حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرصدیق

 ''یارسول اللہ ۖ!اجازت دیجیے کہ آج میں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے اس دشمن خدابیٹے کاکام تمام کروں''
''نہیں ،ابوبکر!نہیں''

یہ مکالمہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورسرکاردوعالم ۖ کے درمیان غزوہ بدرکے دن ہورہاتھا۔دراصل ہوایہ تھاکہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بیٹے عبدالرحمن جواب تک خانوادہ صدیق میں وہ واحدفردتھے ،جو اسلام نہیں لائے تھے،وہ جنگ کے دوران اچانک آگے آئے اورنعرہ بلندکیا ''ھل من مبارز''یعنی کیاہے کوئی مجھ سے مقابلہ کرنے والا۔یہ صورت حال دیکھ کرسیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودآگے بڑھے اورخدمت اقدس ۖ میں مقابلے کی اجازت طلب کی،تونبی الملاحم ۖ نے انھیں منع فرمادیااوربارگاہ رسالت کے ایک اشارہ ابروپراپناسب کچھ قربان کرنے والے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سرخیل حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ گئے۔

حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنھما،حضرت سیدناصدیق اکبراورحضرت سیدہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنھماکے بڑے بیٹے اورام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے حقیقی بھائی تھے۔
جولوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام زورزبردستی سے پھیلاہے،ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہ بات بھی کافی ہے کہ عبدالرحمن بن ابوبکرجب تک اپنی مرضی وتوفیق سے حلقہ بہ گوش اسلام نہیں ہوئے ،نہ ان پران کے داداحضرت سیدناعثمان ابوقحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی جبرکیااورنہ ہی ان کے والدین اوربہن بھائیوں نے،حالاں کہ یہ پوراگھراناابتدامیں ہی اسلام کے دامن رحمت میں داخل ہوچکاتھا۔وہ صلح حدیبیہ 6ہجری تک اپنے کفریہ عقائدونظریات پرکاربندرہے اورتمام گھرانے کے ساتھ ہجرت بھی نہیں کی،بل کہ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔جب وہ حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے توانھیں سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ بلایااوربڑابیٹاہونے کی حیثیت سے اپنانائب وجانشین بناکرتمام گھراورکاروبارکے معاملات ان کے حوالے کردیے۔وہ بھی کمال اطاعت شعاری سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے اوراباحضورکوان بکھیڑوں سے ازادہوکرخدمت دین متین کاموقع فراہم کیا۔باوجودیکہ وہ بڑے بیٹے تھے،کس درجہ فرماں بردارتھے،اس کااندازہ صحیح بخاری میں درج اس واقعے سے بہ خوبی لگایاجاسکتاہے:
ایک مرتبہ رات کے وقت چند اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں مہمان تھے،حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آں حضرت ۖکی خدمت میں جاناتھااورانھیں اندازہ تھاکہ انھیں تاخیربھی ہوسکتی ہے ،اس لیے انھوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحکم دیاکہ وہ ان کی واپسی کاانتظارنہ کریں بل کہ مہمانوں کوکھاناکھلادیں۔حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسب ہدایت وقت پر مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا ،لیکن انھوں نے کہاکہ ہم سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھاناکھاناچاہتے ہیں اوران کے بغیرکھانے سے انکارکردیا، اتفاق سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت دیر کے بعد تشریف لائے،جب معلوم ہواکہ مہمان اب تک بھوکے ہیں توبیٹے کوبہت سخت سست کہااورقسم کھالی کہ اب اسے کھانے میں شریک نہیں کروںگا۔بیٹے نے احوال واقعی سے آگاہ کیا،مگرصدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفقرائے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کواس قدرانتظارکرانابہت شاق گزرا،ان حضرات نے بھی عذرخواہی کی ،مگرفرماں برداروفاشعارفرزندنے جواب میں ایک لفظ نہ کہا،جب مہانوں نے بھی کہ دیاکہ: واللہ! جب تک آپ عبدالرحمن کو نہ کھلائیں گے ہم بھی نہ کھائیں گے،توانھیںبھی کھانے میں شریک کرلیا۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عبہ خودفرماتے ہیں کہ اس روز کھانے میں اس قدر برکت ہوئی کہ ہم لوگ کھاتے جاتے تھے، لیکن وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ میں اس میں سے کچھ آں حضرت ۖ کی خدمت میں بھی لے کر حاضر ہوا ،جس کو آپ ۖ نے خودبھی تناول فرمایااورموجودصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کوبھی کھلایا۔(بخاری)
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت شجاع ا وربہادر شخص تھے، خصوصاًتیر اندازی میں کمال درجہ مہارت رکھتے تھے، ،اپنے قبو ل اسلام کے بعد عہدِ نبوت میں جس قدر معرکے پیش آئے،سب میں شریک ہوئے اور جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کار زار تھے۔ان میں فتح مکہ،غزوہ حنین،غزوہ طائف اورغزوہ تبوک خاص طورپرقابل ذکرہیں۔دورصدیقی میں مدعیان نبوت کے خلاف لڑے جانے والے سب سے بڑے معرکے جنگ یمامہ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شجاعت وبسالت بالخصوص تیراندازی کا غیر معمولی کمال دکھایا، یمامہ کی جنگ میں فتح کے راستے کاسب سے بڑاروڑامحکم بن طفیل نامی کمانڈرتھا،جوقلعے کے گیٹ پرپہاڑکی طرح ڈٹاہواتھااوراسی وجہ سے مسلمان قلعے کے اندرداخل نہ ہوسکتے تھے ،حضرت عبدالرحمن بن ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنھمانے اسے تاک کرتیرمارا،جس سے وہ اسی جگہ ڈھیرہوگیااورمسلمان قلعے میں داخل ہوگئے۔اس جنگ میں ان کے ہاتھوں سات بڑے کمانڈرواصل جہنم ہوئے۔

اس کے علاوہ انھوں نے شام کی رومی سلطنت کے خلاف ہونے والی تمام جنگوں،مصرکے تمام معرکوں ،بیت المقدس کی فتح کے معرکے اورجنگ یرموک،قنسرین وحلب میں نہ صرف حصہ لیا،بل کہ اپنی تیراندازی کے وہ وہ جوہردکھائے کہ کفارکے لشکرادھ موئے ہوکراپنی پیٹھ سہلاتے رہ گئے۔

خلیفہ سادس کاتب وحی حضرت سیدنامعاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنھماکی خلافت کے آخری مہینوں میں یزیدکی جانشینی کے حوالے سے دیگرکبارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی طرح انھیں بھی تحفظات تھے،سوانھوں نے بھی اس کی بیعت سے صاف انکارکردیاتھااوراس حوالے سے مروان بن الحکم سے کافی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی(اسدالغابہ)یہ اختلاف خاندان بنوامیہ یاحضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی ذاتی پرخاش کانتیجہ نہیں تھا،کیوں کہ وہ جنگ جمل میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ،اس کے علاوہ بھی ان کے باہمی تعلقات بہت عمدہ تھے اورتحائف کابھی تبادلہ ہوتارہتاتھا۔

حضرت سیدنامعاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنھماکے انتقال کے کچھ عرصے بعدوہ مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے اورمدینے کی حبشی یاحبیشی نامی مضافاتی بستی میں اقامت پذیر ہوئے ،52یا56یا58ہجری میں(بہ اختلاف روایات)ان کااسی بستی میں انتقال ہوا۔ان کی موت اچانک ہوئی تھی اورپہلے سے انھیں اپنی صحت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی شکایت،بیماری یاکم زور بھی نہیں تھی، وفات کے دن حسب معمول سوئے اورحالت نیندمیں ہی واصل بہ حق ہوگئے۔رضی اللہ عنہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکو ان کے انتقال کی خبر ملی توانھوں نے حج کی نیت سے مکہ مکرمہ کاسفراختیارکیا اوربھائی کی قبر پر کھڑی ہوکراتناروئیں کہ تمام ماحوال کوبھی اشک بارکردیا، اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے:
وکنا لندمانی جذیمة حقبة
من الدھر حتی قیل لن یتصدعا
فلما تفرقنا کانی ومالکا
لطول اجتماع لم بنت لیلة معا

پھر مرحوم بھائی کہ روح سے مخاطب ہوکراس خواہش کااظہارکیا:بخدا!اگر میں آپ کی وفات کے وقت موجود ہوتی توآپ کو اسی جگہ دفن کرتی جہاں تم نے وفات پائی تھی۔اس کی وجہ شایدیہ ہوکہ بھائی نے کسی موقع پربہن سے ایسی کوئی وصیت کی ہو۔واللہ اعلم بحقیقة الحال۔

حضرت سیدناعبدالرحمن بن ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنھماکی اس اچانک وفات کی کوئی ظاہری وجہ نہ ہونے کی وجہ سے منافقین نے مشہورکرادیاکہ حکومت نے انھیں زہردیاہے،پروپیگنڈااس قدرشدیدتھاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھابھی بھائی کی محبت میں اسی زاویے سے سوچنے لگیں ،ان کایہ شبہ اس وقت رفع ہواجب انھی کے دولت کدے میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا،وہ یہ کہ ایک عورت ،جوبہ ظاہرتوانا وتنددرست تھی،ان کے دولت کدہ آئی اور سجدہ کیا اورایساطویل سجدہ کیاپھر اس سے سرنہ اٹھایا،دیکھنے پرمعلوم ہواکہ اس کی روح قبض ہوچکی ہے۔یہ ایک واضح نظیرتھی کہ بغیرکسی طبی وجہ کے بھی موت ہوسکتی تھی۔(مستدرک حاکم)
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 279725 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More