تعلیم کی ابتر صورت حال اور پرائیویٹ سکول - قسط نمبر2

آج کل پرایؤیٹ سیکٹر میں ایک اور قسم کی بد قسمتی نے تعلیم کے شعبہ میں مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے، وہ ہے بڑے بڑے سرمایہ کار اپنی اپنی کمپنی کے نظام قائم کر لیتے ہیں اور اپنی مرضی کی فیس اورنظام بنا کر اس کو میڈیا کے زریعے خوب تشہیر کا سہارا لیتے ہیں۔اس نظام میں خاص کر وہ لوگ داخل ہو چکے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے ۔ جس بے دردی سے بچوں کا مستقبل یہ ادارے تباہ کر رہے ہیں اس کو آنے والے دور میں تاریخ سیاہ الفاظ میں یاد کرے گی در حقیقت یہ وہی طبقہ ہے جو ہر طرف سے پیسہ کما رہا ہے بلکہ لوٹ رہا ہے۔ اسی طبقہ نے اس معاشرے میں یہ تاثر پکا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے کہ سکول بناؤ ،دولت کماؤ۔اس سے بڑھ کے ستم ظریفی اور ظلم اس قوم پہ کیا ہو سکتا ہے کے جس میں تعلیم صرف اچھا کاروبار رہ جائے۔ آپ دل کو تسلی دے سکتے ہیں کہ آپ کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کر رہا ہے مگر یہ مت بھولیے کے نتیجہ صفرکے سواء کچھ اور نہیں ہو گا ۔ فرنچائز بنا کر اربوں روپے پہلے ہی وصول کر لیئے جاتے ہیں۔تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو پرائیویٹ کمپنی سسٹم کو چیک کرنا تو دور کی بات ہمارے ڈی ای اوز ، ای ای اوز، اس کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے کیوں کہ وہ ہائر ایجو کیشن کمیشن سے منظوری لے کے قائم ہوئے ہوتے ہیں۔ عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی ہے کہ سکول کے فرنچائزی محکمہ تعلیم کے افسران کو صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو ہم سے اگر کوئی شکایت ہے تو آپ ہمارے ہیڈآفس سے بات کرسکتے ہیں ۔ اب بتایئے جو مسکین افسران اپنے علاقے کے سکول مالکان کے خلاف ایکشن کی طاقت نہیں رکھتا وہ بے چارہ کمپنی کے خلاف ایکشن کیسے لے سکتا ہے۔یہ وہ نظام ہے جسکی تمام تر طاقت اور اختیار طاقت ور طبقہ کے ہاتھ میں ہو چکی ہے جو خود بھی اسکی اہمیت سے آگاہ نہیں ۔ اور اگر شکائیت آپ کر بھی لیں تو کمپنی کیا سکول بند کردے گی؟ اور ویسے بھی ہمارے افسران محترم کو اتنی زحمت کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے ان کے اپنے بچے تو ان سکولوں میں بغیر فیس کے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ہمارے اکثر پرائیویٹ سکولوں میں غیر قانونی کینٹین، بک شاپس،بنا کر پوری توجہ اس سے کمائی پر ہی دی جا رہی ہے۔ سلیبس کے انتخاب نے تو بچوں کی تعلیم کو کنفیوز کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر پرائیویٹ سکول کا الگ سلیبس اس لیئے انتخاب کیا جاتا ہے تا کہ والدین کو وہ کتابیں لازمی فرہم کر کے 40 -60% تک منافع کمایا جا سکے ان کتابوں کو مختلف کمپنیوں کے نام دے دیئے گئے ہیں جو بچہ اس سکول کو کسی بھی وجہ سے چھوڑ کر جاتا ہے اس کا پالا ایک نئے قسم کے سلیبس سے پڑتا ہے جو اس بچے کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتا ہے نیا سکول نئی انتظامیہ، نیا ماحول، اور اسی کلاس کی نئی قسم کی کتابیں بچے کی رہی سہی کسر بھی نکال دیتی ہیں البتہ پرائیویٹ سیکٹر کمپنیز سکول ایک سلیبس اپنے اداروں کے لیئے پرنٹ کرواتی ہیں۔میری رائے ہے کہ اگر کوئی بہت اچھا سلیبس بنانے میں کوئی دقت ہے تو ٹیکس بک بورڈ حکومت پاکستان کا سلیبس ہی تمام سرکاری وہ غیر سرکا ری اداروں میں لازمی کر دینا چاہیے تا کہ کوئی مہنگے یا سستے سکول میں پڑھے سلیبس ایک جیسا ہونے کی وجہ سے سب بچے اپنی کارکردگی اپنی اپنی صلاحیت کیے مطابق دکھا سکیں ۔ حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم مزدور کی اجرت سے آدھی بھی کم ان سکولوں میں ٹیچرز کو ادا نہیں کی جاتی۔ سوشل سیکیورٹی اکثر سکول مالکان ٹیچرز کی ماہانہ تنخواہ سے کاٹ لیتے ہیں مگر سب کے سب مالکان غریب ٹیچر ز کا حق کھا جاتے ہیں اور ان کے روزگار کے تحفظ کا حق بھی انکونہیں دیتے۔ یعنی یہ نظام نہ تو والدین، نہ بچے، نہ ٹیچر اور نہ ہی حکومت کو کچھ دے رہا ہے، اگر کوئی فائدہ حاصل کر رہا ہے تو کمپنی مالک یا فرنچائزی۔یہ کمپنیاں تعلیم کے میدان میں ملٹی نیشنل کا روپ دھار چکیں ہیں اور پاکستان کی حالت ہے کہ لاغر مریض کی ماند۔حالانکہ تعلیم تو قوموں کی موت اور ذندگی ہوا کرتی ہے۔تعلیم تو قوموں کو منور کر دیتی ہے۔تعلیم تو حیوانوں کو انسان بنایا کرتی ہے۔تعلیم تو ترقی اور عروج کی طرف لے جایا کرتی ہے۔تعلیم تو شعور دیتی ہے۔ اور شعور امن دیتا ہے۔ تعلیم ڈگری نہیں شخصیات دیتی ہے۔ تو کیا یہ اوصاف ہمارے بچوں کو ہمارا سرکاری یا پرائیویٹ سکول دے رہا ہے ؟ اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔اب سوال ہے اس میں بہتری کیسے ممکن ہے۔ آپ جو بھی سسٹم دے لیں اگر اس کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام درست نہیں دیں گے آپ کبھی بھی بہتری نہیں لا سکتے ۔بھلے آپ موجودہ ای ڈی اوز، کو ہی اختیار دے دیں کہ والدین اگر شکائیت کریں تو اس ادارے بھا ری جرمانہ یا سزا دی جا سکے۔خاص کر ان سکولوں کو مقامی حکومتوں کے ماتحت کرنا از حد ضروری ہے جس میں منافع کمانے میں تو پابندی نہ ہو مگر تعلیم کا معیار محکمہ تعلیم ،سلیبس کا انتخاب، صحت و صفائی، ٹیکس،اور شکائیت کا اختیار مقامی حکومتوں کو دینا سود مند ہو گا کیوں کہ پوری دنیا میں سکول ہائیر ایجوکیشن کے الگ سے ادارے بھی بنے ہیں لیکن شکایت کا موئثر نظام ان پرائیویٹ اداروں کو معیار پر سمجھوتہ نہیں کرنے دیتا۔ سکول کے اندر پوری طرح سے صرف اور صرف تعلیم دوست ماحول بنانے کیلئے ازحد ضروری ہے کہ پرایؤیٹ سکولوں میں گراونڈنہ رکھنے والے سکولوں کو بند کر دیا جائے تا کہ صحت مند طالب علم اور صحت مند معاشرہ کا اصول اپنایا جا سکے۔اس بگڑتے اور بے قابو گھوڑے کو قابو کرنے کے لیئے ریاستی سکولوں کا معیار بہترین بنا کر اس کو قابو کرنا نہائیت ہی آسان ہو گاہر ادارے کی ریٹنگ محکمہ تعلیم کی طرف سے ہر سال جاری کی جانی چاہیے جیس کے تحت اداروں کا تقابلی جائزہ والدین خود لے کر اپنے بچے کو تعلیم دلا سکیں بجائے کے وہ اندازے اور مشہوری سے مرعوب ہو کر سکول کا انتخاب کریں۔ پر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟ہمارے وزراء وزیر اعلی اور وزیر اعظم کو سڑک بنانے کو علاوہ آتا ہی کچھ نہیں ۔

Muhammad Ilyas Shami
About the Author: Muhammad Ilyas Shami Read More Articles by Muhammad Ilyas Shami: 3 Articles with 2328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.