مسلم ممالک میں انصاف کہاں؟

اکثر لوگ کہتے ہیں آج مسلم ممالک میں انصاف کہاں؟ اور لوگوں کا کہنا ٹھیک ہی ہے۔ مسلم ملک کیا دنیا میں کہیں بھی مکمل انصاف نہیں ہوتا بلکہ آج کل انصاف دلانے کیلئے جو ادارے بنائے جاتے ہیں وہیں سب سے زیادہ نا انصافی ہوتا ہے‘ وہیں انصاف نیلام ھوتا ہے۔

آج دنیا میں جو طاقتور ہے‘ اثر رسوخ والا ہے‘ مالدار ہے وہ اپنی طاقت‘ اثر رسوخ یا مال سے انصاف کو خرید لیتا ہےاور کمزور‘ غریب و مسکین کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا۔ غنڈے‘ بدمعاش اور لٹیرے لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں‘ دوکان مکان جائداد پہ غاصبانہ قبضہ کرکے جینے کا حق چھین لیتے ہیں‘ عزتیں لوٹتے ہیں اور بہو بیٹیوں کو اپنی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں‘ نوجوان اولاد کو قتل کردیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور شریف انسان انصاف کیلئےدر بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔۔۔ لیکن انصاف نہیں ملتا۔

آج کے حکمراں اور لیڈر ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرکے جہاں عوام کی دولت سے اپنی تجوریاں (نہیں بلکہ غیر ملکی بنک ) بھررہے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں لگا رہے ہیں وہیں سرمایہ دار ملک میں مہنگائی بڑھا کر اور مزدوروں کو مناسب اجرت نہ دیکرغریب عوام کا استحصال کر رہے ہیں اور عوام بے چاری کسی منصف کے انتظار میں تڑپ رہی ہے لیکن آج مسلم ملکوں میں ہی کوئی منصف نہیں‘ کوئی نہیں جو ظلم و زیادتی کا خاتمہ کرکے انصاف کے تقاضے پوری کرے۔

پہلے انبیاء علیہ السلاۃ و السلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رہنمائی میں انصاف کے تقاضے پوری کرتے تھے:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۔۔۔۔۔ ﴿٢٥﴾ سورة الحديد
" بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔"
اور نبی کریم ﷺ کی بعثت کا مقصد بھی انصاف قائم کرنا ہی تھا جیسا کہ امر ربی ہے:

قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ
" فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے" [7:29] سورة الأعراف

اور ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ عملی طور پر انصاف کے ساتھ امت کو انصاف پہ قائم رہنے اور انصاف قائم کرنے کے سارے طریقے سکھا گئے جو ہمارے درمیان قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے۔ جسے آپ ﷺ کے دشمنوں نے بھی نا صرف اقرار کیا بلکہ اپنے ملک کے سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے میں نصب کیا۔

PROPHET MUHAMMAD HONORED BY U.S. SUPREME COURT AS ONE OF THE GREATEST LAWGIVERS OF THE WORLD IN 1935

اگرچہ دشمن نے تعصب میںTHE GREATEST بجائےONE OF THE GREATEST لکھا۔
لیکن امریکیوں نے اپنے ملک میں عدل و انصاف قائم کیا اور عروج پہ پہنچے‘ دنیا کے سپر پاور بن گئے اگرچہ تعصب میں وہ ہمیشہ اسلام کی مخالفت ہی کرتے رہے لیکن آپ ﷺ کی اور خلفائے راشدین کی بے شمار قوانین جس کو انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق اچھا سمجھا اپنے ملک میں رائج کیا۔
جبکہ ہم مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے انکی ہراچھے برے کفریہ قانون کو اپنایا اور اللہ کی شریعت کو پس پشت ڈال دیا ‘ نتیجتاً مسلم ممالک میں کفریہ قوانین و نظام رائج ہونے کی وجہ کر عدل و انصاف اور امن و امان مفقود ہے ۔
اس کے باوجود آج ایک عام مسلمان سے لے کر حکمراں تک کوئی بھی شرعی قوانین کے نفاز میں سنجیدہ نہیں۔
ملک اور حکمراں کو چھوڑ دیں اور آئیے اپنے آپ سے سوال کریں:
کیا ہمارا ظاہری و باطنی کردار، اقوال و اعمال‘ لین دین‘ ملازمت و تجارت‘ حقوق اللہ و حقوق العباد اور دیگر تصرفات اللہ کی شریعت کے تابع ہے؟
کیا ہم واقعی انصاف پسند ہیں اور مندرجہ ذیل فرمانِ الٰہی کے مطابق اللہ کیلئے گواہی دینے کو تیار ہیں تاکہ ہماری اپنی زندگی میں‘ ہمارے خاندان‘ ملک و معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہو:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١٣٥﴾ سورة النساء
" اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے."

آج امتِ مسلمہ کی اکثریت (چاہے غریب ہو یا امیر‘ عوام ہو یا حکمراں) انصاف پر قائم نہیں اور نہ ہی کوئی اپنی نفس پرستی اور دنیا وی مفاد کو چھوڑ کر اللہ کیلئے گواہی دینے کو تیار ہے اور اس گواہی سے بچنے کیلئے یہود و نصاریٰ کا رائج کردہ جہالت کے فیصلے پر سب رضا مند ہیں اگرچہ سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾ سورة المائدة
" کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟"

بے شک اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور احکام کو ٹھکرا کر جاہلیت کے فیصلوں کو اپنانا شریعت سے واضح ترین سرکشی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے مقابلے بازی (جنگ) ہے جس کا نتیجہ ہے کہ
آج مسلم ممالک میں عدل و انصاف نہیں رہا اور نہ ہی امن و امان ہے۔
اور
بہترین امت پسماندگی وزبوحالی کا شکار ہے اور دشمنان اسلام اس پر مسلط ہے۔
عدل و انصاف اور امن و امان قائم کیے بغیر امت کو پسماندگی وزبوحالی سے نکال کر عروج پہ پہنچانا ممکن نہیں اور نہ ہی دشمنوں کا غلبہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ عدل و انصاف کے تقاضے صرف اور صرف اللہ کی شریعت سے ہی ممکن ہے‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے مقابلے بازی (جنگ) سے نہیں۔
اسلام ہی نے انسانیت کو عدل و انصاف کے زیور سے آراستہ کیا لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت عدل و انصاف کی معنی و مفہوم سے ہی نا واقف ہے اور مروجہ عدلیہ یا کورٹ و کچہری میں کفریہ نظام کے تحت جو فیصلے کیے جاتے ہیں اسی کو عدل و انصاف سمجھ بیٹھی ہے جبکہ اسلام انسان کی زندگی کے ہرعمل سے عدل و انصاف کا تقاضہ کرتا ہے۔
عدل کا مفہوم ہے’’ کسی چیز کو اسکے صحیح مقام پہ رکھنا‘‘ ، اور اسی لئے ’’ کسی حق دار کو اس کا پورا حق دینے‘‘ کا نام ہے عدل۔
اورلغت میں انصاف ’’ کسی چیز کو برابر دوٹکڑے کرنے‘‘ کو کہتے ہیں، یعنی انصاف ’’فیصلہ کرنا‘‘ ،’’حق دینا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اس طرح عدل و انصاف کا مفہوم ہوا ’’انفرادی و اجتماعی معاملات میں افراط و تفریط کے بغیراعتدال کے ساتھ حقوق کی صحیح ادائیگی‘‘۔
یعنی عدل و انصاف نام ہے حقوق کی ادائیگی کا‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادئیگی کا نام‘ خالق کے حقوق اللہ کو اور مخلوق کے حقوق مخلوق کو دینے کا نام‘
بندے پر سب سے پہلا حق اسکے خالق و مالک اللہ رب العزت کا ہے ‘ پھر محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔ جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی کیلئے ہم سب پر پیارے نبی ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے اسی طرح دیگر حقوق کی ادائیگی کیلئے بھی ہم سب آپ ﷺ کی تعلیمات کے محتاج ہیں۔
لہذا آپ ﷺ کی تعلیمات کو عام کئے بغیر ( یعنی نفاذِ شریعت کے بغیر ) اور اس پر پوری طرح عمل کئے بغیر نا ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا ہوگی اور نا ہی مسلم ملک و معاشرے میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم ہو گا۔
آئے ! ہم انفرادی طور پر عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کو گواہ بناتے ہوئے ہر طرح کی اور ہر کسی کی حقوق کی صحیح ادائیگی کرنے کی سعی کریں تاکہ ہمارے گھروں میں‘ مسلم معاشرے‘ ملک و ملت میں عدل و انصاف قائم ہو۔
کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
جب ہم بدلیں گے تو ہمارے بیوی بچے بھی بدلیں گے‘ پھر ہمارا گھر اور معاشرہ بھی تبدیل ہوگا اور ملک و ملت کی تقدیر بھی بدلے گی ۔ انشاء اللہ
Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 62640 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More