سوکھی چھڑی

 یہ سوکھی چھڑی تو میں اپنے بچپن سے دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ شام کے وقت وہ تمام بوڑھے جو ہمارے محلے میں رہتے تھے ، عصر کی نماز پڑھنے نکلتے ، تو ایک دوسرے کو اپنے پوتے یا نواسوں کے ذریعے بلاتے اور مسجد کی طرف روانہ ہوتے ، کچھ سوکھی چھڑی کا سہارا لیتے اور کچھ اپنے اعضاء کی جاتی ہوئی توانائی کو روک کر چھڑی کے بغیر چلتے ، ہم بچے اُن کے پیچھے اپنی اپنی گپ لگاتے ہوئے چلتے ۔ ہم بڑھتے گئے اور اِن چھڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا یہ اُن دنوں کی بات ہے جب سعادت مند اولاد مغرب سے پہلے گھر آجایا کرتی تھی اور مغرب کے بعد چھڑیوں کے سہارے چلنے والے والدین کو اطلاع دے کر گھر سےباہر جایا کرتی تھی ۔

پھر ہم نے اپنے والد کا دور دیکھا ، اُس میں واحد یہ تبدیلی آئی کہ ، بہتر روزگار کی وجہ سے اولاد مختلف شہروں میں بس گئی ، والدین مہینہ دو مہینہ میں مختلف اولادوں کے پاس چکر لگا کر اَپنے گھر واپس آتے جہاں اُن کے ساتھ رہنے والا بیٹا اور اُس کے بچے دادا اور دادی کاخیال رکھتے ، لیکن اِس کے باوجود انہوں نے سوکھی چھڑی نہ چھوڑی ۔ کیوں کہ یہ سوکھی چھڑی نجانے کب سے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہی ۔

سوکھی چھڑی، دائیں ہاتھ میں بزرگوں کے ہاتھ میں دیکھتا ہوں ، لیکن اُن کے ساتھ چلنے والے بچے اَب بھی دادا کے ساتھ اِس طرح چلتے ہیں کہ جیسے وہ دادا کو سہارا دے رہے ہیں۔

کچھ دیر کی بات ہے ۔ "شاید" یہ سوکھی چھڑی بھی میرے ہاتھ میں ہو اگر زندگی رہی ۔اِس لئے نہیں کہ بڑھاپے میں میری اولاد میرا ساتھ چھوڑ دے گی بلکہ اِس لئے کہ اِس سوکھی چھڑی کا اور انسان کا ساتھ صدیوں سے جاری ہے ۔

اِس" سوکھی چھڑی "کے خلاف ایسے مضمون نہ لکھو ، آج بھی اولاد اپنے والدین کے لئے ، ایک سر سبز وشاداب سہارا ہے ، اُن والدین کے لئے ، جنہوں نے اپنے والدین کو سہارا دیا اور اپنی اولاد کو اِس کا نمونہ دکھایا ۔

Muhammad Shoaib Tanoli
About the Author: Muhammad Shoaib Tanoli Read More Articles by Muhammad Shoaib Tanoli: 67 Articles with 110093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.