کہیں دیر نہ ہو جائے

آج میں اسی شش و پنج میں ہوں کہ میں مظلوم کی مظلومیت پر لکھوں یا مظلوم کی سفاکیت کو بیان کروں ۔انتہا پسندی کی آڑ میں دہشت گردی تو سمجھ میں آتی ہے مگر انسانیت کا بہیمانہ قتل سمجھ نہیں آتا ۔وائے ستم کہ ایک بار پھر لاہور لہو لہو ہوا آنکھیں پھر اشک بار ہوئیں ، گھروں کے چراغ پھر گل ہو ئے ،پھر سہاگ اجڑ ئے ، بچے یتیم و مسکین ہوئے ، والدین بے سہارا ہو ئے اور ماؤں کے جگر گوشے خون میں نہا گئے
جانے کس لمحہ ء وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے

ہر طرف چیخ و پکار اور ماتم جاری تھا مگر بر بریت کا خاتمہ یہیں تک نہیں ہوا، متاثرین نے حیوانیت کی ایک اور داستان رقم کر ڈالی ،غم و غصہ کی آگ میں جلتے ہوئے مشتعل ہجوم نے دو بے گناہوں کو نذر آتش کر ڈالا ۔جب مظلوم خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن جائے تویہ اس بات کا عندیہ ہے کہ معاشرے میں قانون جنگل کا ماحول اختیار کر چکا ہے اور اگر جلد از جلد اس پر قابو نہ پایا گیا تو ممکن ہے کہ یہ نفرت و تعصب کی آگ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لے جو کہ ہمارا ملک اتنی بڑی بد امنی کو برداشت نہیں کر سکتا۔

آج اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ سانحات کے تسلسل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ان میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے اور اب یہ صرف ایک شہر تک محدود نہیں رہے ان سانحات کی لپیٹ میں پورا پاکستان آچکا ہے سانحہ پشاور ،سانحہ شکار پور اور اب سانحہ لاہور نے سارے زخم ہرے کر دئیے ہیں اور مقام افسوس تو یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان اور منصوبہ بندیوں سے سو فیصد نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں ہر دل سوالی ہے کہ کون سے ایسے سرکش جنات ہیں جن کے آگے ہماری بہت ہی قیمتی ،مثالی اور کثیر التعداد سیکیورٹی بے بس نظر آتی ہے اگر بے بس نہ ہوتی تو یوحنا آباد لہو میں نہ ڈوبتااور16افراد ہلاک اور 70 سے زیادہ زخمی نہ ہوتے ۔اگر یہ کہا جائے اس میں اقلیت کو ٹارگٹ کیا گیا ہے تو سر ے سے ہی غلط ہوگا کیو نکہ دہشت گردوں کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے جس میں ملک میں فرقہ واریت ،بد امنی اور ملک دشمنی کو فروغ دینا ہے ۔مذید اب یہ بات بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ دہشت گردوں نے اپنے ایجنڈے میں یوں لگتا ہے کہ جیسے جو بھی کوئی پاکستان میں برسر اقتدار ہو اس کو بھی ناکام کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور ایسے حملے مسجدوں اور امام بارگاہوں پر بھی ہو چکے ہیں پس پردہ حقائق جو بھی ہوں مگر یہ حملہ بھی پاکستان کی سالمیت پر ایک بڑا وار ہے اور یہ حملہ بھی کوئی مسلمان نہیں کر سکتا کیونکہ اقلیتوں کے بارے مذہب اسلام میں کھلے الفاظ میں تاکید کر دی گئی ہے اور ہمارے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حفاظت کی خاص تلقین فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جس نے ان کا حق غصب کیا یا ان کو کوئی تکلیف دی یا ان کی رضا کے بغیر کوئی چیز لی تو روز قیامت وہ جواب دہ ہوگا اور یہ حضور اکرم ؐ کا حسن سلوک تھا کہ اقلیتوں کا برتاؤ آپ ؐ سے ہمیشہ احترام پر مبنی رہا ایسے میں یہی کہنا مناسب ہے کہ سانحہ یو حنا آباد اسلام دشمنی کی آڑ میں کھیلا گیا ایک اور گھناؤنا کھیل ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو بدنام کرنا ہے ۔

اور دوسری طرف یوحنا آباد کے متاثرین عیسائی برادی کا سر عام دو معصوم مسلمانوں کو بیہمانہ تشدد کے بعد نذر آتش کر دینا اور ان کے جلے ہوئے جسموں کی بے حرمتی کرنا بھی کھلی دہشت گردی اورقانون و انصاف کی عملداری کے نہ ہونے کے مترادف ہے ،حیف صد حیف ایسا کھیل کھیلنے والوں کو کسی نے نہیں روکا اور ارد گرد کھڑے لوگ اپنے موبائیل پر ویڈیوز اور تصاویر بناتے رہے ۔۔کیا ہم انسان ہیں ؟انسانیت اسے کہتے ہیں ؟ہم تو درندوں سے بھی گئے گزرے ہیں وہ بھی کم و بیش خاموش تماشائی بنتے ہوں گے۔اگر پولیس نے دو لوگوں کو مشکوک سمجھا تھا تو انہیں کسی محفوظ مقام تک پہنچاتے مگر ان کا لالچ ان کو فرائض کی ادائیگی سے روکتا ہے بیشک فرض شناس لوگوں کی کار کردگی پر ایسے ہی لوگ کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوتے ہیں اور ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات سامنے آتے ہیں اور آرہے ہیں جو کہ حکمرانوں کے لیے شدید الجھن کا باعث ہوتے ہیں ایسی مجرمانہ غفلت پر سزا ضرور دینی چاہیئے تاکہ پیشہ ورانہ غفلت اور لا پروائی کا راستہ بند ہو سکے۔

یہ بات نوشتہ ء دیوار ہے کہ بیانات اور بلند و بانگ دعووں سے حالات نہیں سنورتے ۔میاں صاحب نے پچھلے سال کہا تھا کہ ملک کو غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے جو غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے اور اب ملک دشمن عناصر کے کے خلاف سخت فیصلے کرنے ہونگے اور یہ سال بھی ایسے ہی پرعزم فیصلے اور دعوے سننے کو مل رہے ہیں مگر کسی بھی شعبے میں کسی بھی قسم کی مثالی پیش رفعت دیکھنے میں نہیں آرہی ہے ،کیا دہشت گرد ہماری پولیس سے زیادہ بہادر اور منظم ہیں ؟ کیا ملک دشمن عناصر ہماری انٹیلیجینس سروسز سے زیادہ ذہین ہیں ؟ جو منصوبہ بندی کرتے ہیں اور مطلوبہ ا ہداف بھی حاصل کر لیتے ہیں ۔ان حملوں سے ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ ان قاتلوں کے سہولت کار پورے ملک میں موجود ہیں جن کے سامنے ہر ناکہ اور سیکیورٹی ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے ۔دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے جہاں ایسے مسلسل حملے ہو رہے ہوں یا ہوتے ہوں اور اس کے حکمران مست مئے پندار ہو کر اپنی ہی من جاتیوں اور سرگرمیوں میں مشغول ہوں ۔کیا موجودہ حکومت کا کام صرف اتنا رہ گیا ہے کہ وہ سب ملکر دعوتیں اڑائیں اور بیان بازی کریں ؟ ہمدردی کے چند بول بولنے ،چند ٹسوے بہا دینے اور چند لا کھ دینے سے زندگیاں نہیں گزرتیں جن گھروں میں اندھیرے ہو جاتے ہیں یا جن گھروں کے سائیں چلے جاتے ہیں وہ کیسے جیتے ہیں کبھی ان گھروں میں بھی جھانکیئے ۔جہاں وحشتیں ،تنہائیاں اور غربت ڈیرہ ڈال لیتی ہے اور معاشرہ مال غنیمت سمجھتا ہے ۔بلاشبہ حالیہ حالات بہت تشویشناک ہیں اور اس فسوں کا بیان بھی ممکن نہیں رہا ہے سیکیورٹی پر بھی مسلسل پیسے خرچ ہو رہے ہیں کل جماعتی کانفرنسوں پر الگ وقت اور پیسہ برباد کیا جارہا ہے مگر ان سب کاموں سے ملک و قوم کو خاطر خواہ فوائدحاصل نہیں ہورہے ہیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ ایسے فیصلے کئے جائیں کہ جو ملک دشمن ارادوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں ۔پاک افواج اپنی جگہ اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں مگر۔۔۔ اندرون ملک حالات کے ذمہ دارتو آپ ہیں اس لیئے اب تمام ملک کے کرتا دھرتا کو چاہیئے کہ ترجیحی بنیادوں پر مل بیٹھ کر اتحاد و یگانگت سے ایسے لائحہ عمل ترتیب دیں کہ ان کشیدہ حالات پر قابو پایا جا سکے کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔۔ جناب عطاء الحق قاسمی نے شاید اسی تناظر میں کہا ہے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 28 Articles with 18725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.