فقہ۔۔۔اور اس کے ماخذ

فقہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں واقفیت، علم، احکام شریعت کی معلومات، علم دین اور شریعت کا علم۔ ابتدائے اسلام میں تفقو فی الدین کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ جس کے معنی دین کے بارے میں غوروفکر کرنے کے ہیں۔ شروع میں تمام علوم اسلامی یکجا تھے۔ منبع علم ذات رسالت تھی۔ وحی الہی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیتے اور آپ بتادیتےتھے۔ اللہ کو خود کوئی شریعت کا حکم بتانا ہوتا تو وہ وحی کے ذریعے نازل کرتا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسکا اعلان کرتے۔ اس دور میں قرآن، حدیث اور فقہ سب ایک ہی جگہ تھے۔ علیحدہ علیحدہ ناموں سے موسوم نہیں ہوتے تھے۔ لیکن وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب علوم اسلامی کا دائرہ وسیع ہوا اور ہر شاخ علم میں مواد آنا زیادہ ہوگیا کہ انھیں یکجا رکھنا مشکل ہوا تو ان کی شاخیں کر دی گئیں۔ علوم اسلامی کو عقائد، عبادت اور معاملات کے عنوانات کے تحت تقسیم کرلیا گیا۔ عقائد نظریات سے متعلق تھے۔ ان کو علیحدہ کرکے علم الکلام کے تحت جگہ دیگئی۔جبکہ عبادات اور معاملات کو ملا کر فقہ میں شامل کیا گیا۔ تمام تر دینی احکام جو ان عنوانات کے تحت آتے تھے وہ سب فقہ کا موضوع قرار پائے۔ احکام الہی دو قسم کی ہیں۔
امر اور نہی ۔
امر وہ امور ہیں جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہی وہ اعمال ہیں جنہیں ترک کر نے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہی امور کو فقہ کی اصطلاح میں حلال و حرام کہتے ہیں۔ قرآن میں حکم ہے،
ترجمہ۔ ہم نے تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں اور نجاستوں کو حرام کردیا ہے۔ یہ ایک عام کلیہ ہے جس کے تحت حرام و حلال کا تعین ہوتا ہے۔ یہی فقہ ہے۔

ماخذ فقہ۔ ماخذ سے مراد وہ بنیادیں ہیں۔ جہاں سے ہم اسلامی فقہ کے احکام مضبط کرتے ہیں۔ اسلامی احکام بنیادی طور پر وحی کی صورت میں حضرت جبرائیل کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوئے اور کتاب شریعت قرآن مرتب ہوئی۔ ماخذ فقہ درج ذیل ہیں۔

قرآن:۔ اسلامی احکام فقہ کا پہلا ماخذ قرآن ہے۔ یہ اولین ماخذ ہے۔ جو تیئیس سالہ زندگی رسالت میں نازل ہوا۔ اس میں مختلف آیات، مختلف حالات اور مختلف مقامات کے اعتبار سے نازل ہوئیں۔ قرآن جو تیس پاروں اور ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل ہے خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ، "دنیا کا کوئی ایسا خشک و تر جو اس کتاب میں موجود نہ ہو"۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ، " اگر میرے اونٹ کی رسی گم ہو جائے تو اس کا پتہ قرآن سے چل سکتا ہے"۔ گویا ہر چیز اس جامع کتاب میں موجود ہے۔ اس کتاب میں عقائد بھی ہیں، تاریخی واقعات بھی ہیں اور احکام بھی۔ فقہ میں اس کے صرف اس حصے سے بحث ہوتی ہے جو احکام کے ذیل میں ہیں۔ لیکن اس کی تقسیم اس طرح نہیں ہے کہ تاریخی حصے علیحدہ ہیں اور احکام علیحدہ ہیں بلکہ تمام چیزیں یکجا اور ملی جلی ہیں۔ اس لئے احکام فقہ اخذ کرنے کے لئے پورے قرآن پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔

حدیث:۔ دنیا کے تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کے بعد حدیث کا درجہ ہے۔ حدیث فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ ہے۔ اس کی اہمیت کسی طرح قرآن سے کم نہیں۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول زبان کو اس وقت تک حرکت نہیں ہوتی جب تک وحی نازل نہیں ہوجاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی عملی طور پر احکام خدا کی آئینہ دار اور قرآن کی تفسیر ہے۔ قرآن کے بعد حدیث کو ثانوی درجہ دینے کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ قرآن لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے کلام الہی ہے جب کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل ہے۔

اجتماع علماء:۔ پہلے دو ماخذ فقہ پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ لیکن اس کے بعد اور کیا کیا چیزیں ماخذ فقہ ہو سکتی ہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں نے یہ اصول وضع کیا کہ علماء کی اکثریت کے فیصلہ کو اہمیت دی جائے گی۔ لہذا علماء کی اکثریت جس بات پر جمع ہو جائے وہ قانون بن سکتا ہے۔اس طرح تمام مسلمانوں کے نزدیک فقہ کا تیسرا ماخذ اجماع علماء ہے۔
اجتہاد:۔ اجتہاد کا لفظ جہد سے نکلا ہے۔ جس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں۔ لہذا اجتہاد سے مراد وہ فیصلے ہیں۔ جو پوری محنت اور علمیت کے ساتھاپنی عقل کے مطابق کئے جائیں۔ اجتہاد کو بہت اہمیت حاصل ہے اس کی بنیاد وہ واقعہ ہے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ان سے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں کے درمیان فیصلے کس طرح کرو گے اس سوال کو چار مرتبہ دہرانے سے حضرت علی علیہ السلام نے جو چار جوابات دیئے وہ فقہ کے چاروں ماخذ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی ترتیب بھی بتاتے ہیں۔ یعنی سب پہلے قرآن، پھر حدیث، پھر اجماع علماء، اور اسکے بعد عقل اور یہی عقل کا استعمال اجتہاد کہلاتا ہے۔