سانحہ پشاور کی دردناک کہانی

(ہے طاری خوفناک درد کا سانحہ پشاور بھی آج میں دلوں کی قوم)

۱۶ دسمبر۲۰۱۴ء کی صبح آرمی پبلک اسکول پشاور میں امتحان کا وقت تھا اور زیادہ تر بچے امتحان ہال سے باہر کھڑے پرچہ شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

صرف ایک رات پہلے زبردست رٹے لگائے گئے ہوں گے، آخری منٹ میں کچھ سوال یاد کرنے کی کوشش کی گئی ہوگی اور طلبہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ امتحان میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔ ان کے ذہن صرف اور صرف ایک بات پر متوجہ ہوں گے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے دوستوں سے زیادہ نمبر حاصل کر لیے جائیں۔ انھوں نے مرنے کے بارے میں‘ تو بالکل بھی سوچا نہیں ہوگا۔

لیکن اسی وقت انھیں مارنے کے لیے ان کے قاتل قبرستان سے ملحق دیوار پھلانگ کر اندر آئے اور پہلے گراؤنڈ میں فائرنگ کی۔اس کے بعد وہ امتحان ہال کی جانب پہنچے۔ خود کو بچانے کے لیے طلبہ زمین پر لیٹ گئے اور اپنے جسموں کو اِن گولیوں سے بچانے کی کوشش کرنے لگے، جو اِن کی جان لینا چاہتی تھیں۔ لیکن سنگدل مارنے ہی کے لیے آئے تھے اور عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ میں کسی قسم کی افراتفری اور جلدبازی نہیں کی گئی۔

قاتلوں نے ایک ایک کر کے قتل کیے، پہلے ایک بچے پر گن تانی‘ پھر دوسرے اور پھر تیسرے پر… اور اس طرح تب تک یہ کھیل جاری رہا جب تک تعداد سو سے اوپر نہیں پہنچ گئی۔ اب یہ بچے خاموش ہیں اور اپنی اپنی قبروں میں جا چکے ۔ ملک پھر حالتِ سوگ میں ہے‘ صدمے میں ہے اور بربریت کی اس بدترین مثال پر ایک بار پھر غصے میں ہے۔

پاکستان میں جذبات کے اظہار کا پھٹ پڑنا عام طریقہ ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے اس طرح کے حملے معمول بن چکے ہیں‘ تو آنسو بھی کچھ عرصہ بہنے کے بعد سوکھ جاتے ہیں اور زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوتا۔ اگر اس طرح کے حملے کے امکان پر غور کیا گیا ہوتا‘ تیاری اور سیکیورٹی بڑھا لی گئی ہوتی، تو شاید یہ ظلم جنم نہ لیتا، اس پر غصہ نہ آتا… اور پھر بھول جانا بھی نہ پڑتا!

اعداد و شمار سے یہ حقیقت واضح ہے کہ اس کے امکانات موجود تھے۔ عالمی اتحاد برائے تحفظِ تعلیم (Global Coalition to Protect Education from Attack) کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ء سے لے کر۲۰۱۲ء کے درمیان پاکستان بھر میں اسکولوں پر ۸۰۰ سے زائد حملے ہوچکے ۔

گویا ایک دو نہیں بلکہ قتلِ عام کی’’۸۰۰‘‘ دہمکیوںکو یا تو کچرے میں ڈال دیا گیایا اخبارات کے پچھلے صفحوں پر۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرنے کے بعد جاپانیوں نے مرنے والوں کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی۔ بہت ہی مشکلوں سے انھوں نے مرنے والوں کے زیرِ استعمال رہنے والی مختلف چیزوں کے بچے کھچے آثار جمع کیے تاکہ وہ انھیں اس بات کی یاد دلاتے رہیں کہ انسان کس قدر گر سکتا ہے۔

ان یادگاری چیزوں میں سے جو سب سے زیادہ دل توڑ دینے والی چیزیں ہیں، وہ بچوں کی ہیں… اور ان میں آدھا کھایا ہوا لنچ، نامکمل کاپیاں اور خون آلود یونیفارم شامل ہیں۔ وہ جاپانی بچے اب نہیں رہے، لیکن کم از کم ان کو یاد رکھا جائے گا، ان کی معصومیت … لافانی معصومیت کئی دہائیوں سے انسانیت کی اس مجرمانہ بے حسی کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

لیکن پاکستان میں جہاں نوجوان، بچے، بوڑھے، سبھی دہشت گردوں کی وحشت کا نشانہ بنے ہیں، وہاں شاید اس طرح کی کوئی بھی ماضی کی یادگار تعمیر کرنے کی توقع نہیں ہو سکتی۔ ہر حملے کے ساتھ بڑھتی بربریت کے بعد اب دل ودماغ میں شاید اتنی جگہ موجود نہیں رہی کہ ہر کسی کی تفصیلات یاد رکھی جائیں۔
ہم دیکھتے ، ٹھنڈی سانس بھرتے ، خیالات جھٹک دیتے اور آ گے بڑھ جاتے ہیں۔ اسی دوران حملے جاری رہتے ہیں اور اس ملک کے لیے دکھوں کا نیا پیغام لاتے ہیں… جو اب قتلِ عام کا شکار ہوئے معصوم بچوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

ایک سو تیس ننھی معصوم جانیں

میں لکھنا چاہتا ہوں…… میں لکھنا چاہتا ہوں وہ سب کچھ جو اس وقت میرے دل و دماغ میں چل رہا تھا ۔ جو کچھ میں اس صبح ٹیلی ویژن پر دیکھ رہا تھا ‘ خبروں میں سن رہا تھا ‘ مگر کیا کروں آنکھیں دھندلا رہی ہیں، انگلیاں کانپ رہی ہیں۔ غم‘ غصّہ‘ نفرت‘ بیچارگی… ایک ہی وقت میں اتنے جذبات اُمڈ رہے ہیں کہ لفظ آپس میں گڈمڈ ہوئے جا تے ہیں۔ ان جذبات کو الفاظ میں ڈھالنا ناممکن ہوگیا۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے کہ کسی طرح ان والدین سے کہہ سکوں کہ مجھے آپ کے دکھ کا احساس ہے۔

ایک سو تیس ننھی معصوم جانیں!! اور یہ جانیں تھیں ہی کہاں‘ ابھی انھوں نے جینا شروع کب کیا تھا؟ ان ادھ کھلی کلیوں کو روندنے میں درندوں نے چند منٹ بھی تو نہ لگائے۔ ایک لمحے کو ان کے ہاتھ تک نہ تھرائے۔ ظالموں نے ماؤں کے جگر گوشوں کو، روشنی کے ان ننھے چراغوں کو بجھانے سے پہلے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا۔ ایک کربناک چیخ ہے جو بار بار لبوں کے بند توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب ہے۔

میری ہی نہیں آج ہر پاکستانی کی یہی کیفیت ہے۔ آج ہم سب مقتول بچوں اور ان کے والدین کے آگے شرمندہ ہیں۔ اگر ہم شدت پسندی کے ناسور کے خلاف متحد ہوتے اور اپنے اپنے طریقے سے لوگوں کی سوچ بدلنے کی کوشش کرتے‘ تو شاید آج یہ ایک سو تیس زندگیاں بچ جاتیں۔
کاش کے اس دن جو کچھ ہوا، وہ نہ ہوا ہوتا۔
کاش اس دن سورج طلوع نہ ہوتا، سحر نہ ہوتی۔

کاش کسی صورت پاکستان کے کیلنڈر سے سولہ دسمبر کا دن مٹ سکتا۔

اے کاش… کاش کاش کاش!! اس دن کوئی مسیحا ان معصوموں اور موت کے فرشتوں کے بیچ آجاتا۔

آپ کہیں گے کیسی انسان ہے جسے ایک اور قربانی چاہیے۔

ہاں آپ مجھے خود غرض کہہ لیں‘مگر اتنے سارے ان ننھے جنازوں کا بوجھ اٹھانے کی ہمّت نہیں مجھ میں! ان بدنصیبوں نے ایسا کیا کیا تھا جس کی پاداش میں انہیں زندگی جیسی نعمت سے محروم کر دیا گیا؟ ان بے گناہوں کا کیا قصور تھا جنھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے دوستوں کا قتل عام ہوتے دیکھا؟ سوائے اس کہ انھوں نے ایک ایسے ملک میں جنم لیا جہاں کچھ عناصر دہشت گردوں کو اپنا سمجھتے ہیں! طالبان کے عذر خواہ دیکھ لیں، ان کے ناراض بھائیوں نے اسکول کے معصوم بچوں سے ان کے یونیفارم چھین کر کفن پہنا دیا ۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ یہ کہنا بھی بیکار ہے کہ ہمیں اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ کیا اب بھی سنجیدگی سے سوچنے کو کچھ باقی رہ گیا ہے؟ یہ وقت ٹھوس عزم کا ہے۔ اب فیصلہ پوری پاکستانی قوم کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ دہشت گردوں‘ ان کے حمایتیوں اور عذر خواہوں کے ساتھ چاہے ان کا تعلق کسی بھی تنظیم یا ادارے سے ہو …یا… اپنے ہم وطنوں کے ساتھ جن کی گودیں ان بھیڑیوں نے اُجاڑ ڈالیں؟

ہم جانتے ہیں کہ یہ سب مذہب کے نام پر نہیں ہو رہا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بچے شہید نہیں کیے گئے‘ انھیں انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے قتل کیا گیا۔ ہم سب اصل قاتلوں سے بھی واقف ہیں۔ یہ پاکستانی نونہالوں کی تعلیم و تربیت پر ان درندوں کی جھلاہٹ، وحشت اور پاکستانی قوم کے نام کھلی‘ ننگی اور واشگاف یلغار ہے!
یاد رکھیے‘ اگر آج پاکستانی قوم خاموش تماشائی بنی محض ’’مذمت‘‘ ہی کرتی رہی‘ تو یوم حساب ان معصوم بچوں کے ہاتھ اور ہم سب کے گریبان ہوں گے۔

سمجھو کچھ غلط ہے!

پرسون جوشی بھارت کے ممتاز شاعر و ادیب ہیں۔ مشہور فلم ’’تارے زمین پر‘‘ میں انتہائی جذبات انگیز گانے لکھ کر پاک و ہند میں شہرت پائی۔ المیہ پشاور سے متاثر ہو کر انھوں نے ایک منفرد نظم لکھی جو پیش خدمت ہے:
جب بچپن تمہاری گود میں آنے سے کترانے لگے
جب ماں کی کوکھ سے جھانکتی زندگی
باہر آنے سے کترانے لگے
سمجھو کچھ غلط ہے
جب تلواریں پھولوں پر زور آزمانے لگیں
جب معصوم آنکھوں میں خوف نظر آنے لگے
سمجھو کچھ غلط ہے
جب کلکاریاںسہم جائیں
جب توتلی بولیاں خاموش ہو جائیں
سمجھو کچھ غلط ہے
کچھ نہیں‘ بہت کچھ غلط ہے
کیونکہ زور سے بارش ہونی چاہیے تھی پوری دنیا میں
ہر جگہ ٹپکنے چاہئیں تھے آنسو
روناچاہیے تھا اُوپر والے کو آسمان سے
پھوٹ پھوٹ کر
شرم سے جھکنی چاہیے تھیں انسانی گردنیں
یہ سوچ کا وقت ہے
ماتم نہیں سوالوں کا وقت ہے
اگر اس کے بعد بھی انسان
سر اُٹھا کر کھڑا ہو سکتا ہے
سمجھو کے کچھ غلط ہے

Qazi Sultan Ahmed
About the Author: Qazi Sultan Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.