مزدوروں کا عالمی دن

محنت کے ذریعہ کماکر کھانا انسانی حمیت وخودداری کا تقاضا ہے۔ انسان اپنی روزی کمانے کے لئے (شریعت کے مطابق) جو اور جیسی بھی محنت مزدوری کرے خواہ وہ محنت جسمانی ہو یا دماغی، اسلام ناصرف اس کی اجازت دیتا ہے ۔ بلکہ محنت کرنے پر ابھارتا ہے ، اور جو لوگ اپنا پسینہ بہا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان لوگوں کو جو بغیر محنت کے دوسروں کے سہارے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور دوسروں کا استحصال کرتے ہیں اسلام نے ان کی محنت کرنے والوں جیسی عظمت بیان نہیں کی ۔

آج کی مہذب دنیا ، انسانی حقوق کے لیے آواز تو بہت بلند کرتی ہے مگر عملی طور پر وہاں بھی مزدور کی نہ وہ قدر ہے نہ مقام جو سے ملنا چاہیے۔ اس کے برعکس اسلام حلال کمائی کرنے والوں کو بھی وہی مقام دیتا ہے جو مملکت کی بڑی سے بڑی شخصیت کو حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ حق ان کو محض نظری یا قانونی طور پر نہیں دیا گیا بلکہ اسلام کے اصلی نمائندوں نے اپنے عمل اور اپنی سیرت سے اس کا ثبوت دیا۔ محمد کریم ﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے مزدوری کی اور دوسروں کی بکریا ں چرائیں۔ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی ۔ (مشکوٰۃ) آپ ؐ کے جاں نثار صحابہ کرام رزق حلال کے لئے ہرقسم کی محنت ومشقت کیا کرتے تھے ۔

اسلام میں محنت کی کمائی کی کیا قدر وقیمت ہے اور نہ صرف ایسے واقعات ملتے ہیں بلکہ ایسے قوانین بھی ملتے ہیں کہ جن میں اجیر ومستاجر کے حقوق وفرائض کا تعین بھی ہے۔اور یہ حدیث تو ہم سب لوگوں کو ازبر ہے کہ’’ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کو دے دو‘‘۔ یہ واضح کرتی ہے کہ اسلام جو ایک آفاقی مذہب ہے اس میں آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی مزدور کے متعلق نہ صرف قوانین موجود تھے بلکہ اسلام ان مزدوروں کی عزت افزائی بھی کرتا ہے۔

یکم مئی عالم یوم مزدورکی یہ تحریک جو کہ شکاگو سے 1880ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کے بعدسے یہ دن مزدوروں کے نام سے جانا جانے لگا۔پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1972ء میں ہوا اور یکم مئی کو قانونی طور پر مزدور ڈے کا خطاب دیا گیا۔ آ ج کی مہذب دنیا جو یکم مئی کو یوم مزدور منا کر پورا سال مزدوروں کا استحصال کرنے میں سب سے پیش پیش رہتی ہے ۔ اس دن کے آتے ہی مزدورں کے حقوق پربات کرنے والے، ان کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے والی این ۔جی ۔اوز اور کچھ نام نہاد شہرت ودولت کے بھوکے لوگ میڈیا میں آکر مزدورں کے حق میں بات کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی فیکٹریوں وغیرہ میں مزدوروں کو بنیادی حقوق تک حاصل نہیں ہوتے ۔ اس دن کے گذرتے ہی ’’بات گئی رات گئی‘‘ والی بات ہوگی اور لوگ کسی نئے ایونٹ کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔ اس دن کئے گئے وعدے اور تقریریں اسی دن ردی کا حصہ بن جاتے ہیں اور مزدورکا بیٹا مزدور ہی رہتا ہے ۔ مزدور کو تو اس دن کا پتہ ہی نہیں چلتا کیوں کہ اگر مزدور ایک دن بھی کام پر نہ جائے تو اس کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا؟ آپ، میں اور ہم سب ایک ہی تھا لی کے بینگن ہیں چاہے تقریر ہو،کوئی ڈاکومینٹری ہو یا پھر کوئی کالم لکھنا ہو ، یہ سب بہت ہی آسان ہے ۔
لیکن ذرا ٹھہریے !اور سوچئے کہ وہ ننھے ننھے ہاتھ کہ جو پاکستان کا مستقبل تھے لیکن اب اینٹیں بنانے،بھٹی میں،کھیتوں میں یا پھر کسی ہوٹل پر مالک اور گاہک کی گالیوں اور تھپڑوں کو برداشت کرتے ہم سب کو نظر آتے ہیں اور وہ پڑھے لکھے نوجوان کہ جس نے اچھی نوکری کی امید میں بیچلر یا پھر ماسٹر ڈگری ہونے کے باوجود ایک معمولی سی نوکری کررہے ہیں ۔ وہ کیا منا سکتے ہیں اس دن کو ؟جبکہ اسی معاشرہ میں ایک میٹرک پاس کہ جس کی ڈگری بھی شاید جعلی ہو وہ دولت کے بل بوتے پر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لیتا ہے اور پھروہی مزدوروں کے عالمی دن پر میڈیا پر نظر آتا ہے اور دن بھر مزدوروں کے ساتھ فوٹو سیشن کرواتا نظر آتا ہے ۔کیا ہم بحیثیت قوم مغرب سے آنے والی ہر روایت کو ان کی ہی طرح منا کر نام نہادپڑھے لکھے اور مہذب ہونے کا لبادہ اوڑھنے کی ناکام کوشش کریں گے حالانکہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کے بہت پہلے سے ہی ایسے قوانین موجود ہیں کہ جن میں مزدور کے وہ حقوق متعین کردئیے گئے ہیں کہ جو اب تک یہ حقوق انسانی کی علمبردار قوتیں نہیں دیں سکیں ۔

میں کسی دن کو منانے کے خلاف نہیں ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ 1972ء سے لے کر اب تک ہم اس دن کو چھٹی کرکے اس دن کو بڑے زوروشور سے منا رہے ہیں لیکن مزدور کے حالات آج بھی وہی ہیں جو شروع دن سے تھے۔ ایک افسر کی تنخواہ میں اضافہ لاکھوں میں نہیں توہزاروں میں ہوتا ہے جبکہ اسی کمپنی میں کام کرنے والا ایک مزدور کہ جو سارا دن دھوپ میں محنت کرتا اس کی تنخواہ میں صرف تھوڑے سے سو کا اضافہ ہوتا ہے وہ بھی نئے ٹیکسز اور مہنگائی کی نظر ہوجاتا ہے ۔ اور وہ پھر سے فاقہ کشی پر مجبور نظر آجاتا ہے جبکہ افسر حضرات ہر سال اپنے گھر والوں کو بیرون ملک سیر کے لئے لے جاتے ہیں وہ بھی کمپنی کے خرچے پر !

دنوں کو صرف منانے کی حد تک نہ رکھیں بلکہ ان دنوں سے ہٹ کر اسلام کہ جوایک آفاقی مذہب ہے جس میں ہمارے ہر مسئلے کا حل موجود ہے اس سے رہنمائی لینے کی کوشش کریں تاکہ مزدور کے جوصحیح طور پر مزدوری کاحق دار ہوتا ہے اس کو اس کا حق مل سکے اور دنیا کے سامنے ہم ایک آزاد اور مہذب قوم کے طور پر ابھریں ۔ ہماری اپنی تہذیب ہے ہمارا اپنا تمدن ہے ۔ضرورت صرف اس پر عمل کرنے کی ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات لافانی ہیں ۔
اس شہر میں مزدور جیسا دربدرکوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
 
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 55938 views Master in Islamic Studies... View More