مقام صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ: احادیث نبویہ کی روشنی میں

شمع جمال مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پروانوں میں یوں تو ہر ایک مثالی حیثیت کا حامل ہے تاہم سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ رفعت ومرتبت کے اعتبار سے سب میں بڑے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ جن کے انداز عشق ومحبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دلوں میں تازگی ہی تازگی پیدا کردی، جس کی عزیمت ومردانگی کا روان ملت کے لیے خضر راہ ہے، جس کی نگاہ ناز میں دنیا کی لذتیں ہیچ تھیں جو دنیا میں رہ کر بھی تارک دنیا رہے۔

نام،نسب والقاب کی تفصیل:امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اﷲ عنہ کا اسم گرامی’ عبداﷲ‘ تھا بعض مورخین نے لکھا ہے کہ والدین نے آپ کا نام’ عبدالکعبہ‘ رکھا تھا اسلام لانے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم نے یہ نام بدل کر’ عبداﷲ‘ رکھ دیا، سلسلۂ نسب یہ ہے۔ سلسلۂ نسب چھٹی پشت میں مرہ بن کعب پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم کے شجرۂ نسب سے مل جاتاہے۔آپ کی کنیت’ ابوبکر‘ ہے۔ ابو کے معنیٰ ہیں والا جیسے ابو ہریرہ بلی والے، بکر کے معنی ہیں اولیت۔ اسی سے ہے بکرہ، باکرہ اور باکورہ۔ ابوبکر کے معنی ہوئے اولیت والے۔ چوں کہ آپ ایمان ، ہجرت حضور کی وفات کے بعد میں اور قیامت کے دن قبر کھلنا وغیرہ سب کاموں میں آپ ہی اوّل ہیں اس لیے آپ کو ابوبکرکہاگیا ،رضی اﷲ تعالیٰ عنہ(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ۸؍۳۴۷)اور بعض علماے کرام نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:صال حمیدہ میں جدت طراز ہونے کی وجہ سے آپ کی کنیت ابوبکر رکھی گئی۔آپ کے القاب میں عتیق، صدیق،اصدق الصادقین اور سید المتقین وغیرہ ہیں۔ عتیق کے بارے میں فرمایا گیا کہ آپ بڑے خوبرو اور خوش شکل تھے اس لیے آپ کو عتیق کے لقب سے ملقب کیاگیا اور بعض کے نزدیک یہ لقب سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو دیا ۔ کیونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کو خوشخبری دی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو آتش جہنم سے آزاد کردیا ۔ (ضیاء النبی۲؍۲۲۸)لقب صدیق کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر نے لکھا ہے:آپ کو صدیق اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ نے واقعہ معراج کی تصدیق کی۔ (خلفاے راشدین، از مولانامحمد عاصم اعظمی ،ص:۲۷)

فضائل وکمالات:سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے فضائل کے فضائل اور مناقب بے شمار ہیں جن کی تفصیل کے لیے ایک دفتر بھی ناکافی ہے،قرآن کریم کی متعدد آیات آپ کی عظمت و فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔خود خدائے پاک قرآن کریم میں آپ کی تعریف و توصیف بیان فرماتا ہے،بھلا جس کی تعریف اس کا رب بیان کرے، اس کا محبوب (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جن کے تذکرے محبت آمیزلہجے میں کرے، اس عظیم المرتبت ہستی کی رفعتوں کاکیا پوچھنا؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا یوں عرض گزار ہیں۔ ؂
یعنی اس افضل الخلق بعدالرسل
ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام

نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہ اجمعین سے کتنی محبت فرماتے تھے کون بیان کرسکتاہے بے شک وہ تو کریم ا وررحیم ہیں اپنے ہر امتی کے لیے، اپنے ہر چاہنے والے کے لیے، پھر اپنے جانثاروں پر کتنے مہربان ہوں گے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، تاہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آپ نے جو تعریف فرمائی ان کے احسانات کا جس شفقت بھرے انداز میں ذکر فرمایا، سبحان اﷲ ، ماشاء اﷲ، دیدہ ودل ان کلمات مقدسہ کو سن کر جھوم جھوم جاتے۔ آئیے چند احادیث کریمہ ملاحظہ کریں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر شخص کے احسان کا بدلہ ہم نے اسے دے دیا سوائے ابوبکر کے، کہ ہم پروہ احسان ہے جس کا بدلہ انہیں اﷲ تعالیٰ روز قیامت دے گا، مجھے کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے دیا، اور اگر میں کسی کو دوست بناتا توضرور ابوبکر کو دوست بناتا اور بے شک تمہارے صاحب (حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ تعالیٰ کے محبوب ودوست ہیں۔( جامع ترمذی ۲؍۲۰۷)امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اﷲ تعالیٰ ابوبکر پر رحمت نازل فرمائے، مجھ سے اپنی بیٹی کا عقد کیا اور مجھے دارالہجرت مدینہ منورہ میں لائے اور اپنے مال سے بلال (رضی اﷲ عنہ) کو خریدکر آزاد کیا اور مجھے اسلام میں کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو فائدہ ابوبکر کے مال نے دیا۔(جامع ترمذی ۲؍۲۱۳)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابوبکر تمہارا مال کتنا ستھرا ہے کہ اسی سے میرا مؤذن بلال آزاد ہوا، اسی سے میری وہ اونٹنی خریدی گئی جس پر میں نے ہجرت کی، نیز تم نے اپنی پیاری بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا اور اپنی جان ومال سے میری مدد کی گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ جنت کے درواز ے پر کھڑے ہو اور میری امت کی شفاعت کررہے ہو۔(جامع الاحادیث ۴؍ ۵۷۰)

وفات شریف: ۲۲؍ جمادی الآخرہ ۱۳ھ مطابق ۲۳ ؍اگست ۶۳۴ء بروز منگل مغرب وعشاء کے درمیان ۶۳ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا وصیت کے مطابق آپ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آپ کو غسل دیا اور امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے نمازجنازہ پڑھائی۔سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو فنا فی الرسول کا وہ درجہ حاصل تھا کہ آپ کی وفات بھی حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا نمونہ ہے پیر کے دن حضور کی وفات اور پیر کا دن گزار کر شب میں حضرت صدیق کی وفات، حضور کے وفات کے دن شب کو چراغ میں تیل نہ تھا اور حضرت صدیق کی وفات کے وقت گھر میں کفن کے لئے پیسے نہ تھے یہ ہے فنا۔ (رضی اﷲ عنہ) (استفادۂ خصوصی: تذکرہ عشرۂ مبشرہ ،مصنف :غلام مصطفی قادری رضوی،باسنی ناگورراجستھان)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674612 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More