حواری رسول حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ

مولوی سید وجاہت،
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، آپ کا شمار سابقین اولین صحابہ میں ہوتا ہے۔اس کے ساتھ آپ ان دس خوش قسمت صحابہ میں سے ہیں جن کو دنیا ہی میں صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنت کی بشارت ملی ہے۔

نسب مبارک
آپ کا نسب مبارک اس طرح ہے زبیر بن عوام بن خویلد اسد بن العزی بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوی۔آپ کا نسب حضور علیہ السلام کے ساتھ قصی میں مل جاتا ہے۔اور قصی تک دونوں کے اجداد کی تعداد برابر ہے۔حضرت زبیر بن عوام کی کنیت ابو عبداللہ اور بنت اسد کی طرف یعنی اسدی ہے۔(فتح الباری9/100)

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت زبیر کی قرابتیں
حضرت زبیر کا حضور علیہ السلام سے انتہائی قریبی تعلق ہے اور جس قدر حضرت زبیر بن عوام کی آپ علیہ السلام سے قرابتیں ہیں یہ سوائے ان کے اور کسی کے حصے میں نہیں آئی۔گویا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بھائی تھے ۔حضرت زبیر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابتیں ملاحظہ ہوں۔
حضرت زبیر کی والدہ حضرت صفیہ بنت عبد المطلب حضور صلی اللہعلیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی ہیں۔ اس اعتبار سے آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہوئے۔

حضرت زبیر بن عوام کی دادی ہالہبنت وہب بن عبد مناف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی خالہ ہیں ۔
حضرت زبیر کے والد عوام کی پھوپھی ام حبیب بنت اسد حضور علیہ السلام کی دادی ہیں۔
اور حضرت زبیر بن عوام کی حقیقی پھوپھی حضرت ام الموٴمنین خدیجہ الکبریٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں ۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

پھر اس کے ساتھ حضرت ام الموٴمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر بھی حضرت زبیر کے نکاح میں تھیں۔علمائے انساب نے تصریح کی ہے کہ حضور علیہ السلام سے اس قدر نسبی قرابتیں حضرت زبیر کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔

قبول اسلام اور ہجرت
حضرت زبیر بن عوام نے کس عمر میں اسلام قبول کیا؟اس حوالے سے علماء نے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں ،ایک قول کے مطابق 15 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا،ایک قول کے مطابق سولہ برس کی عمر میں اور ایک قول آٹھ برس کا بھی ہے۔ (کشف الباری باب مناقب الزبیر)حضرت مولانا کاندھلوی نے آٹھ سال کی عمر میں حضرت زبیر کا مسلمان ہونا لکھا ہے۔(حیاة الصحابہ جلد1ص341)گویا کہ آپ سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی راہ ہدایت کو اختیار کر چکے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت زبیر نے اسلام قبول کیا تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ دیتے اور پھر آگ کی دھونی دیتے اور انہیں کفر کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتے ،لیکن حضرت زبیر استقامت کے ساتھ ایمان پر جمے رہتے اورکہتے میں کبھی کافر نہ بنوں گا (اخرجہ ابو نعیم فی الحلیة1/89)۔

حضرت زبیر صاحب الہجرتین ہیں ۔یعنی پہلے آپ نے مکہ سے حبشہ ہجرت کی اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔

شجاعت و دلیری
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جن میں دلیری اور شجاعت علی وجہ الاتم پائی جاتی تھی، حضرت زبیر حضور علیہ السلام کی معیت میں تمام غزوات میں شریک رہے ،بلکہ آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد بھی حضرت زبیر کی تلوار کند نہ ہوئی، جنگ یرموک کی فتح میں آپ نے کلیدی کردار کیا ،گویا آپ کی زندگی مسلسل جہاد سے عبارت تھی۔

حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اللہ کی خاطر سب سے پہلے تلوار سونتنے والے حضرت زبیر تھے،ایک دن آپ دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے کہ دفعةً یہ سنا کہ حضور علیہ السلام کو قتل کردیا گیا ہے (جب آپ کے کانوں نے یہ آواز سنی تو) ننگی تلوار لے کر باہر نکلے ۔جب حضور علیہ السلام سے سامنا ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے زبیر! ننگی تلوار لیے کہاں کا ارادہ ہے؟انہوں نے عرض کیا میں نے سنا ہے کہ آپ شہید کردیے گئے ہیں ۔حضور علیہ السلام نے پوچھا پھر تمہارا کیا کرنے کا ارادہ تھا،انہوں نے عرض کیا میرا یہ ارادہ تھا کہ میں (آنکھ بند کر کے)مکہ والوں پر ٹوٹ پڑوں ۔حضور علیہ السلام نے جب یہ سنا تو ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔(ابن عساکر)اور اس وقت حضرت زبیر کی عمر بارہ سال تھی ۔اسی طرح جنگ یرموک، جو حضرت عمر کے دور خلافت میں لڑی گئی ،اس جنگ میں بھی حضرت زبیر نے اپنی شاہ سواری اور دلیری کے جوہر دکھائے اور لشکر کفار کی صفوں کوچیرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔اس جنگ میں کفار یعنی رومیوں کی تعداد سات لاکھ تھی اور مسلمانوں کی تعداد فقط پینتالیس ہزار یا چھتیس ہزار تھی ۔بخاری کی روایت ہے حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ زبیر بن عوام سے صحابہ کرام نے غزوہ یرموک میں کہا۔کیا تم (کافروں پر)حملہ نہیں کرتے ہو تاکہ ہم بھی تمہارے ساتھ حملہ کریں؟حضرت زبیر نے کہا اگر میں نے حملہ کیا تو تم اپنی بات پوری نہ کر سکو گے اور میرا ساتھ نہیں دے سکو گے۔انہوں نے کہا ہم آپ کا ساتھ ضرور دیں گے۔ چناں چہ حضرت زبیر کافروں پر اس قوت سے حملہ آور ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے اور صحابہ میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہ تھا ،یہ تنہاہی صفوں کوچیرتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔پھر وہ اسی طرح صفوں کو چیرتے ہوئے واپس آئے تو کافروں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور کندھے پر تلوار کے دو وار کیے، جو ان کو جنگ بدر والے زخم کے دائیں بائیں لگے۔حضرت زبیر کے صاحبزادہ حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا اور ان کے زخموں کے نشانات میں انگلیا ں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔(صحیح بخاری)

حضرت زبیر بن عوام پر غزوے میں پیش پیش رہتے جب کہ ان کے جس پر تیر و تلوار کے بے شمار نشانات تھے ۔حضرت حفص بن خالد کہتے ہیں کہ موصل سے ایک بڑی عمر کے شیخ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ میں ایک سفر میں حضرت زبیر بن عوام کے ساتھ تھا۔ایک چٹیل میدان میں جہاں نہ پانی تھا، نہ گھاس اور نہ کوئی انسان ۔حضرت زبیر نے کہا میرے (نہانے کے لیے )ذرا پردے کا انتظام کردو۔میں نے ان کے لیے پردے کا انتظام کیا۔اچانک میری نگاہ ان کے جسم پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ ان کے سارے جسم پر تلوار کے زخموں کے نشان ہیں ،میں نے کہا میں نے آپ کے جسم پر اتنے زخموں کے نشانات دیکھے کہ اتنے میں نے کسی کے جسم پر نہیں دیکھے ہیں۔حضر ت زبیر نے کہا تم نے دیکھ لیا؟میں کہا جی ہاں۔آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! ان میں سے ہر زخم حضور کی معیت میں لگاہے۔اور اللہ کے راستے میں لگا ہے ۔(اخرجہ ابو نعیم ، اخرجہ الطبرانی والحاکم 3/360)

حضرت علی بن زید فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے حضرت زبیر کو دیکھا ۔اس نے مجھے بتایا کہ ان کے سینے پر آنکھ کی طرح نیزے اور تیر کے زخموں کے نشان تھے۔(عند ابی نعیم کذافی الحلیہ 1/90)

ان حضرات صحابہ کرام کی ساری صفات چاہے وہ بہادری و دلیری کی صفت ہو،سخاوت و مودت کی صفت ہو ہر صفت کا استعمال اسلام کی بقا اور اسلام کے لیے ہوتا تھا ،جس طرح حضرت زبیر کی بہادری وجرات اسلام کی بقا کے لیے تھی۔

حضرت زبیر بن عوام کی غیرت و حمیت
حضرت زبیر کے حالات میں علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ آپ بہت زیادہ غیور تھے اور ظاہر ہے شجاع آدمی غیور ہی ہوتا ہے اور جب ساتھ ایمان کا ایسا درجہ بھی ملا ہو تو غیرت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے اور غیرت ایمان کے مقتضیات میں سے ہے۔ایک موقع پر آپ علیہ السلام نے حضرت سعد بن عبادہ کے متعلق فرمایا ترجمہ:تم سعد بن عبادہ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ سب سے زیادہ غیور ہیں اس لیے اللہ نے کھلی اور چھپی فحاشی کو حرام کیا۔(متفق علیہ )حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ میں گھوڑے کا دانہ لیے اپنی زمین سے آرہی تھی ،راستے میں حضور علیہ السلام ایک جماعت کے ساتھ ملے، حضور نے اونٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اونٹ بٹھایا،لیکن میں نہ بیٹھی، حضورگے تشریف لے گئے وہ فرماتی کہ میں نے یہ بات زبیر کو بتلائی اور کہا کہ آپ کی غیرت یاد آگئی، اس لیے میں نہ بیٹھی، کیوں کہ حضور کے ہم راہ صحابہ کی جماعت بھی تھی۔حضرت زبیر نے فرمایا تمہارا یہ گھوڑے کا دانہ سر پر رکھ کر لانا میرے لیے زیادہ گراں ہے اس سے۔

سخاوت
حضرت زبیر بن عوام اپنی سخاوت کے اعتبار سے بھی مشہور ہیں، روایات میں آتا ہے کہ حضرت زبیر بن عوام کے پاس ایک ہزار غلام تھے، جن کو حضرت نے مال کمانے کی اجازت دی تھی ۔وہ روزانہ شام کو مال حضرت زبیر کی خدمت میں پیش کرتے، آپ رات ہی کو سارا مال تقسیم کردیتے اور جب گھر واپس جاتے تو اس مال میں سے آپ کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا۔ (اخرجہ ابو نعیم فی الحلیہ 1/91)۔

حضرت زبیر بن عوام اپنی امانت دار ی میں بہت مشہور تھے، حضرت کے پاس لوگ کثرت سے امانت رکھوانے آتے ،لیکن جو آدمی ان کے پاس اپنا مال رکھوانے آتا تو آپ اس سے فرماتے میرے پاس امانت نہ رکھواؤ ۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں مال مجھ سے ضائع نہ ہوجائے،اس لیے یہ مال مجھے بطور قرض دے دو(جب ضرورت ہو لے لینا)اور آپ یہ مال دوسروں پر خرچ کردیتے ۔حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں وصال کے بعد میں نے اپنے والد کے قرض کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ تھا ۔حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر نے مجھے اپنے قرضہ کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا اے میرے بیٹے!اگر میرے قرض کی ادائیگی میں کچھ مشکل پیش آئے تو میرے مولیٰ سے مدد لینا ۔حضرت عبداللہ نے عرض کیا کہ اے ابا جان! آپ کے مولیٰ کون ہیں ؟انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ۔ چناں چہ حضرت عبداللہ کہتے ہیں جب بھی مجھے ان کے قرض کے بارے میں کوئی مشکل پیش آتی تو میں کہتا اے زبیر کے مولیٰ ! زبیر کا قرضہ ادا کردیں ۔اللہ تعالیٰ فوراً انتظام فرمادیتے ۔چناں چہ عبداللہ بن زبیر نے حضرت زبیر کے گھروں اور ان کی غابہ کی زمین کو بیچ بیچ کر قرضہ ادا کیا ،یہاں تک کہ سارا قرضہ ادا ہوگیا ۔(کذافی البخاری، ملخص)

فضائل و مناقب
اہل السنة والجماعة کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام غوث،قطب اور ابدال مل کر بھی کسی ایک ادنیٰ صحابی(یہ ادنیٰ صحابی صحابہ کی جماعت کے اعتبار سے ہے ورنہ وہ ایک صحابی بھی تمام قطب و ابدال سے بڑھ کر ہے)کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ تو حضرت زبیر کا سب سے بڑا شرف تو صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ہونا ہے۔اس کے ساتھ حضرت زبیران دس خوش نصیب صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو دنیا ہی میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی خوش خبر سنائی تھی۔ اس کے علاوہ احادیث میں حضرت زبیر کے متعدد فضائل منقول ہیں، حتی کہ حضرات محدثین حضرت زبیر بن عوام کے فضائل کے لیے مستقل باب اپنی کتابوں میں قائم کرتے ہیں ،رئیس المحدثین امام بخاری نے بھی حضرت زبیر کے فضائل کو مستقلاً باب میں ذکر کیا ہے ۔غزوہ خندق کے موقع پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:”لکل نبی حواری وحواری الزبیر․“(مسلم)ترجمہ:ہر نبی کا ایک حواری(خاص مددگار ،ناصر)ہوتا ہے ،میرا حواری زبیر ہے۔ اور یہ لقب حضرت زبیر کو حضور علیہ السلام کی اتباع کی وجہ سے ملا،خندق کے موقع پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:”من یاتینی بخبرالقوم؟“مجھے قوم کی خبر کون آکر بتائے گا؟ حضرت زبیر نے کہا میں۔ تین دفعہ آپ نے سوال کیا اور تینوں مرتبہ حضرت زبیر لبیک کہتے رہے۔( صحیح مسلم)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میرے ماں باپ آپ پر قربان)کے لیے ”فداک امی وابی“ بے شمار لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن حضرت زبیر وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کے لیے فخر موجود ات نے فداک ابی و امی(میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں)فرمایا۔ اور جنگ بدر کے دن حضرت زبیر کی لڑائی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ روایت میں آتا ہے حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ بدر کے دن حضرت جبریل پیلا عمامہ باندھے ہوئے حضرت زبیر کی شکل و صورت میں فرشتوں کی فوج لے کر اترے تھے۔(کنز العمال جلد2،ص127)

شہادت
حضرت زبیر بن عوام کی شہادت جنگ جمل میں واقع ہوئی ۔اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپس کی جنگ و قتال اقتدار کے حصول اور مال و دولت کے لیے نہیں تھا، بلکہ ان میں ہر فریق اللہ کی رضا کے لیے میدان میں اترتا تھا ۔حضر زبیر ابتداء میں حضرت عائشہ صدیقہ کے لشکر میں تھے ،لیکن جب حضرت علی سے سامنے ہوا ،تو حضرت علی نے کہا کہ اے زبیر! کیا تم کو وہ دن یاد ہے،جب آنحضرت نے تم سے فرمایا تھا کہ تم ایک شخص سے لڑو گے اور تم اس پر ظلم کرنے والے ہوگے؟یہ سن کر حضرت زبیر نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو کو یاد آگیا، لیکن آپ نے میری روانگی سے قبل مجھ کو یہ بات یاد نہ دلائی، ورنہ میں مدینہ سے کبھی نہ نکلتا ۔ اور اب واللہ! میں آپ سے ہرگز نہ لڑوں گا۔پھر زبیر میدان جنگ سے علیحدہ ہوگئے، واپسی پر عمرو بن جرموز نے دھوکہ سے حالت سجدہ میں انہیں شہید کردیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون․

جب یہ قاتل حضرت علی کی خدمتمیں حاضر ہوا تو حضرت علی نے فرمایا اس کو اجازت دے دو اور ساتھ ہی جہنم کی بشارت بھی سنادو۔اس قاتل کے ہاتھ میں حضرت زبیر کی تلوار تھی ،تلوار دیکھ حضرت علی نے فرمایا اے ظالم، یہ وہ تلوار ہے جس نے عرصہ دراز تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔جب قاتل نے یہ الفاظ سنے تو حضرت علی کی شان میں گستاخانہ الفاظکہہ کر تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی، اس طرح یہ قاتل جہنم واصل ہوا۔
مولوی سید وجاھت وجھی
About the Author: مولوی سید وجاھت وجھی Read More Articles by مولوی سید وجاھت وجھی: 6 Articles with 10278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.