ڈرامہ

خدیجہ کے گھر سب بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔ خدیجہ کا امیر ترین گھرانے سے تعلق ہے اور اس کے ساتھی بھی سب امیر ترین لو گ ہیں
خدیجہ نے ان کو ان اچھے کاموں پر لگا دیا ہے کہ بہت موج مستی کر لی اب ذرا اﷲ کے لوگوں کے لیے بھی موج میلہ ہونا چاہیے صرف چیک دے دینے سے کام نہیں چلے گا جو ہمارے بڑے سالوں سے کر رہے ہیں ہمیں خود میدان میں اترنا ہو گا ۔ وہ سب کو لے کر کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے ۔
مریم :۔ خدیجہ کیا پڑھ رھی ہو ۔ آخر اس خط میں ایسا کیا ہے جو تم مسلسل اسے دیکھے جا رہی ہو بھئی جس کام کے لیے ہمیں دعوت عام دی ہے وہ تو بتا دو(مریم موبائیل سے نظریں ہٹائے بغیر بولی )
دادی:۔ میں تو شکر کر رہی ہوں کہ یہ گھر پر ہے اور خاموش بھی میں تو اس کے منصوبے سن سن کر آدھی پاگل ہو گئی ہوں ۔ دو چار دن سے یہ خاموش نہ جانے کیا سوچ رہی ہے (دادی تھوڑی پریشانی سے بولیں)
روحی:۔تو دادی اس سے پوچھیں کہ کیا مسئلہ ہے اچھی خاصی ہماری بے فکری کی زندگی تھی عجیب راہ پر ہمیں چلا دیا ہے (روحی دادی کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی )
راحیل:۔(فروٹ چاٹ لیتے ہوئے)کہ تو تم سچ بول رہی ہو ۔ واقعی بڑا بے چین ، بے آرام ،
بے درد ، بے رحم(سب ہنس پڑتے ہیں )
روحی:۔ جتنے اردو کے الفاظ سیکھ کر آیا تھا سارے بول دیے کیا
راحیل :۔ میں نے ماحول میں تھوڑا سا مزاح پیدا کرنے کے لیے ایسا کہا ہے مجھے اردو کیا اپنی مادری زبان بھی آتی ہے بھئی دادی نانی اور گھر میں کام کرنے والوں کے ساتھ میں یہ زبانیں بڑی روانی کے ساتھ بولتا ہوں ۔۔(راحیل بسکٹ لیتے ہوئے بولا )
مریم :۔ ہمیں اپنے بارے میں اتنی انوکھی معلومات نہ دیجیے ، ہم تو آپ کو اس زمانے سے جانتے ہیں

جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشی:۔ بس بس آگے کچھ نہ کہنا ۔ میرے بھائی کو شرمندہ نہ کرنا ہمیں پتہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے ہیں ۔
مریم:۔ ہنستے ہوئے شرمندہ اور راحیل اُسے کھاتا دیکھ کر کوئی ایسا سوچ سکتا ہے کہ یہ شرمندہ ہونے والا ہے ۔
راحیل :۔ کیا ہوا :۔
مریم :۔ کچھ نہیں ہوا ۔تم راحیل کھائے جاؤ۔میزبان کہے نہ کہے ۔
راحیل :۔ بسکٹ لیتے ہوئے ۔ ہمارے لیے ہی میز بھرا گیا ہے تو ہم اپنا پیٹ کیوں نہ بھریں
مریم:۔ اس کے اندر کسی بھوکھے جن کی روح ہے یہ جو دن رات میں من دو من سب چیزیں ملا کر کھا جاتا ہے اگر یہ اکیلا کھاتا تو اس کا وزن 10 من ہوتا ۔ لیکن یہ تو 50 کلو کا بھی نہی ہے ۔ ساری خوراک یقین جن ہی کھا جاتا ہو گا ۔(مریم حیرانی سے صوفے پر ٹیک لگاتے ہوئے بولی)
عاشی:۔ دادی 6 فٹ سے ذیادہ ماشااﷲ میرا بھائی ہے ۔ اب کھائے گا تو زیادہ سہی نا ں ۔
(عاشی روائتی بہنوں کی طرح بھائی کے لیے بولی )
مریم :۔ ہائے ماشااﷲ بی بی ، کھائے جتنا مرضی کھائے ۔ اﷲ نے ساری نعمتیں انہی جیسے لوگوں کے لیے بنائی ہیں ۔ چاہے سارے گھر والوں کے حصے کی چیزیں کھا جائے ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ۔ ۔۔۔ ایک ہم ہیں اپنے حصے کا بھی نہیں کھا سکتے ۔ پانی بھی اگر جی بھر کے پی لیں تو وزن صاحب آ سمان سے باتیں کرنے لگتا ہے میں تو حیران ہوں کہ آخر یہ خوراک جاتی کہاں ہے ۔
خدیجہ:۔ خط ایک طرف رکھتے ہوئے جس کو باتیں کر رہی ہو ، وہی عقل مند ہے اُس نے کھانے والا کام باتوں کے دوران ختم کر لیا ۔ اب تم لوگ کھانے کے لیے الگ سے وقت لو گے ۔ اس طرح بیٹھے ہوئے
ہیں جیسے آپ سب پہلی دفعہ آئے ہیں ۔ دس دفعہ کہا جائے گا پھر کچھ کھانے کے لیے پلیٹ میں رکھا جائے گا ۔
مریم:۔ خط پڑھ پڑھ کے تمھاری بھی مت ماری گئی ہے ۔ (خدیجہ لمبی ہے ) ٹھیک کہتے ہیں کہ لمبے بندے کی عقل ٹخنے میں ہوتی ہے ۔ تم تو ایسے کہ رہی ہو کہ جیسے اس نے کھانا بند کر دیا ہے ۔ یوں ہماری وجہ سے دیر ہو گئی ۔ ابھی تو یہ ہمارے ساتھ ہی کھاتا رہے گا (مریم جامن لیتے ہوئے بولی )
خدیجہ : ۔ (دادی کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی ) اس کی اس طرح کی باتوں سے لوگ اکثر کچھ اور سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ پچھلے مہینے ہم گاؤں گئے تھے تو وہا ں ان کی آپسی کی باتیں سن کر ایک عورت کہنے لگی ان کی شادی کروا دو خدیجہ بیٹی ۔ جہاں اتنے اچھے کام کر رہی ہو یہ ایک بھی کر دو ۔ میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں بس یہ مریم اتنا کھا نہیں سکتی جتنا راحیل کھاتا رہتا ہے ۔ بس حسد اس بات کا ہے۔
دادی :۔ (ہنستے ہوئے بولیں ) یہ بچپن ہی سے ایسے ہیں ۔ مریم کی امی مریم کو چپس کھانے سے منع کرتی تھی اور اس کے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ لے لیا کرتی تھیں اور راحیل کھا جایا کرتا تھا ان کے بڑے مزے مزے کے قصے ہیں ۔ چلو چھوڑو تم بھی کچھ کھا لو (دادی خدیجہ کے ہاتھ میں پلیٹ دیتے ہوئے بولیں )

منظر نمبر 2
سب لان میں بیٹھے موبائل پر ایک دوسرے کو میسج بھیج رہے تھے ۔ کہ خدیجہ آتی ہے۔
خدیجہ : ۔ بھئی اتنی خاموش کیوں ؟ کوئی بڑا معرکہ ؟ میرا مطلب کوئی عالمی جنگ ہوئی ہے آپس میں ۔
روحی :۔( روحی گھاس سے اٹھ کر جھولے میں مریم کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی )
ہم بول بول کر اتنا تھک گئے ہیں کہ اب موبائل پر ہی گفتگو ہو سکتی ہے ۔
خدیجہ : ۔ چلو اب چلنے کی تیاری کرو خدیجہ خط ہاتھ میں لے کر اسے پڑھنے لگتی ہے
مریم : ۔( اُس کے ہاتھ سے خط لے کر میز پر رکھتے ہوئے بولی)خدیجہ میڈم آ پ نے تو ہمیں وکھری سوچوں میں گم کر دیا ۔ یہ کرو، وہ کرو ، اُدھر چلو ، اس مسئلے کا حل کیا ہے وغیرہ ؟ یہ عمر ایسی باتیں سوچنے کی ہے ۔
خدیجہ : ۔ (مریم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ) بیٹا جب تم نے شادی کرنی ہو تو بتا دینا ۔ ہم تمھاری شادی کروا دیں گے لیکن کام ہمارے ساتھ تمہیں پھر بھی کرنا ہو گا اب اس بات کو دل سے نکال دو کہ شادی ہو گئی یہ ختم وہ ختم پڑھائی بھی ختم ۔ بس شادی ہو گئی اب صرف سیرو تفریح کرنی ہے ۔ محترمہ شادی پہ زندگی ختم نہیں ہو جاتی کہ اب کچھ نہیں بننا ۔ بیوی جو بن گئے ہیں ۔ شادی ایک فرض ہے اگر ادا ہو گیا تو ٹھیک اور اگر شادی نا ہوئی یا ناکام ہو گئی تو اپنی زندگی کا رخ کسی تعمیری کام کی طرف موڑ دو۔
مریم : ۔ اگر شادی کے بعد بھی اس گرمی میں کام کرنا ہے تو پھر چھوڑو شادی بلکہ دفع کرو شادی کو ۔ ویسے اگر میڈم خدیجہ اگر کسی کا شوہر نا چاہے تو وہ یہ کام چھوڑ سکتا ہے (مریم ویسے کو لمبا کھینچ کر بولی )
روحی : ۔ مریم تم فکر نہ کرو تمھارا ہونے والا شوہر تمھیں منع نہیں کرے گا اگر کسی اور کے شوہر نامدار نے منع کیا تو خدیجہ ، ہم کو، لے آئی ہے تو اُسے بھی لائے گی (روحی خدیجہ کے ہاتھ سے خط لیتے ہوئے بولی )
خدیجہ : ۔ (اُس سے خط لیتے ہوئے بولی )گاڑی میں چل کر بیٹھو دیر ہو گئی ہے ویسے بھی میں نہیں چاہتی کہ تم بھی میری طرح یقینی اور بے یقینی کی کیفیت سے گزرو ۔ دل ماننے کو تیار نہیں ۔ انوکھا ماحول ، عجیب حال لکھا ہے بستی کا ۔
روحی : ۔ کیوں ہماری بستی سے بھی زیادہ برا ہے ؟ ارے تم فکر نہ کرو ہم ڈرنے والے نہیں ۔ تم جہاں کہو گی چل پڑیں گے ۔ چلیں انکل ڈرائیور ۔ (روحی اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولی)
مریم : ۔ خدیجہ راحیل کو ڈرائیور انکل کے پاس نہ بیٹھنے دو ، یہ بہت تیز گاڑی چلانے کو کہے گا ۔ میرا دل
گھبرانے لگتا ہے (مریم گھبراتے ہوئے بولی)
راحیل : ۔ اس کو تو بیل گاڑی کے زمانے میں پیدا ہونا چاہئے تھا ۔ ایسے ہی یہ موٹر کار کے دور میں دنیا میں آگئی اس کو اس ٹانگے پر بیٹھا دو چار دن میں پہنچ ہی جائے گی وہاں ۔ ہم تو راکٹ کی رفتار سے جائیں گے (راحیل نے اشارہ کیا گاڑی تیز کرنے کا )
روحی : ۔باز آؤ راحیل سورتیں پڑھ کر سب پر دم کرو ۔ شوخی نہ کرو ۔ خدیجہ پہلے ہی پریشان ہے ۔
خدیجہ : ۔ میں پریشان نہیں حیران ہوں ۔ اُس بستی کے حالات پڑھ کر ۔ وہاں جھوٹ کا کاروبار نہیں ۔ دولت کا لالچ نہیں ، ملاوٹ نہیں ، لوگ خوش رہتے ہیں ہر حال میں (خدیجہ کی باتیں سن کر وہ لوگ چونک پڑے اور بولے پہلے اس نے ہمارا دماغ خراب کیا ہوا تھا اب اس کا اپنا دماغ خراب ہو گیا ہے) میں جو کہ رہی ہوں وہ اس سے بہت کم ہے جو اس خط میں لکھا ہوا ہے ۔ یہ لو خط پڑھ لو (وہ ان لوگوں کو خط دیتے ہوئے بولی ) اس لیے تو سارے کام چھوڑ کر اس بستی کو دیکھنے چل پڑی ہوں ۔
مریم : ۔ ہم نہیں پڑھ رہے ایسا خط جس نے تمھیں پریشان کر دیا ۔ وہ ہمارا کیا حال کرے گا ۔ ہم سفر کا مزہ لینا چاہتے ہیں ۔ کتنے پیارے کھیت ہیں ۔انکل زرا گاڑی روکیں ۔ ہم خود پھل توڑ کر خریدیں گے پھر کھائیں گے (مریم ملکہ عالیہ کے سے انداز میں بولی )
راحیل : ۔ میرے کہنے سے اگر گاڑی تیز نہیں چل سکتی تو تمھارے کہنے سے رک بھی نہیں سکتی ۔
روحی : ۔ تمھیں منع کیا تھا خدیجہ کہ ان دونوں کو ساتھ لے کر نہیں جانا لیکن تم نے کہا کہ ہم کون سا اپنے شہر کے کسی علاقے میں جا رہے ہیں کہ آج اس کو لے جائیں کل مریم کو لے جائیں ۔ نئی جگہ جا رہے ہیں دونوں ہی کو جانے دو ۔ اب اگر یہ دونوں ہوئے تو میں نہیں جاؤں گی ۔
مجال ہے جو سکون سے آس پاس کا منظر دیکھنے دیں ۔
مریم : ۔ دیکھو خدیجہ یہ راحیل کھائے جا رہا ہے اور پانی پیتا جا رہا ہے اگر پانی ختم ہو گیا تو اس ویرانے میں
پانی کہاں سے لیں گے (مریم پریشانی سے بولی )
راحیل : ۔ تم پریشان نہ ہو یہاں جو لوگ رہتے ہیں ان سے پانی لے لیں گے
مریم : ۔ اس ویرانے میں تمھیں کون سے رہائشی مکانات نظر آرہے ہیں جن سے جا کر پانی لے لیں گے
راحیل : ۔ یہ جو باغات ہیں فصلیں ہیں ان کا ٹھیکہ جنات نے لیا ہوا ہے وہ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں
مریم : ۔ نظر تو کوئی نہیں آرہا
راحیل : ۔ اس غضب کی گرمی میں وہ سڑک پر آ کر تمھارا استقبال کریں ۔ کہیں ادھر اُدھر گھنے پیڑوں میں چھپ کر بیٹھے ہوں گے کہ اگر تم جیسا کوئی پھل توڑنے آئے تو اسے اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہونے دیں ۔
روحی : ۔ اب عاشی راحیل کی منگیتر کو ساتھ لے کر آنا ۔ جب یے دونوں ساتھ کہیں جائیں پھر یہ راحیل کہیں چپ ہو گا ۔
عاشی : ۔ میں بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہی تھی ۔
مریم : ۔ یہ خاموش ہو گا ۔ میں تو پھر ایسی ایسی باتیں کروں گی کہ وہ گاڑی میں منگنی توڑنے کا فیصلہ کرے گی اور گھر جاتے ہی علان کر دے گی کہ میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں اور شام کی فلائٹ سے واپس چلی جائے گی اور پھر میں آنٹی سے کہ کر اس کی منگنی رباب سے کروا دوں گی اور آنٹی کے سامنے یہ بول نہیں سکتا ۔ پھر مجھے بڑا مزہ آئے گا ۔ وہ کھاتی رہے گی اور اس کے لیے کچھ نہ چھوڑے گی ۔ جو گھر میں پکایا جائے یا باہر سے لایا جائے سب چٹ کر جائے گی اور رہے گی اسی کی طرح جیسے بڑا ناپ تول کر کھاتے ہیں یہ لوگ ۔ اسی لیے اتنے اسمارٹ ہیں
خدیجہ : ۔ ان کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ دُ شمنی دیکھو ان کی ۔ انکل اب کتنی دور رہ گیا۔
ڈرائیور : ۔ لگتا ہے تھوڑی دور رہ گیا ہے میں نے جس سے راستہ پوچھا تھا اُس نے بتایا کہ فلاں شہر کو جو
راستہ جاتا ہے اسی سڑک پر ہے تقریبا تین چار گھنٹے لگ جائیں گے ۔ اب تقریبا تین گھنٹے تو ہونے ہی والے ہیں ۔ وہ کہنے لگا حیرت ہے اتنے قریب رہتے ہو آپ کو پتہ ہی نہیں میں نے کہا کہ ہم کبھی اس طرف آئے ہی نہیں ۔ یہ اندر گاؤں کی طرف آنے والی سڑکیں ہیں جو کہ بے شمار ہیں ۔ ہر گاؤں کی اپنی اپنی بات ہے لیکن سُنا ہے یہ گاؤں بڑا انوکھا ہے (وہ مین روڈ سے گاؤں کے راستے پر گاڑی موڑتے ہوئے بولا )
خدیجہ : ۔ اس کا انوکھا پن تو ہم دیکھنے آئے ہیں (خدیجہ بولی )کہ خدیجہ کی نظر چاول لگاتے ہوئے لوگوں پر پڑی وہ لانگ شوز پہنے چاول لگا رہے تھے کہ ان کے پاؤں محفوظ رہیں ۔ پھر اس کی نظر ہینڈ پمپ پڑی وہاں صابن پڑا تھا لوگ اس کے پاس سے گزر رہے تھے کوئی صابن چوری کرنے کی کوشش میں نہ تھا ۔ خدیجہ نے گاڑی کے اندر دیکھا ۔ سب موبائیل کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ وہ سب کی توجہ کیسے موبائیل سے ہٹائے ۔ انکل زرا بریک تو لگائیں ٹھیک ٹھاک قسم کی ۔
اور بریک لگنے کی دیر تھی کہ کیا ہوا کیا ہوا کی آوازیں آنے لگی ۔ کچھ نہیں ہوا ۔ پریشان نہ ہو ۔
اب پریشان ہونے کا نہیں حیران ہونے کا وقت ہے ۔ ہم اس بستی میں داخل ہو چکے ہیں
روحی ـ: ۔ تمھیں کیسے پتہ چلا ۔
خدیجہ : ۔ اپنے آس پاس دیکھو تمھیں بدلا بدلا سا ماحول نظر آئے گا چاول لگاتے ہوئے لوگ دیکھو جگہ جگہ ہینڈ پمپ یہ اچھا ہے نہ بجلی کی ضرورت نہ کولر کی جب چلاؤ پانی پی لو ۔
مریم : ۔ ایک بات نوٹ کی ہر کوئی صاف کپڑے پہنے ہوئے ہے
روحی : ۔ میں بھی سوچ رہی تھی کہ یہاں کیا انوکھا انوکھا لگ رہا ہے ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔
تو یہ بات ہے ۔ مزدور ہو یا سبزی پھل بیچنے والا ہر کوئی ایسے صاف جیسے کہیں مہمان جانا ہو ۔ صاف بازار ، گلیاں ، دیکھو چھوٹے بڑے سب بچے صاف ۔ ایسے جیسے عید پر بچے صاف صاف ہوتے ہیں

۔راحیل تم کچھ نہیں بول رہے ۔
راحیل :،۔ بولن جوگا چھڈیا ہی نئی (بولنے کے قابل چھوڑا ہی نہیں )ویسے میں تو دیکھ رہا ہوں کہ کھانے کی چیزیں کس صفائی سے پکائی جا رہی ہیں اور کتنے اچھے طریقے سے رکھ رہے ہیں ۔ میں تو یہیں آیا کروں گا بازار کی مزے مزے کی چیزیں کھانے کے لیے مدت ہوئی ٹھیلے پر روایتی چیزیں کھائے ہوئے ۔ واہ کیا مزے کی جگہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ میں اس بستی میں ہی بس جاؤں اسی کا ہی ہو کر رہ جاؤ ۔ یہیں گھر خرید لوں ۔
مریم : ۔ اب تو کوئی فائدہ نہیں تمھاری منگیتر کو کچھ کہنے کا ۔ تمھاری شادی کیسی ہی لڑکی سے ہو جائے تمھارے لیے گھر میں چاہے کچھ بھی پکا ہو نہ چھوڑے تمھیں ایسی جگہ مل گئی ہے جہاں تم سارا سارا دن بیٹھے کھاتے رہو اور گھر نہ جاؤ ۔ تمہارے تو مزے ہی مزے ہیں ۔ اﷲ تعالی اس کے پہلے کون سے کم مزے ہیں جو ایک اور صاف ستھری جگہ اس کو کھانے کو دے دی (مریم آہ بھر کر بولی )
عاشی : ۔ مریم تم خوامخواہ اس بات کو دل پر لے گئی ہو ۔ میں بھی تو ہوں میری بہن اور میرا یہ بھائی دونوں ماشااﷲ ہر وقت بھی کھاتے رہیں تو انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اور میں تمھاری طرح ناپ تول کا اعشاری نظام ۔ لیکن اب میں تھوڑا تھوڑا سب کچھ کھا لیتی ہوں ۔ تم بھی کھا لیا لرو۔ اتنا پرہیز بھی نہ کیا کرو
روحی : ۔ کیا دکھ ہیں دونوں کے ۔ حد کرتے ہو تم لوگ ، اب بڑے ہو گئے ہو ۔ کھانے پینے کے علاوہ بھی کچھ اور بھی سوچ لیا کرو۔
خدیجہ : ۔ باتیں ہی کرتے رہو گے اندر گاڑی میں بیٹھ کر ۔ باہر نکل کے سہیل صاحب کا گھر پوچھو۔ راحیل تم کھانے کی چیزوں کو حسرت سے دیکھنا چھوڑ و زرا رابعہ ، سہیل سے مل لیں پھر بازار جا کر جو مرضی لے لینا اور سارے راستے کھاتے جانا ۔
راحیل : ۔ گیا اور شرمندہ سا منہ بنا کر واپس آگیا اور کہنے لگا واقعی ہم سب کی مت ماری گئی ہے ۔ ہر وقت
موبائیل کا استعمال کرنے والے موبائیل کو ہی بھول گئے ۔ میں نے سوچا بچوں کو زیادہ پتہ ہوتا ہے اس بچے سے پوچھ لیا کہ سہیل صاحب کا گھر کہاں ہے (بچے کے ہاتھوں شرمندہ جو ہونا تھا )کہنے لگا آ پ موبائیل پر بات کر لیں اور بتا دیں کہ ہم یہاں ہیں آپ آکر لے جائیں ۔ ایسے ہی گلیوں میں خوار ہوتے پھریں گے ۔
خدیجہ : ۔ او میرے خدا ۔ میرا تو واقعی سر گھوم گیا ہے پہلے خط پڑھ کر اور پھر گاؤں دیکھ کر ۔ نہ آنے سے پہلے فون کیا اس کو ۔ بس اطلاع دیے بغیر چل پڑے چلو فون کر کے دیکھتی ہوں
منظر نمبر 3
کچھ دیر بعد اُن کی گاڑی رابعہ سہیل کے گھر کے سامنے کھڑی تھی ۔ بڑا گھر تھا لیکن بہت زیادہ سجایا ہوا نہیں تھا لیکن پودے پیڑکافی تھے۔
رابعہ : ۔ ارے آپ اتنی جلدی آگئے ۔ ہم تو سمجھ رہے تھے آپ دو ڈھائی بجے کے قریب آئیں گے۔ کوئی فون ہی کر دیتے ۔ وہ خدیجہ ، روحی ، مریم اور عاشی کے گلے ملتے ہوئے بولی ۔
خدیجہ : ۔ میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا خط پڑھ کر ۔ اتنی مصروفیت ہے ، پرطاش کے سکول کے سالانہ پروگرام کی لیکن میں نے سب چھوڑا اور صبح 5بجے ہم گھر سے نکل پڑے کہ پھر دوپہر تک پرطاش کے سکول پہنچ جائیں۔ ویسے تم نے یہ خط والا کام خوب کیا ۔ ای میل بھیجتی تو نہ جانے کب پڑھی جاتی۔ کم از کم پرطاش کے پروگرام سے پہلے تو تمھاری ای میل کبھی نہ پڑھی جاتی ۔ خط آیا ، جو کبھی کسی کا آیا ہی نہیں تو میں نے فورا پڑھا اور ہم چل پڑے ۔
رابعہ : ۔ ریحان کو تم سے ملنے کا بہت شوق تھا اُس نے ہی کہا تھا کہ انہیں اپنے گاؤں آنے کی دعوت دو ۔ لیکن آپ تو اتنی جلدی واپس چلے جائیں گے ۔ اور وہ چار بجے آئے گا اگر اپ پہلے بتا دیتے ۔
خدیجہ : ۔ ارے آپ پریشان نہ ہوں دو دن بعد آپ سب سے بڑی لمبی چوڑی ملاقات ہو گی ۔ آپ
سب لوگ ہمارے سکول کے پروگرام میں آئیے گا اس وقت تو اپ مجھے جلدی جلدی مختصر کر کے بتادیں کہ یہ سب کیسے اور کتنے عرصے میں ہوا ۔
رابعہ : ۔ میں شاید اپ کو اتنے اچھے طریقے سے نہ بتا سکوں کیونکہ میں اچھا بول نہیں سکتی ۔ ویسے ہمارے ٹی وی چینل پر ریحان نے بڑی تفصیل سے اس کا آغاز بتایا ہے ۔
روحی : ۔ آپ کا چینل بھی ہے ؟ (حیرت سے بولی )
رابعہ : ۔ ہاں ریحان نے تو کھولا ہے ۔ وہ ہر ایک کے اس سوال کا جواب دے دے کے تھک چکا تھا کہ یہ جیسے سوچ آپ کو آئی اور ہم کیسے کریں ۔ پھر اس نے ساری تفصیل بتائی اور پھر سارادن ہمارا چینل یہ بتاتا ہے قرآن اور حدیث کی روشنی میں کی یہ زندگی چند روزہ ہے اس کے آرام کے لیے دن رات محنت نہ کرو ۔ جائزناجائز طریقے سے ، بلکہ جو زندگی ہمیشہ کے لیے ہے اس کے لیے اپنی ساری محنت کرو۔ یہاں کے لیے تو بس اتنی محنت کرو کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔ باقی سارے محلات وہاں بناؤ۔ نور ہمارے گاؤں کے بچوں کو نعتیں پڑھنے کا شوق تھا ۔ مشہور ہونے کا شوق تھا ۔ اس لیے اُس نے یہ چینل کھولا ۔
مریم : ۔ لیکن ہم نے تو اس چینل کا نام نہیں سنا ۔
رابعہ :۔ وہ بس ایسا ہی ہے۔ ویسے یہ چینل باہر بہت مقبول ہو رہا ہے
خدیجہ : ۔ وہ لڑکی جس نے گاؤں کی دادی ، نانی ، چچی ، ممانی اور چھوٹی بچیوں کو ماڈل بنا دیا اور اس کے لباس باہر بہت مقبول ہو رہے ہیں ۔ میں بھی اس سے اپنی دادی کے لیے کپڑے لے کر جاؤں گی ۔ یہ بہت بڑا مسلہ اس نے حل کر دیا ۔ بزرگوں کے کپڑے پروقار اور پیارے سے کہیں سے نہیں ملتے ۔ خود ہی کپڑا لے کر بنوانے پڑتے تھے ۔ اس نے تو کیا کمال کیا ۔ آخر اس کے ذہن میں یہ سب کیسے آیا ۔

رابعہ : ۔یہ ریحان کی چچا زاد بہن ہے ۔ دونوں ہی ہمارے گاؤں اور اس علاقے کے امیر ترین لوگ ہیں۔ یہ شہر پڑھی لکھی بھی بس دل میں خیال آیا کے میں بھی اپنے دو چار سوٹ پہن کر ماڈلنگ کر لیتی ہوں۔ خداداد صلاحیت ہے اس میں کپڑے ڈیزائن کرنے کی ۔ سلائی نہیں آتی لیکن کام بڑا اچھا کروا لیتی ہے ہر ایک سے ۔ ہر عمر کی عورت اس کے پاس کام کرتی ہے۔
تو ہوا یوں کہ جب یہ ماڈلنگ کرنے پہنچی اپنی سہیلی کے ساتھ تو وہاں کسی نے کہا کے یوں نیک پروین بن کر ماڈلنگ نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ
پھر کیا تھا یہ لڑکی ویسے بھی اُلٹے دماغ کی ہے ۔ اس سے اگر کوئی کام کروانا ہو تو بس یہ کہ دو تم یہ کام نہیں کر سکتی۔ پھر وہ یہ کام کر کے دیکھائے گی ۔ جاؤ نیک بی بی گھر بیٹھو ۔ اس طرح اگر ہم ماڈل کو پیش کرنے لگے تو پھر کر لیے ہم نے کامیاب فیشن شو ۔ بس پھر کیا تھا ۔ اس نے کامیاب منفرد فیشن شو نانی دادی کے ساتھ کر کے دیکھا دیا۔ کہ اگر مال اچھا ہو تو پھر کسی گندے سہارے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ با پردہ رہ کر بھی ۔ ہر عمر کی عورت ماڈلنگ کر سکتی ہے ۔ بس پھر کیا ساری دنیا نے ہر چینل پر اس کا پروگرام دیکھا ۔ اور ابھی تک وہ آرڈر ہی لے رہی ہے ۔فرصت کا ایک لمحہ نہیں اُس کے پاس۔ بے شمار منافع لینے کی اب اس کو خواہش نہیں (ریحان کے ساتھ اُس کی زندگی ہی بدل چکی ہے ۔ جن حالات نے ریحان کی زندگی بدلی ۔ انہی حالات سے وہ بھی دوچار ہوئی کہ دونوں ایک ہی خاندان کے ہیں ) ۔ وہ امیر غریب سب کے لیے مناسب قیمت میں بہترین کپڑے بناتی ہے اور جائز منافع لیتی ہے ۔ بڑی زبردست لڑکی ہے ۔
خدیجہ : ۔ تمھارے گاؤں کے ہر فرد کی لگتا ہے ایک الگ ہی داستان ہے ۔ کافی لوگوں کے بارے میں تم نے لکھا ہے لیکن ریحان کے بارے میں بتاؤ کے اس کے ذہن میں یہ انقلاب کیسے آیا ۔

رابعہ : ۔ ٹھیک ہے میں بتانے کی کوشش کرتی ہوں باقی آپ لوگ ہمارا چینل دیکھ لیجیے گا ۔ (تین لڑکیاں ہماری باتوں کے دوران میز پر مختلف قسم کی چیزیں لگاتی رہیں ۔ خوشبو بڑی پیاری آرہی تھی ) رابعہ کہتی ہے چلیں کچھ کھا پی لیں ۔ ساتھ باتیں بھی کرتے جائیں گے ۔ (سب میز کی طرف چل پڑے )
روحی : ۔ آپ کی بہنوں نے بڑی مزے کی چیزیں پکائی ہیں ۔
رابعہ : ۔ یہ میری بہنیں نہیں ۔ میرے شوہر کی تینوں بیویاں ہیں اور چوتھی میں ہوں ۔ ویسے ہم بہنوں ہی کی طرح رہتے ہیں (اُس کی بات سن کے سب کے ہاتھوں سے چیزگر گئی اور حیرت سے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ان کی ایسی حالت دیکھ کر رابعہ نے ٹیشو کا ڈبہ دیتے ہوئے کہا )
رابعہ : ۔ ابھی بڑی حیران کن باتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ قدم قدم پر اپنا دل مظبوط رکھیں اور ہوش میں رہیں ۔ جن باتوں پر لوگ پہلے اپنے آپ کو روگ لگا لیتے تھے ۔ اپنے آپ کو بد قسمت کہتے اور روتے تھے ۔ اب ہم ان باتوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔ بس ہر دم خوش رہتے ہیں ۔ طلاق ہو جانے یا اولاد نہ ہونے یا پھر شادی ہی نہ ہو ۔ ان باتوں پر ساری زندگی ہی برباد تو نہیں کی جا سکتی ۔ یہ شادی وغیرہ کے تمامعاملات تو زندگی کا ایک حصہ ہیں ۔ ناکام ہونے کی صورت میں ساری زندگی یونہی روتے گزار دینا کہا کی عقل مندی ہے۔
مریم : ۔وہ سب تو ٹھیک ہے ہماری خدیجہ بھی ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتی ۔ لیکن 4 سوتن ایک ساتھ ۔ بڑی حیرت ہے ۔
رابعہ : ۔ ساری عمر عورت بھاگ بھاگ شوہر کی خدمت کرتی ہے ۔ اُس کے گھر والوں کی خدمت ، بچے صاف ہوں ، گھر صاف ہو ، کھانا وقت پر مزیدار بنا ہو کہ شوہر کہیں دوسری شادی نہ کر لے ۔ ہر وقت شوہر پر نظر اور دل میں خوف کہ کہیں شوہر ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔ میں اس خوف میں زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ میرے شوہر اور ساس کو بچوں کا بڑا شوق ہے ۔ کیوں کہ میرا شوہر اکلوتا ہے ۔
نہ بہن نہ بھائی میں نے کہا میں صرف دو بچوں کی تربیت کر سکتی ہوں چار یا پانچ بچے میں نہیں سنبھال سکتی آپ نے ان کی تین اور شادیاں کر دیں ۔ تو انھوں نے کر دیں ۔ آب ہم بڑے مزے سے بغیر کسی خوف کے رہ رہی ہیں ۔ ساس اپنے بچے کا خیال رکھتی ہے اور ہم اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہیں۔
روحی : ۔ خدیجہ چلو میں اگر تھوڑی دیر اور یہاں ٹھہری تو میرا دماغ چل جائے گا ۔ (روحی کرسی سے اُٹھتے ہوئے بولی )
خدیجہ : ۔ بس ایک آدھ گھنٹہ ٹھہر جاؤ ۔ بس اب تم جلدی سے بتا دو کہ یہ سب ہوا کیسے ۔ تم نے لکھا تھا کہ چار سال پہلے ہمارا گاؤں بھی عام گاؤں جیسا تھا ۔ وہی لوٹ مار ، قتل ، ملاوٹ ، گندگی ، لڑائی جھگڑے ، مصیبت میں مار دو یا مر جا ؤ یا بھاگ جاؤ ۔ آج ہم اس ماحول کو یاد کر کے ڈر جاتے ہیں ۔ کہ ہم کس جہنم میں رہتے تھے ۔ اﷲ نے تو ہمیں بڑے اچھے زندگی گزارنے کے طریقے بتائے ہیں ۔ ہم اپنی زندگی اپنے بنائے ہوئے طریقوں سے جب گزارتے ہیں تو یہاں بھی جہنم میں رہتے ہیں اور وہاں بھی جہنم میں رہنے کا انتظام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں ۔ بس ایک دن ایسا ہوا کہ ریحان کے چچا ، ما موں زاد بھائی نہر میں گر گئے اور پھر واپس نا آئے ۔ عجیب کہرام کا دن تھا ۔ اتنی بڑی جائیداد کے تنہا وارث سب کو لاوارث چھوڑ کر چلے گئے ۔ دولت بھی ہو ، شہرت بھی ہو طاقت بھی ہو شکل بھی اچھی ہو ، تعلیم بھی ہو تو انسان اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھنے لگتا ہے ۔ یہ تو وہی جانتا ہے جس کو اﷲ نے یہ سب دیا ہو ۔ ریحان ان میں سے سب سے زیادہ خوب صورت اور ذہین تھا ۔ اُس وقت یہ بلا کا مغرور تھا کسی کو خاطر میں نہ لاتا ۔ اپنے خاندان کی لڑکیوں کو بھی کچھ نہ سمجھتا ۔ چاہے وہ کتنی ہی تعلیم یافتہ اور خوبصورت ہوں ۔ ریحان کو اپنے آگے کوئی نظر ہی نہ آتا ۔ لیکن اس واقعے کے بعد ریحان جو اپنے اپ کو آسمان کا تارا سمجھتا تھا ۔ ایک پل میں اپنے آپ کو مٹی کا زرہ سمجھنے لگا ۔ اسے اپنی دولت ، شکل سب بے حقیقت اور بے وقعت لگنے لگے ۔ حالانکہ اب وہ ساری جائیداد کا تنہا وارث تھا ۔ اُسے خوش ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن اُس نے اُس پہلو کی طرف نہیں دیکھا ۔ اﷲ نے اُسے دوسری طرف سوچنے کی صلاحیت دے دی کہ انسان سب جاہ وجلال چھوڑ کر مٹی میں مل جاتا ہے ۔ وہاں جہنم میں جلتا ہے اگر یہاں جنت کا سامان نہ کرے تو زندگی عیش وعشرت کا نام نہیں لوگوں کے کام آنے کا نام ہے ۔ اُٹھو کچھ اچھا کر جاؤ کہ لوگ تمھیں اچھے لفظوں میں یاد کریں ۔ اپنے لوگوں کو اس جہنم کی زندگی سے نکالو ۔ اور اپنے لیے وہاں ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے کچھ کر لو ۔ اس زندگی کا کچھ پتہ نہیں ۔ پھر کیا تھا اُس نے اپنی تجوری کا منہ کھول دیا ۔ کسی نے اس کو روکا نہیں شاید وہ سمجھ چکے تھے دولت کی کیا حیثیت ہے ۔ صدیوں سے سنبھالی ہوئی دولت کو کوئی سنبھالنے والا نہیں رہا۔
ریحان نے لوگوں کے گھر مرمت کروائے جو بارش میں ٹپکنے لگے تھے ۔ ساری گلیاں اونچی کر کے پکی کروائی ۔ نالیاں صاف اور گہری کروائی ۔ سارا بازار صاف کروایا اور کہا کہ اگر کسی نے ان گلیوں بازاروں کو گندہ کیا تو وہ حال کروں گا کہ سارا زامانہ دیکھے گا ۔ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اپنے اپنے کام پر جانا ہے ۔ چاہے سبزی کا ٹھیلہ ہو یا پھل کا ۔ ہر کسی کے کپڑے صاف ہوں ۔ کوئی ماں نہ خود گھر سے گندے کپڑوں میں نکلے گی نہ اپنے بچوں کو گندہ رکھے گی ۔ ہر روز نہا دھو کر صاف ستھرا ہو کر گھرباہر سے نکلو۔ اُس نے جگہ جگہ ہینڈ پمپ لگوا دیے۔ ساتھ صابن رکھوا دیے اور کہا کہ کوئی چوری نہ کرے میں واقعی ہاتھ کاٹ دوں گا ۔ جو صابن نہیں لے سکتے میں ان کے گھر صابن بھیج دوں گا اور خیال رہے اسے لوٹ مار کا مال سمجھ کے استعمال نہ کرنا ۔ اپنی چیز سمجھ کر طریقے سلیقے سے استعمال کرنا نہیں تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا ۔
ہم مسلمان ہیں نصف ایمان ہمارا صفائی ہے اور ہم اتنے گندے غلیظ ۔ سب جلدی سو جائیں گے اور صبح جلدی فجر کے وقت اُٹھیں گے ۔ نماز پڑھ کر کھانے پینے کی دکانیں کھل جائیں گی اور 6بجے باقی سارا بازار کھل جائے گا تاکہ لوگ صبح صبح ٹھنڈے ٹھنڈے سامان خرید لیں ۔ مغرب سے آدھا گھنٹہ پہلے بازار بند ہو جائیں گے ۔ مغرب کے بعد مجھے کوئی لڑکا باہر نظر نہ آئے ۔ بڑے بھی کھیتوں ، باغوں کے کام سے صرف باہر نکل سکتے ہیں ۔کسی کے گھر سے لڑائی کی آواز نہ آئے ۔ کوئی بچہ ماں باپ سے بدتمیزی نہ کرے ۔ سب نماز پڑھیں ، سچ بولیں ، پورا تولیں ، ملاوٹ نہ کریں صاف ستھری تجارت کریں ۔ پورا گاؤں ہر وقت اپنے گھر اور دکان کی طرح صاف رکھنا ہے ۔ کوئی گند ڈالتا مجھے نظر نہ آئے ۔ غریبوں کو نماز معاف نہیں جو ہر وقت گندے بیٹھے رہتے ہیں ۔کسی کی عزت دولت کی وجہ سے نہ ہو گی ہمارے گاؤں میں بلکہ جس کا اعلی کردار ہو گا ۔ جس میں صبر ہو گا ۔ وہی میری نظر میں قابل احترام ہو گا ۔ یہ حلال حرام کی تمیز کیے بغیر دولت اکھٹی کرنی چھوڑ دو۔ سب یہیں رہ جائے گی اور جہنم ٹھکانہ بنا لو گے ہمیشہ کے لیے ۔ ہر دم اﷲ کا شکر ادا کرو ۔ صحابہ اکرام دو دو تین تین دن فاقے سے رہتے تھے ۔ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے لیکن اﷲ کا شکر ادا کرتے۔ ایک تم لوگ ہوکھاتے پیتے چوری کرتے ہو ۔ کسی کی کوئی چیز پڑی ملے فوراً مسجد میں دے کر آؤ ۔ جس چیز کی ضرورت ہو میرے پاس آؤ ۔ لیکن کسی سے چھیننا نہیں چوری نہیں کرنی ۔ جہیز اور دوسری رسمیں ختم کر دو ۔ سادہ زندگی گزارو اور سادہ غذا کھاؤ ۔ اس جہنم جیسے گاؤں کو جس میں ہر کوئی اپنی اپنی آگ میں جل رہا ہے ۔ جنت نظیر بنا دو اﷲ اور اس کے رسولؐکا کہنا مان کر ۔ میں اپنا چینل کھول رہا ہوں ۔ میں گاؤں میں جگہ جگہ ٹی وی اسکرین لگا دوں گا ۔ جہاں ہر وقت اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے فرمان بتائے جاتے رہیں گے ۔ صحابہ اکرام کیسے زندگی گزارتے تھے اور ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہیے ۔ شیطان کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے ۔
اپنے آس پاس دیکھو ۔ زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہی ۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ اس زندگی میں تمھارے اختیار میں کچھ نہیں ۔ اﷲ کی مرضی تمھیں اولاد دے نہ دے ، شادی ہو نہ ہو ، کاروبار چلے نہ چلے، تو اس بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا کہ کہیں گناہ نہ کر بیٹھوں ۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ اُس کے لئے تم جو اس دنیا میں کرو گے اُس کا تمھیں پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ تو پھرسب اچھا کرو اس دنیا میں تاکہ سب اچھا ملے تمہیں اس دنیا میں ۔ اگر تم یہ سمجھتے ہوکہ تم یہاں زندگی میں جہنم میں جل رہے ہو تو پھر وہاں جنت میں رہنے کا سامان کر لو ۔
پچھلے سال اُس نے لوگوں کو چاول لگاتے دیکھا ان کے پاؤں خراب تھے سارا سارا دن پانی میں کھڑے ہو کر چاول لگانا کوئی آسان کام تو نہیں ۔ اُس نے ہزار لانگ شوز کا آرڈر دیا اور اُس سال سب کو جوتے دیے ۔ ایک دم سلائی کڑھائی کے سنٹر کھولے ۔ لڑکوں کو کام سکھانے کے لیے ورکشاپ کا انتظام کیا۔ بس یوں سمجھ لو کہ ہمارے گاؤں میں راتوں رات انقلاب آگیا ۔ شروع میں تو لوگوں نے یہ سب باتیں خوف سے مان لیں لیکن جب انھیں سکون و آرام ملا تو وہ روز روز بہتر سے بہتر کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ عورتوں کو نمود و نمائش کے لیے جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اور مردوں کو زیادہ پیسہ کمانے کے لیے دن رات محنت کرنی پڑتی تھی ۔ بچوں کا پتہ ہی نہیں ہوتا تھا باپ کو ۔
جب سب کو سکون ملا اور پر سکون زندگی نصیب ہوئی تو اب گاؤں والے اسے چھوڑنے کو تیا ر نہیں ۔ اور ریحان روز اس گاؤں کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے ۔ یہ ہمارا چھوٹا سا بازار تھا جو اب کتنا بڑا ہو گیا۔ لوگ یہاں سے گزرتے ہوئے سامان لیتے ہوئے جاتے ہیں کہ اتنا صاف ستھرا سامان اتنی مناسب قیمت پر نہیں ملتا۔ ہم لوگ اندھا منافع نہیں کماتے ۔
باقی باتیں آپ ہمارے چینل پر دیکھ لیں ۔ اب مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے آپ لوگ جو پاکستان کے امیر ترین لوگ ہو ۔ اتنی عاجزی ہے آپ لوگوں میں کیسے ۔
مریم: ۔ خدیجہ ہمارا کام تو کوئی خاص نہیں ہم تو دولت اور اپنا وقت لوگوں کو دے رہیں ہیں ۔ آپ لوگوں نے تو ا س دور میں اتنا بڑا معرکہ دیا کہ دنیا کو عملاً بتا دیا کہ آج بھی اسلام کے اصول اپنا کر ہم پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں ۔
باقی باتیں پرطاش کے اسکول کیں ہوں گی ۔ ریحان جیسے شخص سے جلد ملنے کی آرزو ہے آپ سب ضرور آئیے گا ۔ اب ہم آپ لوگوں کے گاؤں کی سیر کرتے ہوئے جائیں گے دادی کے کپڑے لینے ہیں آپ ساتھ چلیں ۔
رابعہ : ۔ کیوں نہیں ۔ آپ اس کو ساتھ لے جائیں (وہ اپنے شوہر کی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ) یہ آپ کو اپنے مشورے دے گی
منظر نمبر 4
اسکول میں خوب رونق ہے ۔ بچوں کے لیے عید کا سماں ہے ۔ لیکن پچھلے سال کی طرح بہت زیادہ لوگ نہیں ۔ خدیجہ سکول میں آکر دیکھتی ہے سارے انتظامات کر کے وہ باہر آتی ہے تو وہاں اس کو کوئی نظر نہیں آتا۔ نہ مریم، نہ روحی ، روحیل وغیرہ۔ آخر تم لوگ کہاں ہو وہ؟ روحی کو میسج کرتی ہے ۔ تھوڑی دیر بعد روحی آتی ہے
خدیجہ : ۔ شکر ہے آپ تو نظر آئیں ۔ مہمان آگئے میزبان غائب ۔
روحی : ۔ ہم تو مہمان ہیں چلو تھوڑے بہت میزبان بھی بن جائیں گے ۔ لیکن وہ آپ کے پرطاش اصل میزبان وہ تو نظر نہیں آرہے ۔ میرا خیال ہے وہ کام کر کر کے تھک گئے ہیں اب گھر آرام کرنے گئے ہوں گے کہ پروگرام شروع ہو گا تو آجاؤ گا ۔
خدیجہ : ۔ فضول باتیں نہ کرو ۔ باقی سب کہاں ہیں ۔
روحی : ۔ وہ مریم اور سہیل آئس کریم تلاش کر رہے ہیں اور مریم روحیل سے لڑائی کر رہی ہے کہ تم نے آئس کریم کا سٹال کیوں نہیں لگایا؟
خدیجہ : ۔ جاؤ ان کو بلا کر لاؤ ۔ مریم روحیل سے کیوں جھگڑا کر رہی ہے ؟ اسٹال لگانا تو پرطاش کا کام ہے ۔ پتہ نہیں یہ مریم کب بڑوں کی طرح سوچے گی ؟ ہر وقت لڑائی کے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے ۔
روحی : ۔ تم بھی کتنی عجیب باتیں کرتی ہو بڑی ہو گئی ہے اس لیے تو ہر وقت لڑتی رہتی ہے ۔ بڑوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے ۔
خدیجہ : ۔ فلسفہ نہ بولو ۔ (وہ پرطاش کا نمبر ملاتے ہوئے بولی )جاؤ ان کو بلا کر لاؤ ۔ ہاں کہاں ہو پرطاش اور آئس کریم کا انتظام کرو ۔ اتنی گرمی میں آئس کریم غائب ۔
پرطاش : ۔ تم لوگوں کی واقعی گاؤں نے (مت مار دی ہے )میرے پاس سے تم سب 100دفعہ گزرے ہو ۔کسی نے ادھر اُدھر نظر ڈال کر دیکھنے کی زحمت محسوس نہیں کی اور رہی آئس کریم کی بات تو اس گرمی میں اسٹال سے کام چلنا تھا پوری گاڑی آرہی ہے آئس کریم کی ۔
خدیجہ : ۔ چلو آب جلدی سے آجاؤ زیادہ باتیں نہ کرو ۔
پرطاش : ۔ تمھارے پیچھے کھڑا ہوں ۔
خدیجہ : ۔ اوہو پرطاش کیا سارے ڈرامے آج ہی کرنے ہیں ۔ صبح سے میں تمھیں بُلا رہی ہوں اور تم اسکول میں ہوتے ہوئے بھی مجھ سے رابطہ نہیں کر رہے ۔ پہلے یہ تو بتاؤ لوگ اتنے کم کیوں ہیں اور یہ جو تم گاؤں کی بات کر رہے ہو جب خود جاؤ گے پھر دیکھوں گی تمھاری دماغی حالت ۔
پرطاش : ۔ میں چینل پر سارا گاؤں دیکھ چکا ہوں ۔ کل جب میں نے جگہ جگہ ٹی وی لگا کر یہ چینل لگایا تو لوگ سمجھے میں اس اسکول کی طرح ایسا مثالی گاؤں بھی بنا رہا ہوں اور اس مثالی گاؤں کا خاکہ دیکھ رہا ہوں۔ لیکن جب میں نے بتایا کہ فلاں جگہ پر یہ گاؤں موجود ہے تو وہ کہنے لگے کہ ہم کل صبح صبح یہ گاؤں دیکھنے جائیں گے اور پھر انشااﷲ گیارہ بجے تک آ پ کے اسکول آجائیں گے سب بچوں کو لے کر ۔ اس لیے تم فکر نہ کرو کہ لوگ کم ہیں ۔
خدیجہ : ۔ وہ ریحان اور رابعہ وغیرہ سب کو بلایا ہے اس لیے کہ رہی تھی کہ سب اچھا ہو ۔
(اسلام علیکم رابعہ اور ریحان سب آئے یہ ریحان ہے رابعہ تعارف کرواتے ہوئے بولی پرطاش ریحان کے گلے ملتے ہوئے بولا ۔ آپ جیسے عظیم انسان سے مل کر بڑی خوشی ہوئی اور رابعہ سہیل آپ کو تو سلُوٹ کرتا ہوں کیا کمال لڑکی ہیں )وغیرہ وغیرہ گپ شپ ہوتی رہی ۔
پرطاش : ۔ چلیں آپ تو مہمان بن کر بیٹھ گئے ہیں ۔ خدیجہ تو آپ کے گاؤں سے جب سے آئی ہے لگتا ہے ابھی تک وہی ہے ۔ (ریحان بھی کھڑا ہو جاتا ہے چلیں بتائیں کیا کام کرنا ہے ) ارے آپ تو مہمان خصوصی ہیں آپ بیٹھیں اور یہ آئس کریم جوس وغیرہ پیئں۔ بہت کام کیا ہے آپ نے ہمارے پاس آکر تھوڑا آرام کر لیں ۔ دس سال سے خدیجہ ہی مہمان اول تھی میں سوچا کرتا تھا کوئی ہو گا جس نے خدیجہ سے بھی زیادہ کام کیا ہو گا۔ دل کہتا تھا کہ شاید کئی سالوں تک کوئی بڑا کام سامنے نہیں آئے گا کیا پتہ تھا کوئی اتنا بڑا کام کر دے گا آپ کی تعریف کے لیے تو الفاظ ہی نہیں ۔ اچھا آپ نے جو بولنا ہے اُس کی تیاری کر لیں ۔ بس پروگرام شروع ہی ہونے والا ہے ۔
رابعہ : ۔ اسے تیاری کی ضرورت نہیں ۔ اسے بولنے کی اتنی روانی ہو گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی بٹن آن کرو ابھی شروع ۔ یہ یا پڑھتا رہتا ہے یا بولتا رہتا ہے ۔
خدیجہ : ۔ وہ تو لگ رہا ہے ان کے بولنے کے انداز سے ۔ اچھا رابعہ وہ لڑکی نہیں آئی ان کی کزن ۔
رابعہ : ۔ وہ بھی آرہی ہے ۔ سب آئیں گے ۔ میرے شوہر کی تینوں بیویاں بھی آئیں گی
منظر نمبر 4
پرطاش ا سٹیج پر آتا ہے اور کہتا ہے بچو آپ جانتے ہیں کہ ہم تقریر کر کے آپ کو بھی بور نہیں کرتے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ آپ خوش ہیں اپنے اسکول کے نظام تعلیم سے اور آپ کا جواب کیا ہوتا ہے سب اونچی آواز میں بولتے ہیں (ہاں )بس آپ کی خوشی ہی آپ کی دل چسپی کا ثبوت دیتی ہے لیکن آج میں آپ کو اس عظیم ہستی سے ملوا رہا ہوں جس نے آج کے دور میں ثابت کر دیا کہ ہم اسلامی معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ اپنے نبی کریم حضرت محمد ؐ کے اصولوں پر عمل کر کے ۔ جس طرح انھوں نے انسان کے ذہن کو بدلا اُس کی سوچ کو بدلا اﷲ سے اور جہنم کی آگ سے ڈرایا اور لوگوں کو نیک عمل کرنے کو کہا ۔ اسی طرح ریحان صاحب نے بھی لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ۔۔۔ کیا کہا یہ آپ ان سے خود سُنیں اور پرطاش ریحان کو بلاتا ہے اور ہاں یہ جو گاؤں آپ چینل پر دیکھ رہے ہیں یہ مثالی گاؤں اﷲ اور اُس کے رسولؐ کے فضل و کرم کے بعد ریحان صاحب اور ان کے گاؤں والوں کی وجہ سے مثالی گاؤں بنا ۔ انھوں نے ریحان صاحب کی ہر بات مانی اور ریحان صاحب نے اپنا تن ، من ، دھن سب اپنے گاؤں پر قربان کر دیا ۔
ریحان : ۔ آپ نے کچھ ذیادہ ہی مجھ نا چیز کے بارے میں کہ دیا ۔ بہت بہت شکریہ آپ کی عزت افزائی کا ۔ تو بچو ! میں بھی آپ کو لمبی تقریر سے بور نہیں کروں گا میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ اور زبان سے کسی کا دل دکھی نہ ہو اور اپنے گھر کی طرح اپنی گلی، محلہ ہر جگہ کو صاف رکھیں اور بڑوں سے کہتا ہوں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہاں آپ کی یہ زندگی جہنم جیسی ہے تو آپ اچھے عمل کر کے اپنی اس زندگی میں اپنا ٹھکانہ جنت میں بنا لیں نہ کہ غلط راہ اختیار کر کے دونوں جہانوں میں جہنم میں جلتے رہیں ۔ یہاں تو آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ ہماری قسمت خراب ہے اولاد نہیں یا دولت نہیں یا کامیابی نہیں ملتی وغیرہ وغیرہ لیکن وہاں کی زندگی کے لیے اﷲ نے آپ کو مکمل اختیار دیا ہے اور راستہ بھی اپنے نبی ؐ کے زریعے بتا دیا ہے کہ تم کس طرح جنت میں گھر نہیں بلکہ محل بنا سکتے ہو۔ کتنا کم عقل انسان ہے کہ جس زندگی کا اُسے کچھ پتہ ہی نہیں اُس کے آرام کے لیے دن رات محنت حرام حلال کی تمیز کیے بغیر اور جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے اُس کے آرام کے لیے کوئی اچھا عمل نہیں بلکہ گناہ ہی گناہ ۔ آپ کے شہر میں اتنا کچھ ہوتا ہے کہ دل دہل جائے لیکن آپ لوگوں کے نہ جانے کیوں دل نہیں بدلتے ۔ آپ آئیں اور میرا گاؤں دیکھیں شاید وہاں کے لوگوں کو ہر حال میں خوش دیکھ کر اﷲ کا شکر ادا کرتے دیکھ کر آپ بھی ویسا بننے کی کوشش کریں ۔ آپ لوگ ہر بات پر ہر وقت پریشان اداس رہتے ہیں۔ اولاد نہیں ہو رہی، شادی نہیں ہو رہی، طلاق ہو گئی ہے ۔ اس غم میں زندگی برباد کر دیں یہ سب زندگی کا حصّہ ہے زندگی اتنی سستی نہیں کہ ان باتوں کا روگ لگا کر زندگی ختم کر دی جائے ۔ محبت نہ ملی تو خودکشی کر لو ۔ آپ بچوں کو بتائیں کہ پہلے اچھا انسان بنوپھر کسی اور کے بارے میں سوچو۔ آپ سب بھی یہ کام کر سکتے ہیں بس صرف اپنے لیے سوچنا چھوڑ دیں ۔ اﷲ کی مخلوق کے بارے میں ان کے آرام کے بارے میں سوچیں۔ میرا خیال ہے اتنا ہی کافی ہے باقی آپ میرا چینل دیکھیں وہاں اسلام کے بارے میں زندگی گزارنے کے بارے میں آپ کو ہر بات کا جواب مل جائے گا۔
ایک بچہ : ۔ انکل آپ تقریر ختم نہ کریں ہم بور نہیں ہو رہے۔ ہم تو بور اس وقت ہوتے ہیں جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے یہ کیا ہم نے وہ کیا جب کے کیا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ آپ ہمارے شہر کو بھی اپنے گاؤں جیسا بنا دیں ۔
ریحان : ۔ آپ لوگ میرا ساتھ دو ۔ میں آپ کے شہر کو کیا اپنے سارے ملک کو اپنے گاؤں جیسا بنا دوں گا ۔ بڑے ہو کر آپ لوگوں نے ہی ان سارے محکموں میں کام کرنا ہے بس ابھی سے دل سے محبت کی دولت نکال دو ۔ رشوت سفارش سے کوئی غلط کام نہیں کرنا دل میں یہ بات ٹھان لو گھر کی طرح جس جس راستے سے آپ نے روز گزرنا ہے اُسے صاف رکھنا ہے ۔ جو ہمارے بڑے ان 60-65 سالوں میں نہ کر سکے ہم اﷲ کے فضل سے چند سالوں میں کر لیں گے ۔ باقی میرا پیغام آپ اس چینل پر سنئیے گا اب آپ لوگ موج میلہ کریں اﷲ حافظ
منظر نمبر 5
ریحان : ۔ بڑا مزہ آیا اب آپ لوگ ہمیں اجازت دیں اور آپ سب کو ہمارے گاؤں آنے کی دعوت ہے۔ اچانک نہ آئیے گا اس طرح پھر آپ سے میری ملاقات نہ ہو سکے گی ۔ آپ پاکستان کے امیر ترین خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اتنے عاجز ، ملنسار سچ حیرت کے ساتھ بڑی خوشی ہوئی اتنے بڑے لوگ اور اتنے مخلص ۔ اتنے کام کیے حمیرا ساجد کی ویب سائیٹ پر میں نے پڑھا ۔
خدیجہ : ۔ لیکن بڑا کام تو آپ نے کر دیا ۔آج کے دور میں بھی دنیا کو بتا دیا کہ واقعی اسلام کے اصولوں پر رہتی دنیا تک عمل کر کے ہم سکون اور اطمینان کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ (ایک عورت تیز چلتی ہوئی پھولے سانس کے ساتھ ریحان کے پاس آکر رک گئی اور بولی )
عورت : ۔ بیٹا میں آپ کے گاؤں گئی تھی آج صبح یہاں آنے سے پہلے وہاں ہر کوئی خوش تھا کوئی فکر نہیں ۔ کیا واقعی تمھارے گاؤں میں کسی کو کوئی مسّلہ نہیں ۔ ہم تو بڑے دکھی ہیں اور ساتھ ہی وہ عورت رو پڑی اور روتے روتے بولی ۔ میری ایک بیٹی کی دو دفعہ منگنی ٹوٹی ۔ ایک کی ابھی جو سب سے بڑی ہے شادی نہیں ہوئی ۔ بیٹے کی اولاد نہیں ہمارے گھر کے لوگ تو جیسے ہنسنا ہی بھول گئے ہیں وہ روتے جا رہی تھی ۔
ریحان : ۔ یہ دکھ اور اس سے ذیادہ کہیں اور بڑے دکھ ہیں ۔ میں اس طرف کیسے آیا یہ آپ میرے چینل پر میری کہانی دیکھئے گا ۔ لیکن ہم لوگ ہنستے مسکراتے رہتے ہیں اور جو نعمتیں اﷲ نے ہمیں دی ہیں اُن کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور مشکلوں پر صبر کرتے ہیں ۔ رہی آپ کے مسّلے کی تو یہ جو آپ کے پاس لڑکی کھڑی ہے ۔ اس کو دو دفعہ طلاق ہوئی ہے ایک دفعہ سسرال والوں نے اس لیے طلاق دے دی کہ اس کے گھر اولاد نہیں ہوئی ۔ دو سال بعد ہی طلاق دے دی دوسری دفعہ شادی کی تو دو لڑکیاں ہوئی تو یہ کہ کر طلاق دے دی کی اس کے گھر لڑکا نہیں ہوتا اور طلاق دے دی ۔ دیکھو کتنی خوش و خرم ہے پھر اس نے اﷲ سے معافی مانگی کے اﷲ میں تیری باقی نعمتوں کی ناشکری کر رہی ہوں مجھے معاف کر دے اور یہ دیکھو اب فلاحی کاموں میں میرے ساتھ ساتھ ہے ۔ آپ ہمارے گاؤں اپنے گھر والوں کے ساتھ آئیں اور ان سے ملیں ، ہم لوگ ہنستے مسکراتے رہتے ہیں ریحان نے دیکھا اس کی باتیں سننے سارے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں ۔ تو بولا آپ صرف میری باتیں سُنے نہیں عمل بھی کریں ۔شکریہ ۔
خدیجہ : ۔ اچھا ریحان یہ احسن تمھارے ساتھ جائے گا اب تمھارے چینل کو اشتہارات بھی ملیں گے اور ہر کالج ، یونیورسٹی ، ہوٹل، ملک کے اندر اور باہر تمھارا چینل دیکھا جائے گا اس نے سب کو بتا دیا ہے ۔ بڑا زبردست بندہ ہے بس تم چینل پر دینی پروگرام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حسین مناظر دکھاؤ۔ خوبصورت سڑکیں دریائے جہلم کے ساتھ چلتی سڑک جہاں پانچ دریا ملتے ہیں انوکھے انوکھے مناظر دکھانا ۔ وہی دو چار جھیلیں ، پہاڑی منظر نہ دکھانا جو بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔
ریحان : ۔ آپ کے اسکول کو سب سے پہلے دکھاؤ گا تاکہ ایسے سکول جگہ جگہ کھولے جائیں تاکہ ہمارے بچے اسکول سے علم سے نفرت نہ کریں بلکہ اس طریقہ تعلیم کے ذریعے وہ علم سے محبت کریں ۔ باقی آپ مجھے بتاتے رہنا کہ میں کیا کیا اور کیسے پروگرام تیار کروں تاکہ یہ منفرد چینل ہر کسی کا پسندیدہ چینل بن
جائے ۔ اچھا اب اﷲ حافظ
پرطاش : ۔ زرا ٹھہریں میرے دوست کا فون آیا ہے کہ میں نے رابعہ سہیل سے ملنا ہے ۔ میں بھی چار شادیاں کرنا چاہتا ہوں (اس کی بات سن کر رابعہ کا شوہر سہیل بولا )
سہیل : ۔ چار شادیاں کرنی ہیں تو مجھ سے ملو رابعہ سے نہیں تاکہ میں بتاؤ کہ کیا حال ہوتا ہے ۔ سب سُنیں بڑے ۔
ریحان :۔ اب چلو کافی تفریح ہو گئی ۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں جلدی جلدی کام کرو ۔
رابعہ : ۔ مدّت بعد تو کہیں تفریح کے لیے نکلے تھے ۔ تقریباً گھنٹے یہاں آنے میں لگ گئے دو ڈھائی گھنٹے ہم یہاں ٹہرے ۔ اب پھر چار گھنٹے کا سفر ہم نے کون سا روز روز یہاں آنا ہے ۔
سارا دن یہاں ٹھر جاتے ہیں ۔
ریحان : ۔ بڑی زندگی تفریح اور مزے میں ضائع کر لی ۔ اب ہر لمحہ اﷲ کی مخلوق کے کام آکر جنت میں اپنے لیے محل تعمیر کر لو ۔ ان محلات سے تو پتہ نہیں کب کوئی نکال دے ۔ لیکن جو موتیوں سے بھرے خیمے ہم وہاں بنائے گے وہاں سے ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا وہ محلات صدا ہمارے ہی رہیں گے اور میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں دنیا میں سب سے خوبصورت گھر میرا نہیں ہو سکتا (مجھے یہاں چند روز گھر چاہیے بھی نہیں ) لیکن وہاں چاہتا ہوں سب سے اچھا میرا گھر ہو ۔ جہاں میرے ماں باپ سب خاندان والے ہوں اور میرے وہ دونوں کزن جو کسی کی جان اوردولت کو تو کچھ نہیں کہا لیکن صرف اپنے لیے جی گئے۔ کسی کے لیے کچھ نہ کیا ۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کی دولت سے میں بہت نیک کام کروں تاکہ وہاں تو ہم سدا ساتھ رہیں ۔ چلوجلدی کرو ۔ ہمیں تو جی بھر کے سونا بھی نہیں چاہیے ۔
اچھا بھئی اﷲ حافظ اب ہم ایک پل بھی رُک نہیں سکتے ۔ ریحان چلا گیا تو خدیجہ بولی ۔
خدیجہ : ۔ چلو ہم بھی چلیں ۔ بہت مزے کر لیے ۔ سا ون شروع ہونے والا ہے اور اس کچی بستی کی بہت
بری حالت ہے ۔ ایک لمحے کی دیر بھی کوئی بڑا نقصان کروا سکتی ہے
مریم : ۔ ریحان اﷲ تیرا بھلا ہی کرے اور کیا کہ سکتی ہوں یہ پہلے کون سا آرام کرنے دیتی تھی اب تو ہمیں سکون کا ایک سانس بھی نہیں لینے دے گی (مریم لفظوں جملوں کو لمبا کر کر کے بولی )تم تو چلے گئے ہو ریحان اب ہماری خیر نہیں ۔
خدیجہ : ۔ یہ ریحان کوئی اور ہی ہستی بن گیا ہے ۔ اس کے چہرے پر عجیب سا جلال ، رعب پتہ نہیں کیا کیا ہے ۔
روحی : ۔ تم بھی عجیب شے بن چکی ہو ۔ ہم جیسی تو رہی نہیں ۔ عجیب لوگ ہی عجیب لوگوں کے چہرے پڑھ سکتے ہیں مجھے تو کچھ انوکھا نظر نہیں آیا ۔ کہاں پھنس گئی ہوں سوچا تھا آج سارا دن مزے کریں گے ۔
پرطاش : ۔ چلو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں مدت ہوئی کہیں دور سب کے ساتھ گئے ہوئے ۔ پھر وہ فون پر کسی سے کہتا ہے کہ 10بجے اسکول کو تالا لگ جانا چاہیے 3 بجے پروگرام ختم ۔ تاکہ گھر جا کر سب آرام کر سکیں ۔ چھٹی کی بات نہ کرو ۔ کوئی چھٹی نہیں یہ کیا آج تفریح موج میلہ کرنے کے لیے پڑھائی سے چھٹی اور کل اس موج میلے میں شرکت کرنے کی وجہ سے جو تھکن ہوئی اس کو دور کرنے کے لیے چھٹی ۔ اب یہ چھٹیوں کا سلسلہ بند کرو کل سب اسکول آؤ ۔ فون بند کر کے پرطاش بولا ذرا گنتی تو کرو کہ سال بھر کتنی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ روحیل آئس کریم کھاتے ہوئے فوراً بولا ۔
روحیل : ۔ چھٹیاں گننے کی بجائے یہ گن لو کہ پڑھائی کتنے دن ہوتی ہے یہ حساب لگانے میں آسانی ہو گی اور حساب بھی جلدی لگ جائے گا ۔ سب ہنس پڑتے ہیں اور گاڑی چل دیتی ہے ۔
سب گاؤں میں (کچی بستی )درخت کے نیچے بیٹھے ہوتے ہیں کہ خدیجہ کہتی ہے ۔
خدیجہ : ۔ ہم تھوڑا سا کام کر کے تھک گئے ہیں لیکن وہ شام تک کام کرتے رہیں گے ۔۔اور ۔۔۔
پرطاش : ۔ اس کی وجہ بے فکری ہے وہ یہاں سے کام کر کے جائیں گے اور سو جائیں گے تم تو امیر ترین لوگ ہو تمہیں کیا پتہ درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ مزدور لوگ غریب یہ آزاد بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں ۔
خدیجہ : ۔ چلو چھوڑو یہ بتاؤ آخر ہم ایسا کیا کریں ۔ ریحان نے تو کمال ہی کر دیا ۔ ہم لوگوں کے دل سے دولت کا لالچ کیسے نکالیں ۔ ریحان کہتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں کوئی اس لیے چوری نہیں کرتا کیوں کہ ہم نے یہ بات ان کے ذہن میں ڈال دی ہے کہ یہ مال یہیں رہ جائے گا یا تمھارے گھر والے استعمال کریں گے اور گناہ گار تم ہو گے۔ وہاں جو مال بھیجو گے (نیکی ، اچھے اعمال )وہ تمھارے کام آئے گا۔ اسے کوئی چوری نہیں کر سکتا اور وہاں ہمیشہ تمھارے ہی پاس رہے گا ۔ اُس کے سمجھانے کاطریقہ ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کی بات مان جاتا ہے ۔
پرطاش : ۔ ہم بچوں پر محنت کر سکتے ہیں یہ ہمارے بس میں ہے ۔ شاید اپنے بچوں کو دیکھ کر بڑے بھی ٹھیک ہو جا ئیں یا کم از کم شرمندہ تو ہوں گے کہ اتنے سال ہم کیا کرتے رہے ۔
روحی : ۔ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ وہاں لڑکا اور لڑکی محبت کے چکر میں نہیں پڑتے ۔ بس اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ بنانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں کہہ اگر ہم کچھ نہیں بن سکتے تو کم از کم اچھے انسان تو بن جائیں ۔واقعی اب ہر کوئی ڈاکٹر ، انجینئر تو بن نہیں سکتا ۔
پرطاش :۔ یہ تو خود اگر یہ نوجوان نسل سمجھے تو پھر بات ہے ۔ یہاں تو زندگی کا مقصد ہی محبت رہ گیا ہے ہر فلم ، ڈرامہ ، کہانی میں محبت کے لیے ہی جینا مرنا سیکھایا جاتا ہے ۔ پتہ نہیں یہ لکھنے والے صدیوں سے لڑکے اور لڑکی کو کیوں محبت میں جینے مرنے یا بھاگ جانے مشورے دے رہے ہیں ۔ ان کے ان مشوروں پر عمل کر کے ہزاروں لڑکیاں لڑکے برباد ہو گئے ہیں ۔ لیکن یہ لکھنے والے ایسی کہانیاں لکھنے سے بعض نہ آئے ۔
میں تو اپنے اسکول کے بچوں کو بڑے کھلے الفاظ میں بتاؤ گا کہ محبت کا دوسرا نام بربادی ہے ۔ اپنی زندگی اس فضول کام میں برباد نہ کرنا ۔ کچھ ایسا کر کے دکھانا کہ رہتی دنیا تک تمھارا نام زندہ رہے ۔
لوگ تمھارے اچھے کاموں کی مثالیں دیں ۔
خدیجہ : ۔ دوسرا میرا خیال ہے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو ہنر سیکھنے ، پڑھنے اور دوسرے اچھے کام کرنے میں اتنا مصروف کر دینا چاہیے کہ ان کو ایسے فضول کام کرنے کی فرصت ہی نہ ملے ۔
مریم : ۔ چلیں کافی مستقبل کی منصوبہ بندی ہو گئی اب کچھ کھانے کو بھی دے دو ۔
خدیجہ : ۔ آج مریم کو بھوک لگ گئی اور اس نے کھانے کی بات کر دی اس کا مطلب ہے کہ واقعی کھانے کو کافی دیر ہو گئی ۔ مریم نے آج تک کبھی نہیں کہا کہ چلو اب کھانا کھا لو ۔ چلو بھئی جلدی اب واپسی کا سوچو ۔ مریم بسکٹ جوس گاڑی میں پڑے ہیں اس سے تھوڑا بھوک کا مسئلہ حل کرتے ہیں ۔ پھر کھانا کھا لیں گے گھر جا کر ۔
روحیل : ۔ جی نہیں ہم گھر نہیں گاؤں جا کر کھانا کھائے گے ۔ یہاں سے تقریباً دو گھنٹے کا سفر ہے ۔ اگر میں گاڑی چلاؤ تو گھنٹہ بھر میں پہنچا دوں گا ۔
مریم : ۔ بالکل گھنٹہ بھر میں لیکن کہا پہنچا دو گے کہ آپ لوگ جانتے ہوں گے ۔ نہیں آپ گاڑی انکل ہی کو چلانے دیں ۔ ہم دو گھنٹے صبر کر سکتے ہیں۔ ہمارا نام راحیل نہیں جو بھوک برداشت نہیں کر سکتے ۔
خدیجہ : ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
روحی : ۔ ٹھیک ہے نا پرطاش کو بھی گاؤں دیکھا دیں گے اور وہاں کا کھانا بھی کھلا دیں گے ۔ کیا گھر جیسا صاف ستھرا مزے دار کھانا ہے ۔
روحیل : ۔ ٹھیک ہے میں ریحان کو فون کر دیتا ہوں ۔ وہ کرتا ہے کہ تم اُکتا تو نہیں جاؤ گے کہ ہم تمھارے گاؤں روز روز آنے لگے ہیں ۔ ریحان کہتا ہے مجھے تو خوشی ہوتی ہے جب گاؤں کے لوگ اچھا اور صاف ستھرا کھانا کھانے آتے ہیں اور کچھ لوگ گاؤں سے باہر بھی اچھا کھانا پکانے کی سوچنے لگے ہیں۔ چلو اسی طرح ہی آہستہ آہستہ اندھیرا دور ہو گا اور لوگ ہر کام اچھا اچھا کرنے لگیں گے میرے گاؤں کو دیکھ کر۔ اور پھر میرا سارا ملک روشن پاکستان بن جائے گا انشا ﷲ تعالی۔ اچھا اﷲ حافظ ہم کھانا کھانے آرہے ہیں اور آتے ہی رہیں گے انشاﷲ تعالی ۔ سب ہنسنے لگتے ہیں ۔
مریم : ۔ کوئی کچھ بھی کہ رہا ہو راحیل کو کھانے کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ۔
روحیل : ۔ اور تمھیں مجھ سے جلنے کے علاوہ کوئی دوسرا مسئلہ ہی نہیں ۔
پرطاش : ۔ ان دونوں کا کیا مسئلہ ہے وہ خدیجہ کی طرف دیکھ کر بولا ۔ تو سب ہنس پڑتے ہیں ۔
کہ ان کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا ْ

منظر نمبر 6
سب یونیورسٹی میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں کہ چھٹیوں میں کہاں جانا ہے ۔
سلمہ : ۔ اس کے تو مزے ہیں ، ہر شہر میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار ہے ۔ سارے ملک کی سیر کر لیتی ہے ۔
انعم : ۔ (بڑی حسرت سے بولی ) میرے تو سارے رشتہ دار اسی شہر میں ہیں ۔ بس محلے بدلتے ہیں شہر وہی رہتا ہے ۔
کائنات : ۔ ہمارے تو سارے رشتہ دار ہی باہر ہیں ۔ ہم بھی تو ہیں ساری چھٹیاں اپنے ہی گھر میں گزار دیتے ہیں ۔ بس موسم اچھا ہوا تو گھومنے چلے گئے ۔ پھر گھر آگئے ۔ سب بولے جا رہے تھے لیکن سدرہ خاموش بیٹھی تھی ، اس کو خاموش بیٹھا دیکھ کر کائنات بولی ۔
کائنات : ۔ ان محترمہ کو کیا ہوا ہے ۔ یہ مفّکر پاکستان بنی بیٹھی ہیں ۔
انعم : ۔ اسے چپ ہی رہنے دو عجیب باتیں کر رہی ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ کہتی ہے کہ میں خدیجہ کے ساتھ ایسے گاؤں گئی ہوں جہاں کوئی برائی نہیں ہوتی ، کوئی جرم نہیں ہوتا اور مزے کی بات وہاں پولیس کی ضرورت ہی نہیں۔ ہر کوئی بس وہاں اﷲ سے ڈرتا ہے اور کوئی گناہ یا جرم نہیں کرتا کہ اﷲ تو دیکھ رہا ہے اور اُس سے کوئی بات انسان چھپا نہیں سکتا ۔
ہارون : ۔( کائنات کا بھائی ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا )بس بس انعم باجی اس سے زیادہ ہضم نہیں ہو رہا۔ اتنا جھوٹ بلکہ چٹا سفید جھوٹ وہ بھی چٹے سفید دن میں ۔
انعم : ۔ ہارون یونیورسٹی میں آکر تو باجی نہ کہو ۔ کائنات تم اسے سمجھاتی کیوں نہیں ۔ یہ تو ماشاﷲ ہمارا بڑا بھائی لگتا ہے لوگ کیا سمجھتے ہوں گے اسے دیکھ کر کہ ہم کتنے بڑے ہیں ۔
ہارون : ۔ آپ بڑی کلاس میں ہیں تو مجھ سے بڑے ہی ہوں گے ۔ میں تو ابھی اس سال آیا ہوں ۔
اوہو انعم باجی آپ بات کس طرف لے گئی ۔ اتنے مزے کی جھوٹی بات ہو رہی تھی ، ہاں تو اور جھوٹ بولیں سدرہ باجی ۔
انعم : ۔ تمھیں تو جھوٹی کہانی کا مزہ آئے گا اس لیے کہ تم بچپن سے ہی ہم سب کو جھوٹی کہانیاں سناتے تھے کہ ہم کو تو سچ کا گمان ہوتا تھا ۔
ہارون : ۔ لیکن آپ گواہ ہیں انعم باجی کی اتنا جھوٹ میں نے کبھی نہیں بولا ۔
طاہر : ۔ (طاہر کلاس لے کر آیا اور اپنی فائل میز پر رکھتے ہوئے بولا )کیا تم لوگ ہر وقت لڑتے رہتے ہو ۔ تم کزن لوگ کا تو ماحول تبدیل ہی نہیں ہوتا ۔ گھر میں بھی اکھٹے اور یونیورسٹی میں بھی اکھٹے ۔
وہی تو تو میں میں ۔
انعم: ۔ تم کیا جانوں طاہر اکٹھے رہنے کا کیا مزہ ہے ۔ ہر وقت ایک نیا ڈرامہ ، شغل میلہ ۔ ہمیں تو ٹی وی لگانے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ہر وقت کوئی کردار تفریح مہیا کرتا رہتا ہے۔
ہارون: ۔ سب سے اہم اور بڑا کردار انعم باجی کا ہوتا ہے۔ ہرایک کی زبان پر انعم باجی کا نام ہوتا ہے۔ وعدہ سب سے کرتی ہیں لیکن کام کسی کا نہیں کرتیں۔ آگے آپ خود اتنے تو عقل مند نہیں کہ آپ سمجھ جائیں کہ کس کس انداز میں سب کی زبان پر ان کا نام ہوگا ۔
کائنات:(انعم کے بولنے سے پہلے ہی کائینات بولی )آج ہی بابا سے کہہ کر تمہیں دوسری یونیورسٹی میں بھیجتی ہوں ۔ جی بھر کے اس یونیورسٹی کو د یکھ لو ۔
ہارون:نہیں نہیں باجی ایسا نہ کیجیے گا ۔ میں اکیلا یونیورسٹی نہیں جا سکتا ۔ یہاں آپ سب کے ساتھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں یونیورسٹی میں ہوں یا گھر میں (وہ معا فی مانگتے ہوے بولا)
کائنات:اگر ایسا ہے تو پھر تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ یونیورسٹی اور گھر میں فرق محسوس کرو۔ اب کبھی مجھے شکا یت کا مو قع دیا توپھر کبھی معاف نہیں کروں گی۔
انعم:۔چھوڑبھی دو اب تم نے تو خود گھر کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اتنی سی بات کو اتنا لمبا کر دیا ۔ ایسے نہیں کہتے باہر آکر ۔ بس اسے منع کردیتی ۔ مختصر بات کرنی مجھ سے سیکھو (علی کی کمی تھی کہ علی دوڑتا ہوا آیا اور بولا )
علی:ارے تم نے کچھ سنا ۔ نہیں تم نے کہاں سنا ہو گا ایسی بمباٹ خریدیں تو ہمیشہ میں ہی دیتا ہوں ۔پاکستان میں ایک ایسی بستی ہے جہاں لوگ کہتے ہیں انسانوں کے روپ میں فرشتے رہتے ہیں وہ بستی ہر برائی سے پاک ہے اور۔۔۔۔
انعم:ایک اور پاگل آگیا ۔ سدرہ نے تو چلو رات کو خواب دیکھا ہو گا اور صبح یونیورسٹی آکر ہمیں سنا دیا ۔
یہ صاحب تو صبح ٹھیک ٹھاک تھے ۔ یہ جاگتے میں خواب دیکھ کر آیا ہے۔
سلمہ:(جو بڑی دیر سے خاموش بیٹھی تھی فوراََبولی) نہیں اس نے بھی سوتے ہی میں خواب دیکھ لیا ہے ۔
یہ سر حا مد کی کلاس لے کر آیا ہے۔ ان کی کلاس میں نیند آہی جاتی ہے ۔
(سب قہقہ لگا کر ہنسنہ شروع کر دیتے ہیں )
علی:مجھے اپنے جیسا نہ سمجھو۔ میں کسی سر کی کلاس میں نہیں سوتا اور تم میرا یقین کرو میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے احمر نے بتایا ہے۔
احمر:بو لو جو دل چاہے بو لو لیکن آج میں مذاق نہیں کر رہا ہوں ۔ بلکل سوفی صدسچ کہہ رہا ہوں۔
(دیکھو وہ لیپ ٹا پ کھل کر بولا)
ہارون:اسے تو بند ہی کر دیں ۔ اسے دیکھ کر میرا گیمز کھیلنے کا دل کرتا ہے ۔ یاور ابھی میری کلاس شروع ہونے والی ہے۔
کائنات:تم کلاس لینے جاؤ اور احمر یہ مجھے دے دو میری کلاس دو گھنٹے بعد ہے اچھا وقت گزر جائے گا ۔
احمر:لے لینا کھیلنے کے لئے لیکن پہلے وہ گاؤں تو دیکھ لیں فرشتوں کا گاؤں۔
کائنات:کوئی نئی گیمزہوگی ۔ چلودو مجھے میں خود ہی دیکھ لوں گی۔
(سب کلاس کے لڑکے اور لڑکیوں کو ادھر آتا دیکھ کر کائنات بولی )
کائنات: احمدکہیں تم تو کوئی شرارت کر کے نہیں آئے جو یہ سب کے سب ادھر آرھے ہیں ۔
احمد:ایسی کوئی بات نہیں ۔ ویسے مجھے پتہ ہے یہ کیوں آ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد آپ کو بھی پتہ چل جائے گا۔
پاس آ کر سب بولے تمہارا ابھی تک اکھٹے رہنے کا شوق پورا نہیں ہوا ۔ گھر میں اکھٹے، یونیورسٹی میں اکھٹے، کلاس میں اکھٹے، پوائنٹ میں اکھٹے۔
انعم۔اور تم اکھٹے ہونے سے متاثر ہو کر اب ہم پر اکھٹے حملہ کرنے آئے ہو۔ ویسے تم سب کیسے اکھٹے ہو گئے ہو(بکھری قوم)
عاطف۔ہم بڑے نیک مقصد کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں کہ ہم کل اپنی چھٹیو ں کا پہلا دن فر شتوں کی بستی یعنی اس گاؤں کی سیر کرنے میں۔
اور آپ کو بھی دعوت عام ہیں۔ جس کو اپنے ساتھ چاہیں لے جا سکتے ہیں ۔ ساری یونیورسٹی بہکی بہکی
با تیں کر نے لگی ہے ۔ میرا خیال ہے مجھے یہاں سے چلنا چاہیے کہیں آپ لوگوں کا سا یہ مجھ پر نہ پڑ جائے۔ سدرہ کی زبا ن میں اتنی طاقت ہے؟ اس نے اپنی بات کا یقین آدھی یونیورسٹی کو دلا دیا ہے۔
عمارہ۔ آدھی نہیں ساری یونیورسٹی بلکہ تقریبا دنیا بھر کو اس با ت کا یقین ہو چلا ہے کہ ایسا گاؤں ہے جہاں فرشتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم جا رہے ہیں ۔ اگر جانا ہے تو بتا دو ۔ پھر گاڑی میں سیٹ نہیں ملے گی ۔ پاپا سے بڑی گا ڑ ی منگوا رہی ہوں۔ اگر نہیں جانا تو بھی بتا دو ۔ میں کلاس کی دوسری لڑکیوں کو بتا دوں۔
سدرہ ۔ میرا تو دل چاہتا ہے کہ وہیں جا کرہوں گی۔ کیا نگری ہے۔
کائنات۔گھر نہ جانا آج تم ۔ میں گھر جا کر تمہاری امی کو بتا دو گی (وہ اپنا بیگ اٹھائے ہوئے بولی)
اچھا میں تو کلا س لینے جا رہی ہوں۔
سدرہ ۔نہ جاؤ کوئی فائدہ نہیں میڈم پرسوں فرشتوں کے گاؤ ں گی تھی اور آج ہر کلاس میں جو دیکھا وہ بتا رہی ہیں ۔ کل سے چھٹیاں ہو رہی ہیں۔ کوئی بھی پڑھنے کے موڈ میں نہیں کلاس میں۔
ہارون۔چلیں سدرہ باجی آپ بھی اس بستی کی کہانی سنا دیں۔ ٹائم تو گزارنا ہے ۔
سدرہ ۔ وہ کہانی نہیں حقیقت ہے زندہ حقیقت۔ ایسا لگتا ہے ہم کسی نئی دنیا میں آ گئے ہیں۔ اس افراتفری کے ماحو ل ، گندی سڑ کیں، گندے ٹھیلے ، کوئی راستے میں صاف کپڑوں میں نہ ملا ہر کوئی گندے گندے بال ، پرسان حال ۔ لیکن جیسے ہی ہم مین روڑ سے اتر ے بستی کی طرف تو سڑک پر چل پڑے۔ ایسے لگاجیسے طلسمائی فلموں میں دکھلاتے ہیں ناں کہ دیوار کے اندر داخل ہوئے تو دیوار کے پار ایک نئی دنیا ہوتی ہے ۔ بلکل اسی طرح ایسا لگا ہم ایک نئی دنیا میں آگئے ہیں ۔ ہر طرف صفائی ہی صفائی ہنستے مسکراتے چہرے ، پر سکو ن زندگی، مزے سے لطف لے لے کر ہر کوئی اپنا اپنا کام کر رہا ہے۔ ہزاروں پریشانیوں میں بھی لوگ ہنس رہے تھے ۔ خدیجہ نے ان سے پوچھا آپ لوگ پریشان کیوں نہیں ہو تے؟ وہ کہنے لگے جو کچھ اﷲ نے دیا ہے ہم اس پر خوش ہوتے ہیں اور جو نہیں ہوتے وہ شکوے لگا کے ہم گناہ گار نہیں ہونا چاہتے ۔ ہم نہ ملنے پر صبر کرتے ہیں اور نعمت مل جانے پر شکر ادا کرتے ہیں اور اپنے رب کو راضی کرتے ہیں اور ۔۔۔
ھما۔غافل لوگوں کہاں کھوئے ہوئے ہو ؟ کیا یہیں رہنے کا ارادہ ہے ۔ پوا ئنٹ چل چکے ہیں۔
شکر کرو میری دور کی نظر کمال کی ہے جو میں نے تم لوگوں کو دور سے دیکھ لیا ، وہ دور کو کفیع کر بولی۔
عمارہ۔آج جلدی پوائنٹ چل پڑے ہیں کیا ، 5بجے چلتے ہیں ناں۔
ھما۔گھڑی پر ذرا ایک نظر کرم ڈالیں وہ سوا پانچ بجا رہی ہو گی ۔ کیا دو گھنٹے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا سب اکھٹے بولے اور اپنا اپنا لے کر تیز تیز چل پڑے پوائنٹ کی راہ گزر کی طرف۔

منظر نمبر7
سب گھر میں سارے ماموں زاد ، خالہ زاد، پھوپھی زاد، تایا چچا زاد اکھٹے حیران پریشان سوچوں میں گم بیھٹے ہیں جیسے ابھی تک وہ اسی بستی میں ہوں ۔ دو دن گزرنے کے باوجودبھی وہ اس بستی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔
کائنات۔یقین نہیں آتا کہ ایسی بستی بھی ہے۔ حالانکہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئے ہیں ۔ واقعی فرشتوں کی بستی ہے۔ یہ جو ہمارے گھر والے ہر وقت الٹے سیدھے مسلوں میں الجھے رہتے ہیں ۔ ان سب کو وہاں لیکر جائیں گے۔ ٹیچر کے ساتھ جا کر اب لوگ ہمیں پہچان گئے ہیں کہ ہم یونیورسٹی سے آتے ہیں ۔ اب ہم اہل خاندان کو لے کر وہاں کا دورہ کریں گے ۔
ہارون : ۔ آپ کی اس سیر والی بات پر ریحان صاحب نے کہا تھا کہ آپ یونیورسٹی کے لوگ تو اس بات کومشغلہ یا صرف سیرو تفریح کا مقصد نہ بنائیں ۔ آپ پڑھے لکھے نوجوان لوگ ہیں ۔ اپنے آس پاس کے ماحول کو بدل سکتے ہیں ۔ پہلے سچے دل سے خود کو اندر سے بدلو ۔ پھر دیکھنا سب کچھ کتنی آسانی سے بدل جائے گا۔ ہم لوگ کوئی کام کئے بغیر گھر والوں کو لے کر چلے جائیں گے جیسے کوئی تماشا لگا ہوا ہے۔ سب باری باری آکر دیکھتے جائیں تو ریحان صاحب ہمارے بارے میں کوئی اچھا تو نہیں سوچیں گے۔ یہی دل میں کہیں گے کہ بس یہ بھی تماشا دیکھنے والے لوگ ہیں ۔ ہم کچھ کر کے ہی جائیں گے ۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کریں بھی تو کیا کریں ۔ ریحان صاحب کو ہی فون کر کے پوچھتے ہیں کیونکہ نہ ہمارے پاس اتنی دولت ہے نہ ہم جب چاہیں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں ۔
کائنات : ۔ ایسی باتیں نہ کرو ہم بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ میرے کانوں میں ابھی تک ریحان کی باتیں کی باتیں گونج رہی ہیں اور میرا دل دہل جاتا ہے ۔ ان کی اس بات پر کہ اس سے پہلے کے کوئی بڑا حادثہ ہم کو بدل کر رکھ دے ۔ جلدی سے خود ہی اپنے اپ کو بدل لو ۔ اپنی زندگی کو لڑکیوں اور دولت کے چکر میں برباد نہ کرو ۔ جو کرنا ہے آج ابھی کر لو ۔ یہ زندگی اگر دکھوں سے بھری ہے یا برباد ہے تو کوئی بات نہیں یہ عارضی زندگی ہے ۔ اس زندگی میں ہم اپنی ناکامی ، بربادی کی ذمہ داری قسمت کو ٹھہر ا سکتے ہیں لیکن وہاں ایسا نہیں کر سکیں گے ۔ وہا ں ہم جو نیکی ، بدی ، اچھے ، برے اعمال آگے بھیجیں گے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ یہاں بعض اوقات بے گناہوں کو بھی سزا مل جاتی ہے کیوں کہ اﷲ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے ۔ لیکن وہاں انصاف ہو گا کسی کا کوئی عمل چاہے وہ رائی کے دانے کے برابر کیوں نہ ہو اس کا اجر ملے گا ۔ ہر امیر، غریب ، جاہل ، عالم سب نیک عمل کر سکتے ہیں اگر وہ کرنا چاہیں تو ۔
وقت کھیل تماشوں میں برباد نہ کرو۔ نوجوانی کی عبادات اور نیک عمل کا زیادہ ثواب ہے ۔ تم اتنی تعداد میں ماشاﷲ نوجوان ہر یونیورسٹی ، کا لج اور دوسرے اداروں میں ہو کہ تمھارے ہوتے ہوئے ہمارے معاشرے میں کسی بھی جگہ کوئی برائی، کوئی گناہ یا کوئی جرم ہونا ہی نہیں چاہیے ۔ لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ تم خود نوجوانوں ہر برائی میں پڑے ہوئے ہو ۔ تمھارے وجود سے معاشرہ گندہ ہو رہا ہے ۔ تم گندے ہو تمہارے آس پاس کا ماحول گندہ ہے ۔ پہلے اپنے من کو صاف کرو پھر آس پاس کے ماحول کو پھر دیکھنا سب نکھرا نکھرا ہو جائے گا ۔
میں اُسے دیکھ رہی تھی اور حیران ہو رہی تھی وہ اتنا حسین ہے کہ لڑکیاں کیا لڑکے اُسے آنکھ جھپکے بغیر دیکھے جا رہے ہیں ۔ دنیا اس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہی ہے لوگ اُس کے گیت گا رہے ہیں۔ لیکن لگتا ہے وہ کسی اور جہاں میں رہتا ہے ۔ اُس پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ تعریف اُس کی نہیں کسی اور کی ہو رہی ہے ۔ وہ ان سب باتوں سے بے نیاز ہو کر نا جانے کس دنیا میں رہ کر اس دنیا کے لیے کام کر رہا ہے (سدرہ کو پریشان دیکھ کر وہ بولا )
ریحان : ۔ آپ خدیجہ کے ساتھ بھی آئیں تھی تب بھی مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ کسی خوف میں مبتلا ہوں اور آج بھی آپ خوف زدہ خوف زدہ سی ہیں ۔ آپ مجھے یا رابعہ سہیل کسی کو بھی اپنا خوف بتا دیں ۔ کیونکہ خوف آپکی زندگی، صحت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے ۔
سدرہ : ۔ میں خود اس خوف کی وجہ سے رات کو سو نہیں سکی ۔ میرے رشتہ داروں اور محلے میں اتنی اچھی اچھی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہوا کہ کسی کو طلاق ہو گئی ، کسی کے گھر اولاد نہ ہوئی تو کسی کو اﷲ نے صرف بیٹیاں ہی دیں۔ بس ہر بات میں عورت ہی ذمہ دار ہے اور سزا بھی عورت کو ہی ملتی ہے۔ نہ سسرال میں کام کرنے کے باوجود عزت ، پیار، سکون اور جب طلاق لے کر واپس میکے آؤ تو وہاں جینا حرام۔ کہیں اﷲ نہ کرے میرے ساتھ ایسا کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گی۔ یہ خوف مجھے ایک پل بھی چین نہیں لینے دیتا (وہ روتی جاتی ہے اور بولتی جاتی ہے )
ریحان : ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہاآپ لوگ صرف اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں بس
یہیں سب آرام خوشیاں مل جائیں ، کہیں سے دکھ کس جھونکہ بھی نہ آئے ۔ یہ زندگی امتحان گاہ ہے ۔ آرام سکون وہاں ملتا ہے اس لیے اچھے عمل کرو تاکہ اگر یہاں کچھ نہیں ملا تو وہاں تو مزے کی زندگی نصیب ہو ۔ تم ہمارے ساتھ یا خدیجہ کے ساتھ کام کرو ۔ لوگوں کے دکھ دیکھ کر اپنا ہر خوف بھول جاؤ گی ۔ یہ سب فارغ رہنے کے ثمرات ہیں ۔ کسی کے کام آؤ ، دل کو سکون نصیب ہو گا ۔
تم لوگ اپنے آپ کو نیک بناؤ ۔ اپنے گلی، محلے ، اسکول کالج کو صاف رکھو اس کا ماحول ٹھیک کرو ۔ کسی غریب بچے کو چپل کپڑے تو لے کر دے سکتے ہو ۔ تم نوجوان تو طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہو لیکن افسوس افسوس افسوس۔ تم نوجوان تو خود ہر طوفان کا پیش خیمہ بنے ہوئے ہو ۔ ہر طوفان کی ابتداء تم کرتے ہو ۔ تمھارے ہاتھ سے کسی کی جان مال عزت محفوظ نہیں ۔ چند ایک نوجوان جو نیک ہیں وہ نیک نہیں یا تو وہ ڈرپوک ہیں یا صرف اچھی نوکری اور پھر خوب دولت کمانے کے لیے ایسی فضول باتوں سے دور ہیں۔ ان کی ذات سے اﷲ کی مخلوق کو کوئی فائدہ نہیں ۔ وہ اپنے لیے ہی جیتے ہیں ۔ بس اچھی نوکری ملنے کے لیے محنت کرتے ہیں کہ اچھی امیر جگہ رشتہ ہو سکے۔
ہر دفعہ چٹھیوں میں بچے مختلف گیمز کی دکانوں میں کھیل کر اپنا وقت اور پیسا تو ضائع کرتے ہی ہیں لیکن جو عمربھر تک ساتھ رہتی ہیں وہ خراب عادتیں بھی اپنا لیتے ہیں ۔ آپ اس دفعہ یہ نیکی ہی کر لیں کہ ان بچوں کو روز صبح پانچ بجے بچوں بڑوں سب کو ساتھ لیں پھر سب اپنی اپنی گلی صاف کریں اور پھر ریس کی تیاری کریں اور ہر اتوار کو مقابلہ کروائیں فرسٹ آنے والے کو کم از کم دو ہزار تودیں پھر1500 پھر ہزار کا انعام دیں ۔ ماں باپ کی دعائیں بھی لو گے اﷲ بھی خوش ہو گا اور اپنے بچوں کو غلط راہ پر جانے سے روک لو گے ۔ اس طرح ان بچوں کو ریس میں آگے لے کر جانا ۔ کام کرنا ہو تو بڑے کام ہیں ۔ اپنے گلی محلے خاندان کے بزرگ مرد اور عورت کو کام کی عادت ڈالو تاکہ وہ فارغ بیٹھ کر لڑائی کرنے کی بجائے نیک کام کریں ۔ ہر کسی کی مدد کریں ۔ نوجوانوں سے پیا ر سے اچھے اچھے کام کروائے ۔ جوبزرگ ہیں وہ بڑے بن کر دیکھائیں ۔
ریحان کی باتیں اس کے کانوں میں گونجتی رہیں وہ بولے جا رہا تھا اور چینل پر براہ راست سُنا جا رہا تھا ۔ وہ سارا سارا دن بھی بولتا رہے تو لوگ اسے سنتے رہتے ہیں ۔ پتہ نہیں کیا جادو ہے اس کی آواز میں نہیں بلکہ اس کے الفاظ میں کہ وہ جو کہتا ہے لوگ مان جاتے ہیں ۔ آپ لوگ دل میں کچھ اچھا کرنے کی سوچیں ۔ راستہ اﷲ خود دکھاتا ہے۔
یہاں اپنے لیے محل بنانا مشکل ہے لیکن وہاں اپنے لیے جتنے چاہو محلات بنا لو جو چاہو حاصل کر لو لیکن شرط یہ ہے کہ خلوص دل کے ساتھ کام کا آغاز کرو اور اﷲ سے اس کا م کو مکمل کرنے کی دعا کرو ۔
لڑکیوں کا دل جیتنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف نہ کرو ۔ ہمارے گاؤں کے لڑکے اب یہ کھیل کھیلنا چھوڑ چکے ہیں ۔ اس سے سوائے رسوائی ، بدنامی سے کچھ نہیں ملتا ۔ مر جاتے ہیں یا مار دیتے ہیں۔ بھاگ جاتے ہیں گھر سے ۔ ہر کام برا اس لیے یہ پیار بھی برا ۔ کہیں لوگوں کی جان یہ کھیل پیار لے گیا ۔ اب ہم لوگوں نے یہ سب چھوڑ دیا ۔ تم بھی یہ سب چھوڑ کر سیدھے راستے پر آکر لوگوں کی خدمت کرو ۔ بیکار سوتے نہ رہو ۔ موبائل ، کپمیوٹر سب شیطانی آلات ہیں ۔ اپنی زندگی کا کوئی مقصد بناؤ ۔ یونہی کھا پی کر موج میلہ کر کے زندگی نہ گزارو ۔ دل میں صرف اﷲ کا ڈر اور خوف رکھو ۔
تو ہر خوف سے آزاد رہو گے ۔ہر دم اﷲ ہی کو پکارو ۔
لڑکیوں کو اگر کوئی امیر لڑکا مل جائے تو وہ اس سے شادی کر لیتی ہیں اور اگر لڑکے کو کوئی امیر لڑکی مل جائے تو وہ اُس کا بن جاتا ہے ۔ پھر یہ محبت کا کھیل کیا ہوا ؟ کچھ بھی نہیں ۔ اس محبت کے چکر سے نکل آؤ ۔
تو دنیا میں بڑے عظیم کام کر سکو گے ۔ کیونکہ جو کچھ کرنے کی عمر ہوتی ہے وہ تم محبت کے فضول کام میں گزار دیتے ہو اور پھر ساری عمر روتے ہو کہ کاش میں ایسا نہ کرتا ۔ میرے ساتھی کہاں پہنچ گئے اور میں وہیں کھڑا ہوں ۔
بس اُٹھو اور نئی اُمنگ کے ساتھ زندگی شروع کرو تم کالج اور یونیورسٹی کے نوجوان دریاؤں کا رخ موڑ سکتے ہو لیکن پہلے اپنی سمت سیدھی کرو ۔
یہاں پر تو تمھیں عزت دولت مل جاتی ہے کہ تم فلاں کے بیٹے ، پوتے ، نواسے ہو وہاں تمھیں اپنے اعمال سے ہی سب کچھ ملے گا ۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا ۔ صرف تمھاری نیکیاں ہی تمھارے کام آئیں گی ۔
جن گھروں کو دیکھ کر تم حسرت سے کہتے ہو کہ کاش ہم ان گھروں میں رہ سکتے یہ ہمارے ہوتے ۔ تم اچھے نیک عمل کر کے ان سے ذیادہ حسین محل وہاں بنوا سکتے ہو ۔ ویسے بھی یہاں محل نہ ملنے کا دکھ نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں کون سا ہمیشہ رہنا ہے جہاں ہمیشہ رہنا ہے وہاں کی فکر کرو۔ میرے نوجوانوں اب تم نے اپنی دولت اور نیک عمل سے ملک میں انقلاب لانا ہے ۔ غریب اپنا خون بہا چکے لیکن ملک کے غریب لوگ اچھی اور خوش حال زندگی نہ گزار سکے ۔ اب تم ان کو نیکی کی طرف اور تھوڑا اﷲ سے راضی ہونا سیکھا دوں ۔ خود بھی اچھے انسان کی عزت کرو اور انھیں بھی بتا دو کہ دولت کی نہیں بلکہ ہم اچھے انسان کی عزت کرتے ہیں ۔ اسی لیے تم اچھے انسان بنو ۔

ہمارے حضور پاک ﷺ نے بھی ہمیں یہی بتایا ہے کہ اپنے دل اور ذہن بدلو ہمارے مسلمان دو دو دن فاقے سے ہوتے لیکن نہ ہاتھ پھیلاتے نہ چوری کرتے ۔ غلام ظلم و ستم سہہ کر بھی صرف اﷲ کے اگے ہی جھکتے ہیں ۔ ہم کیوں کھاتے پیتے ۔چوری کرتے ہیں ۔آخر کیوں
Humera Sajid
About the Author: Humera Sajid Read More Articles by Humera Sajid: 8 Articles with 5414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.