میڈم جی ذرا آگے بڑھو

کرناٹکا اردو اکیڈمی ریاست میں اردو زبان کی ترقی اور اردو زبان سے جڑے ہوئے ادیب ،شعراء، صحافی اور تعلیمی شعبوں کی ترجمان ہے اور یہ ریاستی حکومت کے ماتحت کام کرنے والی ایک اعلیٰ اکیڈمی ہے۔اس اکیڈمی کے تحت کام کرنے کیلئے کئی مواقع دستیاب ہے لیکن نہ جانے کیوں اس اکیڈمی کی چیرمین فوزیہ چودھری اردو اکیڈمی کو فوکس کرنے سے گریز کررہی ہیں۔قریب ایک سال سے وہ اس اکیڈمی کی چیرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن اب تک سوائے ایک مشاعرے اور صحافیوں کے سیمنار کے سواء اور کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو اہے جو کہ افسوسناک پہلو ہے۔حالانکہ اس اکیڈمی کے فنڈ س کی کوئی کمی نہیں ہے اور انہیں اکیڈمی کے حدود میں کام کرنے سے روکنے والا بھی نہیں ہے باوجود اس کے وہ گلبرگہ و بیدر اکیڈمی کی چیرمین کے طور پر کام کررہی ہیں اور وہ ریاست کے دیگر اضلاع کو بری طرح سے نظرانداز کررہی ہیں۔جس سے ریاست کے دیگر اضلاع میں مقیم اردو دان طبقہ کو یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ کیا واقعی میں ریاست کی کانگریس حکومت میں اردو اکیڈمی زندہ ہے بھی یا نہیں؟۔کرناٹکا اردو اکیڈمی نے پچھلے عرصوں میں جو کام کئے ہیں وہ ان لوگوں کیلئے ہیں جو پہلے سے ہی اردو ادب اور اردو زبان کی ترویج کیلئے کام کررہے ہیں جیسے کہ شعراء،ادباء اور صحافی ۔جو لوگ پہلے ہی اپنے دلوں میں اردو زبان کے تعلق سے کام کررہے ہیں ان میں بیداری لانے اور اردو زبان میں مہارت رکھتے ہوئے خدمات انجام دے رہے ہیں ایسے لوگوں کو تربیت دینے سے کیا فائد ہ ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ لوگ اردو زبان سے دور ہورہے ہیں ان کیلئے ایسے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے جس سے اردو زبان کی بقاء ممکن ہو۔شیموگہ اور بلگام ضلع میں غیر اردو دان طبقے کو اردو سکھانے کی مہم جاری ہے یہ ایک اچھی پہل ہے لیکن ایسے معاملات پر اردو اکیڈمی سر د مہری کا شکار ہے۔گھما پھرا کر چند ایک شعراء و ادباء کو ایوارڈس و تہنیت سے نواز کر اکیڈمی اپنی ذمہ داری کو پورا سمجھ رہی ہے اورجو زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔کنڑا ساہیتہ پریشد اور دیگر زبانوں کی سرکاری تنظیمیں اپنے اپنے اسکولوں میں اُن کی زبانوں کو ترقی دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگار ہے ہیں اور وہ ان کاموں کو تحریک کی شکل میں انجام دے رہے ہیں اور انہیں ا سکے اچھے نتائج بھی بر آمد ہورہے ہیں۔لیکن میڈم فوزیہ چودھری صاحبہ نے تو جدید فکر کو اپنے کام میں حائل ہونے ہی نہیں دیا ہے۔روایتی انداز میں مشاعروں کو فروغ دیکر چند گھنٹوں کیلئے واہ واہی بٹورنے کے سواء اکیڈمی کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے اور قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ان کی اکیڈمی میں کام کرنے کے لائق کئی اراکین بھی ہیں،اگران اراکین کا صحیح استعمال کیا جائے تو بات بڑھیگی اور کام بنے گا۔بھلے ہی یہ مشورے تلخ ہوں لیکن اس پر سوچا جائے تو کچھ نہ کچھ کام ضرور ہوگا۔آج اردو زبان کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور یہ تر قی اسی وقت ممکن ہے جب ایک تحریک پرائمری اسکولوں سے چلے اور وہا ں کے اساتذہ میں اردو کا جوش و جنون بھر اجائے تو ا س کے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ریاست کے ہزاروں سرکاری اردو اسکول ایسی تحریکوں کے منتظر ہیں وہاں کے بچے اپنی سوچ میں تبدیلی میں چاہتے ہیں تو ایسے بچوں کی سوچ بدلنے کیلئے اردو اکیڈمی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔جس طرح سے دہلی اردو اکیڈمی نے بچوں میں اردو کا جذبہ لانے کیلئے سالانہ کیمپ کا انعقاد کرتی ہے،مصوری،ڈرامہ بازی اور شعروشاعری کے فن سے آشنا کرانے کیلئے مسلسل جلسہ کرارہی ہے اس سے بچوں میں جذبہ پیدا ہور ہا ہے۔حال ہی میں اتر پردیش اردو اکیڈمی نے فارسی کور س کا آغاز کیا ہے،اُڑیسہ اردو اکیڈمی نے اردو تدریسی مہم شروع کی ہے لیکن کرناٹک اردو اکیڈمی شعروشاعری کے درمیان ہی گھوم رہی ہے۔اب ہمارے یہاں ایسی خالص شاعری بھی نہیں ہے کہ شعراء کے شعروں سے کوئی انقلاب آئے۔چند ایک شعراء اُس کی بہر اور اِس کی لہر لیکر شعرو شاعری کررہے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر وشاعری چوری کی ہے۔اب چوری کی شاعری کو سرکاری فنڈ خرچ کئے جاتے ہیں تو کہاں کا انصاف ہے ۔اس لئے اردو اکیڈمی کی چیرمین فوزیہ چودھری صاحبہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ دانشوروں میں شمار ہوتی ہیں ان سے عاجزانہ گذارش ہے کہ وہ اپنے خیالات کو 3G؍ اسپیڈ میں لے جائیں اور نئے دور اردو ادب کو نیا رخ دیں اور اس زبان کی ترقی و بہبودی کیلئے نئے منصوبوں کی تشکیل کریں۔
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.