12مئی کی تلخیاں

بعض تاریخیں اپنے واقعات اور سانحات کے حوالے سے ایک ایسی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں کہ اسے ذہنوں سے کھرچ کر نکالا نہیں جا سکتا ۔پچھلے 40برسوں میں 4دفعہ ایسی 12مئی کی تاریخیں آئی ہیں جن میں کچھ اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔ایک 1976دوسری 2004تیسری 2007اور چوتھی 2015میں ۔1947بر صغیر میں دو قومیں پاکستان بھارت ایک دن کے فرق سے آزاد ہوئیں ۔بھارت نے پنی آزادی کے بعد جو سب سے اہم اقدامات اٹھائے اس میں ایک یہ کہ ملک سے زمینداری سسٹم کا خاتمہ تھا ۔پاکستان کی آزادی کی مہم مسلم لیگ چلا رہی تھی جس کا قیام عملاَ تو بنگال میں ہوا تھا لیکن جیسے جیسے آزادی کی مہم آگے بڑھتی رہی اور بالخصوص جب قائد اعظم محمدعلی جناح نے اس کی قیادت سنبھالی عوام جوق در جوق بڑے جوش کے ساتھ مسلم لیگ میں آتے گئے دوسری طرف اس مہم کو کامیاب ہوتا دیکھ کر پنجاب،سندھ ،کے پی کے،بلوچستان اور مشرقی بنگال کے جاگیردار وں کی ایک بڑی اکثریت بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہو گئی ،جنھوں نے تقسیم سے قبل مسلم لیگ کے ایک اہم اجلاس میں مولانا حسرت موہانی کی اس تجویز کو منظور نہیں ہونے دیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ پہلے پاکستان کا آئین بنا لیا جائے ورنہ بعد میں یہ ایک جان لیوا مسئلہ بن جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آزادی کے بعد پچیس سال تک یہ سرزمین بے آئین رہی ۔دوسری اہم بات یہ ہوئی کے جس طرح بھارت نے اپنے یہاں زمینداری سسٹم کا خاتمہ کیا تھا پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا لیکن چونکہ مسلم لیگ پر قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد جاگیرداروں کا قبضہ ہو چکا تھا جنھوں نے یہ فیصلہ نہیں ہونے دیا ۔ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت میں یہ کام ہوا جب12مئی 1976کو قومی اسمبلی میں سرداری نظام کے خاتمے کا بل پاس ہوا ۔جس طرح ہمارے آئین کی بہت ساری چیزیں کتابوں کی زینت بن کے رہ گئی ہیں اور ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا اس میں ایک یہ بل بھی ہے جس پر اب تک کوئی عمل نہ ہو سکا ۔خیر اس بارہ مئی کی کہانی کچھ طویل ہو گئی دوسری بارہ مئی 2004میں آئی تھی جس میں دنیا کی انتخابی تاریخ کا یہ خونی سانحہ وقوع پذیر ہوا کہ محض ایک ضمنی انتخاب میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بارہ کارکنوں کو شہید کر دیا گیا ۔ہوا کچھ یوں کہ 2002کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے کراچی کی پانچ اور حیدرآباد کی ایک نشست ایم کیو ایم کے حلق سے چھین لی ۔کراچی میں ایم کیو ایم کی نسرین جلیل جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کے ہاتھوں اور حیدرآباد میں آفتاب شیخ جے یو پی کے ابو الخیر محمد زبیر کے ہاتھوں شکست کھا گئے ۔ایم کیو ایم کو اس کا بڑا قلق تھا وہ دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی سے اپنی اس ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا چاہتی تھی ،اس کے لیے انھوں نے 2004میں اپنے کراچی کے تین ممبران قومی اسمبلی کو مستعفی کرایا بات یہ کہی گئی کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں کام نہیں کررہے ہیں وہاں کے ووٹروں کو ان سے شکایات ہیں جب کہ اصل منصوبہ کچھ اور تھا ۔ضمنی انتخاب کا میدان سجایا گیا گو کہ ایم کیو ایم کو ہی کیا تمام سیاسی لوگوں کو یہ یقین تھا کہ اس ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم ہی جیتے گی مگر اپنی جیت کے بعد بھی بغیر کسی اشتعال کے جماعت اسلامی کے بارہ کارکنوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا لیاقت آباد بلاک نمبر 9کے اسکول کے گیٹ سے ایک کارکن عزیز ووہرہ کو گریبان سے پکڑکر گھسیٹا گیا اور گلی میں لے جا کر سر میں گولی مار کر شہید کردیا۔یہ خونیں حملہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کے حوصلوں کو توڑنے اور انھیں یہ پیغام دینے کے لیے کیا گیا تھا کہ آئندہ ہمارے خلاف انتخاب لڑنے کی جرات نہ کرنا لیکن جماعت کے کارکنان نے 2013کے عام انتخاب میں ابھی پچھلے دنوں 23اپریل 2015کے ضمنی انتخاب اپنے روایتی عزم و حوصلوں اور جوش وخروش کے ساتھ بھر پور حصہ لیا ۔12مئی 2004کو ایک دوسری نشست کے ضمنی انتخاب میں جے یو آئی کے بھی دو کارکنوں کو شہید کیا گیا تھا ۔1976میں سرداری اور جاگیرداری نظام کے خاتمے کا جو بل پاس ہوا تھا اس پر عمل تو نہ ہو سکا لیکن یہ جاگیرداری سسٹم دیہی علاقوں سے نکل کرشہروں میں داخل ہو گیا بالخصوص کراچی میں اس کا مشاہدہ تو ہر آنکھ نے کیاکہ روڈوں اور سڑکوں پر گیٹ اور اندرونی گلیوں میں بیرئرلگا کر جاگیر داری کے تصور کو اجاگر کیا گیا اسی طرح ہر انتخابات میں پولنگ اسٹیشنوں پر مسلح قبضہ کر کے اپنی مرضی کے نتائج کو مرتب کرنا،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ان اہلکاروں کوجنھوں نے اپنی سرکاری ڈیوٹیوں کی ادائیگی میں ان کی مرضی کے خلاف کام کیا ان کو انتقامی کارروائیوں کا اسی طرح نشانہ بنانا جس طرح دیہاتوں میں جاگیردار حضرات پولیس افسران اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ کرتے ہیں ۔اور پھر اسی جاگیرداری کے خوف کو اپنے مخالفین پر مسلط کرنے کے لیے 12مئی 2004جیسے واقعات دہرائے جاتے ہیں جس میں بلدیہ فیکٹری کے ڈھائی سو سے زیادہ مزدوروں کو زندہ جلا دینا اور وکلاء کو کیمیکل پھینک کر جلادینا علماء کو بم دھماکوں کی نذر کردینا بھی اس کا حصہ ہیں ۔پھر جب آمر وقت کی اندھی حمایت حاصل ہو جائے تو یہی سلسلہ آگے بڑھ کر پوری کراچی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور پھر 12مئی 2007کا سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ملک میں آمریتوں کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں اس کی قیادت کسی فرد یا جماعت کے پاس رہی ہے ایوبی آمریت کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح تحریک جمہوریت کی قیادت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں تو یحییٰ آمریت کو مشرقی پاکستان کے سانحے نے نگل لیا بھٹو آمریت کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلائی گئی ضیاء آمریت کے خلاف ایم آرڈی کی تحریک چلی بالکل اسی طرح پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف وکلاء نے تحریک چلائی اور اس کی قیادت افتخار چودھری چیف جسٹس کے ہاتھ میں تھی اصلاَ تو پوری تحریک ان کی بحالی کے لیے چلائی جارہی تھی لیکن عملاَ یہ تحریک پرویز مشرف کی بے حالی کی تحریک تھی ۔اسی تحریک کے دوران ایک دن یعنی 12مئی 2007کو چیف جسٹس کو کراچی آنا تھا تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے بھرپور استقبال کی تیاری کی ہوئی تھی لیکن دوسری طرف سندھ حکومت کی ایک شریک جماعت نے اپنا کچھ اور پروگرام بنایا ہوا تھا کہ چیف جسٹس کو ائیر پورٹ سے باہر نہیں آنے دینا ہے ،بہر حال اس دن پچاس سے زائد افراد سے کراچی کی سڑکیں خون آلود ہو گئیں ۔ اور پھر اسی دن آمر وقت پرویز مشرف نے اسلام آباد میں مکا لہراتے ہوئے کہا تھا کہ دیکھو جو طاقت سے ٹکرائے گا اس کا یہ حشر ہوگا۔اس سانحے پر ملک کے تمام صحافیوں نے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا جو بعد میں ایک کتابی شکل میں شائع بھی ہو چکی ہے اس طرح یہ بارہ مئی بھی اس خونی حادثے کی وجہ سے یادگار بن گئی ۔اب ایک 12مئی 2015ہے جس دن صولت مرزا کو پھانسی دی جائے گی یا دی جاچکی ہو گی پہلے ان کی پھانسی کی تاریخ 19مارچ تھی پھر یکم اپریل اور اب تیسری بار بارہ مئی طے ہوئی جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے اس وقت آخری خبریں آنے تک سندھ ہائی کورٹ نے ان کی یہ اپیل مسترد کردی کہ شاہد حامد کیس کو دوبارہ اوپن کیا جائے اور صولت مرزا نے جن دیگر چھ افراد کے نام لیے ہیں جس میں الطاف حسین اور بابر غوری بھی شامل ہیں ان کے خلاف بھی کیس چلایا جائے ۔تہرے قتل کے اس کیس میں اگر(اچانک کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ ہو) صولت مرزا کو پھانسی ہو گئی تو یہ آئندہ ان نوجوانوں کے لیے ایک عبرت کی مثال ہوگی جو اب بھی کسی نامعلوم جکڑبندیوں کا شکار ہیں ،یہ صرف شاہد حامد کا قتل نہیں تھا بلکہ ملک کی اعلیٰ بیوروکریسی میں امانتداری ،دیانتداری اور شرافت کا قتل تھا۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.