اپریل فول ڈے فیسٹیول

چلو جی یکم اپریل (اپریل فول ڈے) خیریت سے گزر گیا۔ ویسے اپریل فول ڈے بھی خوب ڈے ہے، اور جس نے بھی ایجاد کیا ہے، بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ہوگا کوئی بہت ہی سمجھ دار عقل مند انگریزجس نے سوچا ہوگا، کہ انسان کی جبلت میں ہے جھوٹ بولنا، اور اگر میری قوم نے جھوٹ کو ہی اپنا وطیرہ بنالیا توکوئی کام بھی سیدھا نہیں ہوسکے گا، اور میری قوم کی کشتی جھوٹ کے مجدھار میں ڈولتی رہے گی۔ ویسے وہ جانتا تھا، کہ جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے، اور یہ ایک ایسی برائی ہے، جو قوموں کے کردار کو تباہ کردیتی ہے۔ اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ چاہے وہ میاں بیوی کا ہو، باپ بیٹے کے درمیان ہو، یا کاروبار اور انصاف سے تعلق رکھتا ہو۔ اور میری قوم کبھی ترقی نہیں کرسکے گی۔ بہت سوچ سمجھ کر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ہی طریقہ ہے۔ کہ سال کے 364 دنوں میں سچ بولو، اور ایک دن صرف جی بھر کر جھوٹ بولو، تاکہ میری قوم کی حڑُُک پوری ہوجائے۔ اور اسنے اسکے لئے ایک دن کا انتخاب کیا۔ یکم اپریل۔ اسطرح بعد میں ہم ایک دن میں بولے جانے والے جھوٹوں کی نتائج کو سامنے رکھ کر اعداد و شمار کے ذریعہ قوم کو سمجھا سکیں گے۔ کہ ایک دن میں جھوٹ کے کیا ثمرات سامنے آئے۔ کتنوں کو فائیدہ ہوا اور کتنوں کو نقصان ہوا ۔

یکم اپریل کو جھوٹ بولنے کا دن ایک فیسٹیول کی طرح منایا گیا۔ لوگوں نے خوب خوب جھوٹ بولے، طرح طرح کے بولے، کسی نے مذاق میں بولا، کسی نے حسد اور بغض کی وجہ سے بولا، ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں جھوٹ ایجاد کئے اور جی بھر کر بولے۔ دوسرے دن اسکے نتائج کو اکھٹا کیا گیا۔ اب سچ بولنے کا دن تھا۔ اسلئے درست اعداد و شمار قوم کے سامنے لائے گئے۔ اور نتائج جو نکلے کچھ اسطرح تھے۔
1۔ فلان جھوٹ کی وجہ سے اتنے گھروں میں میان بیوی میں طلاق ہوگئی۔
2۔ فلاں جھوٹ کی وجہ سے اتنے ہزار لڑکے اور لڑکیوں کے رشتے ٹوٹ گئے۔
3۔ فلاں جھوٹ کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کو دل کا دورہ پڑا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ (وغیرہ وغیرہ)

جب اس قوم کےلوگوں نے اپنے جھوٹ کے اتنے خوفناک نتائج دیکھے، تو حیران رہ گئے، بعض جنہوں نے مذاق میں جھوٹ بولا تھا۔ تائب بھی ہوگئے، اور اپنی ذات میں شرمندہ بھی، بلا آخر پوری قوم نے اسبات کو تسلیم کیا کہ سال کے 364 دن وہ سچ بولا کرینگے ۔ اور صرف ایک دن ، جھوٹ بولیں گے۔ تاکہ نئے جھوٹ بولنے والے ، اپنے اپنے ایجاد کردہ جھوٹ کے نتائج سے با خبر ہوسکیں، اور آئیندہ کے لئے فیصلہ کریں۔ کہ جھوٹ بولنا یا نہیں۔۔چند سالوں بعد اسکے ثمرات کا جائیزہ لیا گیا، تو پتہ چلا کہ جھوٹ بولنے والوں کی تعداد انکی قوم میں بہت کم رہ گئی ہے، اور اب وہ لوگ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ اگر ھڑک پوری کرنے کے لئے بولتے بھی ہیں، تو سوچ سمجھ کر جس سے کسی کی جان نہ جائے، مالی نقصان نہ ہو، کسی کا گھر نہ ٹوٹے، اب وہ قوم اگر جھوٹ بولتی بھی ہے ، تو فیسٹیول کی حد کر یاد منانے کے لئے۔ انجوائے کرنے کے لئے۔

آج ہم اگر اس قوم کی طرف دیکھتے ہیں، جس قوم کا یہ فیسٹیول ہے، اپریل فول، سب سے ترقی یافتہ قوموں میں انکا شمار ہوتا ہے۔ اور وہ اب جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں۔ اس قوم کا بچہ بچہ سچ بولتا ہے۔ چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔

آج پوری دنیا اپریل فول ڈے ، مناتی ہے، لیکن ایک فیسٹیول کی طرح۔ ہم بھی ایک قوم ہیں، اسلئے ہم بھی مناتے ہیں۔ اور بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں، اور اسکے منانے میں کسی قسم کی رو ریایت نہیں برتتے۔ ایسے ایسے خوفناک جھوٹ کہ اللہ کی پناہ، ہمیں انکے نتائج کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ اور پھر جھوٹ کو اس فخر اور انداز سے بولتے ہیں، کہ سچ کا گماں ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم 365 دن جھوٹ بولتے ہیں۔ ماں باپ اولاد، بہن بھائی ، ایک دوسرے سے، اولاد والدین سے، بیوی شوہر سے اور شوہر بیوی سے۔ غرض، ہر ایک جھوٹ بولتاہے۔ لیڈر عوام سے، استاد شاگرد سے، ماتحت افسر سے، افسر ماتحت سے، مجرم منصف سے اور منصف مجرم سے، دوکاندار گاہک سے اور گاہک دوکاندار سے۔ غرض ہم اپریل فولڈے سال کے 365 دن مناتے ہیں۔ اب تو اتنی عادت پڑ گئی ہے۔ کہ سچ ہضم ہی نہیں ہوتا۔۔ ہان جھوٹ بولو تو پتھر بھی ہمیں ہضم ہوجاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ رگ رگ میں لہو کی ہر بوند میں جھوٹ رچ بس گیا ہے۔ اور آج ہم سچ سننے کو تیار ہی نہیں۔ اور اسکے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔۔ ہم ایک کردار باختہ قوم ہیں، اخلاق باختہ بھی، مردہ ضمیر قوم ، جہان کوئی ایک سچ بولنے والا نہیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں، چہرے بدلتے رہے، وعدے بدلتے رہے، لیکن سب اپریل فول مناتے رہے۔ میری سمجھ مین ایک بات آتی ہے۔ کوشش کرتے ہیں بحیثیت قوم ہم ایک دن سچ بولتے ہیں، اور اسکا نام رکھتے ہیں۔ یکم جنوری ( یوم ِ سچائی) میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، پوری قوم میں سے کوئی ایک لیڈر، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی،سرکاری افسر، اسکی حمایت نہیں کریگا، اور نہ سچ بولے گا ۔ صرف ایک دن ہم ایک دوسرے سے سچ بولیں۔
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 19564 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More