ایک مضبوط فوج کیوں ضروری ہے ؟

حال ہی میں پاکستان نے 1300کلومیٹر تک مار کر نے والے غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو یقیناً تمام محب وطن پاکستانیوں کے لئے بڑے فخر کی بات ہے ۔ یہ میزائل نہ صرف پاکستان کے مضبوط دفاع کی علامت ہے بلکہ پاک فوج اور پاکستانی سائنسدانوں اور انجئینرز کی بے پناہ صلاحیتوں اور فنی مہارت کا بھی مظہر ہے اور بلاشبہ اس پر وہ سب تہہ دل سے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ قوم کو اپنے محافظو ں پر فخر ہے جو دن رات ہماری سرحدوں کی حفاظت اور مادر وطن کے دفاع میں مصروف ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے زبو حال ملک کو ایک مضبوط اور جدید دفاعی صلاحیتوں سے لیس فوج کی ضرورت کیوں ہے اور کیوں یہ ضروری ہے کہ ہم بطور ایک ریاست اور قوم اپنے دفاع کو اولیت دیں اور اپنی فوج کو وہ تمام وسائل مہیا کریں جس سے فوج مزید مضبوط ہو؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج ریاست کی طاقت کا مظہر ہوتی ہے اور جس ریاست کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہوتی ہے وہ اتنی زیادہ محفوظ اوراپنے معاملات میں اتنی ہی زیادہ ٓازاد اورپر اعتماد ہوتی ہے۔ دوسری طرف جو ریاست جتنی کمزور ہوتی ہے وہ اتنی ہی غیر محفوظ اور اپنے معاملات اور مقاصد کے حصول میں اتنی ہی ناکام ہوتی ہے ۔ مشہور امریکی رائیٹر Samuel P. Huntingtonاپنی کتاب The Soldier and the Stateمیں لکھتا ہے کہ جنگ ریاستی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے ۔کوئی ریاست سفارتکاری سے اپنے مقاصد کے حصول میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ریاست کے پاس اپنے مقاصد کا دفاع کرنے کی طاقت اورصلاحیت موجودنہ ہو۔ ریاستوں کے ایک دوسرے سے مقابلے اور متضاد مقاصد کی بنا پر جنگ کا امکان ہمیشہ رہتا ہے اور ٓاخر کار جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے ۔

کیا وجہ تھی کہ 1947اور 1965میں ہندوستان نے ہم پر جنگ مسلط کی ، کیا وجہ تھی کہ 1971میں ہندوستان پاکستان کو دو لخت کرنے میں معاون ثابت ہوا، کیا وجہ تھی کہ وہ 1999میں پاکستان کے ساتھ چوتھی بھر پور جنگ سے باز رہا ، کیا وجہ تھی کہ کشمیر پرہندوستان کے ساتھ دو بھر پور جنگیں لڑنے کے باوجود ہم کشمیر ٓازاد نہ کرو ا سکے ، کیا وجہ ہے کہ ہم ٓاج تک ہندوستان کو مسئلہ کشمیر اور دیگر مسائل کے حل پر مجبور نہ کر سکے اور اس مسئلہ پر ہماری ساری کی ساری سفارتکاری ناکام ہوئی ، نہ ہم اسے اپنی مرضی سے مذاکرات کی میز پر لا سکے اور نہ اس کی مرضی سے ہونے والے مذاکرات میں اپنی کوئی بات منوا سکے ؟ جذبات سے قطعہ نظر ان سب سوالوں کا حقیقت پر مبنی ایک ہی جواب ہے کہ Balance of military-power has always been in India's favour۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد ایسا نہیں ہے طاقت کا توازن اب دونوں طرف برابر ہے لیکن military studiesیہ کہتی ہے کہ کسی ملک کی military powerکے تعین کا پیمانہ اس کی جوہری صلاحیت نہیں بلکہ اس کی total strength ہوتا ہے۔(total strength in number of soldiers and equipments) اور اس لحاظ سے ہندوستان ٓاج دنیا میں4th اور پاکستان 17thنمبر پرہے (https://www.globalfirepower.com/countries-listing.asp)۔یعنی طاقت کا توازن ٓاج بھی ہندوستان کے حق میں ہے ۔ اسی برتری کے زعم میں ہندوستان جب چاہتا ہے سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کرکے ہمارے فوجیوں کو شہید کر دیتا ہے ، جب چاہتا ہے مذاکرات کا ڈرامہ شروع کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے مذاکرات ختم کر دیتا ہے ، وہ جب چاہتا ہے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا دیتا ہے ، بلوچستان میں باغیوں کو سپورٹ کرتا ہے، افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو destabilizeکر نے کی سازشیں کرتا ہے ، ہم پر ٓابی جارحیت مسلط کرتا ہے ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا military muscleمضبوط ہے ۔

ہندوستان ہر سال دفاعی سازوسامان کی خریداری پرکثیر سرمایہ خرچ کرتا ہے ٓاخر وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ؟اسلئیے کہ وہ طاقت کے توازن کو پاکستان کے ساتھ برابر یا اس کے حق میں نہیں ٓانے دینا چاہتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر اسے پاکستان کے جائز مطالبات ماننے پڑیں گے ۔ اس صورت حال میں ہمیں یہ بات جان لینے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم طاقت میں ہندوستان کے ہم پلہ نہیں ہو جاتے ہم ہندوستان سے اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی economyاور ہماری economyمیں فرق ہے اور ہم اپنے دفاع پر اتناسرمایہ نہیں خرچ کر سکتے جتنا کہ ہندوستان کر سکتا ہے لہذا اس کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونا بھی بیوقوفی ہوگی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ہتھیار خریدے اور بنائے جائیں جو ہمارے وسائل کے اندر ہوں لیکن صلاحیت میں ہمارے دشمن کی استعداد سے بہتر ہوں، ہماری افواج کی trainingکو جدید سے جدید تر بنایا جائے کیونکہmilitary-powerکو ایک اور factorبھی determineکرتا ہے اور وہ ہے کسی فوج اور اس کے پاس موجود ٓالات کی اپنے دشمن کے خلاف کار کردگی یعنی اگر ٓاپ کے پاس کو ئی ہتھیا ر ہے تو وہ ہتھیار ٓاپ کے دشمن کے خلاف کتنا کار گر ثابت ہو سکتا ہے یا اسے کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان عوامل پر اگر زیادہ توجہ دی جائے تو ہم اپنی military-powerکو اپنے دستیاب وسائل کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔

بلاشبہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری طاقت اﷲ پر بھروسہ اور اس کی طرف سے مدد پر پختہ یقین ہے ۔ ہماری مسلح افواج نے اسی یقین اور جذبہ ایمانی کے سہارے اپنے سے دس گنا بڑے دشمن کاہر جنگ اور ہر محاذ پر بڑی بہادری اور دلیری سے مقابلہ کیا ہے اور انشا ء اﷲ ٓاگے بھی کر تے رہیں گے ۔ جنگ کے لئے جذبہ اور نظریہ ضروری ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید ٓالات ، ہتھیار اور ٹیکنالوجی سب سے ضروری ہوتی ہے۔ سپاہی موت سے نہیں ڈرتا ،اس کا تو مطلوب ہی لڑتے ہوئے شہادت پانا ہوتا ہے لیکن سپاہی کو لڑنے کے لیئے جنگی سازوسان کی ضرورت ہوتی ہے جومہیاکرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
پاکستان زندہ باد !
Raja Babu
About the Author: Raja Babu Read More Articles by Raja Babu: 14 Articles with 13963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.