روحوں کی التجائیں

پی سی ہوٹل پشاور میں 18مارچ کو آئی سی آرسی کی دعوت پر ’’اسلام میں لاشوں کا احترام ‘‘ کے موضوع پر خطاب کا موقع ملا ، رفاہی اداروں کے سرکردہ رجال ِ کار کے علاوہ دیگر چُنیدہ شخصیات بھی ہال میں محفلِ سامعین وسامعات کو رونق بخش رہی تھیں،ہم نے ڈیڈباڈیز کے حوالے سے اپنی گذارشات کے ساتھ ساتھ آخرمیں زندہ لوگوں پر فوت ہونے والوں کی روحوں کے حقوق پر بھی کچھ باتیں عرض کیں ۔مثلاً، میت کو غسل دینا ،خوشبولگانا ، کفن پہنانا،جنازہ میں میں شریک ہونا،قبر کھودنا،میت کے ساتھ قبرتک جانا،دفن کرنا،اعزہ واقرباء کا عام لوگوں کے چلے جانے کے بعد قبر کے پاس تھوڑی دیر کے لئے رک جانا،حفاظتِ قبر کے لئے مناسب تدابیراختیار کرنا،یہ معاملات تو بطورِ فرض کفایہ لازمی ہیں ہی ، لیکن ان کے علاوہ بھی اپنے اموات ،عامۃ المسلمین اور بلا تفریق مقابر کے تمام باسیوں کیلئے دعائیں کرنا، استرحام واستغفار کرنا،ایصال ثواب کرنا ، ان کے حق میں صدقہ کرنا ،پس ماندگان کے لئے تین دن یا کم ازکم تین وقت کھانے کا اہتمام کرنا،اُن کی تعزیت کرنا ،انہیں صبر کی تلقین کرنا،انہیں تسلی اور حوصلہ دینا،ان کی ہمت بڑہانا،وقتاً فوقتاً شروع میں ان کے پاس بیٹھ کر ان کی تنہائی دور کرنا،ان کی اولاد وں کی صحیح پرورش کرنا ،ان کی خیر خواہی کرنا،ان کے املاک،جائداد، آبروؤں اور عزتوں کی حفاظت کرنا، میت کے عیوب اور برائیاں بیان کرنے سے پرہیز کرنا،اگر ترکے میں بیوہ یا بوڑھے ماں باپ ہوں ،توان کی دیکھ بھال کرنا ،اگر قرضہ ہو، اس کی ادائیگی کرنا ، ان کی جائزوصیتوں کو پورا کرنا ، ان کے کئے ہوئے وعدوں اور معاہدات کی پاسداری اور ایفاء کرنا ، ان کے دوستوں اور محبان کا خیال کرنا ، ان دوستوں اور متعلقین سے گذرے ہوئے اپنے پیاروں کے طرز پر حسن سلوک کرنا ، اگر فوت ہونے والے اساتذہ ومشائخ ہوں، تو ان کے نظریات وافکار کی ۔بشرط صحیح ہونے ۔ نشر واشاعت کرنا ، گویا معاشرے کے لئے جو مفید اور نفع بخش چیزیں ہوں ،ان کے اس مشن کو آگے کی طرف بڑھانا،اسے تقویت دینااور پروان چڑھانا،اگروہ اداروں یا حکومتوں اور سیاست ،ادارات اور انتظام میں کسی کے بڑے ،بوس اور پیش پیش رہے ہوں ،تو ماتحتوں کے لئے ضروری ہے ، پس ِمرگ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرکے ان کے لگائے گئے نظریاتی پودوں کی آبیاری کرنا ،گلشن کی تعمیر کرنا، اسے ترقی دینا،ان کے قبروں پر جاکر ان کے لئے فاتحہ خوانی کرنا ،ان کی قبروں اور عام قبرستانوں کو بے حرمتی سے بچانا،ان کے مزارات پر اخلاقی اور شرعی منکرات و قباحتوں کا سدّباب کرنا، کفن چوروں اور مردہ خوروں کے دست بُرد سے قبروں کی حفاظت کرنا،گذرنے والا جنازہ مسلم یا غیر مسلم کسی کا بھی ہو ،اس کے لئے اپنی جگہ سے احتراماًکھڑے ہونا، مردوں کو گالیاں دینے سے اپنا منہ بند رکھنا،بلا ضرورت ِ شدیدہ ان پر جرح و تنقید نہ کرنا،ایسی حرکتوں سے گریز کرنا جن سے گذرے ہوؤں پر بھی لوگوں کو طعن وتشنیع کا موقع ملے، اگرآپ کے لئے نمونہ ،آئیڈیل اور ماڈل اولیاء صلحاء اور انبیاء علیہم السلام ہوں، تو ان کے صحیح سلامت پیغام کی ترویج کرنا، اس کے لئے دامے درمے سخنے اپنی بساط کے مطابق مقدور بھر کوششیں کرنا، والدین کے لئے صدقات ،دعاؤں اور خیراتوں کا سلسلہ جاری رکھنا،آپﷺکے جنت البقیع ،جنت المعلیٰ اور شہدئے احد کے مزاروں پے تشریف لے جانے کے تناظر میں جمعہ جمعہ اپنوں کی قبورپر جانا، آباء واجداد کی محبتوں کا لحاظ اور پاس رکھنا،ایصالِ ثواب کے واسطے ایسے دیرپاخیراتی منصوبے اختیارکرنا ،جن سے لوگ قیامت تک یا مدتِ دراز تک استفادہ کرسکتے ہوں، اگروہ آپ کے سیٹھ ہوں یا آپ ان کے سیٹھ ہوں تو پس ماندگان کے احوال کا حسب ِ استطاعت پرسانِ حال کرنا،ان سے مالی ،بدنی اور اخلاقی تعاون کرنا،انہیں اپنے پاس بلانایا ان کی خدمتوں میں برابر حاضری دینا۔ یہ اور اس کی طرح مرنے والوں کے زندوں پر بہت سے حقوق ،فرائض او رواجبات ہیں ،کچھ ان میں سے آداب و مستحبات بھی ہیں ،ان میں سے تقسیمِ میراث میں شریعت کے احکام کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا،یہ ِان حقوق میں سے ’’ أوجب الواجبات ‘‘ حق ہے، خاص کر بدبختی اور بد نیتی کی بنا پرخواتین میں سے ماؤں ،بہنوں او ربچیوں کو ہمارے معاشرے میں عام طورپرمیراث سے محروم کیا جاتاہے ،جو گناہ کبیرہ اور صریحاً ظلم وزیادتی ہے،جس کی نحوست اور شامت میت کے گھرانے اور وہاں اصحاب ِکردار تما م لوگوں پر پڑتی ہے ،افسوس․․․․․ صد افسوس، مردانگی کی ایک نامعقول سطح یہ بھی ہے،جس کی وجہ سے بے چاری خواتین ساری زندگی روتی ہیں اور مردوں کے اس معاشرے میں پہلے سے دبی ہوئیں مردوں کی یک دم دست نگر بن کر مزید غلامی در غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ مرد ہیں،بہادر ہیں،غیرتی ہیں ،تو اپنے جیسے برابرکے مردوں کے حقوق دباکر دکھائیں،کمزوروں اور صنف نازک خصوصاً اپنی رشتے دار عورتوں پر ظلم جوانمرد کو قطعاً زیب نہیں دیتا، اسی لئے بعض بزرگ اور اﷲ والے ایسے گھروں میں دعوت کھانے ،نیز ایسے لوگوں کے عطایاوہدایاناجائز قرار دے کر قبول کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، گذشتہ سالوں پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک بل بھی پاس کیاتھا ،سعودیہ میں ان امور کے نفاذ کے لئے پچھلے دنوں ایک باقاعدہ ’’حقوق الأموات کمیشن‘‘قائم کردیا گیا ہے،ہمارے یہاں ایک تنظیم ’’ تحریکِ احیائے میراث پاکستان‘‘ اس حوالے سے کام کررہی ہے،لیکن پھر بھی مسئلہ جوں کا توں ہے،اس جانب میں کوتاہی بہت ہورہی ہے ، حقوق اﷲ توجب بھی اﷲ پاک چاہیں گے ، معاف کردینگے ،وہ رحیم وکریم ہیں،مگر یہ حقوق العباد ہیں ،جو شہداء کوبھی معاف نہیں ہوتے ،چہ جائیکہ عام انسانوں کو معاف ہوجائیں ۔ ’’جہانِ پاکستان‘‘ کے ان صفحات کے توسط سے ہم گذارش کرینگے کہ اﷲ ورسولﷺ کے واسطے، یتیموں او رصنف نازک کے میراث میں حقوق کی انتہائی نگہداشت کی جائے ،اس میں ہرگز کوتاہی نہ برتی جائے،یہ بڑی تباہی کی موجب بنتی ہے ، ہمارے اپنے گھر میں اور کچھ جاننے والوں میں ہم نے دیکھا کہ میراث کی تقسیم جب صحیح معنوں میں ہوئی اور بالخصوص خواتین کے حقوق کامل طریقے سے دیئے گئے ، تو اﷲ رب العزت نے ’’اضعافاً مضاعَفہ‘‘ برکتوں سے ایسے نوازا کہ جس کا تصور بھی نہ تھا، اﷲ تعالی کی پاس سب کچھ کے بڑے بڑے خزائن ہیں ، جن میں کمی نہیں ہے ، اﷲ تعالی کے احکام بجا لانا اور شریعت کی پابندی بالخصوص حقوق العباد میں کوتاہی سے بچنے پر باری تعالی کی رحمت جوش میں آتی ہے ، پھرمانگ کر اوربن مانگے بھی بہت کچھ وہ اپنی بارگاہ سے عطا کرتے ہیں،وہ دینے پے آتے ہیں،توچھپر پھاڑ کے دیدیتے ہیں، لہذا رحمتوں کا طالب اور متلاشی بنناچاہیئے، اﷲ تعالیٰ کے عائد کردہ حقوق اور فرامین کو نظر انداز کرکے اُن کے غضب کو دعوت نہیں دی جانی چاہیئے،اپنے آپ اور اپنی آنی والی نسلوں کو رسوا نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ اﷲ کی پکڑ بھی سخت ہوتی ہے،ایسے لوگ نشانِ عبرت بن جاتے ہیں،بعد میں کفِ افسوس مَلنے اورندامت وپشیمانی سے کچھ ہاتھ نہیں آتااورکوئی فائدہ نہیں ہوتا،بروقت اپنے فرائض کی ادائیگی سے عہدہ براں ہو نا ایک سلیم الطبع آدمی کی پہچان ہوتی ہے،اس فانی دنیا میں اپنی سلامتِ طبع کا ثبوت دینا چاہیئے،ورنہ کل قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اور اپنے ان پیاروں کو کیا منہ دکھائیں گے،حوض ِ کوثر پر اپنے پیارے حبیب ﷺ سے کیسے سامنا کریں گے،اﷲ پاک کوروزمحشر کیا جواب دینگے۔
کس منہ سے کعبہ جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

وزاراتِ عُلیا کے دور میں جناب اکرم خان درانی سے ہم نے کہاتھا،طالبان کے امیر المؤمنین ملاّ عمر سے بھی گذارش کی تھی کہ پختونوں میں نظامِ میراث قائم کریں،شاید انہیں اﷲ اپنے فضل وکرم سے ہمیشہ کی جنگوں اور لڑائیوں سے نجات دیں،نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن بھی اﷲ کرے ،کچھ اس طرف توجہ دیں،بہر کیف خرد مندی اور عقلمندی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ دنیابھی تباہ اور آخرت بھی برباد کی جائے ، بلکہ ان دونوں کو صحیح خطوط پر سنوارنا مطلوب ،مقصود،محمود اور مأمور ہے،سننے اور دیکھنے کی سکت ہو،توہمارے اور آپ کے پیاروں کی روحیں مذکورہ امور کے لئے ہم اور آپ سے ہمہ وقت التجائیں کررہی ہیں ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818953 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More