مرکزی حج کمیٹی کا حجاج کو جبریہ قربانی کا فرمان ،مسلم پرسنل لا میں صریح مداخلت ؟؟

مسلمان جس کو اﷲ نے شریعت اسلامیہ کی پاسداری اور اس کی تابعداری کے صلے اور بدلے میں عزت و بزرگی سے مالا مال کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں اسلامی افکار و نظریات کا غلغلہ ہوگیا مسلمان ہر محاذ پر کامیاب ہونے لگا قیصر و کسریٰ پر جس کی حکمرانی کے پر چم لہرانے لگے ایسے میں اسلام دشمن عنا صر جو اپنے منھ سے اسلام کی پا ک باز کرنوں کو بجھانا چاہتے تھے ان سے مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کیسے دیکھی جا سکتی تھی؟ ظاہر ہے: فرزندان اسلام کو ہر محاذ پر ناکام و نامراد کرنے ، ان کی نشست و برخاست کوکسی طرح اسلام سے دور و نفور کرنے ،ان کی اسلامی زندگی سے روح ایمانی ختم کرنے اور ان کو نام کا مسلمان باقی رکھنے کے حربے ہردور میں آزمائے گئے ان کی عبادت و ریاضت میں رخنہ اندازی کی گئی ، ان کے پرسنل لا میں صریح مداخلت کرنے کے لئے ہر ہتکنڈے اپنائے گئے۔بقول اقبال
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں
ذرا روح محمدی اس کے بدن سے نکال دو

اور یہ سلسلہ مختلف اوقات میں مختلف حکومتوں کے زیر اقتدار مقننہ، عدالتوں اور کمیٹیوں کے ذریعہ ظہور پذیر ہوتا رہا جس میں بظاہر مسلمانوں کی نصرت وحمایت یا انکی سہولت اور آسانی کا خوشنما چہرہ ہو تا لیکن در پردہ مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت کی راہیں ہموار کی جاتی رہیں جس کی ایک حالیہ کڑی بھارتی جنتا پارٹی کے زیر اقتدار ’’ حج کمیٹی آف انڈیا کے سی او عطا ء ا لرحمان کا تما م ریاستی حج کمیٹیوں کو حجاج کرام کی قربانی کے حوالے سے ایک نیا سر کلر جاری کرناہے جاری سر کلر میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ گزشتہ سالوں میں عازمین کو قربانی کے دوران ہونے والی مشکلات کے پس منظر میں حج کمیٹی آف انڈیا نے سعودی عرب کے اسلامک ڈپولپمنٹ سے ایک سمجھوتہ کیا ہے جس میں ملک کی تمام ریاستی حج کمیٹیوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ دوران حج کی جانے والی قربانی سعودی عرب کے اسلامی ڈپولپمنٹ بینک کے توسط سے ہی کی جائے گی اور اس کے لئے عازمین حج سے یہیں پر رقم جمع کرالی جائے گی اس بینک سے ایران ،انڈو نیشیا ، اور ملیشیا سمیت دنیا کے قریب 20ممالک سعودی عرب کے ڈپولپمنٹ بینک سے اپنی قربانی کرارہے ہیں ہر عازمین حج سے قربانی کے لئے سال گزشتہ کی طرح تقریباً فی جانور490ریال لئے جانے کا امکان ہے اوراطمینان کے لئے 30حاجیوں کے گروپ میں ایک شخص کو قربانی کے وقت موجود رہنے کی اجازت دی جائے گی۔

حج کمیٹی آف انڈیاجو اپنی ناقص کار کردگی اور بدعنوانی کی وجہ سے ہمیشہ حجاج کرام کی جانب سے مطعون رہی اور روز افزوں بھارتی مسلمانوں سے کثیر رقم کے عوض ان کو فائدہ اور سہولت بہم پہونچانے کے نام پر انہیں غیر معیاری سفر ،رہائش اورآمدو رفت پرائر انڈیا کی پرواز کی پریشانی وغیرہ کا سامنا رہا ہے ۔ اس کی اس روش کو سیاسی ،سماجی اور دانشوران حضرات جہاں عازمین حج کی معاشی اور اقتصادی جیب پر قینچی چلائے جانے کی دانستہ کوشش اور مسلمانوں کو ان کے دینی اور عائلی مسائل میں الجھانے کی سعی بتایا (کیوں کہ بر صغیر ہندو پاک سمیت پوری مسلم دنیا جہاں بہت سی پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے ان ہی میں غیروں کی شریعت مطہرہ میں بے جا مداخلت مسلمانوں کی پریشانیوں کا اہم سبب ہے)۔ تو دوسری جانب اہل سنت و جماعت سمیت بنام مسلمان مختلف مسالک کے مدارس کے فارغین علما نے اسے حجاج کرام پر جبریہ قربانی کو مسلط کرنے اور ان کے قربانی جیسے اہم معاملے میں دخل اندازی کی غیر محمود اور نا پسندیدہ مساعی کے ایک نا روا حصہ سے موسوم کیا ہے ۔عازمین حج کی قربانی کے سلسلے میں حج کمیٹی آف انڈیا کے حالیہ سر کلر کی حیثیت کا جائزہ کتاب و سنت کی روشنی میں کرنے اور فقہ حنفی کے اجمالی مطالعہ سے بھی آفتاب نیم روز کی طرح یہ حقیقت عیاں ہے کہ تمام حجاج کرام پر قربانی کو لازم کرنا سرا سرشریعت اسلامیہ کے دئے ہوئے اختیار کو سلب کرنا اور دینی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے مترادف ہے۔

کیوں کہ حج اسلام کا ایک اہم اور اعظم ترین رکن اور خالص عبادت ہے اور ہرعبادت کی ادائیگی اس کے ارکان کی ادائیگی کیسا تھ لازم ہوتے ہے جن میں سے کسی ایک کی بھی عدم ادائیگی عبادت میں نقص اور کمی کا سبب ہوجاتا ہے اسی طرح ارکان حج میں بھی کچھ باتیں فرض، واجب ، سنت اور بعض مستحب ہیں اور حج قران(یعنی حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے یا پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور ابھی طواف کے چار پھیرے نہ کئے تھے کہ حج کو بھی شامل کرلیا یا پہلے حج کا احرام باندھا تھا اس کے ساتھ عمرہ بھی شامل کر لیا) بہار شریعت ،حصہ6ص1154 ، المدینۃ ا لعلمیۃ ) ،تمتع(یعنی حج کے مہینے میں عمرہ کرے پھر اسی سال حج کا احرام باندھے یا پورا عمرہ نہ کیا صرف چار پھیرے کئے اور حج کا احرام باندھ لیا)(ماخذ سابق ص:1157) اور افراد یعنی تنہاحج کا احرام باندھ کر حج کرنا) تین قسموں پر مشتمل ہوتا ہے پہلی دو صورت میں حجاج پر قربانی واجب ہے اور تیسری صورت حج افراد میں واجب نہیں بلکہ اختیاری ہے(ماخوذ عامہ کتب فقہ حنفی) ۔

اس کے باوجود اگر حج تمتع کرنے والا( جو حاجی حج کے ساتھ عمرہ بھی کرے اور وہ) محتاج ہویعنی قربانی کرنے پر قادر نہ ہو اسے شریعت اجازت دیتی ہے کہ وہ قربانی کے بدلے حج سے پہلے تین روزے رکھے اور حج کے بعد سات روزے رکھے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے’’ جس نے عمرہ سے پہلے تمتع کیا اس پر قربانی ہے جیسی میسر آئے اور پھر جسے قربانی کی قدرت نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات (حج سے )واپسی کے بعد، یہ دس پورے ہیں یہ اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اﷲ سے ڈرو،اورجان لو کہ اﷲ کا عذاب سخت ہے (البقرۃ آیت 96) ۔ایسی صورت میں حج کمیٹی آف انڈیا نے غیر واجب شئی کو تمام حجاج پر واجب کردیا کیا یہ مناسک حج اور ارکان حج میں زیادتی نہیں؟ اور کیا شریعت میں اسلامی ڈپولپمنٹ سعودیہ کا یہ طرز عمل کرنا اسلام میں ایک نا پسندیدہ فعل کی شروعات کرنا نہیں ؟ کیا اس غیر شرعی سر کلر کے ذریعے حجاج کرام سے جبریہ وصولی اور ان کے معاشی جیب کو مزید کترنا نہیں ؟ کیا حج افراد کرنے والے حجاج کو دئے گئے شرع کی جانب سے قربانی کے کرنے اور نا کرنے کا اختیار سلب کئے جانے کی نا دانستہ کوشش نہیں ؟

اور پھرجس حاجی پر قربانی واجب ہے اس پر فقہ حنفی میں یہ ترتیب بھی واجب ہے کہ دسویں ذو ا لحجہ پہلے شیطان کو کنکری مارے اس کے بعد قربانی کرے، اس کے بعد سر کے بال منڈوائے یا ایسے کٹا کر کم کرے اس ترتیب کے خلاف عمل کر نے سے جرم کی وجہ سے ( دم )قربانی واجب ہوجاتی ہے کیوں کہ حج تمتع اور قران میں کی قربانی دسویں ذوا لحجہ سے پہلے نہیں ہو سکتی اور دسویں کے بعد کی تو ہوجائے گی مگر اس تاخیر پر دم لازم ہے کہ تاخیر جائز نہیں اور دو( تمتع اور قران )کے علاوہ قربانی کے لئے کوئی دن معین نہیں ہاں دسویں ذوا لحجہ بہتر ہے (الدر ا لمختار و ردا لمحتار ، کتاب الحج ، باب ا لھدی ج 3ص 47) ۔ جب کہ حکومت سعودی عرب اس ترتیب کو واجب نہیں مانتی، تو ہوسکتا ہے کہ یہ قربانی واجب کے برخلاف ہوجائے جس کی وجہ سے حاجی پر( دم )قربانی واجب ہو۔ اس طرح اس قانون میں حاجی کو اپنے مذہب کے خلاف عمل پر مجبور کرنے کی بھی صورت پیدا ہوتی ہے جس کا حق قطعاً حج کمیٹی کو نہیں پہونچتا کیوں کہ’’ دین میں کوئی زبر دستی نہیں ‘‘(البقرۃ آیت 256) ۔اور خلاف شرع دین میں نئی بات نکالنابدعت سےۂ اور گمراہی ہے (ماخوذ: صحیح ا لبخاری)

اور تمتع اور قران میں قربانی کا حرم میں ہونا ضروری ہے ،منیٰ کی خصوصیت نہیں ہاں دسویں ذوا لحجہ کو ہو تو منیٰ میں سنت ہے اور دسویں کے بعد مکہ میں (الدر ا لمختار و ردا لمحتار ، ماخذ سابق بحوالہ بہار شریعت 1حصہ 6ص1214 مطبوعہ مکتبۃ ا لمدینۃ ا لعلمیۃ ) ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ حدود حرم اور دسویں ذوا لحجہ کی رعایت لاکھوں کی بھیڑ میں ممکن ہو؟ اور اس کی عدم رعایت کی صورت میں حجاج کرام پر ہونے والے دم کی بھرپائی کون کریگا ؟اورکیا ضروری کے ارکان حج کی ادائیگی کے بعدہی اس جانور کو ذبح کیا جائے کیوں کہ بہت سے حجاج یکے بعض دیگرے اپنے مناسک کی ادائیگی کرتے ہیں ؟۔

اور پھر کیا ضروری ہے کہ 490سعودی ریال جس کی بھارت میں مالیت تقریباً7536.روپے ہے اتنی معمولی رقم کا اچھا قربانی کے لائق جانور دستیاب ہوجائے؟ کہ ایک ہی قیمت پر سات لوگوں کی قربانی کا من پسند جانور کا منتخب کیا جانا ممکن ہو اور سب کی رقم برابر ہو ہاں کمزور بھیڑ یا بکری اتنی معمولی رقم میں دستیاب ہو سکتی ہے جب کہ قربانی خواہ حج کی ہو یا عید قرباں کی دونوں ہی صورت میں عمدہ قسم کا جانور ذبح کرنا مستحن ہے۔اب اگر حکومت اچھا جانور معمولی رقم میں خرید لے تو کیا لاکھوں کی تعداد میں موجود حجاج کرام تک اس قربانی کی صحیح معلومات پہونچانے کا کام ہو سکے گا؟ اور اگر ہوبھی جائے تو کیا ضروری کہ جن تیس افراد کی قربانی پر ایک شخص کو بطور گواہ مسلط کیا جائے اس پر دیگر حجاج کا اطمینان بھی ہو ؟ کہ تیسوں حجاج اس ایک آدمی کی موجودگی میں قربانی اور اس کی شہادت کو تسلیم بھی کرلیں ؟ اور پھر وہ شہادت شرعیہ کا متحمل ہے بھی یا نہیں ؟اور اگر کسی ایک شخص پر تیس لوگوں کا اتفاق بھی ہوجائے توجو ذبح کررہا ہے وہ ذبح کئے جانے کا متحمل بھی ہے یا نہیں ؟ کیوں کہ بد مذہبوں کا ذبیحہ اہل سنت کے نزدیک جائز نہیں۔ اور پھر کیا ضروری کہ سبھی فریق متفق بھی ہو ں ؟ چونکہ حج میں مختلف ممالک سے مختلف ا لخیال مذھب و مسلک کے لوگ وارد مکہ ہو تے ہیں جن کا متفق ہونا ضروری نہیں ؟

اس لئے عام ہندوستانی سمیت حجاج کرام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس جبریہ قربانی کی آڑ میں ملک کی موجودہ حکومت کو فائدہ پہونچانے اور مسلمانوں کا معاشی استحصال کرنے کی منظم پلاننگ ہے کہ پہلے حجاج کرام کو دئے گئے سب سڈی کو بیجا حکومت کی حمایت کر کے ختم کروانے کے لئے بڑی خوبصورتی سے ایک اچھی چیز کو ناپسندیدہ بنا کے پیش کیا گیا اور اس کی مخالفت علما و دانشوران کے ایک طبقے کی جانب سے کی گئی ؟ اور اب حجاج کو پریشانیوں سے دوچار کرنے اور انہیں شرعی اختیار سلب کئے جانے پر علما و دانشوران کی گہری خاموشی کی دبیز چادر ڈال دی گئی گویا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں؟

آخر میں ہم تمام علما و دانشوران کی جانب سے برصغیر ہندو پاک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے صدراور شارح بخاری دارا لافتا کے صدراعلیٰ مفتی نظام ا لدین رضوی صاحب مد ظلہ کے اس مطالبہ پر اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں کہ ’’حج کمیٹی آف انڈیاکا عازمین حج پرجبریہ قربانی کی پابندی عائد کرنا شرعاً درست نہیں کیوں کہ شریعت طاہرہ نے عازمین پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی بلکہ انہیں اختیار دیا ہے کہ چاہیں تو خود جانور کا انتخاب کر کے اپنے ہاتھوں سے اس کی قربانی کرے یا اپنے معتمد کے ذریعے اسے نائب بنا کر یہ کام کرائیں پھر ہر حاجی پر قربانی واجب نہیں اور جن حاجیوں پر قربانی واجب ہے ان میں بھی ہر حاجی پر یہ لازم نہیں کہ وہ قربانی کرے بلکہ محتاج کو قربانی کے بدلے روزے رکھ نے کی اجازت ہے جب کہ حج کمیٹی اپنے قانون کے ذریعے سب پر قربانی کرنا لازم کررہی ہے کہ حاجی اس کے ذریعے قربانی کرائے خود نہیں کرسکتا ایسے جبری فرمان کے ذریعے شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ۔حج کمیٹی کو چاہئے کہ حاجیوں کو اپنے مذہب کے مطابق مناسک حج ادا کرنے کے لئے آازاد رکھے اور ان کی دیگر سہولیات کے ساتھ قربانی کا بھی بہتر انتظام کرے کیوں کہ فرمان رسول ﷺ کے مطابق غیر شرعی کام میں کسی کی اطاعت نہیں کی جاسکتی قرآن میں ہے کہ حکمرانی صرف اﷲ کی ہے ۔

Md Arif Hussain
About the Author: Md Arif Hussain Read More Articles by Md Arif Hussain: 32 Articles with 57516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.