ہم پتھر میں رہتے ہیں

تحریر: اقبال علی شاہ
خلیل جبران کا کہنا تھا کہ چھوٹے لوگ ذاتیات کی بات کرتے ہیں ۔اور بڑے لوگ مقصد کی بات کرتے ہیں ہماری سوچ چھوٹی ہیں ہم ہمیشہ دوسروں میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ہماری کوئی تہذیب نہیں ہم پتھر کے دور کے لوگ ہیں مجھے نہیں پتا جمشید خان دکھی ؔ نے کس مقصد کے تحت یہ شعر لکھا تھا "مثال گر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں"شاید دکھی صاحب نے یہ سوچا ہوگا کہ ہیرا ہمیشہ پتھر سے نکالا جاتا ہے لیکن ہم کہاں تو ہیرا کہاں ہم تو گوبر میں رہتے ہیں کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم پدارم ما سلطان بود کے کھاتے سے باہر نہیں نکل پائے اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو ہمارے یہاں کا تہذیب کا کوئی معیار نہیں امریکی شاعر ایمرس کا قول ہے کہ کسی ملک کی تہذیب کا معیار اس ملک کی زراعت پر ہے نہ جنگی اسلحہ نہ وہاں کی معیشت پر بلکہ تہذیب کا معیار یہ کہ کس قسم کے لوگ وہ ملک پیدا کرتا ہیں ہماری تہذیب کا معیار یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے ہم نہ صرف دوسروں کے کھاتے اپنے نام کرنے کی کوشش کی ۔ اس سنگھاسن پر براجمان ہونے کی سعی کی ہے ۔ ہم عرب کے جنگجوؤں کو اپنا سمجھا ترکیوں پر بھی ہم فخر کرنے لگے محمد بن قاسم سے لے کر غزنوی تک ساروں کو اپنا ہیرو تسلیم کیا اور عشیر عشیر بعد بھی ان کی مدح سرائی کم نہیں ہوئی آج جس کسمپرسی سے حیات زیست بسر کر رہے ہیں یہ ان ہی کا مرہون منت ہے ہم لیڈر پیدا نہیں کرسکے معاشرے کو فلاسفر ، تاریخ دان، نفسیات دان وغیرہ نہیں دے سکے ۔
آب ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کرے
ہم اگر کچھ عرض کرینگے تو شکایت ہوگی

قارئین بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی مسئلہ ہو تو گلگت بلتستان والے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ذہن ششدر رہتا ہے کہ ہم عرب کے ساتھ حمایتی جلوس نکالتے ہیں لیکن اپنے گھر کا خانہ خراب ہونے پر کبھی ناد م نہیں ہوتی آج اگر غور کریں کہ اﷲ کی دی ہوئی نعمتیں ہونے کے باوجود ساروں سے قاصر ہیں ۔ مجھے بتائے چوبیس گھنٹے میں صرف 2گھنٹے بجلی کی آنکھ مچولی ہوتی ہیں۔ جدید دور میں یورپ مشتری بھی مسخر کرنے کی جتن کررہا ہے زندگی گزارنے کے لوازمات دیکھ رہا ہے ۔ اور ہم بجلی سے محروم ہیں کبھی بجلی کیلئے بھی باہر آئیں ۔ پچھلے کئی دہائیوں سے غریبوں کے نوالے چھینے میں ہمارے نام نہاد و سیاست دان لگے ہیں نوکریاں امیروں میں بانٹا گیا لیکن کبھی سڑک پر نکلنے کی ذحمت نہیں کی ۔ کیونکہ اس میں سیاست دانوں کی مفاد پرستی شامل تھی۔ یہ عوام نہیں ہجوم ہے ورنہ ان کو ٹھڑے مار کر باہر نہیں کرتے ان کی چھتر نہ اتارتے ۔ پرانے زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے لیکن اب مکانوں میں رہتے ہیں فرق اتنا ہے کہ تہذیب نہیں بدلی لوگ نہیں بدل گئے صرف زمانہ بدل گیا ہم واقعی پتھر میں رہتیہیں آج تک ہمارے نوجوان لیڈر اور سیاست دان میں فرق نہیں کرسکے ہم نوکریاں مذہب کی بنیاد پر تقسم کرتے ہیں اقرباء پروری اور لاکھوں کے عوض بانٹتے ہیں اگر ہم مذہب کی بات کرے۔ مذہب بات کریں تو بات کہ مذہب صرف انصاف کی بات کرتا ہے مساوات کی بات کرتا ہے ہم صرف پڑھنے کی حد تک مذہب کو لیتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ Action Speak Louder then Wordsہم میں منافقت ہے ہم بات اسلام کی کرتے ہیں اور عمل فرعونیت کی کرتے ہیں ۔ ہمارے تہذیب میں اب ظلم و بربریت ، تکبری، مغروریت ، دھوکہ دھی ، بعض ہر طرف سے گرے ہوئے لوگ ان سارے چیزوں کو سہنے کے علاوہ کچھ نہیں قتیل شفائی نے شاید اس لئے کہا تھا۔
کہ دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔

ہمارے معاشرے میں نام نہاد قوم پرستی ، مذہبیت ، حب الوطنی بنیادی طور پریہ وہ قتل گاہیں ہیں ۔ جہاں غریبوں کو ذبح کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاتا دوسری بات میں دولت بولنے لگتی ہے تو سچائی خاموش ہوجاتی ہیں ۔ آخر میں قرآن کی ایک آیت عوام کی اس طرح عکاسی کرتی ہے "خدا لوگوں کے ساتھ ظلم کرنا نہیں چاہتا لیکن لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں "(القرآن)
Haidar Abbas
About the Author: Haidar Abbas Read More Articles by Haidar Abbas: 14 Articles with 12223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.