ناروے - (Norway)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

پٹرولیم اور گیس کا بہت بڑا برآمد کنندہ
(17مئی: قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ناروے شمالی یورپ کا ملک ہے جو اسکینڈے نیوین جزیرہ نما کے مغربی نصفے پر پھیلا ہے۔تین لاکھ چوبیس ہزار مربع کلومیٹر اسکا کل رقبہ ہے۔اس ملک کا تقریباََدو تہائی رقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ناروے کے تین اطراف میں سمندر کے سواحل ہیں جبکہ صرف مشرق میں اس ملک کی سرحدیں سویڈن،فن لینڈ اور روس سے بھی ملتی ہیں۔یہ ایک درمیانے درجہ حرارت کا ملک ہے جس کا سالانہ درجہ حرارت سات سے تیس ڈگری سینٹی گریڈ تک تبدیل ہوتا رہتا ہے،موسم کی اس خاصیت کی بڑی وجہ سمندر کا پڑوس ہے۔’’اوسلو‘‘ یہاں کا دارالخلافہ ہے،آبادی کا بہاؤاس شہر کی طرف بہت زیادہ ہے شاید اس لیے کہ یہ ایک معاشی سرگرمی کا بہترین شہر ہے جس کے گردونواح میں زراعت اور کارخانوں کے باعث روزگار کا حصول بہت آسان ہے۔انڈو یورپین قبائل ایک زمانے سے اس سرزمین پر آباد ہیں،ایک اندازے کے مطابق انہیں یہاں وارد ہوئے کم و بیش چھ ہزار سال بیت چکے ہیں۔

ناروے نے 7جون1905میں آزادی حاصل کی ،آزادی کے بعد سے ذرائع حمل و نقل اور بحری جہازسازی میں ناروے میں دنیا میں اپنا ایک نام پیدا کیا ہے۔1970کے بعد سے ناروے پٹرولیم کی دنیا میں بھی برآمد کنندگان میں صف اول میں شمار ہونے لگاہے۔اس ملک کی معیشیت کا اب بہت بڑا انحصارپٹرولیم کی کارخانہ داری پر ہے،اس کے علاوہ باقی برآمدات کا حصہ محض 20%سے بھی کم ہے۔اس معاشی استحکام کے باعث ناروے کے لوگوں کا معیارزندگی دنیا بھر میں سب سے زیادہ گردانا جاتا ہے۔ناروے کے لوگوں میں ساٹھ سے ستر فیصد لوگ ’’نارڈک‘‘ قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور اسکی نشانی انکی نیلی آنکھیں ہیں،تاریخ بتاتی ہے کہ ناروے کے اس خظہ ارضی پر وارد ہونے والے یہ اولین لوگ تھے۔یہ لوگ قدیم روایات کی حامل تہذیب بھی اپنے ہمراہ لائے تھے ،اس قدیم تہذیب کی بعض روایات آج بھی ان قبائل کے لوگوں نے اپنا رکھی ہیں اور اب بہت کم لوگ وقتاََ فوقتاََ ان روایات کا مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں۔یہاں پر ’’سامی‘‘اقوام کے افراد بھی کم و بیش دس ہزار سال پہلے یہاں داخل ہوئے،یہ لوگ کسی وجہ سے وسطی ایشیا سے ہجرت کرتے ہوئے یہاں پہنچے تھے۔سامی اقوام کے افراد کواب مقامی لوگوں نے ’’اپنا‘‘سمجھ لیاہے اور اور انہیں اب یورپیوں کے روایتی تعصب کا سامنا نہیں ہے۔ناروے کی مقامی زبان’’بوک مال‘‘کہلاتی ہے اور جرمانک زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے،تاہم پڑھے لکھے افراد انگریزی کو ہی فوقئت دیتے ہیں جس کے باعث انگریزی زبان کو وہاں ثانوی زبان کا درجہ حاصل ہو چکاہے۔کم و بیش نوے فیصد لوگ مذہب عیسائیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بیسویں صدی کے آخر میں ایشیائی لوگوں کی آمد کے باعث اسلام اور بدھ مت کے پیروں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

ناروے کاپانچ فیصدسے بھی کم رقبہ زراعت کے لیے سازگار ہے لیکن مغربی ناروے کے کچھ علاقے بہت سرسبزوشاداب ہیں،سیب اور چیری کے پھل یہاں کثرت سے پیداہوتے ہیں۔ملک میں جنگلات بھی بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں جو لکڑی کی کارخانہ داری کی تقویت کاباعث ہیں۔لکڑی کی اکثر مصنوعات یہاں سے دوسری دنیاؤں کو برآمد بھی کی جاتی ہیں۔ساحل کے قرب کے باعث مچھلی کوبھی ناروے میں صنعت کا درجہ حاصل ہے،خاص موسم میں مچھلی کاشکار اورپھر اسکے جملہ لوازمات کے بعد اسکی برآمد اس ملک میں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع کھول دیتی ہے۔ناروے میں سڑکوں کا بہت بڑا جال بچھایا گیا ہے۔باوجود اس کے کہ پٹرولیم یہاں پر گھرکی پیداوارہے لیکن پھر بھی بوجوہ یہاں کی حمل و نقل بہت مہنگی ہے۔عوام کی سہولت کے لیے حکومت حمل و نقل کی نجی اداروں کی مالی معاونت بھی کرتی رہتی ہے جس کے باعث لوگوں کو سستے کرائے میں اچھی سفری سہولیات میسر آجاتی ہیں۔سڑکوں کے ذریعے سفر کا یہاں بہت زیادہ رواج ہے شاید اسی لیے دوسوسے زائد بسوں کے روٹ تو صرف حکومت نے مقرر کیے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود بھی نجی گاڑیوں کی کثرت نے ناروے کو سڑکوں پر رش اور گاڑی کھڑی کرنے میں بے پناہ مشکلات جیسے مسائل سے دوچار کر رکھاہے۔ناورے کی قومی ریلوے بھی یہاں متحرک ہے جس کے آدھے سے زیادہ راستوں پر بجلی کی مدد سے گاڑیاں چلائی جاتی ہیں۔

ہر چار سال کے بعد یہاں کی پارلیمان کے لیے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔اٹھارہ سال سے زائد عمر کا ہر شہری ان انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت منعقدکیے جاتے ہیں یعنی جو پارٹی جتنے فیصدووٹ لیتی ہے پارلیمان میں اتنے فیصد نشستیں اسے حاصل ہو جاتی ہیں۔یہاں بہت سی سیاسی پارٹیاں میدان سیاست میں سرگرم ہیں۔یہاں کی پارلیمان ہر صورت میں اپنی مدت مکمل کرتی ہے اور ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں جو اسے مدت کی تکمیل سے پہلے ہی تحلیل کر سکے۔اگر پارلیمان کی اکثریتی رائے کابینہ کے مخالف ہو جائے تو محض کابینہ کویا متعلقہ وزیرکو ہی مستعفی ہونا پڑتا ہے۔یہاں آئینی بادشاہت کا نظام رائج ہے،بادشاہ کو بہت سے صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں جن میں ایک اختیار یہ بھی ہے کہ وہ پارلیمان کے فیصلوں کو معطل کر سکتا ہے لیکن ایساآج تک نہیں ہوابلکہ حقیقت یہ ہے دربار شاہی نے ہمیشہ پارلیمان کا احترام ہی کیاہے ۔وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے جسے پارلیمان منتخب کرتی ہے اور بادشاہت کے ہاں سے اسکی توثیق کر دی جاتی ہے۔ یہاں کی پارلیمان عام حالات میں اپنے جملہ اموررواج وروایات کے مطابق سرانجام دیتی رہتی ہے لیکن جب قانون سازی کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو یہ پارلیمان دو حصوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ایک چوتھائی اراکین کو منتخب کر کے ایوان بالا میں بھیج دیاجاتا ہے اور باقی ماندہ ایوان زیریں میں ہی رہتے ہیں،قانونی تجویزدونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد ’’قانونی دفعہ‘‘یا ’’آئینی شق‘‘ کی شکل اختیار کرتی ہے۔آئین میں ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت لازمی ہے۔17مئی 1814میں جب ناروے کم و بیش ساڑھے چار صدیوں کے بعد ڈنمارک سے الگ ہوا تو اس وقت اس کا آئین بنایا گیا جو اب تک ناروے میں رائج ہے،اس دن کو وہاں قومی دن کی اہمیت حاصل ہے۔اس آئین میں برطانوی قوانین،امریکی قوانین اور انقلاب فرانس کی ملی جلی خوشبوئیں محسوس کی جاسکتی ہیں۔ملک کو انیس بڑی بڑی انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ہر اکائی میں بلدیاتی نظام کی مانند انتخابات ہوتے ہیں ،اگرچہ ان کی مدت بھی چار سال ہے لیکن قومی انتخابات کے دوسال بعد انکا انعقادعمل میں لایا جاتا ہے۔یہ منتخب بلدیاتی ادارے اپنے جملہ امور کی بجاآوری کے لیے تعلیم،حساب و کتاب اور دیگر انتظامی و تکنیکی امور پرتنخواہ دارکونسلروں کو تعینات کرتے ہیں ۔

ملک کی آبادی چھیالیس لاکھ سے زائد ہے،0.34%کی شرح سے سالانہ آبادی میں اضافہ ہورہاہے اورشرح پیدائش کم و بیش 0.001%ہے۔آبادی کا سوفیصد خواندہ ہے اور2.6%آبادی کا حصہ بے روزگاری کے دن دیکھتاہے۔ قومی آمدنی کا سات فیصدسے زائد تعلیم پر خرچ کیاجاتاہے۔سپریم کورٹ ملک کی اعلی عدلیہ ہے۔ملک میں 98ہوائی اڈے ہیں اورپانی کی گزرگاہوں کو بھی سفری سہولیات کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔ناروے کی شاہی افواج یہاں کا دفاع کرتی ہیں لیکن حکومت پر قبضہ نہیں کرتیں اور نہ ہی اپنے ہم وطنوں پر گولیاں چلاتی ہیں۔

ناروے کی تاریخ میں مسلمانوں کا پتہ 1260ء میں چلتاجب تیونس کے مسلمان حکمران نے یہاں کے بادشاہ کو قیمتی تحائف بھیجے تھے۔تاہم معلوم تاریخ میں مسلمانوں کی باقائدہ رجسٹریشن 1980میں شروع ہوئی جب بہت سے مسلمان ممالک سے لوگ یہاں آنے لگے اور اس وقت تک ناروے میں متعدد مساجد بھی تعمیر ہو چکی تھیں۔اب مسلمان وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہیں ،2008کے مطابق آبادی کا دو فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔اس تعداد میں اکثریت باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی ہی ہے تاہم اب اسلام تیزی سے مقامی باشندوں کو بھی نور توحید سے منور کررہاہے۔’’آرگنائزیشن اسلامک کونسل ناروے‘‘یہاں کے مسلمانوں کی تنظیم ہے جس کے زیرانتظام مسلمانوں کے اسلامک سنٹرزاوردیگر تحریکات جاری ہیں،یہ تنظیم 1993میں قائم کی گئی۔اس تنظیم کے تحت بائیس اور مسلمان تنظیمات بھی ہیں۔مسجد کی تعمیر کے لیے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے جس کے لیے مسجد کی اراکین کی رجسٹریشن کرانا ضروری ہوتاہے۔تقریباََ تمام مسلمان ملکوں کی نمائندگی یہاں موجود ہے لیکن پاکستان ،ترکی اور ایران کے مسلمان زیادہ منظم ہیں۔یہاں 1974میں سب سے پہلی مسجد بنی اوراسکے بعد اب تک ایک کثیر تعداد میں مساجد کی تعمیر جاری ہے اورتقریباََ ہر ہر اسلامی ملک کے لوگ اپنی الگ مسجد بنالیتے ہیں جس میں وہ اپنی زبان میں تعلیم و تبلیغ کا سلسلہ چلاتے ہیں-
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 4 Articles with 3071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.