اسلام آباد کے مظلوم مہاجرین!

تقریبا دو سال پہلے کی بات ہے کہ میرا گھر سے نکلنا مشکل ہو گیا تھا۔گھر سے نکلتے ہوئے ،تاک میں بیٹھی ایسی مخلوق کے حملے کا خطرہ رہتا جس کی نظروں سے بچ نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔حملے کا یہ خطرہ صرف گھر سے نکلتے وقت ہی نہیں ،گھر داخل ہوتے وقت بھی اس حملے کے خطرے سے ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔میں اپنی تحریروں کے موضوعات اور انداز کے پیش نظر کسی متوقع ردعمل پر بھی نظر رکھتا رہا ،لیکن یہ سوچا بھی نہ تھا کہ جارحیت اس انداز سے مجھے اپنا نشانہ بنائے گی۔یہ محض خطرہ ہی نہیں تھا بلکہ کئی بار مجھے اس حملے سے نبرد آزما بھی ہونا پڑا لیکن گھر سے جاتے آتے چوکنا رہنے کی وجہ سے میں ان حملوں میں محفوظ رہا۔بہت سوچا لیکن مسلسل حملوں کی اس صورتحال سے بچائو میں آزادی صحافت یا صحافی کی آزادی پر کسی قسم کی قدغن کا کوئی ایسا پہلو نظر نہ آیا جو مجھے ان حملوں سے محفوظ رکھ سکے۔

مسئلہ یہ تھا کہ میرے گھر کے باغیچے میں لگے درخت پہ کوے کے ایک جوڑے نے گھونسلا بنا لیا تھا ۔دو کوے ہر وقت آس پاس بیٹھ کرگھونسلے پر نظر رکھتے تھے اور جونہی کوئی شخص گھونسلے والے درخت کے دس بارہ فٹ فاصلے سے گزرتا تو ڈیوٹی پہ موجود کوا کسی جدید لڑاکا طیارے کی طرح غوطہ لگا کراس شخص کے سر پہ اتنے زور سے پنجے مارتا کہ اس کی کھوپڑی ہل جاتی۔اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوے کے گھونسلے کی حفاظت کا دائرہ کتنے میٹر کا ہوتا ہے۔گھونسلے میں بچے نکل آئے تو پہرے پر موجود کوئوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا،یقینا کوے کے جوڑے نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے رشتہ داروں سے کمک طلب کر لی تھی اور ان میں سے ایک کے بارے میں تو مجھے یقین تھا کہ وہ گھو نسلے والے کوے کی ساس تھی۔چند دن گزرے تو گھونسلے میں موجود دو بچوں میں سے ایک نے گھونسلا چھوڑ کر اڑنے کا سفر شروع کر دیا ،جبکہ دوسرا بچہ ہر وقت گھونسلے میں ہی بیٹھا رہتا۔اڑان بھرنے والا کوے کا بچہ پھر اس گھونسلے میں واپس نہیں آیا۔چند دن اور گزر گئے،وہ بچہ گھونسلے میں ہی موجود رہا اور پہرے داروں کی تعدا د بھی کم ہو کر تین رہ گئی جو مسلسل اس بچے کی نگرانی کر رہے تھے۔میں نے سوچا تھا کہ دوسرا بچہ بھی اڑنے کے قابل ہو جائے گا تو گھر سے جاتے آتے ان فضائی حملوں سے بھی نجا ت مل جائے گی ۔چھت سے درخت پہ موجود گھونسلاصاف نظر آتا تھا،بغور دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس بچے کی ٹانگ کسی ڈوری میں پھنسی ہوئی ہے۔پہلے سوچا کہ ریسکیو 1122کو اطلاع دوں تاکہ وہ آ کر اس بچے کو بچا سکیں،پھر خیال آیا کہ پہلے خود کوشش کر کے دیکھ لیا جائے۔میں ایک ڈنڈا لیکر ہوا میں لہرانے لگا تاکہ حفاظت پہ موجود بے چین اور جارحانہ انداز اپنائے کوے حملہ نہ کر سکیں اور ایک ساتھی نے چھڑی سے کوے کے بچے کی ڈوری میں پھنسی ٹانگ کو آزاد کرانے کی کوشش کی۔اس دوران معلوم ہوا کہ کوے کے بچے کی ٹانگ گھٹنے کے پاس سے ، پتنگ اڑانے والی ڈور میں پھنسی ہوئی ہے اور اس تیز دھار ڈور سے بچے کی ٹانگ کٹ چکی ہے۔بچے کو ڈور سے آزاد کرایا تواس کی کٹی،سوکھی ٹانگ اس کے جسم سے الگ ہوگئی۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ پہرے پہ موجود تین کوے کب تک گھونسلے میں بیٹھے معذور بچے کی دیکھ بھال کرسکیں گے، لیکن دیکھ بھال کا یہ سلسلہ دو تین روز ہی جاری رہ سکا۔ہو ا یوں کہ تین دن بعد رات کو طوفانی بارش ہوئی،صبح اٹھ کر دیکھا تو درخت کے نیچے کوے کے اپاہج بچے کی لاش پڑی ہوئی تھی۔
کوے عام طور پر گھروں کے قریب اپنے گھونسلے نہیں بناتے۔میں بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا کہ شام کے وقت کوے بڑی تعدا د میں 'آئی جے پی' روڈ کے پاراسلام آباد کے ویران علاقے کے درختوں پہ بسیرا کرتے تھے۔اسلام آباد کے سیکٹر آباد ہونے لگے ،درختوں کا کٹائو شروع ہوا،شاہرات بننے لگیں تو مختلف اقسام کے پرندوں کی بڑی تعداد وہاں سے ہجرت پر مجبور ہو گئی۔جس کو جہاں چند درخت نظر آئے،اس نے وہاں بسیرا کر لیا۔میرے گھر کے سامنے سات آٹھ کنال پہ قائم قائد اعظم پارک میں بڑی تعداد میں درخت لگے ہیں اور اسے ایک محفوظ گوشہ عافیت سمجھتے ہوئے مختلف اقسام کے کئی پرندے یہاں آباد ہو گئے ہیں۔یہاں ایسے ایسے پرندے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ جڑواں شہروں کے پارک دونوں گنجان آباد شہروں کے لئے آکسیجن مہیا کرنے کے محدود ذرائع ہی نہیں بلکہ کئی اقسام کے پرندوں کی بقاء کے عارضی ذرائع بھی ہیں۔شہر وں میں تعمیرات بڑہتی جا رہی ہے ،سرسبز علاقوں کا تیزی سے صفایہ ہو رہا ہے۔یوں بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملک ، لینڈ مافیا کے انداز میں مفتوح ہو رہا ہے ۔ماحولیات کے خلاف اس کھلی '' دہشت گردی'' پر کوئی چارہ کار بھی مہیا نہیں ہے۔

انسانی آبادی اور انسانی وحشت میں تیزی سے اضافے سے جہاں جنگلوں،درختوں،سرسبز علاقوں کا صفایہ کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ حضرت انسان جنگلی حیات کے خاتمے کا سب سے بڑا سبب ہے۔سب سے ہوشیار اور چالاک مخلوق ہونے کے باوجود انسان کو معلوم نہیں کہ جنگلی حیات کا تیزی سے خاتمہ کرتے ہوئے نسل انسانی کو ہی تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔جنگلی حیات کے وسیع معنوں میں جنگل ،درخت ، ان علاقوں میں رہنے والے جانور،پرندے ، ان علاقوں میں رہنے والے ہر قسم کے جاندار اور ماحول ،آب و ہوا شامل ہیں۔دنیا کے ان ترقی یافتہ ممالک، جہاں انسان کی بنیادی ضروریات اور انسانی حرمت کے تحفظ کو ضروری قرار دیا گیا ہے ،وہاں جانوروں ،جنگلی حیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے کے اقدامات کئے گئے ہیں۔پاکستان، کشمیر اور گلگت بلتستان میں جنگلی حیات سے متعلق صورتحال صرف خراب ہی نہیں بلکہ سنگین اور خطرناک نتائج کی موجب ہے۔ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر جنگلاتی علاقوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔مختلف نوعیت کے جنگلی جانوروں کو مارنا ہمارے معاشرے میں ایک اچھے کام کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ جنگلی جانوروں وغیرہ کو مارنا مذہبی طور پر بھی نا پسندیدہ فعل ہے۔پاکستان،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نایاب جانوروں کی کئی نسلیں متروک ہو چکی ہیں اور کئی خاتمے کی دہلیز پہ ہیں۔جہاں ہماری سماجی زندگی جنگلی حیات کے لئے زہر قاتل کی حیثیت اختیا ر کر چکی ہیں وہاں جنگلی حیات کے خاتمے میں سرکاری محکمے اور ادارے بھی اپنا بھر پور منفی کردار ادا کرتے نظر آ تے ہیں۔ چھوٹے بڑے تعمیراتی منصوبوں میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق کاغذی کاروائی تو پوری کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر ان منصوبوں سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا ۔انسان کے عقل مند،باشعور ہونے کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کیا سوچ اور عمل رکھتا ہے۔جنگلی حیات کا تحفظ ہماری بقاء ہے،ہمارے معاشرے ہمارے ملک ،اس خطے اور دنیا کی بقاء اور سلامتی ہے ۔جنگلی حیات کے تحفظ اور اس موضوع پر عمومی آگاہی کے لئے ہمارے معاشرے میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔اس اہم ترین موضوع پر اگر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو یہ ہمارے خطے اورہمارے لئے بھیانک نتائج پر منتج ہو گا۔اس وقت بھی ہمیں اس کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہے لیکن پھر بھی ہم اس کے احساس سے عاری ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 615224 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More