نرسنگ ،شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی !

نرسوں کے عالمی دن 12 مئی کے موقع پر لکھی جانے والی تحریر

اکثر نرسیں مریضوں کی اپنے والدین کی طرح ،بہن بھائیوں کی طرح خدمت کرتی ہیں ، انہیں کھلاتی پلاتی ہیں ،دوا وقت پر دیتی ہیں ،ان کا بستر ،لباس صاف رکھتی ہیں ،مریض بے ہوش ہو تو اس کو کروٹ دلانے سے لے کر اس کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہیں ،نرسیں مریضوں کو ماں کی طرح سنبھالتی ہیں ، ان کی مریضوں سے بے لوث محبت ہوتی ہے مریض کا خیال رکھنے میں ان کی مالی حیثیت کا لحاظ نہیں رکھتیں، سب کا ایک جیسا خیال رکھتی ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ نرسیں مریض کا ڈاکٹروں سے بھی زیادہ خیال رکھتی ہیں ۔سفید لباس پہنے نرس مریض کو دوا دینے سے لے کر ڈرپ لگانے ،مریض کو خوش رکھنے اور سب سے بڑھ کر مریض کا حوصلہ بڑھانے تک ،خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہر لمحہ سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال میں مصروف رہتی ہے ۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 مئی کو نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں نرسنگ کے شعبے کی انسانیت کے لئے خدمات کا شعور بیدار کرنا عوام میں نرسنگ کے شعبے کی انسانیت کے لئے خدمات کا شعور اجاگر کرنا ،ان کی خدمات کو سراہنا ہے اور جدید نرسنگ کی بانی برطانوی نرس فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنھوں نے 1854کی جنگ میں صرف 38نرسوں کی مدد سے 1500زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کی ۔

پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ جس کے بعد 1949میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951میں نرسز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا ۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 162 ادارے قائم ہیں۔ ان میں سے پنجاب میں 72، سندھ میں 59، بلوچستان میں 12 جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نرسنگ کے 19 ادارے قائم ہیں۔ جبکہ نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف پانچ ہے ۔

نرسیں انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ اور کم سہولتوں کے باوجود خدمت خلق کی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ سردی گرمی‘ بارش آندھی اور رات دن کی پروا کئے بغیر مریضوں کی خدمت گزاری کے فرائض سرانجام دینے والی نرسیں انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ‘ کم سہولتوں کے باوجود انسانیت کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں ۔

انہیں مریضوں اور ان کے لواحقین کے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ،انہیں مردوں کے وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے،جنسی طور پر ڈاکٹر بھی ہراساں کرتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نرسیں خود کوغیر محفوظ خیال کرتی ہیں ، نرسوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے دوران ذہنی دباؤکا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگ انہیں سسٹر کہتے تو ہیں سمجھتے نہیں، ان کی اتنی خواہش ہے کہ لوگ انہیں سسٹر سمجھنا بھی شروع کر دیں۔ دوسری طرف نرسنگ کی طالبات کو ہوسٹلوں میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے ۔اخباری اطلاع کے مطابق انہیں مریضوں سے لگنے والی بیماری کے بعد مفت علاج کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ دارالحکومت کے ایک بڑے نجی ہسپتال کی نرسنگ ڈائریکٹر یاسمین ساگو نے کہا کہ چھ مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے کم ازم کم ایک نرس کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ تیس مریضوں کے لئے صرف ایک نرس دستیاب ہے ۔

انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ معاشرے کے اندر روایتی طور پر نرسنگ کے شعبے کو جائز وقارنہیں دیا جا رہا اور اسے ایک معمولی نوعیت کا کام تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت نرسوں کو ان کی قابلیت کی بنیاد پر سولہ سے سترہ گریڈ تک میں نوکریاں مل سکتی ہیں لیکن صرف معاشرتی رویے کی وجہ سے عورتیں اور مرد اس طرف نہیں آ رہے۔

یاسمین ساگو کی رائے میں پاکستان میں نرسوں کی موجودہ کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر سال تقریباً تین ہزار افراد اس شعبے میں بہتر مستقبل کی غرض سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں ۔ان کا کہا تھا کہ نرسوں کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ دائیوں اور خواتین ہیلتھ ورکز کی کمی کو پورا کرنا بھی بہت ضروری ہے جس سے زچہ و بچہ کی تشویشناک حد تک زیادہ شرح اموات کم کی جا سکتی ہے ۔نرس مریض کے لیے مسیحا کا درجہ رکھتی ہے ،نرسنگ کو شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے دور میں بھی نرسنگ کو باعزت پیشہ نہیں سمجھا جاتا ، دیگر بہت سے مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک نرس کو اچھا جیون ساتھی ملنا مشکل ہوتا ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 530412 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More