ذمہ دار ھم خود۔۔۔

روز کے معمولات میں ھم ایسی باتوں کے عادی ہو گۓ ہیں جو معاشرے میں قول و فعل کے تضاد کو نمایاں کرتی ہیں اور جن کے سبب ہمادمے رشتے خاص کر انسانی تعلقات غیر سنجیدگی کا شکار ہیں۔ اس پہ ظلم یہ کہ ہم جانتے ہوۓ بہی ان غیر سنجیدہ باتوں کو چہوڑنے کے لۓ تیار نہی۔۔

ایک عام سی ضرب المثل ہے، کہ بچے بڑہوں سے ہی سیکھتے ہیں۔

اس سے ہم کیااندازہ لگائیں۔ یہی کہ کچھ والدین بچوں کے سلسلے میں اتنا ہی پاتے ہیں جتنی وہ کوشش کرتے ہیں ۔ بظا ہر وہ بچوں کی تعلیم و تربیّت پہ بہت زور دیتے ہیں لیکن بچوں کے علم کی بجاۓ انکی ڈگریوں سے غرض رکھتے ہیں۔ اپنی لالچ میں نسلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بچوں کی ناکامی کی صورت میں ماں باپ ایک دوسرے کو، اساتذہ کو اور پھر نظام تعلیم کوقصور وار ٹہراتے ہیں، یہ بہت ہی عام سی باتیں ہیں ، جن کو سن کر کان پک گئے ہیں اورجن کو دیکھ کہ آنکھیں خشک ھو گئ ہیں۔ اور نہ ہی ایسے لوگوں سے ملنا پسند کرتے ہیں جو اصل مسلوں کی نشاندھی کرے۔ھم کتنی دیر تک کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے اور کؤے کیطرح چالیں بدلتے رھیں گے۔

ھم کیوں نھی سوچتے کہ ھم خود معاشرے میں اچھائی اور انسانیت کو پنپنے نہیں دیتے۔ کیوںکہ ھم صرف باتیں کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بہی “دوسروں” کی طرح والی کیٹگری میں لے آتے ھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ “دوسرے” وقت کی پابندی کریں، دوسرے صفائی کو نصف ایمان جانیں۔ “دوسرے “ کسی کو دھوکہ نہ دیں۔ “دوسروں “کے صرف فرا‏ئض ہیں۔

ممکن ھے کہ قوم آدھی سے بہی کم ڈگریوں والوں سے چل جاۓ، لیکن یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ آدھے سے بھی کم انسانیت سے چل جاۓ۔

کامیاب قومیں عمل سے ثابت کرتی ہیں، اور بحثیت قوم اس بات کو یقینی بناتی ھیں،کہ نہ صرف خود کو اچھی معاشرتی باتوں کا پابند کیا جاۓ بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ بنا جاۓ۔خود کو بحث و مباحثہ کے چنگل سے نکال کر ھمکو اب ایک قدم آگے بڑھنا ہے اپنے گھر وں کو، محّلوں کو، شہروں کو، ملک کو ترقی کی طرف لے جانے والی اچھی باتوں کا عملّا ثبوت دینا ہی ھو گا۔۔۔

اچھی قومیں مثبت کوششوں سے بنتی ہیں، جن میں پہلی کوشش ماں اور باپ کیطرف سے ایمانداری کے ساتھ بچوں کی پرورش ھے۔ والدین کی لاپرواھی سے بچے معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ درسگاہیں تعلیم اور گھر تربیت دیتے ہیں۔ یہ دونوں مراکز بجے کے علم کا گہوارہ بنتی ہیں۔

ھماری بدقسمتی کہ ہم نے علم کو سمجھا ہی نہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ ھم نے علم کو ‏اعلی ڈگریاں حاصل کرنے کا مقصد بنا لیا۔ ھماری جیسی قوم جو ڈگریوں پہ ناچتی ھیں اور خوش فہم ہوتی ہیں کہ ڈگریوں والا علم ان کو باعزت مستقبل دےگا۔بچپن سے سنے ہوۓ جملے ، اچھی نوکریوں کی لالچ) اور ایسی بہانوں میں ھم والدین بچوں کو انسانیت کی تربیت دینا بھول جاتے یں۔ ھم یہ سیکھانا بھول جاتے ہیں کہ ایک ایماندار انسان کیسےبنیں، احترام انسانیت کیا ہے،۔

اچھی نوکری والے سنہرے خواب دیکھانے میں کوئی خرابی نہیں، مگر یہ ضروری ھے کہ ایمانداری سے علم سیکھا جاۓ، اور ممکن ہو تو حقدار کو نیکی سمجھ کے سیکھایا جاۓ۔۔۔ کم عمر سے ہی بچوں کو صبر، استقامت اور ہمت جیسے عوامل کی عادت ڈالی جاۓ۔۔۔
سوچیں کہ بچوں کے سلسلے میں آیمان دار کیسے بنیں
ربیعہ خان
About the Author: ربیعہ خان Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.