون 2012ء سے اب تک اسی صوبہ میں قیامت برپا ہے اور وہاں کے مظلوم مسلمان بدھ دہشت گردوں کے آگے سسک سسک زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں مگر دہشت گرد انہیں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔بر مامیں 1430ء سے 1636ء تک مسلمانوں کی حکمرانی رہی جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں تمام مذاہب کو کھلے دل سے برداشت کیا مگر اب انتہا پسندبدھ حکومت اور اس کے پالتوغنڈے روہنگیامسلمانوں سے جینے کا حق بھی چھین چکے ہیں۔ برمامیں یو ں تو مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوتے ہی ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے تاہم 1784ء میں جب بدھ پھیہ نے اقتدا رپر قبضہ کیا تب سے اسلام کے نام لیواؤں کو ظلم وسربریت کا مسلسل سامنا ہے ۔ اندوہناک مظالم کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب1978ء میں جنرل نی ون کی فوجی حکومت نے مسلمانوں پر الزام لگایا کہ یہ بنگالی ہیں اور ان کا برما کی دھرتی پر کوئی حق نہیں ‘ پھر فوجی حکومت کی اس اختراع نے ظلم و جور کے وہ مظاہر دکھائے کہ انسانیت بھی شرما کر رہ گئی ۔ فوجی حکمرانوں کے ایماء پر روہنگیا مسلمانوں کو’’ آپریشن ڈریگن ‘‘کا سامنا بھی کرنا پڑا جس نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا او ر مسلمان اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوکر رہ گئے ‘خوشیاں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روٹھ گئیں اور ’’غیر ملکی‘‘ کا طعنہ دے کرا ن سے زمینیں ہتھیالی گئیں ،تعلیم ، کاروبار ، سرکاری ملازمتوں اور دیگر بنیادی سہولتوں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے ۔فوجی حکومت نے اسی پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بدھ دہشت گردوں کو پروان چڑھا کر مسلمانوں کے ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے، اسی فوجی حکومت کے ستائے لاکھوں مسلمان آج بھی بنگال کی سرحد پر مہاجر کیمپوں میں بے یارو مدد گا ر پڑے ہیں جبکہ تازہ واقعات نے ان کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ کر دیا ہے ۔ بنگلہ دیش انہیں برمی کہہ کر دھتکار رہا ہے تو برما کے حکمران انہیں بنگالی ایجنٹ کا طعنہ دے کر قبو ل کرنے کو تیا ر نہیں ۔

کس قدر دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے برما کے مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ، 2001ء اور 2009ء میں بھی ایک لہر اٹھی اور مسلمانوں پر مختلف الزامات عائد کر کے ان کا قتل عام کیا گیا‘ان کے مکانات، مساجد و مدارس کو مسمار کردیاگیا۔ تازہ مظالم کا سلسلہ 2013ء میں اس وقت شروع ہوا جب ایک بدھ لڑکی کو قتل کر دیا گیاتھا ، بودھوں نے اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا‘ یہ الزام لگنے کی دیر تھی کہ صوبہ اراکان کا کوئی بھی مسلمان موت کے سوداگروں سے محفوظ نہ رہا ‘چنانچہ 2013ء سے اب تک تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام جار ی ہے ۔ مسلمانوں کے گلے کٹ رہے ہیں اور اب تک بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ برما کی فوج ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بلوائیوں کے ساتھ شامل ہیں ۔ فوج کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی مسلم اکثریتی آبادی میں نہیں آنے دیا جاتا تاکہ دنیا حقائق سے لاعلم رہے ،تاحال آگ و خون کا یہ رقص وقفے وقفے سے جاری ہے اور تاز ہ ترین منظر نامہ یہ ہے کہ بودھ دہشت گرد ایک بار پھر مسلم آبادیوں پرٹوٹ پڑے ہیں اور مسلم علاقوں میں بد مست ہاتھی کی طرح دندنا رہے ہیں ۔ عالمی اتحادِ کفر کی لونڈی ’’اقوام متحدہ ‘‘سے تو شکوہ اور فریاد کرنا ہی فضول ہے ‘سوال پید اہو تا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار او آئی سی کو آخر کونسا سانپ سونگھ گیا ہے؟ دیگر مسلم ریاستیں کہاں ہیں ؟ و ہ کیوں مہر بلب ہیں؟آخر انہیں برما کے مسلمانوں کا لرزہ خیز قتل عام کیوں نظر نہیں آرہا ؟ کرہ ارض پر پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمان آخر کس مصلحت کے تحت ان مظلوم بھائیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں اوران کی قوت گویائی کس نے سلب کر لی ہے کہ یہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پرِ محض خاموش تماشائی بن کر رہ گئے ہیں ؟کیا دنیا کے نقشے پر کوئی ایک بھی ایسی مسلم ریاست ہے جو برما کے ہزاروں مسلمانوں کی قاتل،دہشت گرد بدھ تنظیم’’ ماگھ ملیشیا‘کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لگام دے ڈالے اور اس کے ساتھ ساتھ برما حکومت کو بھی یہ واضح پیغام دے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بند کروائے ۔ کاش ……اے کاش ….اٹھاون مسلم ریاستوں میں کوئی ایک ریاست تو ایسی ہو جو اس ظلم کے خلاف میدان عمل میں اترے ۔
Muhammad Imran Khan
About the Author: Muhammad Imran Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.