یمن کے خلاف سعودی عرب کی حمایت اور اسرائیل کے اہداف و مقاصد

اسرائیلی حکام نے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کے دوران رسمی طور پر سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اس طرح یمن میں انصاراللہ کی کامیابیوں کو روکنے کیلئے انجام پانے والی کوششوں پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم یمن کے خلاف انجام پانے والی جارحیت کو اپنی فتح سمجھتی ہے۔ مسلمانوں کو کمزور کرنا اور عالمی رائے عامہ کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹا کر کسی اور جانب مبذول کرنا اسرائیل کے دو اہم موجودہ اہداف ہیں جن کی تکمیل کے ذریعے وہ مختصر مدت کیلئے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی فوجی جارحیت کی حمایت میں پوشیدہ اسرائیل کے چند اہم ترین اہداف درج ذیل ہیں:

الف)۔ ایران اور اسلامی مزاحمت کی جیوپولیٹیکس کو کنٹرول کرنا: اسرائیل نے یمن کے خلاف اپنی پراکسی وار آل سعود رژیم کو سونپ کر خود کو فوجی نقصان سے محفوظ کر لیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی مزاحمت کے جیوپولیٹیکل محاذ کو بھی پھیلنے سے روک کر بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں خود کو درپیش سکیورٹی اور انرجی خطرات کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے۔

ب)۔ ایران اور فائیو پلس ون گروپ کے درمیان جوہری مذاکرات: اس وقت اسرائیل کی حکمران پارٹی خاص طور پر بنجمن نیتن یاہو جو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کے سب سے بڑا مخالف تصور کیا جاتا ہے، الیکشن میں کامیاب ہو کر ایک بار پھر حکومت بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو حالیہ الیکشن میں کامیابی کے بعد خطے میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے بارے میں مزید امیدوار ہو گیا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کے بارے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مشترکہ نقطہ نظر کے پیش نظر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب سے تعلقات بڑھا کر ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کرے تاکہ ان مذاکرات میں ایران اپنے مطالبات نہ منوا سکے۔ بنجمن نیتن یاہو اور دوسرے اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں ایران گوشہ گیری کی حالت سے نکل آئے گا جس کے باعث اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا اور وہ خطے میں زیادہ موثر کردار ادا کر پائے گا۔ لہذا اسرائیلی حکومت یمن کے خلاف جاری جارحیت میں شمولیت کو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان معاہدے کے مخالفین کا اثرورسوخ بڑھانے کا ایک قیمتی موقع تصور کرتی ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ طے نہ پانے کی صورت میں بھی ایران خطے میں انتہائی موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ج)۔ اسرائیل کی جانب سے سلفی گروہوں اور القاعدہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا: یمن، القاعدہ اور سلفی گروہوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور اس ملک میں ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں انصاراللہ کی کامیابی اسرائیل کی قومی سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی تصور کی جا سکتی ہے۔ آج اسرائیل کے مقابلے میں اسلامی دنیا میں موجود اسلامی مزاحمتی قوتیں تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں کھڑی ہیں۔ لہذا تکفیری دہشت گرد عناصر جس قدر کمزور ہوں گے اسلامی مزاحمتی بلاک اسی قدر مضبوط اور طاقتور ہوتا جائے گا۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم جنوبی یمن میں القاعدہ کی شکست کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں اپنی ڈھال کھو دینے کے مترادف سمجھتی ہے، لہذا یمن کے خلاف جاری فوجی جارحیت میں سعودی عرب کی کامیابی کو تکفیری دہشت گرد عناصر پر مشتمل اپنی ڈھال کی حفاظت کیلئے انتہائی اسٹریٹجک کامیابی تصور کرتی ہے۔
عابد حسین
About the Author: عابد حسین Read More Articles by عابد حسین: 2 Articles with 1211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.