شرح خواندگی میں سب سے بڑی رکاوٹ انگلش میڈیم ہے

تحریر: ناصر علی ماہرِ مضمون (تاریخ)گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹبہ سلطان پور وہاڑی پنجاب

حضرت مولانا روم مثنوی مولانا روم میں بیان فرماتے ہیں کہ بغداد میں ایک امیر گھرانے کا فرد رہتا تھا۔ والد کے فوت ہو جانے کے بعد وہ اکیلا پوری دولت کا مالک بن گیا۔ مفت کی دولت ہاتھ آئی تھی۔ مفت کی دولت کی قدر کوئی کوئی جانتا ہے۔ آہستہ آہستہ امیر زادے نے دولت لٹانا شروع کر دی۔ الغرض وہ امیر زادہ دولت کو بے جا صرف کرتے کرتے ننگ ہو گیا۔ معاملہ فاقوں تک جا پہنچا۔ امیر زادہ تھا۔ بھیک مانگنے کا فن بھی نہیں جانتا تھا۔ دن رات خدا کی یاد میں مصروف ہوگیا۔ خیالوں اور خوابوں کی دولت دیکھنا اس کا شیوہ بن چکا تھا۔ ایک دن اسے خواب آیا کہ مصر کے کسی شہر میں فلاں گلی اور فلاں مکان میں خزانہ دفن ہے۔ خزانے کی تلاش میں امیر زادہ بغداد سے چلتے ہوئے مصر جا پہنچا۔ اب اس کے لیے یہ مشکل بن گئی کہ گزر اوقات کیسے کی جائے۔ دن کے وقت خیرات مانگنے سے شرم محسوس کرتا تھا۔ اس نے رات کے وقت نقاب اوڑھ کر کسی سے مانگنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ وہ رات کی تاریکی میں گلی میں نکلا۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ شہر کے کوتوال نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب مارا پیٹا۔ کیونکہ ان دنوں مصر میں چوریاں ڈاکے عام ہو رہے تھے اور وقت کے بادشاہ نے کوتوال کو خبردار کیا تھا کہ اگرچہ بادشاہ کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، مشکوک حالت میں پکڑا جائے تو سخت سزا دو۔ کوتوال نے امیر زادے کو خوب سزا دی۔ امیر زادے نے کوتوال کی منت سماجت کی اور اصل صورتِ حال سنانے کی گزارش کی ۔ کوتوال نے اجازت دے دی۔ کوتوال نے کہا کہ اگر تم خود محنت کرتے اور آباء و اجداد کی دولت ضائع نہ کرتے تو آج خوابوں اور خیالوں میں کھوئے ہوئے بیرونِ ملک آکر سزا نہ پاتے۔ کوتوال نے کہا کہ میں نے بھی کئی دفعہ خواب دیکھا ہے کہ بغداد کے فلاں شہر میں فلاں مکان میں خزانہ دفن ہے لیکن میں اس طرف کبھی بھی نہیں گیا۔اپنی محنت اور دیانت سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہوں اور اللہ کے فضل و کرم سے میرا معاش کا مسئلہ ٹھیک ہے۔ امیر زادے نے کوتوال کی زبان سے بغداد کی گلی و گھر کا پتا سنا تو یہ اسی امیر زادے کے گھر کا ہی پتا تھا۔ امیر زادے نے اپنے گھر کا پتا اور خزانے کا سنا تو بڑا حیران اور شرمسار ہوا۔ اس نے کوتوال سے معافی مانگی اور واپس گھر روانہ ہو گیا۔

یہی حال ہماری تعلیمی پالیسی بنانے والوں کا ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ مغرب نواز ہوتے جا رہے ہیں ۔ اپنی قومی زبان اردو جو کہ پورے ملک میں اچھی طرح سے بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ قومی زبان اردو کے فروغ کی بجائے انگریزی زبان کے فروغ کی زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہے ہیں اور اسلامی عقائد ، اخلاقیات اور حب الوطنی کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔ اگر پہلی جماعت سے ہی انگریزی لازمی زبان قرار دینا اور گورنمنٹ سکولوں اردو میڈیم سے انگلش میڈیم میں تبدیل کرنے کا عمل جاری رہا تو یہ کوشش فائدے کی بجائے شدید طور پر نقصان دہ ثابت ہو گی۔ ہمارے ملک میں شرح خواندگی پہلے ہی شرمناک حد تک کم ہے ۔ ہمارے جیسے پسماندہ ملک میں انگریزی تعلیم کے فروغ کے وسائل بہت کم ہیں ۔ ماہرینِ تعلیم کی تعداد بھی کم ہے۔ انگریزی زبان سکھانے والے اچھے ادارے ہر جگہ نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کے بچوں کی نہ مادری اور نہ قومی زبان انگریزی ہے۔ بچوں میں اردو کی نسبت انگریزی سیکھنے کی اہلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایف اے اور بی اے کے طلباء و طالبات کی بہت زیادہ تعداد بار بار انگریزی میں فیل ہونے کی بنا پر تعلیم کو ہی خیر باد کہہ دیتی ہے۔ایک میٹرک پاس بچہ اردو زبان میں لکھی گئی ہر کتاب کو ، ہر اردو اخبار کو روانی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک گریجویٹ انگریزی اخبار کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ سکتا۔ انگریزی زبان کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ چند ادارے یا چند ماہرین تعلیم کے ذریعے ذہین و فطین بچوں کو انگریزی زبان کی مہارتوں سے روشناس کرایا جائے اور ان سے انگریزی سے علوم و فنون اردو میں منتقل کرنے کا کام لیا جائے ۔ ہر کس و ناکس کے لیے انگریزی زبان کو لازمی قرار دینا فروغ تعلیم اور شرح خواندگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اردو زبان دنیا کی تیسرے نمبر کی بڑی زبان ہے ۔ اگر اس کی سرپرستی کی جائے تو یہ دنیا کی سب سے بڑی زبان بن سکتی ہے اور ہمارے بکھرے ہوئے شیرازے کو ایک قوم کے سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم مکمل طور پر اردو زبان میں ہونا چاہیے اور دفاتر کی خط و کتابت بھی انگریزی زبان کی بجائے اردو میں ہونی چاہیے۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 169263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.