حضرت سیدنا صدیق اکبر کے فضائل و مناقب

افضل البشر بعد الانبیاء، خلیفۂ رسول ،امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نام عبد اﷲہے اور آپ کے والد کا نام عثمان بن عامر اور آپ کی والدہ کا نام ام الخیر سلمہ ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں حضور نبی اکرم ﷺ سے مل جاتاہے۔آپ کی کنیت ابو بکر ہے۔

ولادت با سعادت: آپ کی پیدائش واقعۂ فیل کے دو سال چار ماہ بعد مکہ معظمہ میں ہوئی، آپ عمر میں حضور نبی کریم ﷺ سے دو سال چند ماہ چھوٹے ہیں۔

بچپن کا حیرت انگیز واقعہ: چندبر س کی عمر میں آپ (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کے باپ بْت خانے میں لے گئے اورکہا :یہ ہیں تمہارے بلند وبالا خدا، انہیں سجدہ کر و۔جب آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ)بُت کے سامنے تشریف لے گئے، فرمایا :’’میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ، میں ننگاہوں مجھے کپڑادے ، میں پتَّھر مارتا ہوں اگرتْوخدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔‘‘وہ بُت بَھلا کیا جواب دیتا۔ آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے ایک پتَّھر اس کے مارا جس کے لگتے ہی وہ گر پڑا اور قْوّتِ خدا داد کی تاب نہ لاسکا۔باپ نے یہ حالت دیکھی انہیں غصّہ آیا، اْنہوں نے ایک تَھپّڑرْخسار مبارک پر مارا ، اور وہاں سے آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی ماں کے پاس لائے ، سارا واقِعہ بیان کیا۔ ماں نے کہا :اسے اس کے حال پر چھوڑ دو جب یہ پیدا ہوا تھا تو غیب سے آواز آئی تھی کہ ’’یَا اَمَۃَ اللّٰہِ عَلَی التَّحْقِیقِ اَبْشِرِی بِالوَلَدِ العَتِیقِ اِسمْہ فِی السَّمَاءِ الصِّدِّیقْ لِمْحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَّ رَفِیْقٌ۔‘‘ اے اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی سچی بندی !تجھے خوشخبری ہویہ بچہ عتیق ہے ، آسمانوں میں اس کا نام صدیق ہے ، محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کا صاحب اور رفیق ہے۔

یہ روایت صدِّیقِ اَکبر (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے خود مجلسِ اقدس (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم ) میں بیان کی۔ جب یہ بیان کرچکے ، جبریلِ امین ( عَلَیہِ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام ) حاضرِ بارگاہ ہوئے اور عرض کی:
صَدَقَ اَبْوبَکرٍ وَّھْوَ الصِّدِّیقْ ابوبکر نے سچ کہا اور وہ صدِّیق ہیں۔ ( ارشاد الساری شرح صحیح بخاری ج۸ص۰۷۳)

صدیق اور عتیق کی وجہ تسمیہ: آپ کا لقب صدیق اور عتیق ہے ۔ آپ کا لقب صدیق ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ ہر معاملہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی تصدیق کرتے اس وجہ سے آپ کا نام صدیق پڑگیا چنانچہ حافظ ابن عبد البر اس کی یہ تو جیح بیان کرتے ہیں : ’’آپ نے ہر معاملہ میں حضوراکرم کی تصدیق کرنے میں پہل کی‘ اس لیے آپ کا لقب صدیق رکھا گیا‘‘۔(الاستیعاب، جلد۱،ص۱۳۳)

دیلمی ، حضرت سیدہ اْم ہانی رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضورانورﷺ نے فرمایا:’’اے ابو بکر! اﷲ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے‘‘۔(سبل الہدی،جلد ۱، ص۲۵۲)

امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکر یم سے منقول ہے کہ یہ لقب اﷲ تبارک و تعالیٰ نے خود نا زل فرمایا ، آپ بیان فرماتے ہیں کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے ابو بکر کے لیے’ صد یق‘ کا لقب آسمان سے نا زل فرمایا‘‘۔(ابن عساکر ، مختصر تاریخ دمشق، جلد ۳۱،ص۲۵)

حضرت امام حسن بصر ی اورحضرت قتا دہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ :’’ آپ کا یہ لقب شبِ معراج کے اگلے دن کی صبح سے مشہور ہوا‘‘۔(تاریخ الخلفاء،ص۹۲)

اْم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مر وی ہے کہ شبِ معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ‘ حضرت ابو بکر کے پا س آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ اب انہوں نے دعوٰ ی کیا ہے کہ راتوں رات بیت المقد س کی سیر کر آئے ہیں!اس پر حضرت ابو بکررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فر ما یاکہ: ’’ بے شک آپ نے سچ فر ما یا ہے،میں تو صبح شام اس سے بھی اہم اور مشکل امور کی تصدیق کرتا ہوں ‘‘۔اور پھر اس واقعہ کے بعد آپ کا لقب’’ صدیق‘‘ مشہور ہوگیا۔(تاریخ الخلفاء، ص۹۲)
آپ کے عتیق لقب کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو کہ آگ سے آزاد شخص کو دیکھے تو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔ (مشکوٰۃ شریف، باب مناقب ابی بکر) تب سے ہی آپ کا نام عتیق (جہنم سے آزادکیا ہوا) پڑ گیا۔

حلیہ مبارکہ: آپ کا رنگ سفید تھا، دبلا بدن، ہلکے رخسار، چہرے پر رگیں ظاہر تھیں اور پیشانی کچھ ابھری ہوئی تھی۔

چار پشت صحابی: حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی چار پشتیں صحابیت کے اعزاز سے مشرف ہوئیں۔ آپ خود صحابی، آپ کے والدین صحابی، آپ کے پوتے پوتی اور نواسے نواسی صحابی۔ یہ شرف کسی اور صحابی کو حاصل نہیں ہوا۔ جیسے گروہ انبیاء میں حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی چار پشتیں نبی ہوئیں ایسے ہی گروہ صحابہ میں حضرت ابو بکر صدیق کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی چار پشتیں صحابی ہوئیں۔

شان صدیق اکبر اور قرآن: جب حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چالیس ہزار دینار اس طرح خرچ کئے کہ دس ہزار رات میں دس ہزاردن میں، دس ہزار چھپا کر اور دس ہزار دکھاکر تو رب تبارک و تعالیٰ کو اپنے حبیب کے رفیق کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ جبرئیل امین قرآنی آیت لیکر نازل ہوگئے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے’’اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج وَلَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن (پارہ۳، سورۃ بقرہ، آیت۴۷۲)
ترجمہ: جو اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں،چھپے اور ظاہران کے لئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس ان کو نہ کچھ اندیشہ اور نہ کچھ غم۔(کنزالایمان)۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سات غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جن پر اﷲ عز وجل کی راہ میں ظلم کیا جاتا تھا۔ جب حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہ آپ نے خرید کر آزاد کیا تو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقیٰ، الَّذِیْ یُؤتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی۔ (پارہ ۰۳، سورۂ لیل، آیت ۷۱و۸۱)
ترجمہ:اور بہت اسے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار ، جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو۔ (تفسیر خزائن العرفان زیر آیت مذکورہ)

فتاویٰ رضویہ جلد ۸۲ ص ۲۱۵ میں اما م فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے حوالے سے ہے کہ ’’ہم سنیوں کے مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ ’التقیٰ‘ (بڑا پرہیزگار)سے مرادحضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔

احادیث کریمہ میں شان صدیق اکبر: حدیث: حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ تم میرے غار میں ساتھی ہو اور حوض پر ساتھی ہو۔ (مشکوٰۃ شریف، باب مناقب ابی بکر)

حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہم پر کسی کا احسان نہیں مگر ہم نے اس کا بدلہ ادا کر دیا سوائے ابو بکر کے، کہ ہم پر ان کا احسان ہے اﷲ انھیں اس کا بدلہ قیامت کے دن دے گا۔ اور مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نفع دیا۔ (مشکوٰۃ شریف، باب مناقب ابی بکر)

حدیث: حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا انسانوں میں مجھ پر بڑا احسان کرنے والے اپنی صحبت اور اپنے مال میں، ابو بکر ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف، باب مناقب ابی بکر)

حضرت ابو بکر صدیق کی حضور پر جاں نثاری: حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی مکرم نور مجسم ﷺ پر جاں نثاری کی جو اعلیٰ مثال پیش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔الفاظ کے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ اکثر کتابوں میں یہ راہیت ملتی ہے کہ ہجرت کے موقع پر جب حضور نبی کریم ﷺ غار ثَور کے قریب پہونچے تو پہلے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ غار میں داخل ہوئے، غار کی صفائی کی اور غار میں جو سوراخ تھے ان تمام سوراخوں کو بند کیا، آخری دو سوراخوں کو بند کرنے کی کوئی چیز نہیں ملی تو آپ نے ان دو سوراخوں کو اپنے پاؤں مبارک سے بند کیا، پھر رسول کریم ﷺ سے تشریف آوری کی درخواست کی۔ حضور نبی اکرم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زانو پر سر انور رکھ کر محو استراحت ہو گئے۔ اس غار میں ایک سانپ تھا جس نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں ڈس لیا مگر حضرت سیدنا صدیق اکبر نے اس خیال سے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے، تکلیف کے باوجود پیر وہاں سے نہیں ہٹایا۔ مگر تکلیف کی شدت کی وجہ سے غیر اختیاری طور پر آپ کی چشم مبارک سے آنسو بہہ نکلے اور جب آپ کے آنسو دونوں عالم کے مالک و مختار کے مبارک چہرے پر پڑے تو حضور ﷺ بیدار ہو گئے اور فرمایا اے ابو بکر! کیوں روتے ہو؟ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ رحمت عالم ﷺ نے اپنا لعاب دہن حضرت سیدنا صدیق اکبر کے ڈسے ہوئے حصہ پر لگایا تو حضرت سیدنا صدیق اکبر کو فوراً آرام مل گیا۔ (مشکوٰۃ شریف)

حضرت ابو بکرکی تین پسندیدہ چیزیں: حضور نبی مکرم ﷺ کے یار غار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے تین چیزیں پسند ہیں۔(۱) آپ (حضور نبی کریم ﷺ) کے چہرہ انور کا دیدار کرتے رہنا۔ (۲)آپ ﷺ پر اپنا مال خرچ کرنا۔ (۳)آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر رہنا۔ (تفسیر روح البیان، ج۶، ص۴۶۲)

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی یہ تینوں آرزوئیں پوری فرمائیں۔(۱) حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سفرو حضر میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہے یہاں تک کہ غار ثور میں بھی حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔ (۲)اس طرح مالی قربانی کی سعادت حاصل ہوئی کہ اپنا سارا سازو سامان حضور ﷺکی بارگاہ میں قربا ن کردیا۔(۳)مزار پر انوار میں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اپنی رفاقت عطا فرمائی۔

وصال: حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ۷ جمادی الثانی کو بخار آیا اور ۵۱؍دن بیمار رہ کر ۲۲؍جمادی الثانی ۳۱ ؁ھ پیر کا دن گذار کر مغرب و عشاء کے درمیان آپ کا وصال ہوا۔حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

وصال ظاہری سے قبل آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کو حضور نبی مکرم نور مجسم ﷺ کے روضۂ پاک کے در کے سامنے رکھ دینا اور السلام علیک یا رسول اﷲ کہہ کر عرض کرنا:’’یا رسول اﷲ ﷺ! ابو بکر آستانۂ عالیہ پر حاضر ہے۔‘‘ اگر دروازہ خود بخود کھل جائے تو اندر لے جانا ورنہ جنت البقیع میں دفن کر دینا۔آپ کی وصیت کے مطابق جب آپ کے جنازے کو روضۂ رسول ﷺ کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا یا رسول اﷲ ﷺ! ابو بکر حاضر ہے تو دروازہ خود بخود کھل گیا اور آواز آنے لگی’’ اَدْخِلُوْاالْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ فَاِ نَّ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌ۔‘‘یعنی محبوب کو محبوب کے پاس داخل کردو کہ محبوب کو محبوب کا اشتیاق ہے۔ (تفسیر کبیر، ج۱،ص۷۶۱)
Tauheed Ahmad Khan
About the Author: Tauheed Ahmad Khan Read More Articles by Tauheed Ahmad Khan: 9 Articles with 9717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.