پڑھو پنجاب۔بڑھو پنجاب

محترم وزیرِ اعلیٰ صاحب
میں کوئی نجومی نہیں اور نہ ہی کاہن ہوں،لیکن پھر بھی آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ آپکی پڑھو پنجاب ،بڑھو پنجاب مہم ،بالکل ناکام ہے،اور اشتہار بازی کے سوا یہ کچھ بھی نہیں۔کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے اس لئے آپ کو بھی اسکی کڑواہٹ محسوس ہو گی۔

چند حقائق آپ کے گوش گزار ہیں،برائے مہربانی پڑھ کہ فیصلہ کیجئے گا۔ہوسکتا ہے شہروں کے چند سکولوں کی حالت مختلف ہو لیکن میں پورے وثوق سے ان 90 فیصد سکولوں کی بات کر رہا ہوں جن کی 99 فیصد تعداد دیہات میں ہے۔
1۔ جن سکولوں میں میں آپ بچوں کو داخل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں،وہاں تو پہلے ہی ،ہر کلاس میں 70 سے 80 طلبا زیرِ تعلیم ہیں۔
2۔ایک استاد کے پاس معیاری تعداد3 گنا تک بچے موجود ہیں۔(معیار۔30۔ بچے فی استاد۔موجودہ تعداد۔70تا 80 بچے فی استاد)
3۔زیادہ تر سرکاری سکولوں کی عمارتیں ناکافی ہیں،اور آج بھی بچے درختوں کے نیچے بوریوں پہ بیٹھ کر پڑھنے پہ مجبور ہیں۔
4۔پانی اور ٹائلٹس جیسی سہولتیں آج بھی تعداد کے لحاظ سے ،نہ ہونے کے برابر ہیں۔بچے گندا پانی پینے پہ مجبور ہیں اور ٹائلٹس کی کمی کی وجہ سے سارا دن لائن میں کھڑے ہو تے ہیں۔
5۔گرمی کا موسم شروع ہو چکا ہے،لیکن سرکاری سکولوں میں بجلی کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں۔
6۔آپ سرکاری افسران اور عوامی نمائندوں کو سکول اپنانے پر تو مجبور کر رہے ہیں لیکن کیا ،ان افسران ،عوامی نمائندوں ،اور آپ کے اپنے خاندان کے بچے سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں؟
7۔آپ کے نمائندے اور افسران شہروں میں واقع سکول اپنا کہ جان چھڑوانے کی کوشش کر رہے ہیں ،اگر آپ کی ٹیم واقعی ہی مخلص ہے تو دیہاتی سکولوں سے کیوں دور بھاگ رہے ہیں؟کیونکہ اے سی کی ٹھنڈی ہواؤں میں رہنے والے ،پنٹ کوٹ پہنے یہ بابو گرمی اور دھول سے اٹے سکولوں میں ایک منٹ بھی گزارنے پر تیار نہیں۔
8۔اور آپ کے سرکاری سکولوں کی حالت یہ ہے کہ سرکاری اساتذہ بھی خود اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔جب سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی ان سکولوں پہ اعتماد نہیں کر رہے تو یہاں تعلیم کا معیار کیا ہو گا؟

اب اگر آپ واقعی پنجاب کو پڑھا لکھا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس دو حل ہیں۔

نمبرایک۔آپ صرف اتنا کر دیں کہ تمام اساتذہ ، افسران ،بیورو کریٹس اور عوامی نمائندوں کو اس بات کا پابند کر دیں کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروا دیں۔پھر دیکھیں سرکاری سکولوں کی حالت خود بخود ہی سدھر جائے گی۔

نمبردو۔آپ جتنے فنڈز اشتہار بازی پہ خرچ کر رہے ہیں صرف اتنے فنڈز ہی چھوٹے نجی سکولوں کو قرض کے طور پر دینے کے لئے مختص کر دیں،یوں آپ کی رقم بھی آپ کو واپس مل جائے گی اور آپ کا ہر بچے کو سکول پہنچانے کا خواب بھی پورا ہو جائے گا۔

اگر آپ گلی گلی کھلنے والے نجی سکولوں کی اپ گریڈیشن کے لئے قرض کی سکیم شروع کر دیں تو اس سے درج ذیل فوائد ہو سکتے ہیں۔
1۔بچوں کو خاطر خواہ سہولتوں کی فراہمی یقینی ہو جائے گی۔
2۔چونکہ موجودہ ملکی حالات کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو دور بھیجنے سے ڈرتے ہیں ،اس لئے والدین قریبی سکولوں میں بچوں کو داخل کروانے کی کوشش کرتے ہیں،اور سرکاری سکولوں کی کم تعداد کی وجہ سے زیادہ تر بچے نجی سکولوں میں ہی جاتے ہیں۔یہ قریبی نجی سکول کم آمدن کی وجہ سے وہ سہولتیں دینے سے قاصر ہوتے ہیں جو بچوں کی تربیت و نشوونما کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔اگر آپ چھوٹے نجی سکولوں کے لئے فنڈنگ کی بجائے صرف قرض کی سکیم ہی شروع کر دیں تو بچوں کی تعلیم و تربیت میں کافی حد تک بہتری کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔

نجی سکولوں کو قرض دے کے بہتری کی جانب گامزن کرنے سے درج ذیل فوائد ہوسکتے ہیں۔
1۔ہر بچےکو گھر کے قریب ترین تمام سہولتوں سے آراستہ سکول دستیاب ہو سکتا ہے۔
2۔حکومت کو بھاری تنخواہوں کی ادائیگی اور نئے اساتذہ کی بھرتی کی فکر سے نجات ملے گی۔
3۔جو پیسے سرکاری سکولوں پہ خرچ کر کہ بھی فوائد حاصل نہیں ہو رہے،وہی پیسے قرض کے طور پر دے کر بہترین نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
آپ نجی سکولوں کو قرض فراہم کرتے ہوئے درج ذیل شرائط رکھ سکتے ہیں جس سے ہر بچے تک تعلیم کی فراہمی یقینی ہو جائے گی۔
1۔حکومت کی طرف سے ماہانہ فیس کا ایک معیا ر مقرر کیا جائے گا۔
2۔سکول کی کل تعداد کے دس یا بیس فیصد کے حساب سے بچوں کو مفت تعلیم بھی فراہم کی جائے گی۔
3۔قرض فراہم کرتے ہوئے،آبادی کے لحاظ سے نئے داخلے کا ٹارگٹ دیا جاسکتا ہے۔
4۔علاقے کے غریب و یتیم بچوں کو تعلیم کی مفت فراہمی لازمی قرار دی جا سکتی ہے۔
5۔نجی سکولوں کے لئے یہ شرط رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ہر بچے کو کتابیں اور یونیفارم ،بغیر منافع فراہم کریں۔
6۔گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس،داخلہ فیس اور دیگر فنڈز کی وصولی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
7۔اسکے علاوہ پانی کی فراہمی ،ٹائلٹس ،بجلی کی فراہمی اور دوسری سہولیات کے لئے شرائط بنا کے دی جا سکتی ہیں۔
8۔ اساتذہ کی بھرتی کے لئے تعلیم اور تنخواہ کا معیار مقرر کیا جا سکتا ہے۔

اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ کیا چنتے ہیں،اگر تو آپ واقعی تعلیم عام کرنا چاہتے ہیں تو ،پہلے سے کچھ ہٹ کہ قدم اٹھانا چاہئے،لیکن اگر صرف پبلسٹی اور اشتہار بازی کی مقصود ہے تو شوق سے "پڑھو پنجاب،بڑھو پنجاب" جاری رکھئے۔

محمد قاسم رضا
About the Author: محمد قاسم رضا Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.