شیر میسور سلطان ٹیپو شہید

اٹھارویں صدی اپنا نصف سفر طے کرچکی تھی،مغلیہ حکومت کی کمزوری اور مغل شہزادوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے بر صغیر پر مسلمانوں کا سینکڑوں سالہ دور اقتدار تیزی سے زوال کی جانب گامزن تھا،مرکزی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے کئی مقامی ریاستوں نے خود مختاری کا اعلان کردیا تھا،دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے تجارت کی آڑ میں برصغیرپربرطانوی قبضے کی راہ ہموار کرنے میں مشغول تھے،تیسری جانب مسلمانوں کے اندر کچھ ایسے کردار پرورش پارہے تھے جن کے نام تاریخ میں ایک بدنما داغ کی طرح مندرج ہونے والے تھے،غرض یہ کہ سلطنت اسلامی کی ناؤ ہر طرف سے طوفانوں میں گری ہوئی تھی،بیرونی طوفانوں سے ناؤ مسلسل ڈگمگارہی تھی، جب کہ اندرونی دشمن ناؤ کے تختے اکھاڑنے میں مشغول تھے،ملت اسلامیہ کسی ناخدا کی راہ تک رہی تھی،جو اس کی ناؤ کو خطرات سے باہر نکالنے کی جرات کرسکے،ہر آنکھ اشک بار اور ہر ہاتھ دست بدعا تھا،ہر طرف مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیر چھایا ہوا تھا،باالآخر مسلمانوں کی دعائیں رنگ لے آئیں اور نواب سراج الدولہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے امیدن کی کرن بن کر ابھرے اور کئی سال تک مختلف محاذوں پر انگریزوں کو ناکوں چنا چپواتے رہے، مگر غداری میں ضرب المثل بننے والے میر جعفر کی غداری کی وجہ سے جنگ پلاسی میں شکست کے بعد بڑی بے دردی سے 1757ء میں شہید کردیے گئے،نواب کی شہادت کے بعد مسلمانان برصغیر ایک بار پھر مایوسی کے دلدل میں دھنس گئے،ان کی حسرتوں کو حقیقت کا لباس پہنانے والا شخص خورد بین میں بھی نظر نہیں آرہا تھا،کئی سو سال برصغیر پہ حکمرانی کرنے والے مسلمان آہستہ آہستہ سر چھپانے کے آشیانے سے بھی محروم ہورہے تھے اپنے آشیانے کی حفاظت کے لیے وہ کسی مسیحا کے منتظر تھے،دوسری جانب انگریزوں کو اپنا راستہ بالکل صاف نظر آرہا تھا،اس دوران مختلف مسلمان حکمران جو مختلف ریاستوں کے والی تھے اپنی حیثیت کے مطابق انگریزوں،مرہٹوں اور مقامی ہندئوں کے خلاف بر سر پیکار رہے،مگر ہر طرف سے شکست و ناکامی کا سامنا تھا،انگریزی فوج بد مست ہاتھیوں کی طرح ہر طرف مسلمانوں کو کچلتے جارہی تھی،ظالم خم ٹھونک کر میدان میں آچکا تھا، جب کہ مظلوم کے آہوں اور سسکیوں سے فضا مغموم تھی، امیدوں کے تمام سہارے گاہے بگاہے دم توڑ رہے تھے،ملت اسلامیہ کی ناؤ خطرناک طوفان میں گرچکی تھی،ایک جھٹکے کی دیر تھی کہ 6 سو سال برصغیر کے سمندر پر راج کرنے والی ناؤ سمندر کی گہرائی میں ہوجاتی،مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا،اس پرآشوب دور میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی صفوں سے میں ایک ایسا جرنیل پیدا فرمایا جس نے اپنی حکمت عملی اور شجاعت کی وجہ سے وہ داستاں رقم کردی کہ آج ہر مسلمان اس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔

27 دسمبر 1782ء کو جب سلطان ٹیپو شہید(سلطان فتح علی خان) نے سلطنت خدادا کا اقتدار سنھبالا تو مسلمانوں کے مردہ اجسام میں ایک نئی قوت بیدار ہوئی، انگریز نے مرہٹوں اور ہندئووں سے ساز باز کرکے مسلمانوں پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے تھے، اپنی کم سنی سے مختلف محاذوں پر داد شجاعت دینے والے سلطان ٹیپو نے جب اقتدار سنبھالا مسلمانوں نے ایک بار پھر ہر محاذ پر انگریزوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا، ٹیپو شہید نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلیے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیے، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا،برطانوی سامراج کے آگے بند باندھنے کے لیے ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر بوجوہ کا میاب نہ ہوسکے، سلطان کی بے مثل شجاعت اور کارنامے قلم بند کرنے لیے لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں،اور یہاں ان کو بیان کرنا ناممکن ہے، تاہم سلطان کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ جنگ میسور ہے جس کے 4 میں سے 3 معرکوں میں سلطان کی فوج غالب رہی،مگر چوتھے معرکے میں معروف غدار ملت میر صادق کی غداری کی وجہ سے سلطان کی فوج مکمل طور پر دشمن کے محاصرے میں آگئی، اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے،اسی صوررت حال میں سلطان جب بری طرح کفار کے نرغے میں پھنس گئے تو سلطان کے ایک خادم نے آکر عرض کی کہ حضور اپنی جان بچانے کے لیے خود کو انگریز کے حوالے کردیں تو اچھا ہے، یہ سن کر سلطان جلال میں آئے اور وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو آج کل کے مسلمانوں کے ہاں زبان زد عام تو ہے مگر اس پہ عمل کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر بهی نہیں:
"میرے نزدیک شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"

اس کے بعد شدید زخمی ہونے کے باوصف بے جگری سے لڑتے رہے اور 4 مئی 1799ء کو برصغیر کے مسلمانوں کا یہ محافظ اپنوں کی غداری کے نتیجے میں اس دار فانی سے کوچ کرگیا،اس وقت سے مسلمان مسلسل تنزلی کے دلدل مین دھنستے گئے جس کا نتیجہ بعد میں 1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کی صورت میں نکلا،اور انگریز جنرل ہارس کا وہ نعرہ سچ ثابت ہوا جو اس نے سلطان کی لاش کے قریب کھڑا ہوکر لگایا تھا کہ " آج سے ہندوستان ہمارا ہے"

شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929 میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایا
ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا،

آج ملت اسلامیہ کی ناؤ ایک بار پھر کفر،الحاد اور دیگر دشمنوں کے شکنجے میں ہے اور آج کے میر جعفر اور میر صادق اندر سے اسے کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں، اس ناؤ کو پار لگانے کے لیے سلطان شہید جیسا حوصلہ،عزم اور ہمت و بہادری کی ضرورت ہے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 47437 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More