شاہینِ تیونس عبدالعزیز الثعالبی

ثعالبی اس زمانے کا سب سے بڑا خطیب ہے (الرصافی)
ہم میں سے ہر شخص کا اولین مقصد یہ ہوناچاہئےکہ اس امت کی عظمت رفتہ کو بحال کرنےکے لئے منصوبہ بندی کرکے اس کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے عملا کام شروع کریں (الثعالبی )

تاریخی یلغار کے نظریات میں ایک نظریہ کا نام ''قتل الشخصیۃ''ہے۔یہ نظریہ کسی مشہور زمانہ شخصیت یا نشانی کی حیثیت کو گٹھاگٹھا کر ختم کرنے سے بحث کرتا ہے!چناچہ مؤرخین حقائق مسخ کرنے کا یہ کام مسلسل بڑے منظم انداز میں کرتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں ایک بہادر بزدل ،مجاہد خائن،اور عالم پاگل بن کر رہ جاتا ہے،البتہ اس مکروہ کام سے ان کااصل مقصد اس شخصیت کو بدنام کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا اولین مقصد میں اور آپ ہوتے ہیں،تاکہ ہماری نظروں میں ان بزرگوں کی حیثیت گر جائے،اور ہم اپنے سامنے ایسی تاریخی شخصیت نہ پائے جس سے ہم دشمن پر غلبہ پانے کیلئے اور قوت حاصل کرنے کے لئے رہنمائی حاصل کریں،نیز اس اصل شخصیت کے متعلق تحقیق کے بعد ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوکہ ہم اپنے آپ کوتاریخ سے عاری قوم تسلیم کریں ، تو ہم رفتہ رفتہ اپنی نگاہوں میں گرجاتے ہیں اور تدریجاً معدوم ہوجاتے ہیں آخرکارتاریخ سے ہمارا نام ونشان مٹ کر ہم قصہ پارینہ بن جاتے ہیں !ایک عظیم اسلامی مجاہد جو اس وقت ہمارا موضوعِ بحث ہےاس گمنام جماعت کی ایک خاص نوع کی نمائندگی کرتاہے جس کا تذکرہ صفحہ تاریخ سے مٹایا گیا ہے،چناچہ ہم میں سے کتنے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں چاہے ایک مرتبہ کیوں نہ ہو اس توانسی شاہین کے بارے میں سنا ہےجس نے نہ صرف اٹلس کے پہاڑوں کے اوپر چکر لگایا بلکہ ہندوستان کے کوہ ہمالیہ ،ترکی میں اناطولیہ کےپہاڑیوں اورفرانس میں الپس کی چوٹیوں پربھی پرواز کیا؟گویا کہ آسمان کے بادل اورپہاڑوں کی چوٹیاں اس کے پروں سے بغل گیر ہوتیں تاکہ اس کواسلام کے ان سو عظیم سپہ سالاروں کی صف میں کھڑا کردیں،جن کے سامنے سے دل کانپ اٹھےے تھے ،آنکھیں چندھیا جاتی تھیں اورزبانیں گنگ ہوجاتی تھیں،سو اب ہم ایک عبقری اسلامی شاہین کے تذکرہ کا جائزہ لینگے جواپنے پروں سے زمان و مکان کے پردوں کو چیرتا ہوا تیونس کے نیلگوں آسماں سے نمودار ہوا،ہم ایک عظیم شخص ،فصیح وبلیغ خطیب اور شریف انسان کی زندگی کے متعلق بات کریں گے،میری مراد ہے سرسبز وشاداب تیونس کے رہنما ،عظیم سپہ سالارو مجاہد عبدالعزیز الثعالبی،۔مجھے اس بات میں ذرہ بھرشک نہیں ہے کہ اگر ہمارے زمانے میں اس عظیم قائد کی طرح دس آدمی بھی ہوتے تو آج مسلمانوں کی صورت حال یکسر مختلف ہوتی !سو ثعالبی امت میں ایک ایسا آدمی گزرا ہے جس نے اسلام کے عروج کو دوبارہ حاصل کرنے کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پراٹھالی،چناچہ آپ زمین کے بیابانوں اور سمندروں میں سفر کرتے تھے،گویا آپ ان جان نثارصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہراول دستہ میں سے ایک تھے جو آپﷺ کی دعوت کو پھیلانے کے لئے زمین کے دشت و بیاباں میں گھومے پھرے،توآئیےدیکھتے ہیں کہ اس زندہ جاویداسلامی تذکرہ کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنہ 1881عیسوی کی ایک صبح جب تیونس کی ایک خاتون سے اپنا ننھا منھا بچہ غائب ہوگیا تو اس کو دارالخلافہ تونس کے گلی کوچوں میں تلاش کرنے لگی،یہاں تک کہ اس کو تونس کے ساحل کی نرم ریتلی زمین پر اکیلا بیٹھا ہوا پایا،جونہی اس شفیق ماں نے اپنے لخت جگر کو دیکھا جس کی عمر سات سال سے زیادہ نہیں تھی تواس کو سینہ سے لگانے کےلئے مامتائی اشتیاق سے اس کی طرف دوڑپڑی لیکن جب اس نے اس کے معصوم چہرے پر آنسو کی لڑیاں دیکھیں تو دم بخود ہوکر رہ گئیں!ماں نے سوچا کہ کسی بچہ نے اس کو مارا ہے لہذا اس سے رونے کا سبب دریافت کیا،بچہ نے ماں کی طرف دیکھااور اس کی آنکھوں سے آنسوں کی لڑیاں جاری تھیں اور اپنی معصومانہ لہجہ میں بولا"اماں جان مجھے کسی نےنہیں مارا، لیکن کیاتو دیکھتی نہیں کہ فرانسی ہمارے شہروں میں داخل ہوگئے ہیں؟!انہوں نے تیونس پر قبضہ کیاہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور کسی صورت واپس نہیں جائیں گے سوائے اس کہ کہ ہم ان کے ساتھ لڑکر ان کو جانے پر مجبور کریں!"
(جاری ہے)

 

طاہرعلی
About the Author: طاہرعلی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.