اسلام ،مسلمان اور وطن

آدمی کی ہے جہاں میں آبروصدق سے ، صدقے سے اور تصدیق سے
ملتیں دنیا میں رسوا ہو گئیں فرق سے ، فرقے سے اور تفریق سے

پاکستان ایک ایسی عظیم اور فلاحی ریاست ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں یہ کوشش کی جاتی رہیں کہ پاکستان میں اسلامی قوانین کا اجرائ کیا جائے اور اسلامی قوانین کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مملکتِ خداداد پاکستان میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور متشدد رویوں میں اضافہ ہوتا رہا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور متشدد رویے پروان کیسے چڑھے اور کون سے عناصر ہیں جو ان کو پروان چڑھا رہے ہیں ؟ اگر ہم ذرا غور و فکر کریں اور اپنے مذہب کا گہرائی سے مطالر کریں تو معلوم ہوگا کہ

تمام مذاہب میں سے اسلام ہی واحد دین ہے جو انسان کی جان و مال کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’‘ جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ’‘

اگر تھوڑا غور کیا جائے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمان یا مومن کا ذکر نہیں کیا بلکہ انسان کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی کسی بھی انسان کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کوبغیر کسی وجہ سے قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے حالانکہ اسلام میں تو حالت جنگ میں بھی مسلمانوں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوتی ہیں جسے کسی بے گناہ کو قتل نہ کرنا ، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر حملہ نہ کرنا اور قتل نہ کرنا ، فصلوں ، ہسپتالوں اور عوامی فلاح و بہبود کے اداروں کو تباہ نہ کرنا وغیرہ جیسی پابندیاں عائد ہوتی ہیں موجودہ دور میں دنیا خاص کر پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور دہشت گرد نہ صرف پولیس، فوج بلکہ معصوم اور بے گناہ افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مذہبی عبادت گاہوں ، عوامی فلاح و بہبود کے اداروں اور ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ کون سا اسلام لا رہے ہیں ؟ کس اسلام پر عمل کر رہے ہیں ؟ کس دین اسلام کو فروغ دے رہے ہیں ؟ اور دین اسلام کا کون سا پہلو دنیا کے سامنے لا رہے ہیں ؟
لڑتے ہیں اختلاف عقائد پر لوگ کیوں
یہ تو ہے اک معاملہ دل کا خدا کے ساتھ

دین اسلام کا ذکر پہلے کر چکا ہوں کہ یہ ایسا دین ہے جو صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے افراد یعنی ہر انسان کو اہمیت دیتا ہے اور اسکی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’‘ دین میں کوئی جبر نہیں ’‘ یعنی آپ کسی بھی مذہب کے افراد کو زبردستی کوئی مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں اگر کسی کو دین اسلام پر لانا بھی ہے تو اس کا بہترین طریقہ تبلیغ ہے اورتبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنا کردار اور رویہ ایسا بنانا اور اپنانا کہ لوگ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوں ۔ اور تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ باکردار اور حقیقی مومن افرادکی وجہ سے سینکڑوں افراد اسلام کی دولت سے مال و مال ہو چکے ہیں ۔ پھر یہ دہشت گرد کس طرح کا اسلام پھیلا رہے ہیں اور دنیا کے سامنے کس قسم کا اسلام اجاگر کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اہل کتاب بلکہ مشرکین کو بھی قتل کرنا اور ان پر ظلم و ستم کرنے سے منع کیا ہے اور اس سلسلے میں قرآن پاک کی سورت الممتحنہ کی آیت نمبر سات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’‘ اللہ تعالیٰ تمہیں (مسلمانوں ) کو ایسے لوگوں ( کافروں ) سے بھلائی اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا ہے جنھوں نے تم سے جنگ نہیں کی اور نہ تمھیں گھروں سے نکالا اور نہ ان کی مدد کی ’‘

اللہ تعالیٰ نے کافروں سے بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے اور اسکی یہ حکمت اور وجہ بھی خود ہی بیان کر دی ہے اوپر بیان کی گئی آیت سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے عجب بات نہیں کہ ان میں اور تم میں دوستی پیدا کردے۔
رکھتے ہیں جو اوروں کے لئے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے

عقل مند قومیں حالاتِ حاضرہ کو مد نظر رکھ کر ہی اپنے ملک کے منصوبے تشکیل دیتی ہیں لیکن ہم اپنے ملک کے بدلتے ہوئے حالات سے غافل رہے اور عوام کی حالت یہ ہے کہ ملک کے ہر کونے میں انتشار برپا ہو چکا ہے اور لوگوں میں صوبائی تعصبات کے جذبات پروان چڑھ چکے ہیں کہیں پنجابی سندھی کہ فتنہ برپا ہے تو کہیں بلوچی پختون کا۔ کہیں مذہبی جھگڑے پروان چڑھ رہیے ہیں تو کہیں لسانی۔

ہمارا دشمن بڑا چالاک ہے وہ ہم میں سے ہی غداروں کو جنم دے رہا ہے یہ غدارانِ وطن اپنے یہ ملک کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اپنے ہی ملک کو توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں یہ لوگ علاقہ پرستی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کو بڑھا رہے ہیں حالات حاضرہ سے ہماری اسی غفلت سے دشمنوں کو ہم پر انگلیاں اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ بھارت سے ہماری دو جنگیں اسی غفلت کی وجہ سے ہوئیں ہیں اور یہ جنگیں یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی مشکل میں بیرونِ ملک امداد اور اغیار کی طرف مدد کے لئے نہیں دیکھنا چاہیے۔
ہمیں بہت کچھ کرنا ہے
کرنا ہے دم بھرنا ہے
طوفانوں سے گزرنا ہے
جینا ہے اور مرنا ہے

آج ہم سب کو محبِ وطن بن کر سوچنا چاہیے کہ جب ملک و قوم کی سلامتی خطرے میں ہے تو ان لوگوں کو تخریب کاری ، دہشت گردی اور فرقہ واریت سے باز رکھنا چاہیے جہاں تک ریاست پاکستان کا تعلق ہے تو ریاست اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کوشش کرتی ہے کہ معاشرے سے ان برائیوں کا قلع قمع ہو اور ہر طرف امن و سکون اور سلامتی ہو
خوشیوں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اور اس نظام جبر کو برباد ہونا چاہیے

ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث لوگ عمارتوں کو تباہ و برباد کرکے، بسوں اور گاڑیوں کو جلا کر، قومی اور سرکاری املاک کو تباہ و برباد کرکے ، بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے اور علم کی درس گاہوں کو دھماکوں سے اڑا کر کس قوت کے خلاف برسرِ پیکار ہیں ۔ آخر یہ نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ یہ عمارتیں ، یہ املاک ، یہ درس گاہیں ، یہ عباد ت گاہیں اور یہ معصوم اور بے گناہ لوگ کسی اور کے تو نہیں ہیں ۔ اپنے ہیں اور صرف اپنے ہی ہیں ۔ جب یہ سب کچھ اپنا ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟ اپنا نقصان ، اپنوں کو خون میں نہلانا اور اپنوں کی خوشیاں اور امن و سکون چھین کر ہم کیا کر رہے ہیں اور ان اقدام اور رویوں سے ہم دنیا میں دوسری اقوام کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں مقابلہ تو دور کی بات ہم ان کا سامنا بھی نہیں کر سکتے۔
بجھنے لگی نظر تو مجھے بولنا پڑا
جلنے لگے جو گھر تو مجھے بولنا پڑا

دہشت گردوں کے حملوں سے نہ مساجد محفوظ ہیں اور نہ پبلک مقامات ، نہ دفاتر محفوظ ہیں اور نہ مدارس۔ لیکن یہ بات دیکھی گئی ہے کہ ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستانی قوم ایک نئے عزم ، حوصلے اور جرات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سامنے آئی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول کے ننھے منے بچوں کے سکول پر حملہ کیا اور سینکڑوں معصوم طلبائ کو موت کی نیند سلا دیا۔ دہشت گرد یہ سوچ رہے تھے کہ اب پاکستانی قوم گھٹنے ٹیک دے گی لیکن پوری دنیا نے دیکھا اس واقعے نے پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا اور پوری قوم دہشت گردی، فرقہ واریت اور متشدد رویوں کے خلاف ریاستی عزم کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے تیار ہوگئی اور ویہ بچے جو اس پورے خوفناک واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے خوف ذدہ نہیں ہوئے اور دوبارہ اپنے شہید ساتھیوں کے عزم کو پورا کرنے سکولوں میں جا پہنچے اور یہ ثابت کردیا کہ
جب دھرتی ماں نے یاد کیا لبیک دیوانے چل نکلے
اس پاک وطن کی مٹی پر ہم جان لٹانے چل نکلے

ہے تیری امانت خون اپنا ہم خون بہانے چل نکلے
کھائی ہے تیری عزت کی قسم یہ عہد نبھانے چل نکلے

موجودہ حالات میں پاکستانی ریاست دہشت گردی ، فرقہ واریت اور متشدد رویوں کے خاتمے کے لئے پر عزم ہے اس موقع پر پوری قوم کو بھی اس کاوش میں ریاست کا ساتھ دینا چاہیے اور یہ ثابت کر دینا چاہیے کہ
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جاں باز چلے آتے ہیں
تیری بنیاد میں ہے لاکھوں شہیدوں کا لہو
ہم تجھے گنجِ دو عالم سے گراں پاتے ہیں
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 156769 views I live in Piplan District Miawnali... View More