کہانی ایک داڑھی والے باشرع نوجوان کی

میں ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولتا ہوں،سب سے پہلی صدا میں آذان کی گونجتی ہے،جب میں زندگی کا سفرشروع کرتا ہوں تو میری ماں پورا دن مجھ سے اللہ اللہ کہلوانے کی کوشش کرتی ہےاور رات کو "اللہ ہو" کی لوری سناکر مجهے سلانے کی کوشش کرتی ہے،پهر میں اپنی توتلی زبان میں کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنے لگتا ہوں تو میرے ماں باپ ہر وقت کلمہ طیبہ کا ورد کرانے کی کوشش کرتے ہیں،میں اپنی توتلی زبان سے جب غلط سلط انداز میں کلمہ توحید ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے والدین خوشی پھولے نہ سماتے ہیں،گهر بهر کے چھوٹے بڑے سب مجهے پیار کرتے ہیں،پهر میں لڑکپن میں داخل ہوتا ہوں،میرا باپ مجهے مسجد لے کر جاتا ہے،میں ان کی نماز کی نقل کرتا ہوں تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگتا ہے،پھر ایک دن مجهے مولوی صاحب کے سامنے بٹها دیا جاتا ہے،میں "الف با تا" پڑھ کے گهر آتا ہوں تو میری ماں مجهے سینے سے لگاتی ہے،خوشی سے جھوم اٹھتی ہے،ایک دن میں اسکول میں داخل ہوتا ہوں،الف اللہ ب بسم اللہ سیکھ کر گهر آجاتا ہوں تو میرے والد خوشی سے سرشار مجھے دوکان لے جاتے ہیں اور مجهے چیزیں دلاتے ہیں،بچپن اور لڑکپن کی اس تربیت کے ساتھ میں نوجوانی کی عمر داخل ہوتا ہوں،چہرے پر ڈاڑھی سجاکر کالج جانے لگتا ہوں،پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرتا ہوں،پهر میری جوانی شروع ہوجاتی ہے،میں یونیورسٹی سے سند حاصل کرکے گهر آجاتا ہوں،اسی دوران میری شادی بهی ہوجاتی ہے،پهر تلاش روزگار اور ذریعہ معاش کی فکر لگ جاتی ہے،جب دوستوں سے مشورہ کرتا ہوں تو وہ مجهے بیرون ملک جانے کا مشورہ دیتے ہیں،سبز باغ دکهاتے ہیں،میں اپنا پاسپورٹ بنواتا ہوں،اور بیرون ملک جانے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کردیتا ہوں،میری حیرت انتہاء کو پہنچ جاتی ہے، میرے دیس کا ہر فرد بیرون ملک جانے کو بے تاب دکھائی دیتا ہے-

جب میں اپنے ہم وطنوں کو تلاش روزگار میں دیار غیر جاتے دیکهتا ہوں تو یک گو حسرت مجهے بهی ترک وطن پر آمادہ کرتی ہے،سوچوں کی لگام کس لیتا ہوں تو قرعہ فال افریقہ کے نام نکل آتا ہے،میں افریقہ جانے کا سوچتا ہوں تو میرے خیر خواہ مجھے ڈراتے ہیں کہ وہاں لوگ جب جب ڈکیتی کرتے ہیں تو ہاتھ سے گهڑی اتارنے کے بجائے ہاتھ ہی کاٹ کر لے جاتے ہیں،یہ سن کر میرے بچے کی حسرت بھری نگاہیں میرا راستہ روک دیتی ہیں-

پهر سوچتا ہوں سوئے یورپ چل پڑوں......وہاں سے خبر آتی ہے کہ ہے کہ وہاں داڑھی والوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے....یہ سن کر بوڑھے ماں باپ بے سہارا نظر آنے لگتے ہیں....میں یہ خیال بهی ترک کر دیتا ہوں....

پهر خیال آتا ہے کہ کسی عرب ریاست میں چلا جائوں....اچانک سعودی عرب سے آئے ہوئے دوست سے سنتا ہوں کہ وہاں خارجیوں کو انسان نہیں جانور تصور کیا جاتا ہے.....یہ سن کر دل مسوس کر رہ جاتا ہوں...یہ سب باتیں سن کر اپنا وطن مجھے جنت معلوم ہوتا ہے.. میں اپنے وطن میں جینے مرنے کی قسم کهاکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہوں...

اس کے بعد میں اپنی جنت کی فضائوں میں ایک آزاد پنچھی کی طرح اڑتا پھرتا ہوں.....اپنے وطن کی محبت سے روح کو سرشار کرتا ہوں.....ہروقت اپنی دھرتی کے لیے کچھ کر گزرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں....میرے وطن کی بنیادوں میں بارود بھرنے والا ہر شخص میری آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے....وطن کی آبیاری کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا باعث سعادت سمجھتا ہوں....وطن کی مٹی کو حقارت سے دیکھنے والے کو سبق سکھانے کا عزم کرتا ہوں.....ناموس وطن کی چنگاری ہردم میرے دل میں سلگتی رہتی ہے....روزانہ صبح اس نیت سے اٹھتا ہوں کہ جس وطن کی مٹی میں سر چھپانے کو آشیانہ میسر ہے..اس کے لیے کچھ کر گزر جائوں....

صبح اٹھ کر میں اپنے آفس کے لیے نکلتا ہوں....کچھ فاصلے پر مجھے ایک ہجوم نظر آتا ہے.....میں دیکھتا ہوں کہ وہاں قیامت صغریٰ کا منظر ہے...خون میں لت پت لاشیں ہیں....ہر طرف انسانوں کے کٹے ہاتھ اور جلے ہوئے پائوں دهرے ہیں.....

وطن سے محبت کا احساس میرے دل و دماغ پہ ہتھوڑے برساتا ہے.....غصے سے کانپنے لگتا ہوں کہ ظالموں نے میرے وطن کو پهر خون میں نہلادیا.....

میں اپنے دماغ میں ان دہشت گردوں کی سرکوبی کے تانے بانے بننے لگتا ہوں....اچانک ایک شخص میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے......چرچ میں دھماکہ ہوا ہے.....کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں.....آپ کی داڑھی ہے....آپ یہاں سے بھاگ جائیں....ورنہ کچھ بهی ہوسکتا ہے.....یہ خبر سن کر میرے اندر کا انسان جاگ جاتا ہے....اور میں تیز قدم اٹھاتے ہوئے ہجوم کی طرف سر پٹ بھاگتا ہوں....

کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں....مجهے اسلام نے انسانیت سے ہمدردی کا سبق دیا ہے......میں ہجوم کے پاس پہنچ کر کسی زخمی کو سہارا دینے کی کوشش کرتا ہوں.....اچانک ایک ہجوم مجهے پہ چڑھ دوڑتا ہے......

پهر مجهے کچھ یاد نہیں رہتا......سوائے اس کے کہ مجهے اپنی جنت میں میں ہی دوزخ کا عذاب دیا جاتا ہے....اور میں جل کر راکھ ہوجاتا ہوں....
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 47515 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More