سائوتھ ایشاء پارٹنر شپ

سائوتھ ایشیا پارٹنرشپ۔پاکستان کے زیرِ اہتمام عوام سب سے پہلے پروگرام(Citizen First) کے تحت ای ڈی اوزراعت ،ای ڈی او لائیوسٹاک، ای ڈی او واٹرمنیجمنٹ ،ضلعی آفیسرمحکمہ فشریزاور کمیونٹی کے مابین ڈائیلاگ

پنجاب گورنمنٹ مستقبل قریب میں خواتین کے لئے گھریلومعیشت اورلائیوسٹاک میں اضافہ کے لیے ایک بچھڑا مہیا کرے گی۔

سائوتھ ایشیاپارٹنرشپ پاکستان،کے زیرِ اہتمام ضلع بھکرمیں جاری پروگرام ''عوام سب سے پہلے پروگرام 'Citizen First 'سٹیزن فرسٹ کے تناظر میںہوٹل شہزادبھکرمیںعوام اور سرکاری اداروں کے مابین فاصلوں کو کم کرنے اور باہمی جڑت کے حوالے سے ای ڈی اولائیوسٹاک ڈاکٹراے ڈی کھوسہ، ای ڈی او ایگریکلچر شریف مسیح ،ضلعی آفیسرمحکمہ فشریز،احمدنواز،ضلعی آفیسرمحکمہ واٹرمنیجمنٹ ڈاکٹر امتیاز اور کمیونٹی کے مابین ڈائیلاگ کا انعقاد ہوا۔اس پروگرام میں سیپ پاکستان کے نمائندوں کے علاوہ ، وکلائ،پرنٹ و الیکٹرانک میڈیااور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔

ابتداً شرکاء کے باہمی تعارف کے بعدذوالفقارالحسن بھٹی ڈسٹرکٹ پروگرام آفیسرنے سائوتھ ایشیاء پارٹنرشپ ۔پاکستان اورسٹیزن فرسٹ پروگرام کا مفصل تعارف کرواتے ہوئے آج کے ڈائیلاگ کے انعقاد کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہاکہ سٹیزن فرسٹ کی طرف سے ضلع بھکر میںگذشتہ کئی ماہ کام جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ پروگرام ہذ ا کے تحت امن کا قیام ،پائیدار روزگار کا حصول،خواتین کے حقوق کے حصول کی جدوجہد،تعلیم اورصحت پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور سرکاری اداروں کو چاہیے کہ ان سہولیات کی فراہمی عوام تک یقینی بنائیں۔جب تک انسانی بنیادی ضروریات ہر شہری کو میسر نہیں ہوں گی اُس وقت تک امن کا قیام ممکن نہیں۔اس کے علاوہ آج کے ڈائیلاگ کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں اورعام لوگوں کو آپس میں ملاناتاکہ پاکستان کے عام شہری بھی سرکاری آفیسران کے دفاتر تک رسائی حاصل کر سکیں اور اپنے مسائل پیش کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔سیپ پاکستان سرکاری آفیسران اور عوام کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کررہی ہے۔جس سے لوگوں کے مسائل حل میں کافی پیش رفت ہو رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی تمام تر معیشت کا دارومدار زراعت ،لائیوسٹاک اوراچھے پانی کی فراہمی پر ہے جبکہ متعلقہ محکموں کے اعلیٰ آفیسران کی موجودگی میں یہ امید ہے کہ کمیونٹی کے لوگ ،کاشتکاروں کو خاطر خواہ مفید مشورے اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ محکمہ جات کی طرف سے فراہم کردہ سہولیات بارے نہ صرف آگاہی ملے گی بلکہ عوام اور سرکاری محکموں کے مابین حائل خلا کوختم کرنے میں مدد ملے گی۔یہ بھی توقع ہے کہ ہمارے معزز مہمانان بھی محکموں کے بارے یقینا یہاں کے کاشتکاروں کو اپنے مشوروں اور سہولیات کی فراہمی میں اپنا کردار اداکریں گے۔

ڈاکٹرامتیازای ڈی او واٹر منیجمنٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہاں پر دریائی ،نہری اور ٹیوب ویلوں کا بیشتر پانی بہترمنصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث بڑی مقدار میں ضائع ہو رہا ہے۔ بہت سارادریائی پانی سمندر میں شامل ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر ہماری زمینوں کی ناہمواری اور ناقص نہری نظام اور کچے کھال کے باعث ضائع ہو رہا ہے۔جس بارے آگاہی کے لئے حکومت سرکاری اداروں کے ذریعے ان تک معلومات کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے۔ہمارے پانچ دریائوں میں سے صرف دریائے سندھ ہی ہمارا ذاتی دریا ہے جبکہ دیگر چار دریا یکے بعد دیگرے بنجر ہوتے جارہے ہیں۔علاوہ ازیں کاشتکاروں کے لئے پختہ کھال،ٹیوب ویل اور مختلف قسم کی کھادوں کی آسان فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے۔جبکہ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے حکومت نے ایگزیکٹوباڈی جوکہ واٹر یوزرایسوسی ایشن پر مشتمل ہے بھی تشکیل دی ہے جو اس سے متعلقہ مسائل کے حل بارے غوروخوض اورمشاورت کی ذمہ داری انجام دے رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پختہ کھال بنانے میں حکومت کاشتکاروں کو ایک ایکڑ پر دس لاکھ روپے خرچ کر رہی ہے جبکہ دیگر اخراجات جس میں لیبر شامل ہے وہ کاشتکار خود مہیا کرے گا۔جس کی مدد سے بلند پایہ نظامِ آبپاشی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔جبکہ ٹیوب ویل کی فراہمی میں بھی حکومت 60فیصدجبکہ کمیونٹی چالیس فیصد حصہ ڈال کر بھی اس سکیم سے مستفید ہوسکتے ہیں۔جبکہ پیٹرانجن میں ساٹھ لاکھ فی ایکڑحکومتی خرچ جبکہ چالیس لاکھ مزدوری یا دیگر اخراجات کاشتکاروں کو خود برداشت کرنا ہوں گے۔مزیدبراں کھادسسٹم،ڈرپ سسٹم اورسپنکولرسسٹم بھی حکومت زمین کی سطح کے مطابق مہیا کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کی طرف سے ماہر انجینئرززمین کے اندر تین فٹ تک ڈرپ کے ذریعے آبپاشی کو بھی تیزی سے متعارف کروا رہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس نظام کے ذریعے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں تیس ایکڑ فصل کو باآسانی پانی مہیا کیا جاسکتا ہے جس میں پانی کے ضیاع کا احتمال بہت ہی کم رہ جاتا ہے اور فی ایکڑ پیداوار میں بھی خاصا اضافہ ہوتا ہے۔انہوں نے شرکاء سے کہا کہ اس سلسلہ میں اگر کسی بھی قسم کی معلومات درکارہوں تو ہمارا محکمہ اس بارے مشاورت و سہولت کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھے گا۔

محکمہ فشریزکے ضلعی انچارج احمدنوازاولکھ نے کہا کہ حکومت غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محکمہ فشریز کے ذریعے لوگوں کو بہترین معیشت اور صاف ستھری خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات کے نفاذ اور معلومات کی فراہمی میں تیزی لارہی ہے۔لوگوں کو مچھلی فارم بنانے اور مچھلی پالنے بارے تجاویز اور دیگر سہولیات کی فراہمی کر رہی ہے۔احمدنوازاولکھ نے مزید کہا کہ مچھلی غذائی پروٹین،فاسفورس اور زنک کا بہترین ذریعہ ہے۔خصوصاً دل کے مریضوں کے لیے تو یہ نہایت ہی مفید ہے۔فش فارم کے لئے پانچ طرح کی مچھلیاں جنھیں دوست مچھلیاں بھی کہا جاتا ہے جو ایک دوسرے کو کھاتی نہیںاور ان میں کانٹے کی مقدار بھی نہ ہونے کے برابر ہے ان میں سے دو چائنیز کیٹ نسل جبکہ باقی تین سلورکیٹ کے نام سے موجود ہیں۔اس کاروبار میں ایک سال میں ایک لاکھ روپے خرچ کر کے سال میں دو مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ مچھلی فروخت کر سکتے ہیں۔اس طریقے سے ایک پانڈ سے تیس لاکھ روپے سالانہ بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ جولائی اور اگست کے ماہ میں آکسیجن کی کمی کے باعث آبی حیات کو خاصی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ان ماہ میں اموات کا خدشہ زیادہ رہتا ہے۔تالاب بنانے کے لئے ایک ایکڑ کے رقبہ میں پانچ سے چھ فٹ کا تالاب بنا کر دو سے تین فیصد غزائی ضروریات کو باآسانی پورا کیا جاسکتاہے۔جو کہ ماہی گیروں یا مچھلی پال افراد کے لئے گرین واٹرلیبرکی شکل میں بہت مفید رہتا ہے۔ہمارا ادارہ اس سلسلے میں مچھلی کے بیج اورنرسری کی تیاری پر حکومتی نرخوں پر سال میں دومرتبہ بیج کی فراہمی کو یقینی بنارہی ہے۔اب بھی بہت سے مچھلی پال افراد سال میں دو مرتبہ ایک لاکھ سے تین لاکھ روپے تک منافع حاصل کر رہے ہیں۔انہوں نے میڈیم نغمانہ نائب صدرابراہیم ویلفیئر کونسل بھکر کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تالاب کی مچھلی صحت کے لئے بالکل نقصان دہ نہ ہے البتہ تالاب کے پانی کی صورت درست ہونہ کہ پانی گدلہ اور میلہ ہو۔جبکہ دریائی مچھلی کی کوئی بھی قسم کسی بھی طرح کی بیماری سے پاک ہوتی ہے۔موجودہ صورتحال میں مچھلی پال افراد کی معیشت نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ اسے برآمد کر کے بھی اچھا خاصا زرِ مبادلہ کمایا جارہا ہے جبکہ یہ کاروبار ہمارے ملک میں بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔حکومت نے مچھلی کی خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے نہایت کم نرخوں پر مچھلی خوراک اوربیج کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔جبکہ مچھلی پالنے سے متعلق آگاہی کے لئے لاہور کی سطح پر مفت بنیادوں پر تربیتی سیشن کا بھی اہمتام کر رکھا ہے۔یہ ٹریننک سنٹر مناوا میں مفت بنیادوں پر سمال انڈسٹری کی طرز کے تربیتی سیشن کا انعقاد کر رہا ہے۔اس سلسلے میں کوئی بھی مچھلی پال دفتر ہذا سے رابطہ کر کے آگاہی لے سکتا ہے۔

ڈاکٹراے ڈی کھوسہ ای ڈی اولائیو سٹاک نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تر معیشت کا دارومدار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے جبکہ حکومت بھی اس بارے خاصی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے۔ جانوروں کی ویکسین کے لئے مفت بنیادوں پر آگاہی کی فراہمی اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد اس بات کی دلیل ہے کہ حکومتِ وقت اس بارے خاصی سنجیدہ ہے۔جبکہ عنقریب پنجاب حکومت فی گھر کے حساب سے ہر گھر میں خواتین کے لئے ایک بچھڑا بھی مہیا کرے گی۔جبکہ اس بارے واضح پالیسی ْحکمتِ عملی بھی ترتیب دی جا چکی ہے۔ جبکہ گائوں کی سطح پر جانوروں کی ویکسین کے لئے اپنے عملہ کے ذریعے یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔جبکہ جانوروں کی بیماریوں سے متعلق تربیت بھی فراہم کررہی ہے۔کمیونٹی کی سطح پرلائیوسٹاک یونٹ کی تشکیل بارے بھی غوروخوض کر رہی ہے۔انہوں نے مزید جانوروں اورمرغیوں کی ویکسین کا طریقہ کار بھی مفصلاً بتایااور دوا کو محفوظ رکھنے بارے حفاظتی تدابیر بھی بتائیں۔انہوں نے کہا کہ سرخ رنگ کی ٹکیا جو کہ صاف پانی میں ملا کر انجکشن کے ذریعے مرغیوں کے پروں میں لگائی جاتی ہے جبکہ اس کے قطرے ڈراپر کے ذریعے ان کی آنکھوں میں بھی ڈالے جاسکتے ہیں۔جبکہ جانوروں کی ویکسین کے لئے تین سی سی پانی کی ضرورت درکار ہے۔علاوہ ازیں یونین کونسل کی سطح پر ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کے ذریعے معلومات کی فراہمی بھی کر رہی ہے۔جس کی مدد سے جانوروں کی بیماریوں کے تدارک بارے خاصے مفید نتائج سامنے آرہے ہیں۔انہوں نے بیماریوں کی مختلف اقسام بارے بھی سیر حاصل بات کی۔انہوں نے بتایا کہ جانوروں کو پالنے کے لئے جگہ کا انتخاب، ان کی خوراک اور افزائش پر توجہ دے کر اپنی گھریلواورملکی معیشت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔مظہرمونس(سوشل ایکٹیوسٹ) کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گریٹر تھل کینال سے متعلق تمام تر ذمہ داری محکمہ آبپاشی کی ہے۔جبکہ اس سے متعلق حکومتی پالیسی کو تبدیل کرنا نہایت مشکل ہے۔گریٹر تھل کینال اور چشمہ لنک کینال جو دریائے سندھ کے پیٹ سے نکالی گئی ہیں کے اتنے فائدے نہ ہوئے ہیں جتنے نقصانات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اس کے دونوں طرف کی زمین سیم کا شکار ہو چکی ہے۔ جبکہ مقامی کاشتکاروں میں سے کسی کوبھی ایک ایکڑ تک زمین نہ دی گئی ہے۔جبکہ محکمہ زراعت، محکمہ لائیوسٹاک اورمحکمہ جنگلات اس بارے کچھ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہیں۔میڈیاایڈوائزرتنویر بھٹی نے جانوروں کی نگہداشت اوران کی بیماریوں سے متعلق سوال کیا اورانہوں نے مچھلی کی صحت وحالت بارے بھی آگاہی دی۔ جواب میں اے ڈی کھوسہ صاحب نے مفصلاً جانوروں کی مختلف بیماریاں، ان کے اوقات وتدارک جبکہ احمدنواز اولکھ نے مچھلی پالنے سے متعلق اور صاف اور صحت مند خوراک کے حصول کے ذرائع بارے سیر حاصل بات کی۔

آصفہ خان،خانسرکمیونٹی نے کہا کہ جانوروں کی نگہداشت سے متعلق ٹریننگ کا انعقاد لاہور کی سطح پر ہے ،آیا کہ اسے ضلعی سطح پر بھی منعقد کیا جاسکتا ہے اور ایک کمیونٹی کے لوگوں کو اس تک رسائی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ڈاکٹرامتیازنے کہا کہ اس طرح کے سیشن رکھنے کے لئے پنجاب حکومت سے رابطہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ذوالفقاراحسن کی ایک بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارامحکمہ اس سے متعلق سیپ پاکستان کے لئے ایک تربیت سیشن کا خصوصی اہتمام کرے گا۔جس میں تمام معلومات سے آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مفید مشوروں سے بھی نوازاجائے گا۔جبکہ اس سے متعلق ڈی جی فشریزپنجاب سے بھی خصوصی استدعا کی جائے گی اورمچھلیوں کی نگہداشت، ان کی خوراک،بیماریوں کی ویکسین اورمارکیٹنگ بارے بھی ایک تربیتی سیشن تشکیل دیا جائے گا۔جس میں سٹیزن فرسٹ کمیونٹی کی خواتین حصہ لیں گی۔جس کے پہلے فیز میں بیوہ اورایک بچے والے گھرانے کو مفت بنیادوں پر کاروبار شروع کرانے میں معاونت کی جائے گی۔اس سلسلہ میں حکومتی نمائندے اور تشکیل دی گئی ایک ٹیم سروے کے ذریعے کمیونٹی کے مسائل کے حل بارے تجاویز پر عمل درآمد کرائے گی۔ سائرہ بی بی خانسر کے ایک سوال کا جوا ب دیتے ہوئے ای ڈی او واٹر منیجمنٹ نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ کچی نہروں کے سبب ہمارا بہت سا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ جبکہ تمام نہروں کی جگہ پختہ نہریں بنانے کے لئے حکومت کے پاس بجٹ کی قلت ہے۔تاہم حکومت اور عوام کی جڑت سے ساٹھ فیصد اور چالیس فیصد کی حصہ داری کر کے پختہ کھال کی تعمیر کے علاوہ، ٹیوب ویل، ڈرپ سسٹم اورسپنکولر سسٹم تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔ امتیاز مجید ایڈووکیٹ نے سوال کیا کہ حکومت جانوروں کی ویکسین سے متعلق سہولت کو یونین کونسل کی سطح پر لانے کے لئے اہتمام کرے۔اے ڈی کھوسہ نے کہا کہ اس سلسلے میں تجاویز کوحکومت تک پہنچایا جائے گا اور ہر ممکن حد تک کاوش کر کے اس سلسلہ کو تقویت دی جائے گی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ایک مخصوص بیماری کی وجہ سے سب سے پہلا اونٹ دلیوالہ کی بستی جوئیہ میں موت کے گھاٹ اتر گیا جبکہ بروقت اس کے تدارک سے گورنمنٹ نے زیادہ نقصان ہونے سے بچا لیا۔ آخرمیں شریف مسیح،ای ڈی اوزراعت نے اپنے خیالات کا اظہار رکرتے ہوئے محکمہ زراعت کی جاری پالیسیاں اور سہولیات سے متعلق دیگر معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے کہا کہ زراعت میں خاطر خواہ اضافہ وترقی کے لئے عوام میں آگاہی کا ہونا اشد ضروری ہے۔جبکہ محکمہ زراعت زرعی اجناس کاشت،موسم سے متعلق فصلوں کی کاشت ، ان کی بیماریوں کا تدارک اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے جدیدزرعی آلات کا استعمال بارے کسانوں کو
معلومات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح میں شامل ہے۔مزیدبراں ہمارا محکمہ کو زرعی اجناس کی کاشت اورلوکل بیج ،موسمی پیداوارودیگر زرعی مشورے فراہم کرتا ہے۔ انہیں فصلوں اور جانوروں کی مختلف بیماریوں کے بچائو اور تدارک بارے بھی معلومات فراہم کرتا ہے۔ واٹرلیول ،پانی کی نکاسی،بروقت کھادسپرے کا استعمال اوربروقت آگاہی دیتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے خود بھی کمر بستہ ہو جائیں اور حکومت کے ساتھ مل کر نہ صرف ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کریں بلکہ اپنی معیشت بڑھانے کے لئے محنت اورلگن کا مظاہرہ کریں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گدلے اورآلودہ پانی میں پیدا ہونے والی سبزیوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال میں لایا جائے تو نقصان کا احتمال قدرے کم ہوجائے گا۔جبکہ محکمہ کی طرف سے عوامی آگاہی کے لئے دفتر کے تما م یونٹس ہمہ وقت زرعی معلومات کی فراہمی کے لیے موجود ہیں۔گدلے زہرآلود پانی کی روک تھام کے لئے عوامی ذاتی آگاہی کا ہونا بہت ضروی ہے۔کوشش کریں کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایاجائے اورمیسروسائل کے ذریعے موجودہ مسائل کے خاتمے بارے اقدامات بروئے کارلائے جائیں۔

آخرمیں سوال و جواب کے سیشن کے بعد ذوالفقارالحسن نے مہمانان کے ساتھ ساتھ دیگر شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے استدعا کی کہ اس میٹنگ کی کامیابی کا سارا دارومدار آپ شرکاء پر ہے لہٰذانہایت ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے علاقہ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اس موقع پر محمدامجدعلی،سیپ پاکستان، خانسریوسی سے آصفہ بی بی، سمیرا بی بی ، شہلہ بتول،جاوید علی ہاشمی، امتیازمجیدایڈووکیٹ، تنویربھٹی،محمدقاسم سماجی رہنما،میڈم نغمانہ،سدرہ نازاورمظہرمونس کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی کثیرتعدادنے شرکت کی۔ جبکہ سیپ پاکستان کی طرف سے قیصرعباس نے فوٹوگرافر کی خدمات انجام دیں ۔
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 61 Articles with 92390 views i like those who love humanity.. View More