معاشرہ اور میں

اپنی ژند گی سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اگر انسان روزانہ کے کاموں کو جو کہ اُس نئی ۤج پورا دِن کیا ہو پر غور کریں کہ میں نے آج جو کام کئے ہیں اُس کا جائزہ خود اکیلے میں لیں کہ آج اپنے لیے کیا کیا ؟ دوسروں کے لیے کیا کیا ؟ دوسروں کی مدد کی کہ نہیں ؟ کیا کمایا ؟ کیسے کمایا ؟ کیا دیا /،کیا پڑھا ۔کیا پڑھایا ۔

ہر انسان آج جو بھی کر رہا ہے اپنی آرام وآسائش اور اپنے لئے کمانے کی فکر میں رہتا ہے دوسروں سے اپنے مطلب کے لئے ملتا ہے اور اپنا کام کر نے کے بعد اُس تک دیکتھا بھی ۔اگر انسان دوسروں کے بارے میں سوچے کہ میرے قریب کے جو رہتے ہیں اُن کا کیا حال ہو گا اور اُس کے حالات سے بخو بی واقف اور اُن کے حالات جا نتے ہوئے بھی اُنسے منہ موڑ لیتا ہے ۔۔جس کے دِل میں دُکھ درد ہو اور جس نے دُکھ درد اُٹھایئں ہو وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کریگا اور غربائ کا ہم نواں ہوگا اور غریب کے دُکھ درد برابر کے شریک ہوگا ،غریب کے غمی خو شی میں شریک ہوگا اور اُن کے دُکھ درد کم کر نے میں اُن کی مدد کریگا ۔انسان آج کل اتنا بے بس ہو گیا ہے کہ وہ کوئی ایک فیصلہ کر نے سے کتراتا ہے۔دوسروں کے بارے میں تو دور اپنے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتا ،؎۔جو بھی کام کر نے کا ارداہ رکھے گا ہزاروں سے مشورہ اور پھر بی ناکام ہو جاتا ہے ۔اُس کی سب سے بڑی وجہ خود غر ضی،مفاد پر ستی ،تنگدستی اور صرف اور صرف اپنے بارے میں اور اپنے خاندان کے بارے میں سوچنا ہے ۔معاشرے میں ایسے بہت ست لوگ ہے جن کی زند گی دُکھ درد میں ہی گزر جا تی ہیں اور جب موت آتی ہے تو اِن سے چھٹکارا پا لیتا ہے اپنی پیچھے ایک وسیع داستان چھوڑ جا تا ہے اور اگر ےہ داستان وہ لکھتا تو شاےد آج ہم ہر کسی کے داستان کے پیچھے چل پڑتے مگر یہ نہیں سوچے گے کہ اُس ن جو داستاں لکھی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے اور ہمیں اُن کے داستان سے سبق سکیھنا چایئے۔ہم قبر ستان میں جا تیں ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ اِن قبروں میں پرے ہوئے بہت سے لوگ ایسے ہو نگے جو اپنی لئے بہت کچھ جمع کئے ہونگے مگر قبر میں جا نے کے بعد وہ سب دُنیا ہی میں چھوڑ کر گئے ہیں اور بہت سارے ایسے ہونگے جس نے دُنیا میں دُکھ درد کو سہتے ہوئے اِس جگہ پہنچے ہونگے ۔اگر ہم اِس طرف سوچے تو شاید کہ کوئیایسا ہو کہ وہ دُنیا کی آسائیشوں سے محبت کوتر جیح دے سکیں ۔موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ۔موت ہر وقت بوڑھے ،جوان اور بچے سب پر مقرر کر دہ وقت میں آتا ہے مگر ہم نے موت کے لئے تےاری نہیں کی ہوئی ہے اور ہر وقت موت کو بھول کر دُنیا کے آسائیشوں ،آرائیشوں اور محفلوں میں مصروف اور مگن رہتے ہیں ۔جب موت آتی ہے تو پھر خاندان والے اللہ تعالیٰ سے زند گی کے بیھگ مانگتے ہیں کہ اِس کو اند گی عطائ فرمااور پھر صرف اور صرف اللہ کی بند گی کریگا ۔نگر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ دُنیا میں اِس کو بہت وقت دیا مگر اِن وسےع سالوں میں اِس نے کھبی میرے طرف نہیں موڑا اور نہ مجھے یاد کیا بلکہ اپنے دُںیاوی آرائیشوں اور اسائیشوں میں مگن رہا ۔اب اِس بندے کا دُنیا سے تعلق ختم ہو گیا ہے اور اب اِس کا تعلق مجھ سے ہوگا ۔مجھے فیصلہ کر نا ہے کہ اِس کے ساتھ کیا کرونگا ۔دُنیا میں اِن کو وہ تمام سہولیات فراہم کئے تھے مگر اِس نے دُنیا میں اِس کا شکر ادا نہیں کےا ور نہ کیرے طرف منہ موڑ کر دیکھا اور نہ میرے بندگان دین ،غربا،یتیوؐ کا حصہ اپنے مال میں رکھا ۔
Akhtar Javed
About the Author: Akhtar Javed Read More Articles by Akhtar Javed: 2 Articles with 1893 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.