ہم الفاظ کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں

 پہلے پہل اظہاررائے کے لئے اشاروں اور پھر تصاویر کا سہارا لیا جاتا تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تصاویر الفاظ میں ڈھلنے لگی ۔مختلف آوازوں نے الفاظ کا روپ دھارا ۔ اس طرح آہستہ آہستہ الفاظاور جملے رائج ہونے لگے ۔اور مختلف زبانوں کا ظہور ہوا ۔ہر علاقے کے رہنے والے لوگوں نے اپنے رنگ ، اپنے اندازمیں اور اپنی سوچ کے مطابق الفاظ کو اچھوتا پیراہن دیا۔حضرت انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے تب سے وہ اپنے احساسات ، جذبات کا اظہار کر رہاہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ جو سوچتا ہے ، اس کا اظہار کرے ، اس کوسنا جا ئے ، اورجب اس سے بات کی جائے تو وہ سنے ۔اس طرح ہر علاقے کا اپنا ادب تخلیق پایا ۔کسی نے اظہار خیال کے لیے ربائی لکھی تو کسی نے غزل کہی۔کہیں افسانہ لکھا گیا تو کہیں داستان کہی گئی۔ اس طرح ادب کی مختلف اصناف نے اظہاربیاں کومزید آسانی بخشی ۔انواع و اقسام کے ادب نے انسان کے تخیل کو بے پناہ وسعت دی ۔دوسری جانب گزر جانے والوں کے کارناموں کو تاریخ کی صورت محفوظکر لیا گیا گیا۔ گویا صدیاں گزر جانے کے باوجود اقوام اور ان کے کارنامے زندہ و جاوید ہو گئے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب میں نئے سے نئے الفاظ کا اضافہ ہوا ۔ زبانوں کی شکلیں بہتر سے بہترین ہوتی چلی گئی ۔ اور جس علاقے میں وہاں کے لوگوں نے اپنی زبان کی قدر نہ کی وہاں دنیا سے ان زبانوں کا نام ونشان بھی مٹ گیا۔
یہی الفاظ جب کسی شاعر کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو نظمیں اور غزلیں وجود پاتی ہیں ۔ جب ادیب کی قلم سے ادا ہوتے ہیں تو افسانے ، ناول اور کتابیں بن جاتے ہیں ۔جب موسیقی کی صورت ادا ہوتے ہیں تو انسان کو جھومنے پر مجبور کرتے ہیں اور روح کی غذا کہلاتے ہیں۔ جب عالم دین کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو دین کی بھلائی ، اجتہاد اور لوگوں کو سیدھی راہ پر لانے کا سبب بنتے ہیں ۔ عالم کے الفاظ روشنی کی مانند مشعل راہ ہوتے ہیں ۔اور اس روشنی میں عوام اپنی زندگی گزارنے کے اصول متعین کرتے ہیں ۔اس طرح عالم دین پر ذمہ داری بھی زیادہ عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام قوم کو راہ دکھا بھی سکتا ہے اور راہ سے بھٹکا بھی سکتا ہے ۔ عموما عوام علما ء کی بات پر تحقیق نہیں کرتے بلکہ صرف تقلید کرتے ہیں ۔ الفاظ کی اہمیت ان ادا کرنے والے سے منسلک ہے ۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو اذان کی صورت میں جب مؤذن کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو لوگوں کو نماز اور فلاح کی طرف بلاتے ہیں اور خدا کی پکار کہلاتے ہیں۔جب کوئی عام شخص کچھ کہتا ہے تواس کے اثرات اسی کے حلقہ احباب تک محدود رہتا ہے جبکہ کسی بھی ملک کے سربراہ کا ادا کردہ ایک جملہ بھی ملک کی تقدیر کے فیصلے کر دیتا ہے۔الفاظ کے مرتب ہونے والے اثرات کا تعلق بولنے والے کے مقام پر ہے ۔۔گویا جس قدر جس کا مقام و مرتبہ جتنا اہم ہو گا اسی قدر اس کے الفاظ کی اہمیت اور ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے ۔ ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ الفاظ اﷲ کے قریب لے کر گئے تو انسان کو مومن بنا دیا۔ اور اﷲ سے دور لے کر گئے تو فرعون و نمرود بنا دیا۔

اگر ان کا استعمال درست انداز میں کیا جائے تو یہ عزت و توقیر میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں ، سخت اور تلخ ہوں تو غرور کا شائبہ دیتے ہیں ۔ گالی کی صورت میں ادا ہوں تو گناہ کہلاتے ہیں اور اگر تیمارداری کی صورت ادا ہوں تو نیکی بن جاتے ہیں ۔نرم گوئی سے کہے گئے الفاظ آپ کو کسی کے دل میں اعلیٰ مقام دے سکتے ہیں جبکہ ترش گوئی آپ کو اپنے مقام سے کہیں نیچے گرا سکتی ہے ۔ یہ الفاظ ہی ہیں ہر رشتے کو ایک ان دیکھی زنجیر میں باندھے رکھتے ہیں،رشتوں کومضبوطی سے جوڑے رکھتے ہیں اور یہی الفاظ دو انسانوں اور بسا اوقات تہذیبوں کے درمیان دوری کی ایک خلیج بنا دیتے ہیں۔بظاہر الفاظ کی ادائیگی کا انداز ان کی اہمیت کی ذمہ دار ہوتا ہے ۔جس انداز میں ادا کیا جائے گا اسی انداز میں محسوس کیا جائے گا ۔گویا یہ لفظ بظاہر اپنی کوئی زبان نہیں رکھتے ۔ انداز بیاں کے محتاج یہ الفاظ جب صفحہ قرطاس پر بکھرتے ہیں تو ان گنت کہانیوں کو جنم دیتے ہیں ، تاریخ کہلاتے ہیں یا ادب کے عظیم شاہکار۔۔ کہیں پر چند الفاظ صدیوں کے فاصلے مٹا دیتے ہیں اور کہیں کچھ الفاظ فاصلے اتنے بڑھا دیتے ہیں کہ عمر سفر میں گزر جاتی ہے اور فاصلے طے نہیں ہو پاتے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے پہلے تولو پھر بولو یعنی اچھی طرح سوچو پھر الفاظ ادا کرو کیونکہ یہ انسان کے اپنے جملے ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اس کے مقام کا تعین کرتے ہیں ۔کسی انسان کا بے تکان بولنایا کم بولنا اس کی شخصیت کا غماز ہے کہ وہ شخص کس حد تک اچھا سامع یا کس قدر اچھا مقرر ہے ۔کیونکہ یہ الفاظ ہی ہیں جو انسان کی اندرونی کیفیت ، اس کے خیالات کے عکاس ہوتے ہیں ۔ انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کے بولنے کے انداز سے کیا جاتا ہے ۔ جو جس قدر نرم اور حساس دل ہو گا وہ اسی قدر نرم خو بھی ہو گاکہا جاتا ہے کہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے تو وہ اس لیے کہ آپ کے کہے گئے الفاظ سسنے والے کے دل میں ثبت ہو جاتے ہیں ۔سامع پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہی الفاظ ان کے دل میں آپ کے مقام کا تعین کریں گے اور آپ کا اس سے تعلق مضبوط ، دیر پا یا کمزور ہو سکے گا ۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے الفاظ کا نہیں یہ الفاظ اگر تلخی سے بھرپور ہوں تو کسی کو خنجر کی مانند گھائل کر سکتے ہیں ۔ الفاظ کا خنجر جب دل کو گھائل کرتا ہے تو بنا آواز کے بہت گہرا زخم دیتا ہے ، اس زخم سے صدیوں خون رستا رہتا ہے ۔ اور ایسے زخم اپنے انمٹ اثرات چھوڑ جاتے ہیں ہر بار کسی موقعے پر یہ زخم دوبارہ ہرے ہو جاتے ہیں جب انسان ان کو یاد نہیں کرنا چاہتا۔ ۔ اس کے برعکس یہ الفاظ ہی ہیں جو کسی کے دل میں محبت کے دیپ جلا کر اس کی آنکھوں کو سپنوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔
سائنس نے ثابت کیا ہے کہ آواز کی لہریں ہوا ، پانی ، اور تقریبا تمام اجسام سے با آسانی گزر سکتی ہیں ۔ گو آواز کی یہ لہریں روشنی کی نسبت آہستہ سفر کرتی ہیں لیکن یہ لہریں کانوں سے ہوتی ہوئی دل میں اتر جاتی ہیں اور ہمیشہ دلوں پر اپنا عکس چھوڑ جاتی ہیں۔ گویا ا لفاظ ضائع نہیں ہوتے بلکہ یہ لہروں کی صورت کائنات میں محفوظ کر لیے جاتے ہیں گویا ہمارے الفاظ ہماری گواہی کے طور پر سنبھال لیے جاتے ہیں ۔اور یہ الفاظ ہمارے اعمال بن جاتے ہیں۔بلکہ یوں کہیے ہم اپنے ہی الفاظ کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں اور ان کے لیئے ہمیں جوابدہ بھی ہونا ہے ۔ حدیث نبوی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ الفاظ کا استعمال اچھے طریقے سے کریں۔
۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
جو بول زبانوں نکل گیا
او تیر کمانوں نکل گیا

 
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 150214 views i write what i feel .. View More