ذخیرہ اندوزی ۔ ایک معاشرتی ناسور

چند معاشرتی برائیاں جو سماج میں کینسر کی طرح پھیلتی جارہی ہیں۔ ان میں زخیرہ اندوزی سر فہرست ہے ۔تخلیق پاکستان کے وقت بھی یہ برائی عروج پر تھی اور آج بھی سرمایہ دار لوگ غریبوں کی مجبوریوں سے کھیلتے ہوئے ضروریات زندگی کی اشیاء کو چھپا لیتے ہیں ۔ناجائز منافع کی خاطر چور بازاری اورذخیرہ اندوزی جیسے گھناونے جرائم کا ارتکاب کیا جاتاہے۔ انگریزی میں چوربازاری کیلئے بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کیلئے ہورڈنگ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ معاشرے کے چند ناسور اپنے ضمیر کو مارکر غریب اور لاچار لوگوں کی حالت زار کو پس پشت ڈال کر راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھتے ہیں ۔مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں انکے خیال میں طلب اور رسد کے فرق کی وجہ سے قیمتیں فطری طور بڑھ جاتی ہیں۔

آئیے اس امر پر نظر دوڑاتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی سے کونسی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہو امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہو ں وہاں نفرت ،مایوسی ، قتل وغارت ، ناانصافی اور بے راہ روی کا دور دورا ہونافطری امر ہے ۔ دوائیوں کی مصنوی قلت سے کسی بھی معصوم کی جان جاسکتی ہے اور، اسلام میں ایک شخص کا قتل کل انسانیت کا قتل ہے۔ غلہ کی ذخیری اندوزی سے بھوک اور افلاس اور حتیٰ کہ قحط کی سی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔ حالیہ دنوں میں پٹرول کی ذخیرہ اندوزی نے پورے ملک میں بے چینی کی فضا ء کو جنم دیا حتیٰ کہ پورے ملک کا پہیہ جام ہونے لگا ۔ قائداعظم نے اس برائی کو تمام برائیوں کی ماں قرار دیاہے اور اس میں ملوث لوگوں کیلئے سخت ترین سزا تجویز کی تھی ۔بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں یہ برائی وسیع پیمانے پر پھیل رہی ہے ۔ کبھی سیمنٹ مہنگی کر دی جاتی ہے تو کبھی لوہا کبھی آٹے کا بحران آجاتاہے تو کبھی چینی کا ۔ ناجائز منافع اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کو اسلام میں سخت منع فرمایا گیا ہے۔ مال کو جمع کرنے کے حوالے سے قرآن پاک کے احکامات واضح ہیں
"اَلْھٰاْکُمُ الْتَّکَاثُر حَتٰیْ زُرْتُمُ الْمُقَابِرْ"
"لے ڈوبی تمہیں دولت کی ہوس یہاں تک تم نے قبریں جادیکھیں"

ذخیرہ اندوزی سے تمام معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ ہل جاتاہے ۔لوگ غیر ضروری اموات کا شکا ر ہوتے ہیں ۔ سرمایہ چند ہاتھوں تک محدود ہوجاتاہے ۔حکومت وقت کی تمام تر کوششوں کے باوجود بااثر ذخیرہ اندوز اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں ۔ ہمارے ملک کی بد نصیبی سمجھیے کہ بڑی بڑی فیکٹریوں اور ملوں کے مالکان وزراء مملکت ہیں یا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ جنکی پکڑ اتنی آسان نہیں۔ ملک کا پرائس کنٹرول ، سسٹم ناکارہ ہے۔ ریٹس بڑھانے یاکم کرنے کا کوئی فارمولہ نہیں۔ یہاں قانون کی نہیں افراد کی بالا دستی ہے۔ ذخیرہ اندوزی نے ملک کو غربت ،بے روزگاری ،بدعنوانی اور رشوت ستانی جیسے خوفناک تحفے دیے ہیں۔ کمیشن ایجینٹس ہر محکمے اور ہر طبقے میں نظر آئیں گے۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے پس پردہ ایسی قوتیں ہیں جو مافیا کا حصہ ہیں ان کی پشت تباہی اعلیٰ افسران اور حکومتی کارندے کیا کرتے ہیں۔
آخر میں میں یہی کہنا چاہونگی کہ بطور مسلمان ہمیں تعلیمات اسلام پر عمل کرنا چاہیے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں کا روبار زندگی چلانا چاہیے ۔ ملاوٹ ، کم تولنے ، ذخیرہ اندوزی چوربازاری اور نقلی اشیاء کی فروخت سے احتراز کرناچاہیے ۔ تجارت ایک معزز پیشہ ہے ۔بہت سے انبیاء کرام نے اس پیشے کو اپنایا اور ہمارے لیے سنہری اصول متعین کیے۔ ایک معقول حدتک منافع جائز ہے۔ اشیا کو چھپانا اور مصنوعی قلت پیداکرنا حرام ہے اور ایسے کمائے ہوئے سرمایہ میں برکت نہیں ہواکرتی ۔ آئیے یہ عہد کریں کہ ہم مل کر اس معاشرتی لعنت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔ معاشرے کو اس زہر قاتل سے بچائیں گے اور ہمیشہ شریعیت محمدی کے مطابق کاروبار زندگی کو رواں دواں رکھیں گے۔ انشاء اﷲ

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105345 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More