عبدالرحمن چھاپرا ۔۔۔یادوں کے آئینے میں

ورکرز کنونشن جب امیر جماعت اسلامی سندھ جناب ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے یہ اعلان کیا کہ آج تین تحریکی اور نظریاتی شخصیات ہم سے جدا ہو گئیں اسلامک پبلیکیشنز کے منیجنگ ڈائریکٹر،نائب امیر جماعت اسلامی لاہور اور مولانا مودودی کے دیرینہ ساتھی عبدالحفیظ صاحب ،دوسرے نقی نواب صاحب ثناء اﷲ والے مرحوم کے بھائی جناب یوسف صاحب جو مولانا مودودی کے میزبان بھی ہوا کرتے تھے اور تیسرے فاران کلب کے سرپرست اور تاسیسی رکن جناب عبدالرحمن چھاپرا صاحب۔عبدالرحمن چھاپرا یہ نام سن کر میں چونکا کہ ان کے حوالے سے کسی کا کوئی ایس ایم ایس نہیں آیا جب کہ لاہور والے عبدالحفیظ صاحب کے بارے میں برقی پیغام دن صبح ہی آگیا تھا ،پھر خیال آیا کہ شاید ابھی تھوڑی دیر پہلے شام کو کسی وقت انتقال ہوا ہے اور تدفین کل صبح کسی وقت ہوگی یہ سوچ کر دوران اجتماع ندیم اقبال اور قمر محمد خان صاحبان کو ایس ایم ایس کیا کہ چھاپرا صاحب کی تدفین کب ہو گی لیکن کوئی جواب نہیں آیا اختتام اجتماع سے کچھ دیر قبل سلیم قریشی صاحب نظر آئے تو میں ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی نماز جنازہ عصر میں ہو گئی مجھے اس بات کا بڑا قلق ہوا کہ کسی ساتھی نے اطلاع دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی سلیم قریشی صاحب کی روزصبح بڑے خوبصورت میسج آتے ہیں درود کی یاددہانی کرواتے ہیں ان سے پہلا شکوہ اس لیے کہ ہمیں روز ان کے برقی پیغام ملتے ہیں جو ہمیں کبھی کچی نیند میں پورے حواس خمسہ کو مجتمع کرکے بغیر چشمے کے موبائل کی اپنی قلبی روشنی میں پڑھنے کی مشقت اٹھانا پڑتا ہے ،دوسرا شکوہ ندیم اقبال صاحب سے تھا کہ فاران کلب کے پروگراموں پے درپے ایس ایم ایس بھیجنے والے اس اہم خبر کی اطلاع دینا کیسے بھول گئے ویسے ندیم بھائی جب بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ نماز جنازہ کی مسجد اور وقت کے حوالے سے فیصلہ دیر سے ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگوں کو اطلاع نہ دی جاسکی تیسری شکایت جناب قمر صاحب سے اس لیے کی کہ ان سے قربت اس امید کو تقویت دیتی ہے کہ چاہے سب بھول جائیں لیکن قمر صاحب نہیں بھول سکتے خیر قمر صاحب نے یہ تو نہیں کہا کہ بڑھاپا آگیا ہے بلک یہ کہا کہ عمر زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بھول چوک ہو جاتی ہے میں نے بھی یہ سوچ کر زیادہ اپنی شکایت پر اصرار نہیں کیا کہ جب ایک بیوی پر اکتفا کرنے والوں کو بھول کا مرض لا حق ہو سکتا ہے تو پھر قمر صاحب تو تین درجے زیادہ اس کا استحقاق رکھتے کہ انھیں بھول کی رعایت دی جائے۔چوتھی اور آخری شکایت مجاھد برکاتی صاحب سے کی جوجمعیت الفلاح کے ہر پروگرام کی کم سے کم پانچ اورزیادہ سے زیادہ دس بارہ مرتبہ برقی یاددہانی کرواتے ہیں لیکن عبدالرحمن چھاپرا صاحب کی خبر وہ بھی نہ دے سکے ،ہوسکتاہے کہ آپ اس روداد کو غیر ضروری سمجھیں لیکن میں نے یہ تفصیل اس لیے تحریر کی کہ میرے چھاپرا صاحب سے تعلقات ان سب سے زیادہ دیرینہ گہرے تھے ان کے آخری دیدار نماز جنازہ سے محرومی کا افسوس بہت عرصے تک ذہن پر ہتھوڑے برساتا رہے گا ۔

عبدالرحمن چھاپرا صاحب سے میری پہلی ملاقات 1979میں ان کے دفتر کراچی اسٹاک ایکسچنج میں ہوئی تھی جب ہم نے لیاقت آباد میں ایک تنظیم " تنظیم نوجوانان لیاقت آباد" کے نام سے نوجوانوں میں دعوتی کام کرنے کے لیے بنائی تھی ہمیں تنظیم کے لیے مالی وسائل کی ضرورت تھی اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ تنظیم کی سرگرمیوں کے لیے جماعت کے بیت المال پر بوجھ ڈالنے کے بجائے کچھ نئے وسائل تلاش کیے جائیں ۔ہم نے دوستوں کے مشورے سے ایسے اداروں اور افراد کی فہرست بنائی اس میں سب سے پہلا نام فاران کلب اورچھاپرا صاحب کا آیا میں نے ان کے دفتر میں جاکر ملاقات کی اور تنظیم کی غرض و غایت اس کے کام اور مستقبل کے منصوبوں سے آگاہ کیا اور پھر ان سے مالی تعاون کی درخواست کی ۔انھوں کہا کہ فاران کلب جماعت اسلامی کا ادارہ ہے ہم اس پلیٹ فارم سے صرف ان انجمنوں اور تنظیموں کی مدد کرتے ہیں جو جماعت نے بنائی ہو ں یا وہ جماعت اسلامی کے زیر سرپرستی چل رہی ہوں ،اب آپ نے جو تنظیم بنائی ہے اس کے بارے میں ہمیں کیا معلوم کے یہ جماعت نے بنائی ہے یا اسے جماعت اسلامی کی سرپرستی حاصل ہے میں نے کہا کہ یہ تنظیم تو جماعت ہی نے بنائی ہے لیکن آپ بتائیں کہ مجھے کیا کرنا ہو گا انھوں نے کہا کہ آپ اپنے لیاقت آباد کے جو بھی ناظم ہو ں ان سے ایک تحریر لے آئیں ،میں نے کہا ٹھیک ہے طیب احمد صاحب ہمارے ناظم ہیں ان سے تحریر لے آئیں گے یا وہ آپ کو فون کر لیں گے ۔دوسرے دن میں جب دوبارہ گیا تو چھاپرا صاحب نے بتایا کہ طیب صاحب کا فون آگیا تھا انھوں اسی وقت تنظیم کے لیے اپنی طرف سے مالی تعاون کیا اور پھر مجھے فاران کلب کے لائف ممبران کی فہرست دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے مستقل ارکان کی فہرست ہے آپ ان حضرات سے بھی میرا نام لے کر رابطہ کر سکتے ہیں میں نے کہا آپ کوئی تحریر دے دیں گے انھوں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے آپ بس میرا نام لے لیجئے گا اگر کوئی بات کرنا چاہے گا تو مجھ سے کرلے گا ۔

اس پہلی ملاقات کے بعد تو پھر آنے جانے کا سلسلہ قائم ہو گیا ہمیں تنظیم کسے کسی بھی کام کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہوئی ،ایک طرف طیب صاحب کی رہنمائی تھی تو دوسری طرف چھاپرا صاحب کی مشفقانہ سرپرستی نے تنظیم کے کام کو آسان بنادیا ہماری دعوت پر چھاپرا صاحب اکثر تنظیم کے پروگراموں میں بھی آئے وہ ہمیں نوجوانوں میں کام کے حوالے سے اچھے مشورے بھی دیتے تھے ایک دفعہ ہم نے انھیں ربیع الاول کے موقع پر لیاقت آباد میں تنظیم کی طرف سے سیرت نمائش میں بلایا وہ اپنے ساتھ اسلم پردیسی صاحب کو جو ان کے پڑوسی تھے ساتھ لے کر آئے میں سمجھ گیا کہ یہ اسلم پردیسی صاحب کو جو خود اپنے اندر اسلام کے حوالے درد دل رکھتے تھے انھوں نے بھی نمائش دیکھی بہت متاثر ہوئے ایک کتبے پر ایک حدیث لکھی تھی پردیسی صاحب نے مجھ سے کہا کہ اس حدیث کی دس ہزار اسی طرح کے کتبے بنا کر پورے علاقے میں تقسیم کر دیں ۔ہم نے اس پیشکش کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے چونکہ رمضان قریب تھے اور نومبر کا مہینہ تھا اس حدیث پر مشتمل ایک کیلنڈر جس میں سحر و افطار کے اوقات کے علاوہ پورے سال کی تاریخوں کا کیلندڑ بھی شامل تھا اور پھر اسے علاقے کے ہوٹلوں ہیر ڈریسرزکی دکانوں اور مساجد میں آویزاں کر دیا ۔ چھاپرا صاحب نرم گداز طبعیت کے انسان تھے درد مند دل رکھتے تھے کسی فرد یا تنظیم کے بارے میں انھیں جب یہ یقین ہوجاتا کہ یہ اسلام کے لیے پرخلوص انداز میں کام کررہی ہے تو اپنے آپ کو اس میں ضم کرلیتے تھے ہم نے بھی ایک تقریب میں چھاپرا صاحب کو تنظیم نوجوانان لیاقت آباد کاسرپرست بنالیا تھا اسی حوالے سے وہ ہر وقت تنظیم کے مالی وسائل کی فراہمی کے لیے فکرمند رہتے تھے پھر چونکہ اس زمانے میں تنظیم نوجوانان کی سرگرمیوں کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہوتی رہتی تھیں اس لیے مالی تعاون کرنے والوں کا اعتماد بھی بحال رہتا تھا۔

عبدالرحمن چھاپرا صاحب کی تحریک اسلامی سے فکری وابستگی تو بہت پرانی ہے لیکن میرا ایک خیال ہے 1970 سے پہلے جو لوگ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے وہ اگر ایک طرف مولانا کے لٹریچر کے مطالعے کے نتیجے میں نظریات کے سحر میں گرفتار تھے تو دوسری طرف مولانا کی براہ راست نگرانی میں تربیت پانے والی شخصیات کے سحر میں گرفتار رہتے تھے نظریات اور شخصیات کا یہ سحر ایسے کمال کے درجے پر تھا کہ اس زمانے میں جو لوگ جماعت کے قریب آئے تن من اور دھن کے ساتھ آئے یعنی مکمل جسمانی صلاحیتیں،دل کی پوری لگن اور مالی قربانیوں کے ساتھ یہ لوگ کام کرتے تھے جماعت اسلامی کراچی کے اس زمانے میں جو نمایاں لوگ متحرک تھے ان میں جناب صابر حسین شرفی صاحب ،حکیم اقبال حسین صاحب ،صادق حسین قریشی صاحب ،چوہدری غلام محمد صاحب ،سید ذاکر علی صاحب ،پروفیسر عبدالغفور صاحب ،محمود اعظم فاروقی صاحب یہ تمام اکابرین اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے پھول ابھی تک اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں ان ہی پھولوں میں سے ایک پھول جناب عبدالرحمن چھاپرا صاحب بھی تھے ۔جناب چوہدری غلام محمد صاحب ایک ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے جس کے قریب جاتے وہ ان سے اسی طرح چپک جاتا جیسے کوئی مقناطیس کا ٹکڑا کسی تانبے یا چاندی کے سکے کے قریب لے جایا جائے تو وہ اچھل کر اس سے چپک جاتا ہے ۔چوہدری صاحب فرد سازی بھی کرتے تھے اور ان کی سیرت سازی بھی کرتے تھے آج ہم سیرت سازی تو دور کی بات ہے اب فرد سازی بھی نہیں کر پاتے پھر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کس نگینے کو کس انگوٹھی میں فٹ ہونا ہے ۔

چوہدری غلام محمد صاحب نے اپنی مختصر عمر میں ایسے تحریکی کارنامے انجام دیے ہیں جو بعد کے سب لوگ مل کر سو سال میں بھی انجام نہیں دے سکتے انھوں نے مختلف شعبوں میں تحریکی اثرات کو بڑھانے اور پھیلانے کے لیے تحریکی لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں سونپی ،انھوں صحافیوں میں کام کے لیے حلقہ صحافت اسلامی کا تخیل پیش کیا مزدوروں میں کام کی منصوبہ بندی کی،معاشرے کے آسودہ حال اور خوشحال افراد کوبھی تحریک کا حصہ بنانے کے لیے کچھ کرنے کا عزم و ارادہ کیا اس لیے کہ عشرہ مبشرہ کے دو اصحاب رسول ﷺ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح یہ دونوں اصحاب اپنے سرمائے کے ساتھ تحریک میں آئے اور پھر پوری زندگی بمعہ اپنے سرمائے کے نبی اکرمﷺ کے قدموں میں ڈال دی ۔۔ہر معاشرے میں جہاں لینے والے ہاتھ بڑی تعداد میں ہو تے ہیں کچھ دینے والے ہاتھ بھی ہوتے ہیں جو زیادہ اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں ۔اس شعبے میں تحریکی اور نظریاتی کام کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کے لیے چوہدری صاحب کی نظر جن حضرات پر پڑی ان میں مولانا ماہر القادری ،خلیفہ انوار احمد ،عبدالرحمن چھاپرا نصیر سلیمی و دیگر اس میں شامل تھے ایک طویل عرصے تک یہ تمام معززین ایک ٹیم ورک کی طرح کام کرتے رہے نام اس کا فاران کلب رکھا گیا اس سے پہلے مولانا ماہر القادری صاحب فاران کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا کرتے تھے ۔لفظ فاران سے تو اس تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی یہ مکہ کی اس چوٹی کا نام ہے جس پر کھڑے ہو ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ نے دین کی دعوت دی تھی۔لیکن بعد میں جناب عبدالرحمن چھاپرا صاحب نے اس میں اتنا فعال رول ادا کیا کہ بس وہی وہ نظر آتے تھے بلکہ میرا جب سے ان سے رابطہ ہوا تو میں نے یہی دیکھا کہ بظاہر تو وہ اپنے کاروباری دفتر جس کا پتا 54-55کراچی اسٹاک ایکسچنج تھا میں بیٹھتے تھے اور (یہی ایک طویل عرصے تک فاران کلب کا ایڈریس بھی رہا )لیکن وہ دن بھر فاران کلب ہی کا کام کرتے تھے اپنا کاروبار تو انھوں نے بیٹوں کے حوالے کردیا تھا اور خود کو فنا فی الکلب کرلیا تھا ۔ایک لحاظ سے انھوں نے دنیاوی تجارت سے منہ موڑ کر اﷲ میاں سے تجارت کا سلسلہ شروع کرلیا کہ فرمان خداوندی ہے کہ ہم نے مومنوں کی جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لی ہے کم ازکم میں نے تو ان کو ساری زندگی یعنی جب سے میرا ان سے رابطہ ہوا اسی کاروبار میں ہمہ تن مصروف دیکھا ۔

اب تھوڑی سی بات میرے ان سے ذاتی تعلقات کے حوالے سے ہو جائے تنظیم نوجوانان کے سلسلے رابطوں کا جو آغاز ہوا وہ دھیرے دھیرے ذاتی انسیت اور محبت میں تبدیل ہوتا گیا وہ اس طرح کہ میں چونکہ جسارت میں کام کرتا تھا اس لیے ایک دفعہ چھاپرا صاحب نے کہا آپ اخبار سے منسلک ہیں ہمیں اپنی خبریں وغیرہ بھی اخبارات میں بھیجنا ہوتا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ آ پ ہمارے شعبہ نشر و اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لیں چنانچہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 1980میں انھوں نے مجھے فاران کلب کا سکرٹری نشر واشاعت مقرر کیا فاران کلب کی مجلس عاملہ اور اسکے ماہانہ پروگرام کی خبریں پابندی سے شائع ہوتی رہیں ایک دفعہ چھاپرا صاحب نے کہا کہ ہم عاملہ کے ساتھیوں کی رائے ہے کہ آپ کو اپنے اجلاس میں شریک کیا جائے تاکہ آپ براہ راست نکات کو نوٹ کرکے خبریں جاری کر دیا کریں لیکن ایک ٹکنیکل مشکل ہے کہ اجلاس میں شرکت کے لیے ساتھیوں کی رائے ہے کہ آپ کو فاران کلب کا لائف ممبر بنالیا جائے اس کے لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ اس کی فیس چار قسطوں ادا کردیجئے گا ،میں نے کہا ٹھیک ہے اس طرح میں کلب کا لائف ممبر بن گیا میرے فارم کے تجویزکنندہ خود عبدالرحمن چھاپر صاحب تھے اور شمس الدین خالد صاحب تائید کنندہ ،جو اس وقت کلب کے جنرل سکریٹری تھے ۔چھاپرا صاحب طبعیت کے بڑے سادہ انسان تھے ان کی بات چیت میں ،لہجے میں،انداز تخاطب میں بہ حیثیت مجموعی پوری باڈی لنگویج میں تکبر کا شائبہ تک نہیں مل پاتا۔وہ جس سے بھی ملتے چاہے وہ کسی بھی حیثیت کا مالک ہو انتہائی خوش اخلاقی سے ملتے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت بڑے سرمایہ دار تو نہ تھے لیکن ان کا شمار ان لوگوں میں ہی ہوتا تھادولتمند ہونے کے باوجود ہر کسی کی تقریب میں شرکت ضرور فرماتے میں اس زمانے میں لیاقت آباد کی کچی آبادی سکندرآباد میں رہتا تھا میرے گھر پر کوئی تقریب تھی جس میں افطار کا پروگرام تھا میں نے چھاپرا صاحب کو بھی دعوت دی تھی گھر کے باہر شامیانے میں فرشی نشست پر افطار کا اہتمام تھا رشتہ داروں کے علاوہ محلے کے لوگ بھی تھے افطار سے چند منٹ پہلے میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ چھاپرا صاحب تشریف لائے مجھ یہ بھی اندازہ تھا کہ ان کے کئی اور افطار کے پروگرام بھی ہوں گے جن سب کو چھوڑ کر میرے گھر آئے پھر انھوں نے ہمارے ساتھ افطار کیا اور پھر یہ کہہ کہ میں راستے میں کہیں نماز پڑھ لوں گا ہم سے رخصتی مصافہ کیا اور چلے گئے ۔میں ہفتے میں دو تین دن دفتر جسارت سے ٹاور ان کے دفتر جاتا کبھی کبھی وہ دوپہر کو بھی بلاتے دفتری کام کے ساتھ وہ اپنے ساتھ کھانے میں بھی مجھے بہ اصرار شامل کرتے ۔

فاران کلب کے چھاپرا صاحب جو پروگرام طے کرتے اس کے لیے وہ جناب منور صاحب سے مشاورت کرتے تھے کئی دفعہ اس حوالے سے میرے سامنے ان کی ٹیلی فونک گفتگو ہوئی جس میں پروگرام کے حوالے سے مقررین اور مہمان خصوصی کون ہوگا اس پر بات ہوتی ۔عبدالرحمن چھاپرا صاحب فاران کلب کے سارے پروگرام جماعت اسلامی کراچی سے باہمی مشاورت کر کے بناتے تھے ،کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی وجہ سے رابطہ نہ ہوسکا تو بھی آپس کا اعتماد اتنا مضبوط تھا کہ چھاپرا صاحب بغیر کسی تحفظات کے پروگرام کرلیتے چھاپرا صاحب کی شدید خواہش تھی کہ فاران کلب کی اپنی عمارت ہو جس میں اس کے دفاتر قائم ہوں جس کے لیے انھوں انتھک جدوجہد کی ۔ان کی ان کاوشوں کا تو میں عینی گواہ ہوں کہ کس طرح وہ دوڑبھاگ کرتے تھے ۔آج حسن اسکوائر پر جو فاران کلب کی عمارت ہے اس کی زمین کے حصول سے لے کر اس کی تعمیر میں سب سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ حصہ جناب عبدالرحمن چھاپرا صاحب کا ہے ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالی ان کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے ۔1983جب جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی صاحب میئر بنے تو چھاپرا صاحب اور زیادہ فعال ہو گئے مجھے یاد ہے کہ جس محفل میں بھی چھاپرا صاحب کا افغانی صاحب سے ٹکراؤ ہوتا چھاپرا صاحب انھیں یاد کراتے کہ افغانی صاحب ہماری زمین کا کیا ہوا افغانی صاحب جواب دیتے کہ ان شاء اﷲ ہو جائے گا ۔

عبدالستار افغانی صاحب میئر ،اور جناب مظفر احمد ہاشمی صاحب کے ڈی اے کی ڈویژنل رابطہ کمیٹی کے چیرمین تھے اور یہ دونوں حضرات فاران کلب کے لائف ممبر بھی تھے اس لیے ان دونوں بزرگوں کی ذاتی کوششوں اور چھاپرا صاحب کے تعاقبFollow up نے اس مشکل کو بھی آسان کر دیا آج حسن اسکوائر کی جس امین پر فاران کلب کی عمارت قائم ہے وہ عبدالستار افغانی صاحب کی دی ہوئی زمین ہے جس میں ہاشمی صاحب کی محنت بھی شامل ہے ۔جب زمین مل گئی تو اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا میں اس افتتاحی تقریب میں شریک تھا اس تقریب کی صدارت مغل ٹوبیکو کمپنی حاجی ہاشم حاجی احمد نے کی تھی جب کے میئر کراچی عبدالستار افغانی صاحب مہمان خصوصی تھے ۔افغانی صاحب نے اس دن تقریر میں بڑی صراحت سے یہ کہا اس زمین کے حصول میں ویسے تو ہم سب کا حصہ ہے لیکن زیادہ محنت چھاپرا صاحب نے کی ہے کہ وہ جب بھی مجھے کسی پروگرام میں ملتے تو پوچھتے کہ افغانی صاحب زمین کا کیا ہوا ،میں جب کسی پروگرام میں جاتا تو یہ سوچتا کہ کہیں وہاں چھاپرا صاحب نہ مل جائیں جو اپنی زمین کے بارے میں ضرور پوچھیں گے اس لیے میں فاران کلب کی زمین کے بارے میں تازہ ترین معلومات لے کر پروگرام میں جاتا تھا اور یہ ویسے بھی فون کرتے رہتے تھے ،بہر حال اﷲ کا شکر ہے کہ فاران کلب کی زمین ہو گئی ۔مغل ٹبیکو کمپنی کے حاجی ہاشم صاحب نے اس کی ادائیگی اپنا موثر حصہ ڈالا تھا ۔اس کے بعد ایک تقریب اس آرچیٹیکٹر کو انعام دینے کی ہوئی تھی جس کا نقشہ تعمیر کے لیے منظور ہوا تھا ۔چھاپرا صاحب کی کوششوں سے فاران کلب کی عمارت بھی تعمیر ہو گئی ۔آج اس عمارت میں ایک ڈائیلیسز سنٹر ،ایک لیبارٹری،اور ایک بہت بڑی لائبریری ہے فارن کلب میں اب بھی مختلف نوعیت کے دینی اور سماجی پروگرام ہوتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی مثبت سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز ہے ۔ہم آخر میں یہی کہیں گے چھاپرا صاحب کی خدمات دین کے حوالے سے بہت زیادہ ہیں اس مختصر مضمون میں اس کا بھر پور احاطہ نہیں کیا جا سکتا اور ہم ان کے بارے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ چھاپرا صاحب نے اپنی پوری زندگی بڑے اخلاص کے ساتھ اسلامی نظام کی جدوجہد میں گزاری اور وہ مولانا مودودی کے سجائے ہوئے گلدستے کا ایسا پھول ہیں جس کی خوشبوتادیر قائم و دائم رہے گی۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.