عرفانؔ صدیقی

عرفان صدیقی کا تعلق بھی اُسی بدایوں سے رہا ہے جہاں سے علماء اور اولیاء اﷲ جڑے رہے ہیں اور شاید اسی خوبی کی وجہ سے بدایوں کو مدینۃالاولیا کہا جاتا ہے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب لٰہی اور ان کے والد حضرت خواجہ سید احمد بخاری، خواجہ علاء الدین حسن سنجری، مشہور مورخ ملا عبد القادر بدایونی اور ظہور اﷲ نوابؔ بدایونی کا تعلق بھی اسی سر زمین سے رہا ہے۔ اس شہر کی تاریخی حیثیت بھی کافی مضبوط ہے۔مغلیہ عہدسلطنت میں بدایوں اہم مرکز رہا ہے۔ مغلیہ دور کے بہت سے آثار اور عمارات ابھی باقی ہیں۔ قطب الدین ایبک نے اپنے زمانے میں بدایوں کا گورنر التمش کو بنایا تھا ، اس کی بنوائی ہوئی مسجد بھی تاریخی مساجد کی فہرست میں اہم مقام رکھتی ہے۔

ادبی اعتبار سے بھی یہ جگہ بہت زرخیز رہی ہے اورشاید اسی لیے اس خطہ سے اُپجے لوگوں میں میر محفوظ علی بدایونی،مولانا زلالیؔبدایونی،قمرؔ بدایونی،علامہ سبطین احمد، مولانا یعقوب،بخش راغبؔبدایونی،مولوی نظام الدین حسین نظامیؔبدایونی،وحید مسعود، مولانا عبدالماجد بدایونی، مولانا عبدالقادر، شوکت علی خاں فانیؔبدایونی،مولانا ضیاء القادری بدایونی، علی حاتم صدیقی، آل احمد سرور، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، عالمی شہرت یافتہ سائنسداں افضال قادری ، مشہور ناول نگار سلطان حیدر جوشؔ، معروف افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی، ممتاز جدید شاعرہ اداؔ جعفری بدایونی، محشرؔبدایونی، شکیل بدایونی،دلاور فگار اور معروف انگریزی کے صحافی ایم․اے․اخیارؔ وغیر ہ کے نام کسی تعرف کے مہتاج نہیں ہیں۔ان میں علامہ سبطین احمد، محشرؔبدایونی اور دلاور فگار یہ سب انکے قریبی رشتہ دار تھے۔

اس خاندان کے لوگ اپنا تعلق خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق ؓسے ہونا لکھتے ہیں۔عرفان صدیقی کے خاندان کے ایک بزرگ ملّا عبداﷲ مکّی 1213-14 ء ؁میں مکّہ شریف سے بدایوں تشریف لائے اور تبھی سے یہ ممتاز خاندان بدایوں میں سکونت پزیر ہے۔اس خاندان کے لوگوں کا تعلق مغلیہ دربار سے بھی رہا ہے اورعلم و ادب کی روایت بھی ، اس خاندان کی ، بہت مستحکم رہی ہے۔عرفان صدیقی نے جب ہوش سنبھالا اس وقت ان کے خاندان میں علم و ادب بالخصوس شاعری کی روایت ایک مدّت سے قائم تھی۔

’’ان کی والدہ محترمہ رابعہ خاتون کلثومؔ بدایونی بھی اردو شاعری اور فارسی میں اچھی دسترس رکھتی تھیں ان کی نعت کا ایک مشہور شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ؂
زندگی بھر کے لیے ان کی تمنّا پائی
اور کیا چاہئے اب ان کے تمنّائی کو‘‘

اس علم و ادب کے مستحکم ماحول میں عرفان صدیقی کے پیدائش ۱۱؍مارچ ۱۹۳۹؁ء مطابق۱۸؍محرمالحرام۱۳۵۸؁ھ کو ہوئی۔’’عرفان صدیقی کی ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے دادا کے زیر سایہ ہوئی۔ بعد کو انھیں بدایوں کے کرسچین ہائر سکنڈری اسکول (جو مشن اسکول کے نام سے مشہور ہے) میں داخل کرایا گیا جہاں سے ۱۹۵۳؁ء میں انھوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اس کے بعدان کو حافظ صدیق اسلامیہ انٹر کالج بدایوں میں داخل کریا گیا جہاں سے ۱۹۵۵؁ء میں انٹر کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اعلا تعلیم کے لیے ان کو بریلی کالج بریلی میں داخل کرایا گیا جہاں سے انھوں نے ۱۹۵۷؁ء میں بی․اے․ اور ۱۹۵۹؁ء میں ایم․اے․(عمرانیات) کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی آگرہ سے حاصل کی۔ ایم ․اے․کرنے کے بعدعرفان صدیقی دہلی چلے گئے اور وہاں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن نامی ادارے سے صحافت میں ڈپلومہ حاصل کیا اور ۱۹۶۲؁ء میں حکومت ہند کے وزارت اطلاعات و نشر یات سے وابستہ ہو گئے اور ملازمت میں ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ۱۹۹۷؁ء میں حکومت ہندمیں ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر یس انفارمیشن بیورو کے علاقائی دفتر کے سربراہ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے‘‘۔(تسلیم غوری بدایونی)

پہلی سچائی ختم ہوئی کہ جو ملازمت میں آیا ہے، وہ سبکدوش ہوگا اور دوسری سب سے بڑی سچائی جو پیدا ہوا ہے اسے مرنا بھی ہے اور اسی سچائی کوثابت کرنے کے لیے ۶۶سال ایک ماہ اور پانچ دن کی عمر پر ۱۵؍اپریل ۲۰۰۴؁ء کو انتقال ہوا۔اﷲ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔

پروفیسر ملک زادہ منظور احمدکا ایک مظمون جو عرفان صدیقی کے انتقال پر ’امکان‘ میں شائع ہوا تھا ، یہی مضمون اس خاک سارنے اپنی نئی کتاب ’کسک‘ میں شامل کیا ہے۔کتاب زیر طبع ہے۔’’مذکورہ مضمون آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’کب تلک حلقۂ زنجیر میں کرتا رہوں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہے تو اجازت مجھے دیں

اور پھر۱۵؍ اپریل ۲۰۰۴؁ء کی شام کے نو بجے حلقۂ زنجیر کا یہ رقص بھی تمام ہوگیا۔ کھیل دیکھ لیا گیا اور ’’ہوائے دشتِ ماریہ‘‘ کو’سات سمٰوات‘ کی جانب اذنِ سفر مل گیا۔ اس رقصِ زندگی کو جو میں بہت دنوں سے دیکھتا چلا آ رہا تھا، آخری لمحات میں بھی دیکھا۔ساڑھے آٹھ بجے میں میڈیکل یونی ورسٹی کے اس وارڈ سے نکلا جہاں یہ ’’دریا‘‘ سمندر سے ملنے والا تھا۔سانسوں کی رفتار تیز اور نبض کی رفتا رمدھم پڑ چکی تھی۔ میرے ساتھ میرا بیٹا پرویز ملک زادہ بھی تھا۔ ہم زینے سے اتر رہے تھے ، ایک پرانے دوست انجمؔ ملیح آبادی ان کے پاس جاتے ہوئے ملے۔ انہوں نے پوچھا کیا حال ہے، میں نے کہا زیادہ سے زیادہ ’’شب درمیاں‘‘ تک کی کہانی ہے۔نیچے ڈاکٹر عثمان کوثر مل گئے، بولے کیا آپ عرفانؔ صدیقی کو دیکھنے آئے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ کہنے لگے صبح مشکل سے ہو سکے گی۔ میں سیدھا صحافت کے دفتر پہنچا۔ امان عباس مل گئے ۔ صورت حال پر گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ موبائل کی گھنٹی بجی او ر ایک روتی اور سسکتی ہوئی آواز نے یہ خبر دی کہ کہانی ختم ہو گئی۔اور پھر اس کے بعد وہی ہوا جو عموماً ہوتا ہے۔ ہم امانؔ عباس کے ساتھ میڈیکل یونیورسٹی پہنچے۔ انکے جسدِ خاکی کو ان کے اعزہ ان کے گھر لائے اور دوسرے دن نماز جمعہ کے بعد ان کی تدفین ڈالی گنج کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک بیوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیوں کے علاوہ انہوں نے کینوس ، شبِ درمیاں، سات سمٰوات، ہوائے دشت ماریہ، عشق نامہ کے علاوہ کالی داس کا ترجمہ، مالوی کا اگنی منتر اور متفرق نثری تحریریں چھوڑیں۔

عمر میں وہ مجھ سے کم و بیش آٹھ برس چھوٹے تھے مگر تہذیبی رویوں میں رکھ رکھاؤ تھا اور خود کو اتنا لیے دیے رہتے تھے کہ کبھی ’تم‘ کہنے کی ہمت مجھ میں نہ ہوئی۔ ایک دوسرے کے گھر پر آنا جاناتو کم ہوا مگر گھر کے باہر خوب خوب ملے۔ لکھنؤ کی جن سڑکوں پر مجاز’ؔ ناشاد وناکارہ پھرا کرتے تھے‘ ہم نے اکثر رت جگے کیے ہیں۔طے شدہ پروگرام کے تحت میں روزنامہ صحافت کے دفتر پہنچا، وہ اداریہ لکھنے سے فارغ ہوئے امانؔعباس نے چائے منگائی، اپنی سگریٹ کے پیسے عرفانؔ نے خود دیے، ظہیر خاں آگئے، تھوڑی دیر تک گپ شپ ہوئی، رات گیارہ بجے طے ہو گیا کہ کھانا ہوٹل میں کھایا جائے گا۔ سب کے سب نکل پڑے، کبھی ٹائمس آف انڈیا کے دفتر کے قریب،شاکاہاری اور کبھی پریس کلب کے پاس غیر شاکاہاری ہوٹلوں میں گئے۔ کھانا تو محض ایک بہانہ تھا، مقصد صرف سیر و تفریح اور انجمن آرائی میں تھوڑا سا وقت گذارنا ہوتا تھا۔اخبار کے مالک امانؔ عباس تو خیرعمر میں تو بہت چھوٹے تھے، ظہیر خا ں وکیل جو ہم عمر ہی رہے ہونگے، کبھی یہ ہمت نہیں کر سکے کہ ان کے دائرہ احترام میں تھوڑی سی بے تکلفی برت لیں۔دونوں کسی حد تک ان سے ڈرے اور سہمے ہی رہتے۔ عرفانؔ کچھ کھلے تو مجھ سے کھلے۔ مگر وہ بھی اس وقت جب ان دونوں کو رخصت کر لیا اور ہم دونوں ایک رکشہ پر بیٹھ کر گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ میں نے ان کوہاتھی پارک کے پاس اُتارا، انھون نے کرایہ ادا کرنا چاہا، ہم دونوں میں تھوڑی بہت تکرار ہوئی، مجھے اس رکشہ پر آگے جانا ہے۔ ان کا اصرار کہ وہ میرے منزل مقصود تک کا کرایہ اداکریں گے۔ میرا انکار کہ مجھے آگے جانا ہے، میں کرایہ ادا کروں گا۔ کبھی وہ جیتے کبھی میں ہارا، کبھی میں جیتا اور کبھی وہ ہارے۔ اور یہ سلسلہ اکثر جاری رہا۔

ایک دن میرے ایک دوست سر راہ مل گئے۔ شام کا وقت تھا انہوں نے خبر دی کہ دریا کے کنارے ایک نیا رسٹورینٹ کھلا ہے، اچھے اچھے لوگ آتے ہیں۔ فضا بے حد خوشگوار رہتی ہے چلو وہیں چل کر کافی پیتے ہیں۔ میں ان کی کار پر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے ہمارا گذر بارہ دری کے جانب سے ہوا۔ میں نے ان سے کہا چلو صحافت کے دفتر میں دیکھ لیتے ہیں، اگر عرفانؔ صدیقی ہوں تو ان کو بھی ساتھ لے لیں۔وہ بہت خوش ہوئے۔ ہم دونوں صحافت کے دفتر گئے، عرفانؔ مل بھی گئے، ان کو بھی ساتھ لیا گیا، مگر اب وہ دریا کے کنارے والی فردوس تلاش شدہ کے بجائے حضرت گنج کے کافی ہاؤس میں لے گئے، اور وہیں ہماری ضیافت کی۔عرفان سگریٹ لینے کے لیے باہر نکلے تو میں نے ان سے پوچھا ’’تم نے تو دریا والے رسٹورنٹ میں چلنے کا ذکر کیا تھا، آخر وہاں کے بجائے یہاں کیوں آگئے؟‘‘ بولے’’ یار!وہاں لڑکیا ں وڑکیاں آتی ہیں، عرفان بھائی کے ساتھ اتنے Exposure کی ہمت نہیں ہوئی۔

عرفانؔ صدیقی اپنے تمام ملے جلنے والوں کے ساتھ ایک ایسا ’باوقار احترام آمیز فاصلہ‘ رکھتے تھے کہ کوئی ان کی ذاتیات میں دخل دینے کی جرأ ت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ میری ان کی کسی حد تک بے تکلفی اس زمانے میں ہوئی جب انکا دفتراشوک مارگ پر منتقل ہوا۔ میں اس زمانے میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کا چیر مین تھااور دفتر کے بالکل سامنے اندرا بھون میں بیٹھا کرتا تھا۔ ہم ملنے کے لیے ایک دوسرے کے دفتر آتے جاتے رہتے تھے۔ دفتر میں چائے کا انتظام نہایت ہی نامعقول تھا۔اس لیے ہم نے طے کیا کہ ہفتہ میں دو دن ہم ٹھیک ڈیڑھ بجے قریب کے ہی ’’رٹز‘‘ ہوٹل میں ملا کریں گے۔ ہماری ان کی ملاقاتیں جو عرصے تک جاری رہیں، ہمارے درمیان قدرے بے تکلفی کا سبب بن گئیں۔ قدرے کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا اس لیے کہ انہوں نے اپنے بے تکلف ترین دوستوں کو بھی ایک خاص منزل تک ہی بے تکلف ہونے کی اجازت دی۔ انہوں نے جو حدِّ فا صل قائم کر رکھی تھی اس کے اندر داخل ہونے کی کسی میں بھی ہمت نہیں ہوئی اور چونکہ میں انکے مزاج کو سمجھتا تھا اس لیے میں نے بھی بے تکلفی تو رکھی مگر اس حد تک جہاں تک وہ خود بے تکلف ہوئے اور شائد یہی وجہ تھی کہ ہم دونوں اکثر اپنے اپنے جذب و شوق کو آسودہ کرنے کے لیے فرصت و فراغت کے کچھ لمحات نکال لیا کرتے ۔ عرفان ؔصدیقی اپنے تعلقات میں حفظِ مراتب کابے حد خیال رکھتے تھے وہ اپنے خوردوں کو خورداور بزرگوں کو بزرگ کا درجہ دیتے تھے۔

مجھے اچھی طرح بد ایوں کی ایک ادبی تقریب یاد ہے جس میں ہم دونوں ساتھ ساتھ ایک ہی کمرے میں ٹھہرے ۔ بغل کے کمرے میں بدایوں کے رہنے والے اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے لکچرر معروف شاعر اسعدؔ بدایونی اپنی محفلِ ناؤ نوش کو آباد کیے ہوئے ہنگامہ پرور تھے۔ میں نے ان سے کہا چلئے دیکھ آتے ہیں کیا ہنگامہ ہو رہا ہے۔ مگر عرفانؔ میرے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔’’وہ میرا خورد اور ہم وطن ہے۔ اگر میں وہاں گیااور اس کو اس حالت میں دیکھا تو اُسے شرمندگی ہوگی‘‘۔ اور انہوں نے نہ صرف اسعدؔ کے کمرے میں جانے سے احتراز کیا بلکہ مجھے بھی وہاں جانے سے روکا۔ وہ ’’لا اُبالی پن‘‘ جوعام طور پر اردو شعراء کے تصور کے ساتھ اُبھر تا ہے اس کا کوئی تعلق عرفانؔ صدیقی سے دور دور تک بھی نہیں تھا۔

عرفانؔ صدیقی نے شعر ا دب کی خدمت ، ہمیشہ شتائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ کیے بغیر کی۔انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور اپنے تخلیق عمل پر بھروسہ تھا۔ اعزاز و اکرام دینے والے اردو اداروں میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور کس طرح جوڑ توڑ ، ساز باز اور چاپلوسی سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس سے وہ خاطر خواہ واقف تھے۔ مگر انکے تہذیبی رویوں نے کبھی اس بات کی اجازت ہی نہیں دی کہ وہ حرفِ طلب یا حرفِ شکایت زبان پر لاتے۔ انہوں نے ایک غزل میں کہا تھا ؂
ہاں! اہلِ زر کے پاس خزانے تو ہیں مگر
مولا کا یہ فقیر ضرورت کہاں سے لائے

ان کی اس افتادِ مزاج میں عشق رسولؐ اور محبت اہل بیت کا بڑا دخل تھا۔ جس میں ان کا قالب ڈھالا گیا تھا۔ یہ وہ خاندانی ترکہ تھا جو ان کو اپنے اسلاف سے ملا تھا۔ اور جو اردو شاعری کی روایات سے ہم آہنگ ہو کر ان کی بیشتر غزلوں میں ایک موج تہ نشیں بن گیاتھا۔ یہ محض شاعری کا ایک بہانہ نہ تھا بلکہ اسی عقیدے کی پختہ بنیادوں پر کھڑے ہو کر انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنی شاعری دونوں کا نگار خانہ سجایا تھا۔ انہوں نے کالیداسؔ کی ـ’رتو سنگھار‘ کا بھی منظوم ترجمہ کیا ہے اور ’’عشق نامہ ‘‘ بھی تخلیق کیا ہے وہ حسن کی اداؤں کے رمز شناس ، جمالِ دوست کے وصّاف اور کاروبارشوق کے شارح اور ترجمان بھی رہے ہیں۔ مگر ان کااستعاراتی نظام جو جگہ جگہ ان کے کلام میں چمک جاتا ہے وہ وہی ہے جو اہل بیت اور کربلا کے حوالے سے ان کو ملا ہے۔

جب وہ سنجے گاندھی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے صحت یاب ہو کر نکلے تو ایک دن میں ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر گیا۔انکے سبھی احباب کو معلوم تھا کہ یہ عارضی وقفہ ہے اس لیے کہ کینسر کے ریشوں کی موجودگی کی خبر سبھی کو مل چکی تھی، مگر ان سے چھپائی گئی تھی۔ دورانِ علالت انہوں نے جو منقبت کے اشعار کہے تھے وہ مجھے سنائے۔ بھابھی بھی موجود تھیں۔ ان کو سارا علم انکی علالت کے بارے میں تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دورانِ گفتگو انہوں نے بھابھی سے کہا تھا’’تم میرے لیے دعا کرو، اس لیے کہ تم امام زین العابدینؑ کے خاندان کی ہو، تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی‘‘ ۔ عرفان کچھ دنوں تک تو ٹھیک رہے، صحافت کے دفتر اور تقریبات میں آتے جاتے رہے۔ نفیسؔ غازی پوری کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ میں خاصے شاداں و فرحاں تھے۔ شہر یارؔ بھی آ گئے تھے، مجھ سے بڑی دیر تک حسب معمول روشن اور چمکدار باتیں کرتے رہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد اسی اتھاہ اور گہری بیہوشی میں میں نے ان کو میڈیکل یونی ورسٹی میں دیکھا، جس میں کچھ ماہ پہلے سنجے گاندھی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں دیکھ چکا تھا۔ اس بار وہ ہوش میں نہیں آئے اور ان کا ایک شعر سچ ثابت ہوا ؂
ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہو جانا
نعرۂ ہو ہے تو کیا، شورِ سلاسل ہے تو کیا

چراغ شب افسانہ بچھ چکا ہے۔ پیمانہ لبریز ہو کر چھلک چکا ہے۔ اب ہمارے درمیان کوئی عرفان صدیقی نہیں ہیں۔ شعر ادب کی دنیا میں چاروں طرف دیکھتا ہوں ، قرب و جوار میں کوئی ایسا نہیں نظر آ رہا ہے جو اس کا بار اٹھانا تو در کنار اس کے کشکول فقیرا نہ کا ہی بار اُٹھا لے‘‘۔

شعیب نظام صاحب کے مضمون کے حوالے سے ’’عرفان صاحب کے گھر کے نیچے والے کمرے میں ایک محفل تھی وہ اپنی غزل سنا رہے تھے، ابھی وہ مطلع ہی پر تھے ؂
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے کہ آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
ندیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے، ’جی پرندہ اچھا‘

عرفان بھائی کے چہرے کا رنگ بدل گیا بولے ’’ میں پہیلیاں نہیں بجھا رہا ہوں‘۔ کمرے میں ایک سنّاٹا، مگر چند لمحوں کے بعد وہ خود ہنس دیے اور اس دن ہم لوگ بقول شاعر بس ڈوبتے ڈوبتے بچ گئے۔

اپنی شاعری کی طرح عام گفتگو میں بھی لفظوں کو بہت سلیقے اور احتیات کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ اپنے چندمخصوص دوستوں کے علاوہ وہ احباب سے بھی زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پن کے احساس کے ساتھ ایک خاص طرح کا حجاب بھی درمیان میں پڑا رہنے دیتے تھے، اس لیے دور سے دیکھنے والوں کو وہ تھوڑے خشک مزاج نظر آتے تھے مگر در حقیقت وہ بہت نرم مزاج، شفیق اور وضعدار انسان تھے۔ ہاں جذبات کے بے محابا اظہار سے انہیں وحشت ہوتی تھی مگر ان کاچہرہ آئینہ مثال تھا اس میں ہر طرح کے جذبات فوراً اپنا عکس دکھا دیتے تھے، ناگواری اور خوشی ان سے چھپائے نہیں چپتی تھی۔

عرفان بھائی کے اندر ’سلف رسپکٹ‘ کا جذبہ بہت شدید تھا مگر وہ سخت غصہ کے عالم میں بھی اپنا آپانہیں کھوتے تھے۔ ایک سمینار میں نارنگ صاحب کی تقریر کے دوران انھوں نے شاید نےّر صاحب سے مخاطب ہو کر کوئی بات کہی۔ نارنگ صاحب کے احتجاج پر عرفان بھائی نے جواب دیا، ’معاف کیجئے گا میں سمینار سمجھ کر آگیا تھا مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ آپ کا کلاس روم ہے‘ اور وہ ا ٹھ کر چلے آئے۔

ایک دوسرا واقعہ علی گڑھ کے ایک مشاعرہ کا ہے جس میں شہر یار صاحب نے عرفان بھائی کو اور شاید ان کا ساتھ دینے کے لیے مجھے بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ ہم لوگ علی گڑھ پہنچے تو ہمارے رکنے کا انتظام گیسٹ ہاؤس کے ایک کشادہ سے کمرے میں کیا گیا۔ شام کو ہم لوگ شمشاد مارکیٹ کی طرف گھومنے نِکل گئے مگر واپسی پر حیران رہ گئے کیونکہ ہمارا سامان کمرے میں موجود نہیں تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جعفری صاحب اور نارنگ صاحب سمیت کچھ اور مہمان آگئے ہیں اور شہر یار صاحب نے کمرہ تبدیل کرا دیا ہے۔ یہ بات عرفان بھائی کو اتنی ناگوار گذری کہ انھوں نے مشاعرے میں شرکت کے بجائے واپس کا فیصلہ کر لیا اور اسٹیشن روانہ بھی ہو گئے مگر تب تک شہر یار صاحب کو پتہ چل گیا تھا وہ بھاگے ہوئے آئے بڑی مشکلوں سے عرفان بھائی کو روکنے میں کامیاب ہو سکے۔ عرفان بھائی کو دراصل شکایت یہ تھی کہ کمرہ تبدیل کرنے سے پہلے انھیں بتایا کیوں نہیں گیا۔ مشاعرے کے بعد بھی وہ اپنے کو پوری طرح نارمل نہیں کر سکے اور دیر تک جاگتے اور سگریٹ پیتے رہے۔اس رات انھوں نے ایک عجیب سی بات کہی بولے کبھی کبھی شہر یار سے ڈر لگنے لگتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شخص انتہائی شریف ہے یا انتہائی منافق ‘‘۔

عرفان صدیقی کے مندرجہ ذیل شعری مجموعے منظر عام پر ہیں اور داد تحسین حاصل کر رہے ہیں:

نمبر شمار --- نام کتاب ---- سنہ اشاعت ---- مقام
۱ ------------کینوس ---- 1978 -------- لکھنؤ
۲------- شب درمیاں------ 1984--------- “
۳------- سات سماوات----- 1992-------- “
۴--------- عشق نامہ -------1997------ دہلی
۵----- ہوائے دشت ماریہ----- 1998 -----کراچی
۶------ دریا (کلیات)------- 1999------- ‘‘

انعامات
شمار----- انعامات
۱ --- ’میر‘ اکادمی لکھنؤ کی جانب سے ’نشان امتیاز ‘ کا اعزاز
۲ ---- بھارتیہ فنکار سوسائٹی لکھنؤ کی جانب سے ’آنند نرائن ملّا ایوارڈ‘۔
۳ --- اتر پردیش اردو اکادمی کی جانب سے۱۹۹۸؁ء میں مجموعی خدمات سے سلسلہ میں اکیاون ہزار روپے کا انعام۔
۴ غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی کی جانب سے ’غالب ایوارڈ(برائے شاعری)
۵ ادارۂ لوح و قلم(رجسٹرڈ) لکھنؤ نے ’اعزاز مصحفی‘
۶ علی مشن لکھنؤ نے حضرت علیؑ کے چہاردہ صد سالہ جشن ولادت پر ’علی صدی ایوارڈ‘
۷ ہندوستان و پاکستان کی کئی اہم انجمنوں نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سپاسنامے پیش کیے۔
Shamim Eqbal Khan
About the Author: Shamim Eqbal Khan Read More Articles by Shamim Eqbal Khan: 72 Articles with 67366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.