سورج گرہن اورقومی یکجہتی

جمعۃ المبارک 20 مارچ کو آبزرویٹری کی ریپورٹس کے مطابق برطانیہ و یورپ سمیت دنیا کے کچھ حصوں میں سورج گرہن کی پیشینگوئی کی گئی تھی۔ اسلامی نکتہ نظر سے ایسے مواقع پرسورج گرہن کی نماز کی ادائیگی سنت ہے جسے ’’صلاۃ الکسوف‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نماز کو سنت موکدہ کا درجہ حاصل ہے۔ بخاری و مسلم کی احادیث میں حضورﷺ کا اس حوالے سے معمول مبارک مذکور ہے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ اس موقع پر اس سنت مصطفویﷺ کی ادائیگی کیلئے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے باضابطہ طور پر اہتمام کیا۔ مختلف مساجد اور اداروں نے جہاں تک ہو سکا اعلانات کیے اورسوشل میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر کی۔ ہم نے بھی اسی اہتمام کے ساتھ اپنے ادارے میں اس نماز کی ادائیگی کی۔ نماز کے بعد جناب پروفیسر امتیاز چوہدری اور کچھ دیگر لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ علماء کرام عیدین اور رمضان کے مواقع پر ایسے اتحاد کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے؟ کیونکہ اس موقع پر جملہ مکاتب فکر کے علماء اور دینی طبقات میں سے کسی کی طرف سے حساب اور آبزرویٹری پر کوئی اعتراض کیا گیا اور نہ ہی اخباری بیانات کے ذریعے اپنی علمی برتری کو اجاگر کیا گیا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کسی نے قبل از وقت سورج گرہن کو دیکھا اور نہ ہی سوائے آبزرویٹری کے کسی ذریعے سے کوئی اطلاع موصول ہوئی۔

اس موقع پر ہمیں خوشگوار حیرت کے ساتھ امید کی یہ کرن دکھائی دے رہی ہے کہ شاید اب مستقبل میں ہمارا یہی اجتماعی رویہ کمیونٹی کو رمضان اور عیدین کے مواقع پر روئت ہلال کے جھگڑوں سے نجات دلا دے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سورج گرہن کی نماز کی ادائیگی کیلئے ہم آبرویٹری کی ریپورٹس پر اعتماد کر کے قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دے سکتے ہیں تو اس حوالے سے چاند کے متعلق پیشین گوئیوں پر اعتماد کیوں نہیں کر سکتے؟

اگر یہ کہا جائے کہ حضورﷺ کی احادیث کے مطابق چاند دیکھ کر روزہ و عیدین کا اہتمام کرنا چاہیئے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضورﷺ نے سورج گرہن کی نماز کا اعلان چند دن پہلے کر دیا تھا؟ یقینا نہیں ۔ تو پھر سورج گرہن کی نماز کا اعلان قبل از وقت کیوں کیا گیا؟ جواب صرف ایک ہی ہے کہ آبزرویٹری کی ریپورٹس پر عمل کرتے ہوئے ایسا کیا گیا۔ انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ ایسا کرنے پر ہمیں قطعا کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہم اس کی تائید کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو روئت علمی کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ نے جو کیا صحیح کیا۔ اس وقت ناراضگی اور غصہ کرنے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تو صرف معزز و محترم مذہبی راہنماؤں سے گزارش ہے کہ اس قوم کے حال پہ رحم کھائیں ۔ دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہو جائیے۔ جب موڈ ہو تو آبزرویٹری کو مان لینا اور جب موج آئے تو انکار کردینا اچھی روایت نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں اپنے مذہبی تہواروں کو یکجا ہو کر منانے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ اس سورج گرہن کے موقع پر کیا گیا ہے۔ آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور ہے۔ اسلام نہ صرف اس سائنسی ترقی کی تائید کرتا ہے بلکہ اس کی بنیاد رکھنے والے ہی مسلمان سائنسدان ہیں ۔ جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا تو اس دور میں اندلس کی سڑکوں پر روشنیاں جگمگا رہی تھیں ۔ اُس دور میں مسلمان سائنسدان اپنی رصد گاہوں میں بیٹھ کر دنیا کو چاند اور ستاروں کی گزرگاہیں بتا رہے تھے۔ بقول اقبالؒ
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کیلئے
نگہ بلند، سخن دلنواز جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے

آج دنیا چاند سے ہو کر واپس آگئی اور ہم اس چاند کے جھگڑوں میں ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچ کر قوم کو تقسیم در تقسیم کر رہے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو اس کے بھیانک نتائج متوقع ہیں ۔ نئی نسل ہمارے ان جھگڑوں کی وجہ سے دین فہمیکے حوالے سے کئی الجھنوں کا شکار ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہماری جگ ہنسائی کا سبب بھی ہے۔ سکولوں سے ہمارے بچے مختلف ایام میں عید کی چھٹیاں لیتے ہیں۔ ملازمیں بھی عید کے حوالے سے اسی مشکل مرحلے سے گزرتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن عید پر متفق ہو جائیں تو متعلقہ محکمہ جات سے رابطہ کر کے ہم مسلمانوں کیلئے اپنے تہواروں پر باضابطہ چھٹی بھی منظور کروا سکتے ہیں۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں ہم سائنسی انکشافات اور اس کے نتائج کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں ۔ بلکہ اس پر من و عن عمل بھی کرتے ہیں۔ اگر نہیں کرتے تو چاند کے معاملے میں نہیں کرتے۔ روزہ فرض ہے۔ ایک ڈاکٹر مشین پر شوگر چیک کرے اور مریض کو بتا دے کہ روزہ رکھنے سے تیری جان جا سکتی ہے یا صحت بگڑ سکتی ہے تو متفقہ فتوی یہی ہو گا کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ حالانکہ اس کی بنیاد مشین کے حساب پر ہے۔ آج بیشمار ماہرین فلکیا ت اور ادارے دنیامیں موجود ہیں۔ ان کی خدمات حاصل کر کے ایک ایسا نظام مرتب کیا جاسکتا ہے جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہو اور وقت،حالات اور ماحول کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ بلکہ ہم آئندہ پچاس سالوں کا نظام الاوقات بنانا چاہیں تو بنا سکتے ہیں۔ ہم ایک سال کی پیشینگوئیوں کا مطالعاتی جائزہ لیکر مطمئن ہو سکتے ہیں کہ کس حد تک درست ہیں ۔ اگر 99 فیصد تک ان کی پیشینگوئیاں دیگر معاملات میں درست ہوں تو کیا چاند کے معاملے میں ہی غلطی کا امکان ہے۔ اگر حسن نیت سے ہم وحدت امت کیلئے ایسا کریں گے تو بہت بڑا احسان ہوگا ۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219145 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More