یہ کس کا لہو ہے ؟

ایک محترم کویت کے ایک ادارے میں اہم ترین منصب پر فائز تھے انہوں نے ایک واقع بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ رائیل فیملی کا ایک شہزادہ ٹریفک پولیس کے لائسنس سیکشن میں گیا اور آفیسر کو ڈرایؤنگ لائسنس کی عرضی پیش کی ۔آفیسر نے اس کا نام دیکھتے ہی اسے احترام سے سٹنگ روم میں بٹھایاخاطر توازع کی اور چند لمحوں میں موٹر سائیکل لائسنس اس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔بیٹے نے شام کوگھر آتے ہی وہ لائسنس لہراتے ہوئے والد کے سامنے میز پر رکھا اور طنزیہ کہاکہ آپ کو کتنی مرتبہ کہا کہ مجھے لائسنس دلوا دیں لیکن آپ مجھے قانون کی تھیوری سناتے رہتے تھے ۔۔۔دیکھو میں آج لائسنس سیکشن گیا اور بنا کسی ٹیسٹ کے لائسنس لے آیا ۔شیخ صاحب حیراں ہوئے وہ لائسنس اپنے ہاتھ میں لیا دوسرے روز صبح ادارے کے لائسنسنگ سیکشن میں واقع متعلقہ آفیسر کے کیبن میں پہنچے ۔آفیسرحیراں ہوا ۔کہ از ہائنس آج ہمارے آفس میں ۔۔۔؟وہ سمجھا کہ شائد کوئی انعام و اکرام ملے گا یا کوئی تعرفی اسناد ملے گی لیکن سب اس کے برعکس ہوا ۔شیخ نے آفیسر کو وہ لائسنس دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے دستخط ہیں ؟ ہاں ! وہ بولا ۔کیا میرے بیٹے نے ٹیسٹ پاس کر کہ یہ لائسنس حاصل کیا ؟نہیں ! اس نے جواب دیا ۔تو شیخ نے اسی کے میز سے قینچی لی اور اس کے سامنے وہ لائسنس کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسے کہا ! کہ آپ کو اس کرسی پر اس لئے نہیں بٹھایا گیا کہ آپ ہمارے بچوں میں موت بانٹتے پھرو۔۔۔مجھے اگر تیرے بچوں کا خیال نہ ہوتو اسی وقت تجھے اس کرسی سے گھسیٹ کر باہر لے جاؤں اور دوبارہ تم اس آفس کا کبھی نظارہ نہ کر سکو ۔

آئے روز ملکی شاہراؤں پر ہونیوالے موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ ، حادثات واموات کے حوالے سے ای میلز اور انٹر نیٹ میسجز کے زریعے مجھے کہا گیا کہ میں اس پر کچھ لکھوں ان تمام میسجز و ای میلز میں زیادہ کا تعلق دوسرے اضلاع سے تھا یا سمندر پار کے قارئین کرام تھے ان سب میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا تعلق پونچھ ڈویژن سے ہوتا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ علاقہ جو اس وقت ان حوادث کا مرکز ہے وہاں کسی کو کوئی فکر نہیں نہ سوگواران کو اور ناں ہی ان کے قرب و جوار میں رہنے والوں کو۔۔۔گزشتہ ایک ماہ میں اس ڈویژن میں ۱۳ جوان سال لڑکے موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوئے اگران ہلاکتوں کو قتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔لیکن ان کے ورثاء، سول سوسائٹی یا قانون نافظ کرنے والے اداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔یہ سب نوجوان ۱۳ سے ۲۱ برس کی عمر کے تھے ۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہے جہاں ہر کسی کو ایک سنجیدہ رہبر و رہنما کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن حالات گواہی دیتے ہیں کہ یہ بد قسمت بچے قدرت کی اس نعمت سے محروم ہیں ہی ساتھ ساتھ ایک ایسے خطہ کے رہائشی ہیں جہاں ایک ایسا کالونیل سسٹم رائج ہے کہ اس کے وسنیک اپنی ضروریات کے مطابق اپنے لئے اپنا آئین بنا نے کا اختیار نہیں رکھتے ۔۔۔جہاں کے حکمرانوں کی اہلیت بمشکل شہر کی نالیاں پختہ کروانے کی ہے اس پر ستم کہ قومی خزانے سے کروڑوں روپئے ماہانہ اجرت کی مد میں سمیٹنے والے محکمہ جات جو عوامی تحفظ کے زمہ دار ہوتے ہیں وہ دن رات ان حکمرانوں کی حفاظت و پروٹوکول میں لگے رہتے ہیں انہیں اس کام سے فرست ہی نہیں کہ شہر کی شاہراؤں پر دوڑنے والی چھوٹی موٹی گاڑیوں کی فٹنس چیک کر سکیں اورجان سکیں کہ انہیں ڈرائیو کرنے والے لائسنس ہولڈر ہیں یا نہیں ۔۔۔یہ دعٰوے سے کہا جا سکتا ہے کہ راولاکوٹ شہر کی شاہراؤں پر دوڑنے والے ایک سو میں سے ستانوے فیصد موٹر سائیکل سوار قانونی و سیفٹی لوازمات کو پورا نہیں کرتے ہیں اورپچاسی فیصد ایسے ہیں جن کے پاس موٹرسائیکل کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے اور یہ سب چیک کرنے پر مامور افراد جنہیں محکمہ’’ ٹریفک پولیس‘‘ کہتے ہیں وہ سب لوگ ’’ستو پی کر سو ئے ہیں‘‘اور انہیں اس بات کا زرہ بھی ’’بھار‘‘ نہیں کہ آئے روز شہر کی شاہراؤں پر جو لوگوں کے چشمہ و چراغ ہلاک ہو رہے ہیں اس میں ان کی بھی کوئی زمہ داری بنتی ہے آج جہاں کسی کا لخت جگرکسی کی عمر بھر کی پونجی ،کسی کا خواب موت کی بھینٹ چڑھ گیا کل اس کی جگہ ان کا کوئی اپنا بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔لیکن انہیں ان سب باتوں سے کیا لینا دینا یہ تو وہ ہیں جن کے دلوں اور زہنوں پہ مہر لگا دی گئی ہے یہ سننے سمجھنے یا محسوس کرنے کی صفت سے محروم ہو چکے ہیں جو جس اﷲ پاک کا حلف اٹھا کر لوگوں کے تحفظ کی قسم کھا کر اپنی اس سروس کا آغاز کرتے ہیں ناجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ کبھی مالک دو جہاں کے سامنے بھی جواب دہ ہونا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن کے یہ لخت ہائے جگر ہیں اگر انہیں ہی ان کا احساس نہیں ہے تو دوسرے کسی سے کیا تواقع کی جا سکتی ہے ۔باشعور و بیدار ممالک میں کبھی کسی فرد کو کوئی موٹر سائیکل یا موٹر کار خریدنے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک کہ متعلقہ موٹر کار یا موٹر سائیکل کو ڈرائیو کرنے کا قانونی جواز’’لائسنس‘‘ نہ ہو جو ایک ایسا قانونی تحفظ ہے جس کے باعث ان ممالک میں موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کی شرح صفر فیصد ہے ۔جب کہ ہمارے اس بد قسمت ملک کا تو اﷲ ہی وارث ہے ۔جہاں گاڑیوں کے خریدوفروخت کا کوئی قابل عمل نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔یہاں نقد رقم ادا کر کے بھی کسی کو اصل گاڑی ملنے کا یقین نہیں ہوتا ناں ہی اس ملک میں موٹرز ویکلز فٹنس کا کوئی قابل قدر قانون ہے ،تمام پبلک سروس اور سکول وینز میں پانچ کی جگہ دس دس افراد کو مال مویشی کی طرح ٹھونس دیا جاتا ہے لیکن کبھی کہیں کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہوتا جب کہ تمام اضلاع ،ان کے ہیڈکوارٹرز ،چھوٹے بڑے شہروں میں موجود ٹریفک کی تعداد کے مطابق ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھکر پولیس کا عملہ تعینات ہے مگر وہ لوگ ماہانہ قومی خزانے سے جس مد میں کروڑوں روپئے وصول کرتے ہیں لیکن اپنی زمہ داریوں کی جانب زرہ برابر توجہ نہیں دیتے ۔۔۔
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 75342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.