سفرنامہ: امن دوستی کے وفد کے ساتھ ہندوستان میں

(۱۹۔۳۰ جون ۲۰۰۴ء)

ایکسویں صدی کی پہلی دہائی میں مجھے دو دو سال کے وقفے سے تین بار ہندوستان جانے کا موقع ملا۔ وہ ملک جو ہمارا پڑوسی ہے جو ہمارا جڑواں بھائی ہے جس سے محبت اور نفرت ہم ایک ساتھ کرتے ہیں جس سے کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں جسے ہم دشمن ملک بھی سمجھتے ہیں دونوں طرف کی حکومتیں اپنی سیاست چمکانے کے لیے دونوں طرف کے عوام میں ایک تعصب جگانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں بہرحال نہیں ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان بے اعتنائی نہیں ہے۔ دونوں جانب لوگ دنیا بھر کی طرح ہی ہیں اچھے بھی برے بھی۔ لیکن ہندوستان کے لوگ پاکستان اور پاکستان کے لوگ ہندوستان میں بے انتہا دلچسپی رکھتے ہیں اور ہر قسم کے مقابلوں کا مزہ چاہے وہ کرکٹ کا ہو یا گانے کا جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہو تو جوش و خروش قابلِ دید ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے تو ہم ایک ہی تھے آزادی کی جنگ بھی ساتھ ساتھ لڑی تقسیم اور تصور پاکستان کا خیال تو آخری چند سالوں کا تھا بہرحال وہ خونریز تقسیم تھی جس میں جغرافیائی حدوں کے ساتھ ساتھ رشتوں اور خاندانوں کے بٹوارے بھی ہوئے اسی سبب ہندوستان پاکستان کا رشتہ ایک جذباتی سا رشتہ ہے کیوں کہ شکل و صورت لباس و گفتار زبان و ثقافت اور بہت سی قدریں مشترک ہیں چنانچہ اس پس منظر کے ساتھ جب سوروپٹومسٹ انٹرنیشنل کے تحت ۲۰۰۴ء میں امن و دوستی کا پیغام لے کر جانے کے لیے خواتین کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا تو ہم لوگ بہت خوش ہوئے ایک عجیب سی کشش تھی وہاں پہنچنے کی ایک خوشی اور خوف کا احساس بھی تھا کہ کچھ غلط نہ ہوجائے حالات ٹھیک رہیں اور ہم ایک اچھا تاثر چھوڑیں اور ساتھ خیریت کے واپس آئیں۔ عموماً میرے سفر تنہا پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کرنے کے سلسلے میں ہوتے رہے۔ ۲۰۰۴ء کا یہ سفر ایک خواتین کے بڑے گروپ کی صورت میں قطعی مختلف نوعیت کا تھا۔ یہ ۲۴ خواتین پر مشتمل تھا جو چار سال سے لے کر ۷۴ سال کی عمر کی تھیں اور مختلف پیشوں سے منسلک تھیں۔ پروفیسر۔ ڈاکٹر۔ لائبریرین ۔ بوتیک چلانے والی۔ زمینداروں کی بیویاں۔ دو ماں بیٹی اور نواسی بھی تھیں۔ چار سالہ بچی ہماری ٹیم لیڈر ناہید احمد کی نواسی جو پیشے سے مشہور وکیل مرحوم خالد اسحاق کی بھانجی ہیں۔

ہم سب سوروپٹومسٹ انٹرنیشنل کے ممبرز ہیں جو خواتین کی ایک بین الاقوامی انجمن ہے۔ جنگِ عظیم اوّل و دوم کے بعد وجود میں آئی جب ان جنگوں میں بہت سے مرد حضرات مارے گئے اور عورتوں کے کندھوں پر اپنے خاندانی کاروبار اور بچے سنبھالنے کی ذمہ داری آن پڑی۔ دھیرے دھیرے اس نے ایک نیٹ ورک کی صورت اختیار کرلی اور اب باقاعدہ ایک منظم شکل میں اپنے آئین و قوانین کے تحت دنیا بھر میں یہ انجمن ایک مربوط شکل میں موجود ہے اس کا مقصد خواتین کو معاشی استحکام تعلیم اور صحت فراہم کرنا ہے۔ اس کے معنی بہنا پہ (Sisterhood)ہے۔ پوری دنیا کی عورتیں اپنے آپ کو اس انجمن کے تحت ایک دوسرے کی بہن ہی تصور کرتی ہیں اور ہر قسم کی مدد کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ میں اس وقت ۲۰۰۴ء میں سوروپٹومسٹ انٹرنیشنل کی جنرل سیکرٹری اور ناہید احمد صدر تھیں جب ہم سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ہمارے گروپ میں شاہین ایک ٹریول ایجنسی میں کام کررہی تھیں انھوں نے گروپ کے لیے مناسب قیمت پر ٹکٹوں کا انتظام کیا۔

ہماری ہندوستانی بہنوں نے ہمیں دعوت نامہ بھیجا اور تین شہروں ممبئی، پونا اور حیدرآباد دکن میں ہمارے لیے مختلف پروگرام رکھے۔ ناہید احمد کی جان پہچان انڈین ایمبیسی میں تھی لہٰذا انھوں نے ہم سب کے پاسپورٹ جمع کرکے ویزا لگوانے کی اجتماعی ذمہ داری قبول کی اور مسلسل ممبئی میں کستوری شنکر جو وہاں سورو پنومسٹ ممبئی کی صدر تھیں۔ ان سے رابطے میں تھیں اور وہاں ہماری ہندوستانی بہنیں ہمارے استقبال کی کیا کیا تیاریاں کر رہی تھیں اس کی خبریں بھی دیتی جاتی تھیں یوں ہم تمام ضروری کار روائیاں مکمل کرکے ۱۹ جون بروز ہفتہ علی الصبح PIAسے ممبئی روانگی کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر جمع ہوئے اور سوا گھنٹے کی اڑان کے بعد ممبئی پہنچ گئے۔ ایسا لگا جیسے لاہور یا بھاولپور اپنے ہی ملک کے ایئرپورٹ پہنچے ہوں۔

ممبئی آبادی کے اعتبار سے کراچی کی طرح سب سے بڑا شہر ہے اور اس لحاظ سے دنیا کا پانچواں شہر ہے جبکہ کراچی ساتویں نمبر پر ہے یہ بھی کراچی کی طرح بندرگاہ ہے اور مہاراشٹرا کا دارالخلافہ بھی ہے۔ جیسے کراچی سندھ کا۔ کوئی سوا دو کروڑ کی آبادی ہے سب سے بڑی Slumآبای بھی یہاں ہی ہے اور یہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری جس نے دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے اس کی آماجگاہ بھی ہے۔ بومبے کا نام ممبئی باقاعدہ ۱۹۹۵ء میں تبدیل ہوا۔ مشہور گیٹ وے کی تعمیر ۱۹۱۱ء میں جارج ہشتم کی آمد کے لیے یادگار کے طور پر ہوئی۔ انیسویں صدی میں بہت سے مارواڑی اور گجراتی پارسی لوگ یہاں ہجرت کرکے آئے اور کمپنیاں اور کاروبار استوار کیے۔ یہیں پر کانگریس پارٹی کی بنیاد پڑی جس نے آزادیٔ ہندوستان کے لیے اہم سیاسی کردار ادا کیا اس شہر کی تعمیر اور اہمیت بڑھانے میں برطانوی سامراج کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ثقافتی اعتبار سے یہ ہمیں اپنے کراچی سے بہت ملتا جلتا لگا۔ ہوائی اور سمندری راستوں کے سبب دنیا سے مربوط ہے۔

ساڑھے دس بجے صبح ہم ممبئی پہنچ چکے تھے ایئرپورٹ پر ہمیں لینے ایک کوسٹر یا بس سمیت کستوری شنکر صدر۔ گیتا جنرل سیکریٹری سوروپٹومسٹ انڈیا اور دو اور ممبران موجود تھیں۔ ایک ہماری ساتھی کے پاس سارک ویزا تھا ایئرپورٹ پر فارم موجود نہ تھے جس کے سبب کاروائی میں تاخیر ہوئی اور باقی ہم سب بس میں اپنے میزبانوں سمیت ان کے انتظار میں سوکھ گئے سرکاری مشینری میں وہاں بھی وہی عالم ہے جو پاکستان میں۔ لہٰذا خوبیاں خامیاں بھی قدرے مشترک ہی لگیں۔ جیسے ہی وہ خاتون امیگریشن سے نکلیں ہم سب فوراً ہی پونا کے لیے روانہ ہوئے۔ میکڈونلڈ پر رکے کیوں کہ بھوک کچھ لوگوں کو لگ رہی تھی اور کھنڈالہ سے ہوتے ہوئے ہم تقریباً چار بجے شام پونا کے Sun & Sand Hotelپہنچے جہاں ہمارے قیام کا انتظام کیا ہوا تھا۔ یہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہے لہٰذا rebateکے بعد بھی تھوڑا مہنگا ہی لگا لیکن گروپ میں سب ہی خوش تھے اور بجٹ کرکے نکلے تھے ایک کمرے میں دو دو فٹ ہوگئے۔ شام کو پونا SIنے Boat Clubمیں ہمارے رات کے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ پھولوں، تحفوں اور تلک لگا کر ہندوانی طریقے سے استقبال ہوا۔ SIکی کارکردگی اور برانچز پر رپورٹ پیش کی گئی پریس بھی موجود تھی جس نے اگلے دن اخباروں میں بڑی ٹھیک ٹھاک کوریج دی۔ کھانا بڑا مزیدار لگا چٹنیاں، اچار، appetiserسب ہی بہترین تھے۔ اگلے دن اتوار کو lobbyمیں ناشتے کے بعد ہمیں IT Park اور Pune Instituteلے جایا گیا جو انتظامی اعتبار سے بڑا اچھا ادارہ ہے۔ یہ پونا کے مضافاتی علاقے میں بنایا گیا ہے۔ پونا ایک پُر سکون سرسبز اور چھوٹا خوب صورت شہر ہے یہاں جون کے آخر میں موسم بھی پاکستان کے مقابلے میں خوشگوار محسوس ہوا۔ کوئی اکتیس لاکھ کی آبادی کا شہر ہے اس میں ۱۹۶۰ء کے سیلاب کے بعد بہت سے ترقیاتی کام ہوئے جس کے سبب یہاں باہر سے بہت Investment آیا۔ انڈسٹریز قائم ہوئیں، IT Park بنا پھر ۲۰۰۸ء میں Common Wealth Youth Games بھی منعقد ہوئے۔ ممبئی سے گاڑی سے تین گھنٹے کا راستہ ہے۔ رہنے کے لیے ممبئی سے بہتر شہر لگا۔ گرمی کے مہینے یہاں اپریل مئی ہوتے ہیں اسی لیے جون خوشگوار لگا۔ یوں تو یہ بھی ایک مختلف النسل شہر ہے لیکن مراٹھی، برہمن زیادہ ہیں۔ یہاں تقریباً نو جامعات ہیں جس میں IT Pune Campus نمایاں ہے۔ یہاں مجھے خاص طور سے ایک خوبصورت محل کی نشاندہی کرکے بتایا گیا کہ یہ آغا خان کا محل ہے اور ہندوستانیوں کو اس پر بڑا فخر ہے کیوں کہ یہ آزادی کی جنگ کے دور میں مہاتما گاندھی کا جیل خانہ بھی تھا جس میں ان کی بیوی اور سیکریٹری ان کے ساتھ نظر بند کی گئیں۔ ان دونوں خواتین کا انتقال اسی محل میں ہوا۔ سر سلطان آغا خان مسلم لیگ کے پہلے صدر بھی بنے تھے یوں یہ محل ہندوستان کا قومی اثاثہ ہے جس میں نمایاں کام آزادی کی تحریک کے دوران ہوئے۔

ہمارا لنچ اگلے دن گیتا کے گھر تھا مختلف خواتین ممبران جو چھوٹے موٹے کاروبار چلا رہی تھیں آئی ہوئی تھیں وہ اپنے طور پر مختلف ممبران کو ان کی دلچسپی کے اعتبار سے اپنی دُکانوں پر لے کر گئیں۔ کوئی Jewelry Shopپر کوئی Designer Boutiqueپر اور پاکستانی خواتین تو Shoppingکی دیوانی ہوتی ہیں۔ دو تین اپنے بچوں کی بری اور جہیز کے لیے خرید و فروخت کے ارادے سے گئی تھیں کچھ ہمارے گروپ میں بھی کاروباری خواتین تھیں لہٰذا ہندوستانی خواتین نے خوب اپنا کاروبار چمکایا اور اچھی خرید و فروخت ہوئی۔

تیسرے دن ہمیں پھُل گاؤں لے جایا گیا جہاں SIکے صحت کے منصوبے جاری ہیں۔ یہاں کی صدر ڈاکٹر انوپما سین ہفتے میں ایک صبح یہاں خود گزارتی ہیں مقامی لڑکیوں کو Health Visitor ٹریننگ دی ہوئی ہے اور ایک کرسچین سسٹر یہاں کے پرسکون ماحول میں مستقل رہتی بھی ہیں یہ کبھی ایبٹ آباد میں تھیں مضافاتی علاقے کی غریب خواتین اور لڑکیاں اچار چٹنی شربت۔ کیک بسکٹ بنا کر بیچنے کے لیے یہاں لاتی ہیں اس کے علاوہ چھوٹے اسکیل پر سلائی کڑھائی بھی اسی غرض سے کرتی ہیں تاکہ خود کو معاشی طور پر کچھ مستحکم کرسکیں اس قسم کے کام ہمارے پاکستان میں بھی ہورہے ہیں جس سے ان خواتین کو گھر بیٹھے بیٹھے اپنا گھر اور خاندان چلانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

ہمارے لنچ کا اہتمام ڈاکٹر انوپماسین نے اسی گاؤں کے ماحول میں سسٹر کے ذریعے کروایا۔ آج کا دن بے انتہا مصروف تھا۔ تقریباً ساڑھے تین بجے یہاں سے نکل کر ایک اور ممبر ممتاز پیر بھائی کی دعوت پر اعظم کیمپس گئے۔ یہ ایک مسلمان سنی خوجہ خاندان ہے۔ قائداعظم کی بہن مریم منور پیر بھائی کی دادی تھیں۔ اس میں ہزاروں لڑکے لڑکیاں تعلیم پا رہے ہیں خاص طور سے مسلمان لڑکیاں پوزیشن لا رہی ہیں۔ یہاں کچھ خاص ہی محبت اور گرم جوشی کا مظاہرہ بینڈ باجوں کے ساتھ ہمارے استقبال میں کیا گیا۔ پریس کوریج بھی خوب ہوئی اور اسٹار ٹی وی نے بھی خبروں میں ہماری آمد اور سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا۔ غرض بہت ہی خوشی دکھائی دی، چائے پرتکلف تھی جس میں مقامی لوازمات بہت ہی عمدہ یعنی ڈوکراز پونے کا مشہور چیوڑا، کیک، بسکٹ، سینڈوچ، دہی چاٹ وغیرہ تھے۔ ایک دن میں اتنا کچھ اسپیشل چیزیں کھانا ممکن نہ تھا کیوں کہ رات کا پروگرام بھی اہم جگہ کا تھا اور ہم سب کو وہاں جانے کا بھی بڑا اشتیاق تھا۔

شام کو جہاں جانا تھا اس کا نام سنسکرتی کلچرل ریسٹورنٹ ہے جو Vegetarian ہے۔ انڈیا میں ہمیں انھی چیزوں میں زیادہ مزا آیا کیوں کہ کباب بریانی کوفتے۔ قورمہ تو مسلمانوں کے کھانے ہیں جو اہم اپنے گھر میں کھاتے ہی رہتے ہیں۔ یہ جگہ بھی پونا کے مضافات میں ایک پارک میں ہی ہے۔ ایک میلہ سا لگا ہوا دکھائی دیا جہاں پانی پوری اور چاٹ کے اسٹالز Entranceپر ہی تھے۔ راجستھانی خواتین اپنا مخصوص استقبالیہ رقص کر رہی تھیں۔ اس سے آگے کچھ گلوکار فرمائشی پاپ گانے سنا رہے تھے۔ کچھ آرٹسٹ لوگوں کے خاکے بنا رہے تھے۔ کچھ جوتشی لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر قسمت کے حال بتا رہے تھے اور پیسے بنا رہے تھے۔ کسی نے فرمائشی غزلیں سنیں روپے نچھاور کیے کسی نے مہندی لگوائی اور کسی نے تصویر بنوائی ہاتھ کے ہاتھ۔ غرض سب نے ہی بہت لطف لیا۔

اگلے روز شام کو ہماری حیدرآباد روانگی تھی لہٰذا صبح بلوں کی ادائیگی اور سامان باندھا اس خوبصورت شہر اور پُر فضا ہوٹل سے روانہ ہوئے۔ پھر سب کو یہاں کے مشہور بازار ایم جی روڈ سے شاپنگ بھی کرنی تھی جو مجھے کراچی کے صدر اور بوری بازار جیسا لگا۔ صرف دُکاندار نسبتاً ٹھنڈے مزاج کے لگے جو ہماری جیسی خواتین کے ہجوم اور ان کے بے دھڑک خرچ کرنے کے اسٹائل سے کچھ گھبرائے لگے ان کاروباری خواتین کی نسبت جو اب تک ہماری جیبیں خالی کروارہی تھیں۔

اگلی صبح یعنی ۲۲ جون ۲۰۰۴ء کو پروگرام کے مطابق سب نے اپنے ہوٹل کے حساب کتاب کرکے بل اداکیے۔ اتنے میں کستوری شنکر ہمارے لیے بس لے کر پہنچ گئیں جس میں ہم سب مل کر Wonderland بازار گئے سب نے خوبصورت ساڑھیاں اور شلوار قمیض کے کئی کئی سوٹ اپنے اور لینے دینے کو خریدے FAB India سے مردانہ کرتے خریدے اور با تک دوپٹے اور پھر واپس آکر چار بجے ہوٹل سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ پونا ایئرپورٹ بھی شہر کی طرح چھوٹا اور صاف ستھرا ہے پنڈی جیسا۔ وقت پر ایئرسہارا سے اڑان لی۔ ہمیں ہمارے گروپ کے طور پر اچھا برتاؤ ملا۔ یوں نو بجے رات ہم ہندوستان کے شہر حیدرآباد پہنچے۔ کستوری شنکر ہمارے ساتھ حیدرآباد بھی آئیں۔ ایئرپورٹ پر SI حیدرآباد کی EC ہمارے استقبال کے لیے پھول لے کر موجود تھی۔ یہاں پر بھی ایک بس میں ہمارا سامان لادا گیا اور ہوٹل پہنچے۔ Sun & Sand پونا جو ایک فائیو اسٹار ہوٹل تھا، کے بعد سب کو حیدرآباد میں کچھ مایوسی ہوئی۔ یہاں حیدرآبادی لہجے میں اردو بولتے ہوئے مسلمان بہت ہیں۔ ہوٹل میں کچھ اندھیرا عجیب سی مہک اور غربت سی لگی۔ پونا جیسی رونق اور صفائی نہیں تھی لہٰذا سب نے شور مچا دیا کہ ہمیں یہاں نہیں رہنا۔ کستوری جو ایئرپورٹ سے اپنے کسی عزیز کے گھر چلی گئی تھیں۔ ناہید احمد کے ایک ٹیلی فون پر دوڑی دوڑی ہوٹل آئیں۔ لہٰذا پھر سامان بس پر لدا، ہوٹل والوں کے منہ اتر گئے لیکن پھر کستوری نے حیدرآباد کے منتظمین سے فون پر بات کرکے گرین پارک ہوٹل جو وہاں کے ایک با رونق علاقے میں تھا۔ ہمارے قیام کا انتظام کروایا اور یوں حالات سنبھلے۔ اتنے بڑے گروپ کو ساتھ لے جانا اور خوش رکھنا اتنا آسان نہیں لیکن ہندوستان میں SI کی خواتین مستعد تھیں اور سب کو مطمئن رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ پونا کا موسم بھی ٹھنڈا تھا اور وہاں National President کی موجودگی اور ذاتی دلچسپی کی وجہ سے پہلے سے تمام پروگرام بہت مرتب تھے۔ یہاں ہوٹل کی گڑبڑ سے بسم اﷲ ہوئی اور تھکن سے چور سامان دو مرتبہ بس پر لوڈ کرنے کی وجہ سے سب ذرا چڑ چڑے ہو رہے تھے۔

اگلی صبح سوکر اُٹھے تو لوگ تازہ دم تھے ناشتے کے بعد گیارہ بجے چار مینار کے لیے روانہ ہوئے۔ صدر کراچی اور انار کلی لاہور جیسا علاقہ تھا گنجان آباد اور بھیڑ بھاڑ والا۔ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں اور گندے علاقوں میں خواتین خریداری کرتی رہیں یہاں زیور بنوائی پاکستان کی نسبت کم ہے۔ کندن کے سیٹ یہیں کے مشہور ہیں اور تیار ہوتے ہیں۔ پوری ایک سڑک پر چوڑیوں کی دکانیں تھیں جہاں داخل ہونے سے مجھے تو بڑی گھبراہٹ ہو رہی تھی بہرحال شوقین خواتین وہاں سے بھی خریداری کرکے لائیں۔ چار بجے شام حیدرآباد کلب میں یہاں کی خواتین نے ہمیں Hi-Tea پر مدعو کیا ہوا تھا اور اس کے بعد گول کونڈا قلعہ میں Light & Sound Show دیکھنے جانا تھا جو امیتابھ بچن کی آواز میں ریکارڈ تھا۔ اس کھنڈر میں کوئی ہزار پانچ سو لوگوں کے لیے کرسیاں لگی ہوئی مقامی لوگوں کو بھی تفریح کا کافی شوق ہے۔ پچاس روپے ٹکٹ اور سیاحوں کے لیے زیادہ ہی ریٹ تھا مگر ہمیں Saarc Country اور ہم شکل سیاح ہونے کا فائدہ دیا گیا۔ کافی لطف آیا قطب شاہ کی کہانی سنائی گئی جس نے حیدرآباد پر پچاس برسوں راج کیا۔ یہ شہر اس نے اپنی ہندو بیوی بھاگمتی (جس کا نام مسلمان ہوجانے کے بعد حیدر محل رکھا گیا تھا وہ بڑی اچھی گلوکارہ اور رقاصہ بھی تھی)۔ اس کے نام پر شہر کا نام حیدرآباد رکھا گیا اس ضمن میں اور بھی روایتیں ملتی ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے بانی کے مطابق حیدرآباد حضرت علیؓ کی عقیدت میں بھی نام دیا گیا ہے۔ بہرحال حیدرآباد تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسلامی ثقافت کے آثار یہاں اب بھی جھلکتے ہیں۔ حاکم نظام حیدرآباد بھی کہلاتے تھے۔ اسے موتیوں کا شہر یا City of Pearls بھی کہا گیا۔ اس کی عمارتیں چاہے وہ حسین ساگر محل ہوں چوغہ محل ہوں یا سالار جنگ میوزیم اسلامی آرکیٹیکچر کی ہی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارا ہوٹل بھی اسلامی کھانوں یعنی حلیم۔ بریانی۔ قورمہ۔بگھارے بیگن۔ ڈبل کا میٹھا اور خوبانی کے میٹھے کے لیے شہر میں مشہور ہے اور لوگ شہر بھر سے خاص طور سے چھٹی کے دن یہی کھانے آتے ہیں شرح خواندگی بھی حیدرآباد کی ۸۲ فی صد سے کچھ اوپر ہی ہے جو قومی اوسط ۷۴ فی صد سے زیادہ ہے۔

ایک اسلامی اسکالر انڈرو پیٹرسن کے مطابق اس شہر کا قدیم نام باغ نگر تھا۔ یہاں کوئی ۱۳ یونیورسٹیاں ہیں جس میں عثمانیہ یونیورسٹی، نظامیہ کالج اور نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس مشہور ہیں۔ سنا ہے ۲۰۰۸ء میں نیا راجیوگاندھی ایئرپورٹ بھی وجود میں آچکا ہے۔ ہم تو پرانے بیگم پٹ ایئرپورٹ پر ہی اترے تھے۔ ٹیکنولوجی کے حوالے سے بھی حیدرآباد بنگلور سے مقابلہ کر رہا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ حیدرآباد، سکندر آباد جڑواں شہر کے طور پر مشہور ہیں۔ جیسے ہمارا پنڈی اور اسلام آباد۔ ہماری ایک ساتھی ڈاکٹر یزدانہ جو اب اﷲ کو پیاری ہوچکیں، اس سفر میں ہمارے ساتھ تھیں اور اپنے آپ کو سکندرآباد کی پیدائش بتاتی تھیں۔ حیدرآباد انڈیا کا چوتھا بڑا شہر اور آندھرا پردیش کا دارالخلافہ ہے۔ حیدرآباد پر قطب شاہ کی حکومت اچھے دور میں کوئی پچاس برس رہی جو ایک طویل دور ہے۔ انھوں نے شاعری ادب اور ثقافت کو بھرپور طریقے سے پروان چڑھایا۔ وہ خود بھی ایک اچھے شاعر تھے۔

اگلا دن میں ذرا سکون سے گزارنا چاہتی تھی اس لیے شاپنگ میں دلچسپی نہیں لی۔ صرف سالار جنگ میوزیم دیکھنے گئی۔ آٹھ خواتین نے ایک گاڑی ہوٹل کی مخصوص کروالی اور آپس میں کرایہ بانٹ لیا۔ لوگ اپنے اپنے پروگرام بنا کر ہماری طرح اپنی راہوں پر روانہ ہوگئے اور شاپنگ یا سیر و تفریح کی۔ رات کو SI حیدرآباد نے ہمارے لیے عشائیہ اور کلچرل شام کا اہتمام Whispering Valley میں کیا ہوا تھا۔ جہاں ہمارے SI کے ممبرز نے One dish کے طور پر کھانے خود پکائے ہوئے تھے۔ حیدرآباد کے کھانے کچھ اور بھی لذیذ لگے۔ ہوٹل بھی اچھی میزبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوپہر یا شام جب بھی ہم وہاں موجود ہوتے Complimentary Meal دے دیتا۔ ناشتے کے علاوہ جو ہر ہوٹل رات کے قیام کے ساتھ دیتا ہی ہے۔ Green Park Hotel اپنے لذیذ کھانوں کی وجہ سے ہر وقت بھرا ہوا ہی نظر آتا تھا۔ اس کا Tulip Coffee Shop اور Once Upon A Time Dinning میں لوگوں کا رات گئے تک تانتا بندھا رہتا۔ شہر البتہ پُراسرار سا لگا اور لوگوں سے معاملات نمٹانا مشکل خاص طور سے ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں ناہید اور کستوری کو بڑی مشکل کا سامنا ہوا جو طے کرنے کے باوجود ادائیگی کے وقت مزید کرائے کا مطالبہ کرتے اور زیادہ سے زیادہ کھینچنے کی کوشش میں رہتے۔

ہمارے گروپ میں خواتین بھی کچھ زیادہ ہی کھانے اور شاپنگ کی شوقین تھیں۔ بے شمار پیسے لے کر گئی ہوئی تھیں۔ بوتیک چلانے والی خواتین، زمینداروں کی بیویاں، میری جیسی پروفیشنل چار پانچ ہی تھیں۔ ان کا انداز باقی تمام سے جداگانہ ہی تھا۔ یہ میرا خاموش مشاہدہ تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں سیاحت کو ترقی دی گئی ہے جس سے یقینا کافی کمائی ہوتی ہوگی۔ باہر کے لوگوں کے علاوہ اپنے لوگوں کو بھی تفریح کے مواقع میسر ہیں اس سے لوگوں کو اپنی توانائیاں مثبت انداز میں استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے اچھا ہے۔ پاکستان کو بھی اس جانب توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے شہر بھی خوبصورت مناظر اور تاریخی عمارتوں سے بھرپور ہیں۔ رات کا کھانا اور ثقافتی شو کافی اچھا رہا علاقہ بھی downtown حیدرآباد کے مقابلے میں بہت صاف ستھرا پرسکون اور محفوظ ہے Town Houses Colony ہے یہاں SI کی صدر شالنی میسور کی صدر کملا کی بیٹی ہیں۔ کملا بہت تجربہ کار سوشل ورکر لگیں دوسرے دن ہمیں SI کا پروجیکٹ Senior Citizen Home جانا تھا اور پھر شام کو ممبئی کے لیے روانگی تھی۔

۲۵ ؍ جون ۲۰۰۴ء میں اور ناہید احمد صبح شالنی کی گاڑی میں Whispering Valley گئے۔ عائشہ اور ناظورہ کو Nally's Boutique چھوڑا Sr.Homeایک کمرے کا گھر تھا جس میں بڑے سے ہال میں پندرہ عورتیں اور سات آٹھ آدمی دو تین آپس میں میاں بیوی بھی تھے۔ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ یہ لوگ یہاں اپنے ہم عصر اور ہم عمر لوگوں میں خوش تھے۔ چھٹی کے دن ان کی اولادیں ان سے ملنے آجاتیں یا گھر لے جاتیں۔ مصروفیات کے دور میں بزرگوں کے لیے دلچسپیاں بھی ضروری ہیں ورنہ وہ تنہائی اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پیوسی، پکوڑے اور شربت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ چلتے وقت پانچ کلو کریلے کا اچار تحفتاً ہمارے ساتھ کیا۔ مجھے بڑی شرم محسوس ہوئی۔ ہمیں ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا۔ میرے کہنے پر ناہید اور میں نے پانچ سو روپے پھلوں کے لیے انھیں دیے۔ واپسی پر وزن کے سبب وہ اچار ایئرپورٹ پر پورٹر کو دینا پڑگیا۔ شاہین کے سبب کافی زیادہ سامان حیدرآباد ایئرپورٹ سے تو نکل گیا لیکن شاہین نے ممبئی سے پاکستان واپسی پر سامان زیادہ ہونے کی صورت میں پیسے ٹھگنے کی ابھی سے تنبیہ کردی۔ اس کے علاوہ ایک Destitute Home بھی گئے جو حیدرآباد SI کی مدد سے چل رہا تھا وہاں پر بھی ہم لوگوں نے کچھ پیسے Donate کیے۔

ہم تقریباً ساڑھے نو بجے رات ممبئی پہنچے وہاں Emerald Hotel جو کہ Best Western Chain کا حصہ ہے اس میں ہماری رزرویشن کستوری کی بھتیجی نے کروائی ہوئی تھی۔ یہاں نہ رسید ملی نہ ہلنے جلنے دیا گیا پوری رقم اس لڑکی نے پانچ دن کی ایڈوانس وصول کی اسی طرح پانچوں دن بس والے نے بھی تین ہزار روز کے لیے جو ہم سب خواتین میں تقسیم ہوئے چاہے جاؤ یا نہ جاؤ بہر حال شور و غل کرنے والوں کی بھی نہ چلی اور ہماری ٹیم لیڈر ناہید نے الٹی میٹم دے دیا کہ جسے جو کرنا ہے کرے لیکن یہ پیسے بہر صورت پورے ادا کرنا ہوں گے۔ اس پر خاموشی ہوئی۔ لوگوں نے پروگراموں میں کبھی کبھی شمولیت نہیں بھی کی اور اضافی خرچ کرکے اپنی تفریح اور شاپنگ خود بھی کرلی۔ لیکن ممبئی کراچی جیسا شہر ہے یہاں کے SI ممبرز ہمارے ہوٹل میں پھول اور پروگرام کے ساتھ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ روٹری والوں کی کوئی میٹنگ اور دعوت چل رہی تھی جس میں ہمیں بھی شامل کرلیا گیا۔

اگلی صبح ۲۶ جون کو صبح دس بجے پریس سے ملنا تھا وہ Star TVکے لیے ہوا۔ پھر بس پر Amarsons جو کہ ممبئی کا مشہور ڈیپارٹمینٹل اسٹور ہے کے لیے روانہ ہوئے جو کہ کراچی کے Chase کی طرح تھا لوگوں نے وہاں سے بھی زیورات اور کپڑوں کی خریداری کی۔ اس کے بعد سینٹا کروز جو کہ بہت گنجان آباد بازار ہے جس میں ایک لکھنوی کڑھائی کی دُکان پر گئے اور پھر ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ناہید رکشہ لے کر ہوٹل چلی گئیں۔ میں رکشہ لے کر Amarsons دوبارہ گئی جہاں سے میں نے اپنی بھولی ہوئی دو سونے کی چوڑیاں اٹھائیں۔ انھوں نے ہی رکشہ والے کو ہوٹل کا راستہ سمجھایا جو جوہو پر تھا۔ یہ ایک طویل ساحل ہے اور بہت سے اعلیٰ پائے کے ہوٹل اوبرائے۔ سن اینڈ سینڈز وغیرہ یہیں پر ہیں۔ اپنی بہن عفت کی دوست طیبہ سے ٹیلی فون پر بات کی جو شادی ہو کر ممبئی آگئی تھی۔

اگلے روز ۲۷ جون بروز اتوار ہمارا لنچ SI West نے Golden Orchid ریسٹورنٹ میں کیا ہوا تھا لیکن لوگ صبح کہیں اور Fab India بھی جانا چاہتے تھے۔ میں کسی اچھی جگہ بال کٹوانا چاہتی تھی۔ کراچی ٹیلی فون کے لیے قریب میں PCO کی تلاش تھی۔ ہوٹل سے مہنگا ہوتا۔ چنانچہ یہ کام کیے۔ ڈیڑھ بجے کے قریب ہم تین خواتین، میں سکندر اور ناظورہ باندرہ Golden Orchid کے لیے نکلے لیکن نہ ہی ٹیکسی والا اور نہ ہی کوئی راہ گیر ہمیں منزلِ مقصود پر پہنچا سکا۔ تھک ہار کر ناظورہ بیگم فلم جانے پر مصر تھیں اور میں ہوٹل واپس جانا چاہتی تھی۔ کھانا بھی کھانا تھا کچھ۔ لہٰذا میں نے چوپاٹی چلنے کی رائے دی جو ہمارے ہوٹل کے قریب ہی تھی، مان لی گئی۔ وہاں ہم نے مشہور چاٹ کھائی۔ ناریل کا پانی پیا اور چائنیز چاول منگوائے۔ ناظورہ نے مہندی لگوائی اور بلاکس خریدے خود کاروبار کے لیے۔ یوں ہم نے بھی اچھی دوپہر گزارلی۔ شام کو جب سب دعوت سے اور گھوم گھام کر واپس آئے تو پھر ہمیں ٹرانسپورٹ کا مزید کرایہ ادا کرنا پڑا جو ہمیں کھل گیا کیوں کہ ہم اس تفریح میں شامل نہ تھے۔ خیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔

ناظورہ، شاہین اور دو اور ممبرز گروپ کے دو دن قبل پاکستان واپس جارہے تھے۔ تھوڑا سا سکون اطمینان آنے کا امکان ہوا ان لوگوں کے جانے کے بعد۔ یہ لوگ بات بات پر کافی ہنگامہ آرائی کرتے تھے۔ گروپ کچھ چھوٹا ہوگیا۔

۲۸ جون کو ہم نے بس چھوڑی گروپ کے لیے اور کسی ممبر کی گاڑی میں ناہید اور میں کستوری اور للیتا کے ساتھ اسپیشل بچوں کے اسکول ساتھ گئے وہاں ایک اندھے نوجوان جوڑے سے ملاقات کروائی جو لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو تھی۔ جس کی شادی SI کے ایما اور مدد سے ہوئی۔ وہاں بھی ہم لوگوں سے پیسے دلوائے گئے ہر جگہ یہی امید کی گئی۔ بہر حال تقریباً ۸۷ بچے وہاں Cerebral Palsy کے مختلف سطح کے نو ٹیچرز کے زیر نگرانی تعلیم پارہے تھے۔ Physiotherapy بھی کروائی جارہی تھی اور ہفتے میں دو تین دن وہاں Psychatrist بھی آتی تھیں۔

اس کے بعد گاڑی جوہو پر مختلف علاقوں میں گھما کر وہاں فلم اسٹارز کے گھر بھی دکھائے گئے۔ دلیپ کمار، سنیل دت، رشی کپور، شاہ رخ خان، سلمان خان اور ریکھا کے۔ ’’بسیرہ‘‘ ریکھا کے گھر کا نام اور ’’منت‘‘ شاہ رخ کے گھر پر لکھا ہوا تھا۔ اسی دوران سریتا سیٹھی نے ’’بالاجی اسٹوڈیو‘‘ میں شوٹنگ دیکھنے کا انتظام کروادیا اور ہم ہوٹل واپس پہنچ کر وہاں کے لیے روانہ ہوئے۔ سلمان خان کی شوٹنگ دیکھی جس میں ان کی ہیروئن شلپا سیٹھی تھیں۔ ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ دراصل پلان شاہ رخ کی شوٹنگ کا تھا مگر ان دنوں یش جوہر صاحب جو کرن جوہر کے والد تھے وہ بہت بیمار تھے۔ شاہ رخ کی ان سے بہت قریبی دوستی تھی اسی دوران ان کا انتقال بھی ہوا تو زیادہ تر فلم انڈسٹری کے لوگ ان کے سوگ میں تھے۔ شاہ رخ کی شوٹنگ کینسل ہوگئی تھی لیکن پھر بھی جن آرٹسٹوں سے ملاقات ہوئی وہ سادہ اور خوش اخلاق لگے اور ہم سے بہت اچھی طرح ملے۔ سنیل دت سے بھی ایک کلب میں ملاقات طے ہوئی انھیں قائم علی شاہ کی بہو ذرین شاہ نے اجرک پیش کی اور پھر SI کے بارے میں ناہید اور کستوری نے انھیں بریف کیا۔ سنیل دت نے بھی خواتین کے رول کے بارے میں ہندوستان پاکستان کی دوستی کے بارے میں بہت اچھی باتیں کیں۔ وہ ۲۰۰۴ء کے الیکشن بھی جیتے تھے کانگریس کی طرف سے بی جے پی کو شکست ہوئی تھی۔ گجرات کا سانحہ تازہ تھا۔ اپنی والدہ اور بیوی نرگس کی باتیں کیں مسلمانوں سے محبت رکھتے تھے۔ سندھ کے کسی گاؤں سے اپنا تعلق بتایا۔ بے نظیر بھٹو کی شادی پر مدعو تھے اور شرکت بھی کی تھی اس کا بھی ذکر انھوں نے کیا۔

۲۹ جون ہمارا ممبئی اور ہندوستان میں اس پہلے دورہ کا آخری دن تھا اس لحاظ سے کافی مصروف اور بھرپور گزرا۔ دوپہر میں لنچ ایک مقامی کلب میں تھا جہاں دس بجے روانہ ہونا تھا۔ راستہ ہی ڈیڑھ گھنٹے کا بتایا گیا۔ وہیں پر شبانہ اعظمی ہمارے وفد سے ملاقات کے لیے آرہی تھیں۔ ممبئی کی نفیس خواتین سے یہاں ہماری ملاقات کروائی گئی۔ SI کی بانی بھی ملیں اور انھیں نے کتنا کام کیا۔ ممبئی کی خواتین کو اس پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے وہ تفصیل بتائی گئی پھر شمع روشن کی گئیں اور کمیٹی نے حلف برداری مل کر کی۔ پکوان بڑے لذیذ تھے جو تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیش ہو رہے تھے۔ شبانہ اعظمی آئیں اور انھوں نے اپنے کاموں کے بارے میں بتایا جو مسلم قوانین عورتوں سے متعلق ہیں شرعی ان پر حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی تھیں وہ بھی کافی سرگرمِ عمل لگیں۔

لنچ کے بعد لوگ پھر آخری منٹ شاپنگ کے لیے ساڑھے تین بجے واپسی پر ادھر ادھر راستوں پر اترتے گئے۔ شام ساڑھے چھ بجے پھر ساریتا سیٹھی کے گھر Pot Luck Dinner تھا۔ بقیہ خواتین کو بس نے ہوٹل اتارا جہاں وہ آرام کر کے تازہ دم ہوکر ڈنر میں جانا چاہتی تھیں۔ دو روز قبل دلیپ کمار اور سائرہ بانوں کے گھر پر ہماری Itinerary کے مطابق Hi Tea تھی جو یش جوہر کے انتقال کی وجہ سے منسوخ ہوئی۔ یہ ساریتا سیٹھی کے ذریعے ہی طے ہوئی تھی۔ معلوم ہوا دلیپ کمار صاحب نے پھر ساڑھے دس بجے رات کا وقت ہمارے لیے Sun & Sand ہوٹل میں دے دیا تھا جہاں فلمی دنیا کی کسی شادی میں وہ لوگ شرکت کر رہے تھے۔ ہم سب لوگ بہت خوش تھے۔ ساریتا نے نو بجے کھانا کھلا کر ہمیں وہیں سے لے جانا تھا۔ نیتو سنگھ کی والدہ بھی ساریتا کی بلڈنگ میں رہتی تھیں وہ ہم لوگوں سے ملنے چلیں آئیں۔ ساریتا ایک خوش مزاج خوش اخلاق پنجابی خاتون کبھی دور درشن میں اناؤنسر اور خبریں پڑھتی تھیں۔ لہٰذا فلموں اور میڈیا کے لوگوں سے خاصی شناسائی تھی۔ ان کا فلیٹ باذوق طریقے سے سجا ہوا تھا۔ شوہر کا انتقال ہوچکا تھا۔ بچے شادی شدہ امریکا میں تھے۔ میانوالی پاکستان کی تقسیم سے پہلے کی پیدائش تھیں اس لیے پاکستان سے خاص انس رکھتی تھیں۔ یہاں بھی کھانے مختلف انواع و اقسام کے لذیذ ممبران اپنے اپنے گھروں سے بنا کر لائی تھیں جو میز پر سجائے جاتے رہے۔ گرما گرم پھلکے رسوئی سے آتے رہے مچھلی، مرغی، سبزیاں، چٹنیاں، اچار، سلاد سبھی کچھ تھا آخیر میں خاص گلابی رنگ کی گول قلفی بے حد عمدہ تھی۔ سب نے خوب مزہ کیا لیکن سب کی نظریں گھڑی پر بھی تھیں اور دلیپ کمار سائرہ بانو سے ملنے کا اشتیاق واضح تھا۔

Sun & Sand ہوٹل پہنچ کر فوراً معلوم ہوگیا کہ ہمارے لیے دو لمبی ٹیبلز پہلے سے دلیپ صاحب نے رزرو کروائی ہوئی تھیں۔ ان سے پہلے راج کپور صاحب کے دونوں صاحبزادے رندھیر اور رشی کپور Lobby میں نمودار ہوئے۔ وہ بھی شادی میں آئے ہوئے تھے۔ ہمارے گروپ کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ہم فلمسٹار ہوں اور وہ عام آدمی۔ یہ ان لوگوں میں اچھائی اور بڑائی لگی۔ مجھے جان کر اخلاق سے ملے اور خواتین کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں۔

تھوڑی سی ہی دیر میں دلیپ اور سائرہ بھی پہنچ گئے ان کے بھائی احسن خان بھی ان کے ساتھ تھے وہ بھی یہاں اسی شادی میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ساتھ میں ہم سے ملنے کا وقت بھی رکھ لیا تھا۔ یہ دلیپ صاحب کی پاکستانیوں سے محبت تھی کہ انھوں نے کسی بھی طرح ہم سے ملنا چاہا۔ ہم لوگوں کے لیے خاطر تواضع کا انتظام کیا ہوا تھا مگر ہم تو اچھا ڈنر کرکے نکلے تھے پھر بھی سائرہ جی مصر ہوئیں کہ کچھ مشروبات ہی لے لیں چنانچہ کسی نے ٹھنڈا کسی نے گرم قبول کیا۔ دلیپ صاحب کی عمر اس وقت ۸۲ سال ہوچکی تھی لہٰذا کچھ سست تو لگے۔ بیگم ۶۴ سال کے لگ بھگ بھاری بھرکم لگیں لیکن اپنے صاحب کی خدمت میں مستعد۔ وہ بھی مکمل طور پر ان پر تکیہ کرتے ہیں۔ عاجزی اور سادگی ان کی شخصیت میں بھی لگی بلکہ تمام ہی فنکاروں میں ہندوستان میں مجھے یہ بات نظر آئی۔ دلیپ اور سائرہ اپنے پاکستان اور پشاور کے دو دوروں کے متعلق بات کرتے رہے۔ سب سے الگ الگ ملے۔ میز پر جو دور تھے انھیں قریب کیا یعنی سب کو برابر سے اہمیت دی۔ اتنی عمر کے باوجود بھی وہ ہی چمک رہے تھے اور محفل میں نمایاں تھے۔ ہوٹل کا اسٹاف اور دوسرے انڈین دلچسپی اور غور سے ہمیں اور انھیں دیکھ رہے تھے جنھیں دلیپ اور سائرہ جی اتنی توجہ اور محبت دے رہے تھے۔ رات کے بارہ بج چکے تھے ہم سب نے ان سے اجازت لی گو دل نہیں چاہ رہا تھا اور یہ سب ایک خواب سا لگ رہا تھا لیکن صبح پاکستان واپسی تھی۔ کچھ آخری منٹ پیکنگ اور تھوڑی نیند بھی ضروری تھی۔ یوں ہندوستان کا یہ خوبصورت اور یادگار سفر ایک بہت خوبصورت طریقے سے دلیپ کمار اور سائرہ بانوں سے ملاقات پر اختتام پذیر ہوا اور ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ صبح صبح اپنی قومی ایئرلائن سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے اور الحمدﷲ خیریت سے واپس کراچی پہنچے۔ سب کے عزیز کراچی پر لینے پہنچے ہوئے تھے۔

عذرا قریشی۔کراچی
Azra Qureshi
About the Author: Azra Qureshi Read More Articles by Azra Qureshi: 2 Articles with 1844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.