بابا جی

میں کراچی کے ایک معروف ہسپتال کی انتظار گاہ میں ایک بنچ پہ بیٹھا اپنی باری کا انتظار کرہا تھا،جب شدت انتظارسے اکتاگیا تو وقت کٹی کے لیے جیب سے موبائل نکال کر الیکٹرونک مطالعے میں مصروف ہوگیا،ایک دلچسپ کتاب کے مطالعے میں اس قدر کھو گیا کہ آس پاس سے یارا نہ رہا،اچانک میں نے قریب بیٹھے ہوئے شخص میں کچھ حرکت محسوس کی،جب انہماک ٹوٹ گیا تو میں نے اپنے دائیں جانب نظر دوڑا دی اورایک ضعیف العمر بابا کو خود سے مخاطب پایا،جس کے چہرے کی جھریوں سے تجربے نمایاں تھے،اس کے انداز میں بے بسی اور اور لہجے میں ہچکچاہٹ تھی، ہاتھوں میں رعشہ تھا، اس کی کہن سالی دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ اس نے زمانے دیکھے ہیں،ہاتھ میں ایکسرے کی فلموں اور ہسپتال کی پرچیوں سے لدا ہوا ایک پھٹا پرانا تھیلا تھام رکھا تھا،پائوں میں بوسیدہ جوتو ں اور خستہ حال جرابوں سے پھٹی ہوئی ایڑیاں نظر آرہی تھی، سر پہ ٹوہی کے نام پر ایک گندا کپڑا رکھا ہوا تھا،کپڑے دیکھ کر محسوس ہورہا تھا کہ اسے کئی سالوں سے کپڑے اور درزی کی دوکان جانا نصیب نہیں ہوا ہے، اور بابا جی کی مجموعی کیفیت اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ بابا جی "ارذل العمر"میں داخل ہوچکے ہیں....

میں اس کے بکھرے ہوئے حلیے سے کوئی مفروضہ کشید کرنے کی جستجو میں کھوگیا،اور میرے صحافیانہ ذہن نے سوالات کا ایک گورکھ دھندا تیار کیا،پیشتر اس کے کہ میں کوئی سوال پوچھتا وہ مجھ سے مخاطب ہوئے،بیٹا یہاں پہلی بار آئے ہو کیا؟ میں نے کمال عاجزی سے جواب دیا،بابا میں پہلے بھی کئی مرتبہ آچکا ہوں،وہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر گویا ہوئے، میں گردے کے عارضے میں مبتلا ہوں اورگزشتہ 2 ماہ سے مسلسل یہاں کے چکر کاٹ رہا ہوں،مگر ہربار ٹرخا کے واپس بھیج دیا جاتا ہے،اور روز 3گاڑیاں بدل کر یہاں آتا ہوں اور یہاں کے ڈاکٹر اور ان کے چمچے کوئی کہانی سناکر واپس بهیج دیتے ہیں،میں نے پوچھا آپ کے ساتھ کوئی اٹینڈینٹ وغیرہ نہیں کیا، کوئی بیٹا ، پوتا وغیرہ؟،یہ سوال سن کر کچھ دیر تک خلا میں گھورتا رہا،اچانک اس کے آنکھوں سے چند آنسو ڈھلک کر جھریوں میں جذب ہوگئے...اور بے بسی اور دل شکستگی کے ساتھ اس نے زبان کو حرکت دی:بیٹا اللہ تعالی نے مجھے ایک ہی بیٹے سے نوازا ہے،اس کے علاوہ میری کوئی اولاد نہیں،میں ائیر فورس میں ملازم تھا،جب ریٹائر ہوا تو بیٹے کو اپنی جگہ ملازم کیا،پنشن سے ملے ہوئے تمام پیسے لگاکر اس کی شادی کروائی، شادی کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنی بیوی سمیت کورنگی شفٹ ہوا، جب کہ ہم میاں بیوی لانڈھی میں ایک کوارٹر میں تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں،مجھ میں تو اتنی ہمت بھی نہیں کہ بازار سے سودا سلف لاسکوں،مگر کیا کریں بیٹا، جب اپنا بیٹا یوں منہ موڑے تو کسی اور سے کیا توقع رکھیں،یہاں تک اکیلے آتے ہوئے تو موت پڑتی ہے، اس طرح کا ناخلف بیٹا پیدا ہی نہ ہوتا تو اچھا تھا، کیونکہ اپنی بیماری کےساتھ اس کی بے رخی کا دکھ تو برداشت نہ کرنا پڑتا، ہم میاں بیوی دونوں بیمار رپتے ہیں، اور رات بھر ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دے کر گزارتے ہیں......

بابا کی کہانی سن کر میں اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ پایا،میری آنکھوں کی جھیل میں آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا، کیوں کہ با با کی حالت زار اور دل شکستگی دیکھ کر کچھ دیر کے لیے میرے آنکھوں میں میرے والد صاحب کا چہرہ گھوم گیاتھا،اور اپنے تصور میں اس بابا کی جگہ اپنے والد کو رکھ کر سوچنے لگا،اس تصور نے مجھ اندر تک جھنجوڑ کر رکھ دیا اور میری روح کانپ گئی،میں جذبات کے سیلاب میں بہہ گیا،مجھے رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ جیب میں جو کچھ موجود ہیں اس بابا کو تھماکر اپنا علاج ان کی دعاعوں کے اثر پہ رکھوں،اتنے میں ایک نرس نے آکر اسے ایک کارڈ تھماتے ہوئے کہا کہ بابا آُ یک مہینے کے بعد آجائیں،بابا معنی خیز نظروں سے مجھ سے مخاطب ہوا: بیٹا ابھی بارش کچھ تھم گئی ہے میں گھر کی راہ لیتا ہوں ایسا نہ ہو کہ پھر بارش شروع ہوجائے، قبل اس کے کہ میں اسے کچھ کہتا میرا نام پکارا گیا اور میں بابا کو تھوڑی دیر رکنے کا کہہ کر ڈاکٹر کے پاس چلا گیا،ڈاکٹر سے فارغ ہوکر جب باہر آیا تو بابا وہاں موجود نہیں پایا، میں اپنے بقیہ تمام کام چھوڑ کر سیدھا مرکزی دروازے کی طرف چل پڑا، دروازے سے باہر نکلا تو بابا کو پائوں گھسیٹتے ہوئے روڈ کی جانب جاتے دیکھا،اگلے لمحے میں ان کے رو برو کھڑا تها،میں نے شکایتا کہا: بابا آپ نے میرا انتظار نہیں کیا..بابا نے جواب دیا کہ بیٹا مجھے لانڈھی پہنچنا ہے اور گھر میں میری بیمار بیوی اکیلی ہے،لیٹ ہوجائوں تو خواہ مخوا ہپریشان ہوگی....

میں نے کچھ دیر کے انتظار پر گهر تک چهوڑنے پہ اصرار کیا تو یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ بیٹا آج آپ چھوڑدو گے تو کل کون آئے گا؟ اس لیے مجھے جانے دو،اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے،اس کے بعد بابا پهٹا ہوا تھیلا سنبھال کر قدم گھسیٹتے ہوئے آگے چل پڑا،کچھ دیر تک میں دم بخود کھڑا بابا کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا،یہاں تک کہ وہ بمشکل تمام ایک چنگ چی رکشے میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا....

بابا جی کی بے بسی دیکھ میرے دل و دماغ میں غصے اور غم کا ملا جلا طوفان موجیں مارنے لگا، میرا جی چاہ رہا تھا کہ بوڑھے ماں باپ کو آخری عمر میں فراموش کرنے والے بیٹوں کا منہ کالا کر کے سارے شہر میں گھمادوں،ڈاکٹروں کے نام پر مریضوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنے والے نام نہاد مسیحائوں کو چن چن کر سفر آخرت پہ بھیج دوں، شفاخانوں اور ہسپتالوں کے نام سے قائم تجارتی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں،لوگوں کی مجبوریوں کی زمین پر اپنی خواہشات کے محل تعمیر کرنے والے انسانیت کے دشمنوں کو کھری کھری سنائوں،میں کچھ نہ کر سکا، کیوں کہ میں بھی بابا کی طرح اس معاشرے کا ایک بے بس انسان تھا، میں یہ سوچتے ہوئے ہسپتال کے مرکزی دروازے کی جانب چل پڑا کہ جس رب نے اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ والدین کا ذکر اپنے نام کے ساتھ کرتے ہوئے ان کے سامنے اف تک کرنے سے بھی منع کیا ہے،وہ ایسے نا خلف بیٹوں کے ساتھ روز محشر نہ جانے کیا سلوک کرے گا، اور جس رب کے حبیب صلی اللہ علیہ وسم اپنی ساری زندگی اچھے اخلاق کی تلقین کرتے رہے، وہ رب ان ڈاکٹروں کو کس انداز میں سبق سکھا دے گا جو لٹے پٹے غریبوں کے سامنے کسی فرعون بے ساماں کی طرح بزبان حال "انا ربکم الاعلی" کا کردار پیش کررہے ہیں....
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 47426 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More