یمن کی مکروہ جنگ کے عوامل ،اسباب اور نتائج؟

 حوثی کون ہیں:
آج کل حوثی قبائل کے حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت ہی بے سر و پا کہانیا ں شائع کی جاتی ہیں اورایسی من گھڑت کہانیاں تراشی جاتی ہیں جن سے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا خاصا مشکل بن چکا ہے ۔یمن سعودی عربیہ کے مقابلے میں معاشی طور پر غریب ایک قبائلی ملک ہے ۔یہ سعودی عرب کا ہمسایہ ملک ہے ۔دونوں ممالک کے اچھے برے حالات کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے ۔اسی ملک میں حوثی قبائل بھی ایک مشہور قبیلہ ہے جن کی حالیہ ایام میں تیز رفتار پیش قدمی نے دنیا کی توجہ ان کی جانب موڑ دی ہے بلکہ آج کل یہی لوگ پوری دنیا کا موضوع بنے ہو ئے ہیں ۔حوثیوں کے متعلق یہ بات بہت ہی دعوے کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ یہ لوگ ’’اہلِ تشیعہ‘‘ہیں اور ان کے عقائد میں اصحاب رسول ﷺ کا سب و شتم کرنا جائز ہے ۔مجھے حیرت اور دکھ تب ہوتا ہے جب بعض لکھے پڑھے لوگ بھی تحقیق اور مطالعہ کے برعکس اس طرح کے تماشوں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ حوثی ’’شیعہ‘‘ نہیں ہیں بلکہ زیدی ہیں ۔یہ لوگ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت زیدؒ بن علیؒ کی طرف اپنے آ پ کو منسوب کرتے ہیں ،اسی لئے انھیں’’ زیدی‘‘ کہا جاتا ہے ۔زیدی فرقے کے لوگ دوسرے’’ غالی اور متشدد شیعوں ‘‘کے برعکس کسی بھی صحابی رسولﷺ کے ’’سب و شتم‘‘کو ناجائز مانتے ہیں ۔یہ لوگ اصحابِ رسول اﷲ ﷺ کا احترام اسی طرح کرتے ہیں جس طرح اہلِ سنت والجماعت کرتے ہیں ۔ان کا اختلاف اہل سنت کے ساتھ صرف اس بات پر ہیں کہ یہ حضرت علی ؓ کو اصحابِ رسول اﷲ ﷺ میں افضل ترین مانتے ہیں ۔

زیدیوں کا عقیدہ افضل مفضول:
زیدی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کے قائل ہیں مگر یہ اس بات کے ہرگز قائل نہیں ہیں کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کو خلیفہ بنایا جا سکتا ہے۔برعکس دوسرے اہلِ تشیعہ کے ،وہ افضل کی موجودگی میں مفضول کو خلیفہ بنانے کے قائل نہیں ہیں ۔اہلِ سنت والجماعت کا نظریہ اس باب میں زیدیوں سے قریب تر ہے کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کو خلیفہ نہیں بنایا جا سکتا ہے اور اگر بنایا جائے اہل سنت اس کو قبول کرتے ہیں اگر چہ یہ صورت بہتر نہیں ہے ۔دوسری اہم بات زیدیوں کی یہ بھی ہے کہ وہ بعض اہل تشیعہ کے برعکس اس بات کے بھی قائل نہیں ہیں کہ حضرت علی کرم اﷲ تعالی وجہہ پر نبی کریم ﷺ کے انتقال پُر ملال کے بعد کسی طرح کا کوئی ظلم ہوا تھا جیسا کہ امام ابن خلدونؒ تاریخ ابن خلدون میں لکھتے ہیں ’’اور یہ بھی اُ ن کا عقیدہ تھا کہ ان لوگوں نے(یعنی حضرات شیخین ؓنے)حضرت علیؓ پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کیا تھا ۔(تاریخ ابن خلدون،جلدنمبر3،صفحہ نمبر:172)

اہلِ تشیعہ کا حضرت زیدؒ بن علیؒ بن حسین ؓسے اختلاف:
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ اہلِ تشیع کا اُسی حضرت زیدؒ سے شدید اختلاف رہا ہے جن کی جانب زیدی لوگ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اسی فرقے سے یمن کے حوثی بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ۔وہ اختلاف اس بات پر ہوا تھا جب حضرت زیدؒ بن علی ؒبن حسین ؓ نے141؁ھ کوفہ میں خروج کیا توشیعوں کا بہت بڑا گروہ آپ کے پاس جمع ہوگیامگر ان میں سے بعض شیعہ اس وجہ سے آپ سے منحرف ہو گئے کہ آپ حضرات شیخینؓ (یعنی حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ)کی تعریف کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ حضرات شیخینؓ نے حضرت علیؓ پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ۔اُن شیعوں نے یہ کہہ کر کہ ان لوگوں نے بھی تم پر کچھ ظلم نہیں کیا زیدؒ بن علی ؒسے علحٰیدگی اختیار کر لی ،اسی علحٰیدگی کی وجہ سے ہی انہیں ’’رافضی‘‘بھی کہا جانے لگا۔( تاریخ ابن خلدون،جلدنمبر3،صفحہ نمبر:172)

زیدیوں کا اہلِ سنت سے اختلاف:
ان کا اختلاف اہلِ سنت کے ساتھ خلافت کے باب میں ہے اس لئے کہ یہ خلافت کو حضرت علیؓ اور آلِ ہاشم کے لئے مخصوص مانتے ہیں جبکہ اہل سنت خلافت کو اُمت کے اہل تر آدمی کے لئے جائز قرار دیتے ہیں ۔اہلِ سنت منصبِ خلافت کے لئے کسی بھی خاندان کی شرط کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں اس لئے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اہلِ بیت عظامؓ کے محبت و احترام کا حکم اُمت کو تو ضرور دیا ہے مگر منصب ِ خلافت کے لئے ہاشمی ہونا کسی بھی فرمودے سے ثابت نہیں ہے اور خود بھی اپنے مبارک دور میں اہم مناصب پر ہاشمیوں ہی کو مقرر نہیں فرمایا گویا نہ ہی یہ تصور آپﷺ کے قولِ مبارک سے ثابت ہے نہ ہی عمل ِ مبارک سے ۔

زیدیوں کی سلطنت:
یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ یمن میں زیدیوں کی حکومت بہت ہی طویل دور تک قائم رہی ہے اور یہ طویل دور ایک دس برس کا نہیں بلکہ سینکڑوں سالوں پر محیط ہے ۔انھوں نے خلیفہ مامون الرشید کے دور میں حکومت کے خلاف زبردست اور منظم تحریک چلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ حکومت عباسیوں سے چھین کر کسی صالح ہاشمی کو سونپ دی جائے ۔مامون نے اس تحریک کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی مگر تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بری طرح ناکام رہا ۔اس کے بعد مصالحت کا آغاز ہوا تو مامون نے زیدیوں کو یمن کا ایک وسیع و عریض علاقہ میں حکومت قائم کرنے کی اجازت دیدی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ زیدیوں نے 1962؁ء تک اس علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھا اور یہ لوگ ہر دور میں حکومت میں شامل رہے ۔

1962؁ء کا فوجی انقلاب اور اختلافات کا آغاز:
جب 1962؁ء میں فوجی انقلاب برپا ہوا تو اس کا اثر سارے یمن پر پڑا ۔خاندانی حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا ۔نیم جمہوری اور فوجی حکومتوں کا آغاز ہوا ۔اس دور تک یمن میں زیدیوں کی تعداد 30%تک پہنچ چکی تھی ۔1986؁ء تک یمن میں ’’شیعہ سنی اختلافات‘‘ کا کوئی اثر نہیں تھا اس لئے کہ یہاں یا اہل سنت رہتے تھے یا زیدی دونوں کے بیچ جو اختلاف مسئلہ خلافت و امامت پر تھا کو دونوں نے کبھی بھی تعلقات میں آڑے آنے نہیں دیا ۔یہ لوگ ایک دوسرے کی مساجد میں کسی پریشانی کے بغیر نماز پڑھتے تھے ۔1986؁ء میں زیدیوں نے تبلیغی سر گرمیوں کے لئے ایک جماعت تشکیل دیدی ۔جس کا نام ’’اتحاد الشباب‘‘رکھا گیا ۔اس تنظیم میں زیدیوں کے کئی مشہور علماء بھی شامل تھے ۔جن میں ’’بدرالدین الحوثی ‘‘کا نام زیادہ مشہور ہے ۔انھوں نے اس تنظیم کی ساری سرگرمیاں ’’دعوت و تبلیغ ‘‘تک محدود رکھدی۔

1990؁ء میں اتحاد میں رخنہ پڑ گیا:
سعودی عربیہ کی زبردست ’’یمن دوست کوششوں‘‘کے نتیجے میں ’’شمالی اور جنوبی یمن‘‘کے اختلافات ختم ہو گئے دونوں نے ملکر نئے دور کا آغاز کیا ،مگر یہاں ہی ایک المیہ نے جنم لے لیا اور وہ المیہ مذہبی یا مسلکی نہیں بلکہ خالصتاََ ’’شہری اور بشری حقوق‘‘کا تھا ۔یہاں انتخابات کے بغیر ایک پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ اقتدار کی ’’شاہ کلید‘‘شمال کے حصے میں آئی اور شمال کا حاکم ’’علی عبداﷲ صالح ‘‘آپ سے آپ یمن کا بلا شرکت غیرے حکمران بن گیا ۔علی عبداﷲ صالح سعودی عربیہ کے بہت قریب تھا بلکہ یو ں کہنا چاہیے کہ سعودی عربیہ کا ہی چمچہ تھا ۔جنوب میں وسائل کی بہتات کے باوجود ان کی جھولی میں کچھ نہیں آیا جس کے نتیجے میں اندر ہی اندر ایک آتش فشاں تیار ہونے لگا ۔وقت کے عیاش حاکم اور سعودی چمچے علی عبداﷲ صالح نے اس اہم مسئلے کو کبھی حل کرنے پر توجہ نہیں دیدی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوب میں علحٰیدگی کی تحریک کا آہستہ آہستہ دوبارہ آغاز ہونے لگا ۔

ایران اور اہلِ تشیعہ سے قربت کا آغاز:
1990؁ء کے انقلاب کے بعد یمن میں سیاسی جماعتیں تشکیل دینے کی اجازت دیدی گئی ۔تو حوثیوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا ۔انھوں نے اپنی تبلیغی جماعت ’’اتحاد الشباب‘‘ کا نام بدل کر اسی کو سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا تو ’’اتحاد الشباب‘‘کا نیانام ’’حزب الحق‘‘ رکھا گیا اور حسین بدرالدین الحوثی کو اس کا صدر منتخب کیا گیا ۔حسین بدرالدین مشہور زیدی عالم دین بدرالدین الحوثی کا بیٹا ہے ۔یہ 1993؁ء اور 1997؁ء میں دوبار سینٹر بھی منتخب ہوا ۔یہ تنظیم ہر طرح سے ایک محب وطن خالص عرب دوست جماعت تھی اور ان اہل سنت کے ساتھ مکمل تال میل اور تعاون تھا کہ زیدی علماء نے ایک فتویٰ جاری کردیا کہ ’’دورِ حاضر میں امامت کے لئے ہاشمی النسب ہونا ضروری نہیں ہے ‘‘بدرالدین الحوثی اس فتوے کی مخالفت میں کھڑا ہوگیا اور اس نے اس فتوے کو عقائد میں تحریف قرار دیدیااس لئے کہ اس کو اس فتوے سے یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں اس فتوے سے زیدی اہل سنت میں ضم نہ ہو جائیں ۔حقیقت بھی یہی تھی کہ زیدیوں کا سنیوں کے ساتھ اختلاف اسی باب میں رہا ہے ۔بدرالدین حوثی نے اپنی تقریروں میں اس فتوے کے خلاف آگ اُگلنی شروع کردی ۔اور اس نے ہر جگہ یہ بات پوری قوت کے ساتھ کہنی شروع کردی کہ ’’زیدی‘‘مسلکاََ اہل سنت کے برعکس اثنا عشریہ شیعہ فرقے کے قریب ہیں حالانکہ یہ بات خلافِ حقیقت تھی ۔اس کے نتیجے میں جب مخالفت کا آغاز اس کے اپنے فرقے کی جانب سے ہوا تو اس کی تقاریر میں غلو اور تشدد کا پہلو غالب آنے لگا۔اور اس نے زیدیوں کو اثنا عشریوں کی جانب مائل کرنے کا آغاز کر لیا ۔

2003؁ء میں حسین بدرالدین الحوثی کا قتل :
2003؁ء میں امریکہ نے عراق پر حملہ کردیا یمن سمیت اکثر عرب ممالک نے اس کی بھرپور حمایت کی ۔حسین بدر الدین الحوثی نے حکومت کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ۔اس نے جگہ جگہ یہ کہنا شروع کردیا کہ امریکہ کا عراق پر حملہ بدترین ظلم ہے اور یمن کو اس ظلمِ عظیم میں شامل نہیں ہوناچاہئے ۔مغرور حکمرانوں نے اس کی مخالفت کا کوئی نوٹس نہیں لیا تو اس نے مظاہروں کا آغاز کرلیا۔حکومت نے عقل و دانش کو بالائے تاک رکھ کر حسین بدرالدین الحوثی اور اس کے حمایتیوں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کرلیا جس میں 30ہزار فوجیں،جنگی جہاز اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس میں حسین بدرالدین الحوثی سمیت اس کے سینکڑوں حامی جان بحق ہو گئے ۔یہی سے تمام زیدیوں میں حکومت کی شدید نفرت پیدا ہو گئی ۔

بدرالدین الحوثی کی قیادت اور حوثیوں کی نئی پہچان:
بدرالدین الحوثی کا بیٹا حسین بدرالدین الحوثی جب فوجی آپریشن میں ساتھیوں سمیت قتل ہوا تو زیدی فرقے کے لوگوں میں آگ سی لگ گئی ۔انھوں نے اپنی تمام نسبتوں کو مٹا کر اپنے آپ کو اپنے لیڈر سے منسوب کرتے ہو ئے حوثی کہلوانا شروع کردیا نتیجہ یہ نکلا کہ حوثی جو ایک قبیلے کی پہچان ہے اب ایک تحریک کا نام بن چکا ہے ۔حوثیوں نے اپنے لیڈر کے مارے جانے کے بعد ان کے باپ بدرالدین الحوثی کو اپنا لیڈر منتخب کر لیا ۔بدرالدین حوثی چونکہ پہلے ہی اہل تشیع میں فرقہ اثنا عشری کے قریب جا چکا تھا کے لیڈر بن جانے سے حوثی قبیلے میں اثنا عشری فرقہ کے حوالے سے نرمی پیدا ہونے لگی گویا ’’ناخوب اب خوب تر ہونے لگا‘‘۔بدرالدین حوثی نے ایران میں کئی سال گزارے تھے وہ زیدی سے اثنا عشری ہو چکا تھا اور نہ صرف خود اثنا عشری ہو چکا تھا بلکہ اس نے پورا زور لگا دیا کہ یمن کے زیدی اثنا عشری ہو جائیں ۔بیٹے کی ہلاکت کے بعد اس نے حوثیوں کو تحریک مؤخر کرنے کی صلاح دیدی ،سر گرم لوگ زیر زمین چلے گئے حکومت غلط فہمی میں مبتلا ہو گئی کہ شاید دردِ سر ختم ہوگیا حالانکہ حوثی ایک نئی تیاری کے ساتھ میدان میں آنا چاہتے تھے مگر سابقہ تجربات کی روشنی میں انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ جب تک تیاری نہ ہو حکومت سے جنگ لڑنا محال تر ہوتا ہے ۔زیر زمین رہنے کے عرصے میں حوثیوں نے مکمل تیاری کر لی ۔2008؁ء میں قطر کے توسط سے حوثیوں اور حکومت کے درمیان صلح تو ہو گئی مگر یہ سب کچھ ایک دکھاوا تھا اندراندر حوثی اپنی تیاری میں جٹ چکے تھے۔

ایرانی مداخلت اور اس کے اسباب:
ایران میں اکثریت اہل تشیع کی ہے اور اثنا عشری غالب طبقہ۔حوثیوں کے ان کے جانب جھکاؤ اور پھر قتلِ عام نے ایران کے دلی خواہش پوری کردی ۔اس نے یمنیوں کی امداد اور تعاون شروع کردیا ۔نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ایران لاکھ تردید کرے مگر ایسی ماہرانہ عسکری کاروائیاں کسی بے تربیت یافتہ اور بے وسائل جماعت سے ممکن نہیں ہے ۔کسی ملک کی راجدھانی پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے جتنا عام لوگ تصور کرتے ہیں ۔حوثیوں کی بڑھتی عسکری صلاحیت کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ دارالخلافہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر ایران حوثیوں کی مدد کیوں کرتا ہے ؟اس صورتحال کاتجزیہ کرتے وقت پہلے ہی ’’شیعہ سنی اختلافات ‘‘کو سامنے لایا جاتا ہے پھر یہ سمجھنا محال ہوجاتا ہے کہ اصل اسباب کیا تھے جو اس پراکسی وار کو شروع کرنے کا سبب بن گئے ۔

ایران میں شیعہ مسلک کے مذہبی لوگوں کی حکومت آنے کے بعد انھوں نے کل تک مغرب بالخصوص امریکہ مخالف پالیسی اپنائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر امریکہ مخالف ان کا دوست بن گیا ،اور امریکہ نواز دشمن ۔سعودی عربیہ شاہ فیصل کی شہادت کے بعد کلی طور پر ’’بے وفا امریکہ‘‘کی جھولی میں گر پڑا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے یہ روسی کمیونسٹوں سے بدتر دشمن ثابت ہو چکا ہے ۔اس کو جو بھی دوست بناتا ہے یہ لوگ اسی کو ڈس لیتے ہیں ۔اس کی تازہ مثال یمن کے مسئلے پر امریکہ کے اس شرمناک اسٹینڈ کی ہے جس میں کھوکھلی حمایت سعودی عربیہ کی ہے مگر درونِ خانہ وہ یمن کے حوثیوں کے بڑھتے اقدام ہی کی حمایت کرتے ہیں ۔ایران سعودی عربیہ کے بیچ ایک دشمنی عربی عجمی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ کل ہی عالم عرب کے بڑے شیعہ عالم کا سخت بیان ایران اور حوثیوں کے خلاف آیا ہے ۔عجمی کتنا ہی عرب پرست کیوں نہ ہوں عرب اس کو کبھی بھی سر پر بٹھانے کے حامی نہیں ہو سکتے ہیں ۔یہ عربوں کی سر شت میں داخل ہے عالم عربی میں رہنے والے عجمی اس کی گواہی دے سکتے ہیں ۔

ایران کے اہل تشیع کا اہلِ سنت کے ساتھ اختلاف بہت مشہور ہے ،ایران کے حکمران طبقے میں غلبہ لبرلوں کے برعکس مذہبی لوگوں کا ہے بالکل اسی طرح جس طرح سعودی عربیہ میں غالب طبقہ سلفی الفکر حضرات کا ہے ۔دونوں کے خیالات میں آسمان و زمین کا فرق ہے اور یہ حضرات ایک دوسرے کو قبول کرنے کے کبھی بھی روادار نہیں ہو سکتے ہیں ۔ان کے متشدد علماء کی کتابیں پڑھنے اور تقریریں سننے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس قدر ایک دوسرے کے دشمن ہیں اس کا لازمی اثر ان ممالک کی پالیسیوں پر بھی پڑا ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کی پالیسی کو جارحانہ اور دوسرے کی پالیسی کو اعتدال پر مبنی قرار دیا جائے ۔یہ اختلاف پورے عالم عرب میں آ پ کو جگہ جگہ نظر آئے گا ۔

ایران عرب دشمنی کی اہم ترین وجہ دنیا کا دو حصوں میں منقسم رہنا ہے یعنی امریکہ،برطانیہ،اسرائیل اور مغربی لابی جبکہ دوسری جانب روس ،چین،ایران ،شام اور اب کچھ عرصہ سے پاکستان کا اس لابی میں شامل ہونے کے بعد کی نئی صورتحال ہے ۔پوری دنیا کی جنگیں یا تو ہتھیاروں کے بین الاقوامی دلالوں کے فتنوں کے نتیجے میں برپا ہوتی ہیں یا طاقتور ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مکروہ عزائم کے سبب۔پورے عالم عرب میں لگی آگ کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ اسرائیل کی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں مختلف ممالک میں جنگوں کی آگ بھڑکتی ہوئی دیکھنے کی متمنی رہتی ہیں تاکہ ان کا کاروبار کسی بھی طرح ماند نہ پڑ جائے ۔جہاں تک ایک طرف امریکہ برطانیہ اوراسرائیل اور دوسری جانب روس ،چین اور دیگر ممالک کا دنیا کودو حصوں میں منقسم کرنے کا تعلق ہے تو ان کی اپنے بلاک میں جہاں بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے یہ اس کی پشت پر کھڑے ہو جاتے ہیں اس کی ایک بڑی مثال فلسطین اور اسرائیل کا قضیہ ہے کہ اس کا اسرائیل کے ساتھ دوستی کے نتیجے میں کس طرح باربار وہ فلسطین کے خلاف ویٹوپاور باربار استعمال کرتا ہے ۔بالکل اسی انداز میں روس شام کے مسئلے کو بین الاقوامی فورم پر حل کرنے میں روڑے اٹکاتا ہے اور کشمیر مسئلے پر باربار سب سے زیادہ روکاوٹ روس نے ہی ماضی قریب تک ڈالی ہے ۔اس صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو دنیا کی جنگیں عموماََ یا تو ہتھیار بنانے والے دلال ،خفیہ ایجنسیاں یا دنیا کے دو بلاک لڑتے ہیں۔ یمن میں بھی حوثیوں کی حقوق کی بحالی جنگ اب ’’شیعہ سنی جنگ ‘‘کے ساتھ ساتھ دنیا کے بڑے چودھریوں کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جذباتی بننے کے بجائے ہم جنگوں کی تہہ میں جھانک کر حقائق کو جاننے کے بعد اس کے علاج کی کوئی کار گر صورت تلاش کریں ۔ ایران اہل تشیع کے سرپرستی کے ساتھ اپنے ہر حامی کو تعاون فراہم کرتا ہے اس کے برعکس عرب ممالک ہر دوست کو بھی ذرا سی بد مزاجی کی خوفناک سزا دیتے ہیں جس کی مثال القائدہ ،طالبان ،حماس اور داعش کی دی جاسکتی ہے۔ شیعہ سنی دونوں میں اقرب الی الحق کون ہے ؟جب یہ سوال مجھ سے بحثیت سنی پوچھا جائے میں اس کا جواب سنی ہونے کے ناطے یہی دوں گا کہ اہل سنت اقرب الی الحق ہیں مگر کیا اس فتویٰ بازی یا پراکسی جنگوں سے یہ مسئلہ کبھی حل ہوگا ۔ایران کی شام میں ظالم بشار کی حمایت کے بعد عراقی حکومت کی حمایت کے اسباب بالکل عیاں ہیں کہ وہ ان کے مسلکی ،فکری اور سیاسی اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجکل پارٹنر ہیں جس طرح خلیجی ممالک میں سعودی ،کویت،متحدہ عرب امارات،مصراور دیگرکئی عرب ممالک ہیں ۔دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے ہمیشہ درپے رہے ہیں اور اب یہ صورتحال نئی نئی خوفناک شکلیں اختیار کرتی جارہی ہے ۔

امریکہ حوثیوں کی پشت پر :
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ اس قضیہ میں سعودی کے برعکس حوثیوں کے ساتھ ہے حالانکہ حالیہ اقدام میں اس نے سعودی موقف کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے مگر یہ اس کی مجبوری ہے جس کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے سوائے اس کے کہ امریکہ عالمی سطح پر جس تنہائی کا شکار ہو رہا ہے میں سعودی اور چند عرب ممالک ہی اس کا ایک سہاراباقی بچے ہیں باقی اکثر ممالک یا تو چین اور روس کی جانب جھکتے جارہے ہیں یا وہ غیر جانبدار رہنا چاہتے ہیں ۔امریکہ حوثیوں کو حمایت دینے کا مکلف ہے جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جب القائدہ نے یمن کو اپنا مضبوط گڑھ بنانا چاہا اور اس نے باقاعدہ وہاں سے اپنی کاروائیوں کا آغاز بھی کر لیا تواس نے القائدہ کے خلاف حوثیوں کو کھڑا کردیا حالانکہ ایران دوستی کی وجہ سے ان ایام میں انھیں امریکہ مخالفین کا تعاون کرنا چاہئے تھا مگر ان کی اپنی مجبوری ’’حکومتِ یمن‘‘کے ساتھ بعض مسائل میں پیچیدہ اڑچنیں تھیں وہ چاہتے تھے کہ انھیں دوسرے یمنیوں جیسے حقوق حاصل ہوں امریکہ اور حکومتِ یمن نے تب حوثیوں کو اس مسئلے کے حل کے لئے ایک شرط یہی رکھی کہ وہ اپنے علاقے سے القائدہ کا صفایا کردیں ،حوثیوں نے ان کی شرط قبول کر لی اور انھوں نے اپنے علاقے سے القائدہ کو نکال باہر کر لیا جس کے نتیجے میں امریکہ اور حکومتِ یمن دونوں کو سکون میسر ہوا ۔تب سے لیکر آج تک القائدہ اپنی پہلی پوزیشن پر واپس نہیں لوٹ سکی ۔امریکہ اور اسرائیل کی یہ سب سے بڑی خواہش اور خوشی ہے کہ مسلم ممالک میں افراتفری ،بے چینی اور جنگ ہمیشہ برپا ہو چاہئے اس کی وجہ اور سبب جو بھی ہو ۔یمن ،سعودی عرب،کویت،عراق،شام،مصر،سوڈان،لبنان،لیبیا،بحرین ،افغانستان ،پاکستان اور فلسطین اس کی وہ مثالیں ہیں جو ایک بیوقوف شخص کو بھی اصل بات سمجھانے کے لئے کافی ہیں چاہیے ان ممالک کی جنگیں غیر مسلم جارحین کے ساتھ ہو رہی ہیں یا مسلم سیکولروں اور اسلام پسندوں کے بیچ ۔

حاصل تباہی اور بربادی:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جنگیں صرف شیعہ سنی اختلافات کی وجہ سے برپا ہیں؟ ممکن ہے اس میں ایک چھوٹا عنصر وہ بھی ہو جیسا کہ غالی اور متشدد شیعہ حرمین کو فتح کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور یقیناََ یہ ناقابل برداشت بات ہے اہل سنت کے لئے ،اسی طرح بعض متشدد سنی حضرات اہلِ تشیع کو کافر اور مرتد قرار دیکر جب واجب القتل قرار دیتے ہیں تو یہ صورتحال اہل تشیع کے لئے ناقابل برداشت بن جاتی ہے ۔مگر جیسا کہ ہم نے یمن کی جنگ پر تفصیلی بحث کرتے ہو ئے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ لڑائی اصل میں حقوق کی بحالی کے لئے تھی مگر متکبر حکمرانوں نے جب توجہ نہ کی اور طاقت کا غلط استعمال کیا تو جنگ نے پانسہ پلٹتے ہو ئے نئی صورتحال کو جنم دیدیا اور اب اس میں ’’شیعہ سنی اختلافات‘‘ نے معاملہ اورپیچیدہ بنادیا ہے ۔مگر اس بحث کو سمیٹتے ہو ئے اگر اس کا آخری نتیجہ نکالنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو وہ ہر صاحب عقل انسان کے سامنے کھل کر واضح ہو جائے گی کہ ان تمام تر لڑائیوں کا حاصل صرف ان ممالک اور قوموں کی بربادی ہے۔ یہی اس کے ازلی دشمن یہود و نصاریٰ چاہتے ہیں اور اکثر اوقات ہم ان کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے کسی مشقت و محنت کے بغیر استعمال ہوتے ہیں ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84653 views writer
journalist
political analyst
.. View More