کیا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ از خود نوٹس لیں گے؟

کسی نے کیا خوب کہا ہے تمام مسائل کا حل بالاخر موت ہی نظر آتی ہے ۔ میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد امام مسجد قاری محمداقبال صاحب کے پاس موجودتھا کہ ادھیڑ عمر شخص وہاں آیا اور زارو قطار رونے لگا ۔ امام صاحب نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا قرآن پاک میں لکھا ہے کہ خود کشی حرام ہے لیکن میں حالات کے ہاتھوں میں اس قدر مجبور ہوچکا ہوں کہ اب سوائے خود کشی کے مجھے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔امام صاحب نے فرمایا آخر مسئلہ کیا ہے آپ بتائیں تو صحیح ۔ ہوسکتا ہے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی بہتر راستہ بتاسکوں ۔وہ شخص اپنی کہانی سنانے لگا۔میں نے سب کے منع کرنے پر ایک بنک میں ملازمت اختیار کرلی مجھے لوگوں نے سمجھایا تھا کہ بنک کا تمام کاروبار سود پر مبنی ہے جو اسلام میں سخت حرام ہے بلکہ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف ہے ۔ لیکن میں بے روزگار تھا اس لیے میں نے نوکری کرلی کہ بنک اگر لوگوں سے ڈبل اور ٹرپل سود لیتا ہے تو میرااس میں کیا قصور ہے۔میں نے 2005ء پلاٹ خریدنے کے لیے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے قرضہ لیا۔ اس وقت سے اب تک ہر مہینے تقریبا پانچ ہزار روپے ماہانہ بنک کو واپس کرتا چلا آرہا ہوں ۔3 دسمبر 2014ء کو میں بنک ملازمت سے ریٹائر ہوگیا اس وقت مجھے بنک کی جانب سے ایک لیٹر دیاگیا کہ بنک کے میری جانب واجب الادا اصل رقم 3لاکھ 9 ہزار باقی ہے جبکہ مارک اپ کی رقم چھ لاکھ نو ہزار ہے ۔ اس خط کی وصولی کے بعد میں نے بنک پریذیڈنٹ کو ایک خط کے ذریعے التجا کی کہ میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہاہوں اگر قرضے کی باقی رقم ( اصل رقم مع سود) معاف کردیں تو اﷲ آپ کو اس کی جزا دے گا وگرنہ مارک اپ کے چھ لاکھ نو ہزار ہی معاف کردیں جس کااحسا ن میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔بنک نے یہ کہتے میری درخواست کو مسترد کردیا کہ ملازم کو قرض یا مارک اپ معاف کرنے کی پالیسی نہیں ہے۔ پھر میں صوبائی محتسب پنجاب کے پاس پہنچا کہ شاید وہی میری داد رسی کردیں ۔انہوں نے مجھ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا میں ریٹائر منٹ کے بعد قرض کا سود معاف تو کرسکتا ہوں لیکن بنک کے خلاف فیصلہ کرنا میرے اختیار میں شامل نہیں ہے آپ بینکنگ کورٹ سے رجوع کریں۔میں نے بینکنگ کورٹ کو تحریری درخواست بھجوائی تو وہاں سے یہ جواب ملا کہ ہم کھاتہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں بنک ملازمین کی درخواست پر بنک کے غلط فیصلے کے خلاف سماعت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ وہاں سے بھی کوراجواب مل گیا۔جو میری پریشانیوں میں حد درجہ اضافہ کرگیا۔میں ابتدا سے لے کر آج تک باقاعدگی سے قرض کی ماہانہ قسط جمع کروا رہا ہوں ۔ اب جبکہ مجھے ریٹائر ہوئے بھی چھ مہینے ہوچلے ہیں ایک صبح بنک کی جانب سے نیا خط موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ مارک کی رقم جو 3 دسمبر 2014ء کے خط میں چھ لاکھ نو ہزار روپے بتائی تھی اسے 10لاکھ 63ہزار روپے کردیاگیا ہے ۔ بنک کا یہ خط جب سے مجھے ملا ہے میری راتوں کی نیند بھی اڑ گئی ہے ۔میں ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کام کے قابل بھی نہیں رہا اور نہ ہی میرے پاس میں اتنی بڑی رقم کی ادائیگی ممکن ہے۔ امام مسجد قاری محمداقبال کومخاطب کرکے اس نے عمر رسیدہ شخص نے کہا جناب اب آپ ہی بتائیں کہ میں خود کشی نہ کروں تو اور کونسا راستہ اختیار کروں ۔وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب کو اگر میں مدد کے لیے پکارتا ہوں تو میری درخواست تو ان تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور اگر پہنچ بھی گئی تو رد ی کی کسی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی انہیں میری پریشانیوں سے کیا سروکار ۔اگر میں کسی ماتحت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو پہلے وکیل کی بھاری فیس اداکرنی پڑے گی پھر سال ہا سال تک عدالت کے چکر لگانے پڑیں گے ۔جبکہ میرے پاس نہ وکیل کو دینے کے پیسے ہیں اور نہ ہی عدالتوں کے چکرلگانے کی ہمت ۔ اب آپ ہی بتائیں میرے لیے نجات کا راستہ کونسا نکلتا ہے۔ جس پر کاربند ہوکر میں بنک کی زیادتیوں سے نجات حاصل کرسکتا ہوں ۔وہ شخص اپنی داستان غم سنا کے خاموش ہوگیا اور اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسووں کی برسات شروع ہو گئی ۔اسے دیکھ کر باقی لوگوں کے چہروں پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں تھے ۔قاری صاحب نے کہا بنک سے قرضہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ بنک نہ صرف اپنے قرض کی رقم گرد ن پر انگوٹھا رکھ کر واپس لیتا ہے بلکہ اصل رقم سے چار گنا زیادہ مارک ( سود) بھی وصول کرتا ہے ۔ پھر بنک جو کہتاہے اس کوکہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستان میں امیروں کے اربوں روپے تو بنک معاف کردیتے ہیں لیکن کسی غریب کے چند لاکھ بھی معاف کرنے کی پالیسی نہیں بنتی ۔ نہ جانے یہ بنکوں والے لوگ جہنم کے کونسے درجے میں داخل ہوں گے۔اس بارے میں دینی کتابیں بھی خاموش ہیں لیکن سود کا کاروبار کرنے والوں کے بارے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے ۔ جہاں اس دکھی شخص کی داستان سن کے باقی لوگ ہونٹوں پر انگلیاں رکھے رونے والا چہرہ بنائے ہوئے تھے وہاں میرے بھی جذبات ان سے مختلف نہیں تھے۔اگر اس مصیبت زدہ شخص سے داد رسی کے لیے رابطہ کرنا مقصود ہو تو موبائل نمبر 0320-4853195پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔کیا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کا از خودنوٹس لیتے ہوئے اس مصیبت زدہ بوڑھے شخص کو بنک کے ظلم و ستم سے نجات دلا سکتے ہیں ۔جس کے پاس وکیل کو دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں وہ روٹی کھانے کے لیے بھی بچوں کا محتاج ہے ۔ سنتے ہیں کہ بنک قرض دیتے ہوئے رقم کو انشورڈ کروا لیتے ہیں اگر قرض لینے والا شخص ادائیگی کے دوران فوت ہوجائے تو اس کے لواحقین کو قرض کی بقیہ رقم معاف ہوجاتی ہے اور باقی رقم بنک ٗ انشورنس کمپنی سے وصول کرلیتا ہے۔کیا ریٹائرمنٹ معاشی موت نہیں ہوتی ۔اس کا فیصلہ میں چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں جو شاید کسی انسان کی زندگی کو اپنے فیصلے سے بچا لیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 785 Articles with 679589 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.