بخشی روحیں اور کمبخت فرشتے

یہ موضوع ہر سال مجھے ترغیب دیتا ہے کہ اس پر اظہارِ خیال کیا جائے۔ یہ موضوع اپنے اندر ایسا تخیل اور ایس حقیقت رکھتا ہے کہ دونوں کو آپس میں ملانا جان جوکھوں کا کام نہیں لگتا۔اس خیال کے میرے ذہن کے دریچوں سے ہر سال جھانکنے کی کچھ وجہ تو ضرور ہوگی۔ لیکن اس کی طرف کنایہ میں بات کرنا زیادہ بہتر ہے کہ کسی کی دل آزاری ہمارا مقصد نہیں ۔

ہر ادارے میں ملازم دو بڑے گروں میں تقسیم ضرور ہوتے ہیں : ایک وہ جو کام کرتے ہیں، اور دوسرے وہ جو کام دکھاتے ہیں۔ہم اخلاقی طور پر ان کو کام چور نہیں کہیں گے کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔یہ بات انسان کے مزاج میں ہے نا کہ کسی مذہب، نسل، قوم، قبیلے، زمانے، یا کسی بھی اور تقسیم سے تعلق نہیں رکھتی کہ کچھ حلال کھانا چاہتے ہیں اور کچھ حرام کو بھی حلال کا درجہ دے کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ہم یہ تو کہہ ہی نہیں رہے کہ وہ حرام کھاتے ہیں ایسا کہنا شرفِ انسانیت کی نفی ہے کہ کسی انسان کو حلال ، حرام کی تمیز نہیں ہے آخر وہ ہمارے انسانی بھائی ہیں کوئی غیر تھوڑے ہیں کہ ہم ان کے کیڑے نکالتے رہیں۔ویسے بھی حلال، حرام ذاتی معاملے ہیں اور جدید اخلاقیات کی روشنی میں ہمیں کسی کی ذاتی چیزوں پر نہ نگاہ رکھنی چاہئے اور نہ اس پر اعتراض کرنا چاہئے چاہے وہ حلال ہو یا حرام ۔

ہمیں تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے حرام میں ہمیں ہی’ حلال‘ یعنی ذبح کر رہے ہوتے ہیں۔اگر یہ بھی ان کا ذاتی مسئلہ ہے تو ہم کچھ نہیں کہتے لیکن اگر اس میں ہماری ذات بھی ملوث ہو تو ہمیں اس بابت کچھ بات کرنے کا اخلاقی حق ملنا چاہئے جو کہ ایسے کوگوں کی موجودگی میں تو مل نہیں سکتا، البتہ ان کی عدم موجودگی میں ہم کچھ عرض گزار ہو سکتے ہیں۔

ایسے لوگ زندگی کے ہر شعبے اور ہر ادارے میں ملیں گے۔ ہم نے یہاں تک کہ بینکوں جیسی مصروف اکائیوں میں بھی ایسی بخشی روحوں کا وجود پایا ہے۔ سکول، کالج، ہسپتال تو خیر بہت ہی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جہاں بخشی روحوں کو کم بخت فرشتوں کا ساتھ کسی ناگہانی آفت سے بچانے میں معاون ہو جاتا ہے ۔ جہاں بخشی روحوں کی جگہ کم بخت فرشتے ہمہ اوقات کام میں مصروف رہ کر اداروں کی کارکردگی کو عام تنقید کا نشانہ بننے سے بچا لیتے ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ چوں کہ یہ انسانی مزاج کی بات ہے اس لئے ایسے کردار سفارت کاروں کی سطح تک بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر سیاست دانوں، وڈیروں، رسہ گیروں، بڑے افسروں، وغیرہ کے حاشیہ نشین ہوتے ہیں، ہاں اگر وہ حاشیہ بردار بھی بننا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہے۔ ان کے خاندانی روابط بھی ہو سکتے ہیں اور اگر کچھ بھی نہ ہو تو اوپر والا تو ان کا مالک ہوتا ہی ہے کیوں کہ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔لیکن ضرب المثل یا نظریئے کا غلط استعمال نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ ضرب المثل اچھے کام کے لئے ہے حرام خوری جیسے کام کے لئے تھوڑی ہے۔ لیکن ہم اُن کے نقطہ نظر سے بات کر رہے تھے کیوں کہ وہ تو اس بات کو خدا کی دین ہی کہتے ہیں، حرام خوری تھوڑی کہتے ہیں۔

بخشی روح کا تصور ہم نے مذاہب کی فلاسفی سے لیا ہے اور کم بخت فرشتے ہم نے اپنی طرف سے کہا ہے۔بخشی روح سے مراد وہ کوگ ہیں جو کام کرنے کے لئے اس دنیا میں تشریف نہیں لائے۔ ان کے اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف اور صر ف عیش ہے، کام چوری ہے ، سینہ زوری ہے۔ وہ سائنس کی اصطلاح میں پیراسائٹ ہیں یعنی کام دوسرے کریں اور اس کام سے فائدہ وہ اٹھائیں۔ یہ طفیلیئے ہمیشہ دنیا کو میسر رہے ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔ کیوں کہ ان کے بغیر دنیا کی رونق میں کمی واقع ہونے کا احتمال ہے۔ زبانوں کے کتنے ہی الفاظ، محاورے،ضرب الامثال، وغیرہ انہی مہربانوں کے لئے بنائے گئے مگر ان کے کانوں پر آج تک جوں نہیں رینگی۔
فرشتوں کو کوئی سکون میسر نہیں کیوں کہ وہ ہر وقت محوِ کار رہتے ہیں۔ کوئی عبادت میں تو کوئی خدمت میں، تو کوئی اس ناہنجار حضرتِ انسان کی جان نکالنے کے لئے۔کوئی اس میں جان ڈالنے آرہا ہے تو کوئی اسے رزق کی فراہمی یقینی بنانے آ رہا ہے۔ کوئی بارش برسا رہا ہے تو کوئی ہواؤں کو چلا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ فرشتہ ہونا اور آرام ہونا دو متضاد صفات لگتی ہیں لیکن روحوں کو دیکھیں کیا کرتی ہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ انسان کے اعمال کا حساب رکھنا بھی فرشتے کی ذمہ واری، اس سے قبر میں سوال و جواب کرنا بھی انہی کی ذمہ واری۔ روح مزے سے ایک بار جسدِ خاکی میں حلول کرتی ہے اور پھر مزے سے بغیر اپنا کوئی اتا پتا بتائے نہ جانے کدھر چلی جاتی ہے اور پھر واپس بھی نہیں آتی کہ اسی کبھی ماضی کی یاد ہی نہیں ستاتی۔ فرشتے صبح و شام کام کام اور بس کام میں جٹے ہوئے ہیں ایک لمحہ بھی ان پر حرام ہے کہ سکون کرتے ہوں۔ یہ بات بڑے آرام سے کہہ دی جائے گی کہ وہ کون سا تھکتے ہیں کہ انہیں آرام کی ضرورت پیش آئے۔ تو اس ضمن میں گذارش ہے کہ روح کا تھکنا بھی کس نے دیکھا ہے۔ وہ بھی تو نہیں تھکتی لیکن اسے کوئی بھی کرنے والا کام لازم نہیں سارا سر درد فرشتوں کے لئے ہی کیوں ہے۔ لو! جنت، دوذخ بھی فرشتوں کی ذمہ داری میں ہیں۔ انسانوں اور جنوں کی جنت میں خدمت کرنا اور جہنم میں ان کے ساتھ جہنم کی گرمی برداشت کرنا بھی انہی بچاروں کے نصیب میں کیا گیا ہے۔
یہ کچھ صنفِ نازک پر عنایات کی بات محسوس ہوتی ہے۔ کہ وہ گھروں میں آرام سے بیٹھیں اور صنفِ سخت دھوپ، بارش اور طوفانوں کا مقابلہ کرتا پھرے۔ صنفِ نازک بس کار چلائے اور ٹریکٹر، ٹرالے، ٹینک،طبلے وغیرہ سب صنفِ سخت کا مسئلہ ہیں۔ فرشتے مردوں کے ذمرے میں آتے ہیں اس لئے ان پر سختی تو ہونی ہے اور روحیں صنفِ نازک کی صف میں شمار ہوتی ہیں اس لئے ان پر عنایات کا نزول ہونا ہی تھا یہ تو ان کی روزِ اول ہی قسمت میں طے ہو گیا تھا۔ ہاں اس بات سے کچھ سکون ملا ہے۔ کہ جو لوگ کام چور ہیں وہ بخشی روحیں ہیں اور اس لئے وہ صنفِ نازک کے درجے پر فائز ہیں اس درجے میں سختی والے یا سخت لگنے والے یا وہ سارے کام جن کے کرنے پر طبیعت مائل نہ ہو یا تو منع ہوتے ہیں یا ویسے ہی معاف ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ایسے خوش نصیب کو بخشی روحوں کی حیثیت رکھتے ہیں سے کسی کام کا تقاضا کرنا بے معنی ہے۔اور وہ سارے لوگ جو فرشتوں کی صف میں ہیں ان پر کام کرنا فرضِ عین ہے اور اگر وہ کام نہ کرتے ہوئے پائے گئے تو ان کے پر نوچ لئے جائیں گے کیوں کہ یہ باتیں روزِ اول طے پا گئی تھیں اس لئے اب ان سے انحراف کرنا جیسے ابدی اصولوں سے انکاری ہونا ہے اس لئے اسے لوگوں کا کام کرتے کرتے تھکنا ہرگز مناس نہیں۔کام ، کام اور بس کام کا مقولہ ایسے ہی جانبازوں کے لئے بنوایا گیا ہے۔

سمجھ نہیں آتی کہ انسان اتنی کام چوری کیوں کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں انہوں نے دنیا سے کیا لے کر جانا ہے۔ انسان بیرونِ ملک جاتا ہے، کمائی کرتا ہے، وہاں کی کرنسی کو اپنے ملک کی کرنسی میں کنورٹ کرواتا ہے۔ اور اپنے پچھلوں کو بھیجتا ہے۔یا خود واپس آ کر اس کمائی سے استفادہ کرتا ہے۔ اب اگر وہ ایسی کمائی کرے جو اس کے ملک کی کرنسی میں تبدیل ہی نہ ہو سکتی ہو، جسے وہ واپس اپنے پیاروں کو بھیج ہی نہ سکتا ہو، یا جس کا وہ واپس آ کر فائدہ نہ اٹھا سکتا ہو تو وہ کمائی کس کام کی۔ دنیا ایک سفر ہے۔ یہاں کی کمائی اگر اُس جہان میں کام ہی نہیں آنی تو کیافائدہ۔ اوراگر یہ بھی ایمان ہو کہ یہاں کا وہاں حساب بھی دینا پرے گا تو اور بھی فکر مند ہونا بنتا ہے، سکندر جیسا حاکم بھی اس جہان سے خالی ہاتھ گیا ہے، قارون کا خزانہ بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکا تو اتنی گھٹیا چیز کے پیچھے ایمان جیسی نایاب دولت کھو دینا کسی طرح بھی عقل مندی نہیں ہے۔

انسان کی تعلیم اگر اس کے اندر مثبت سوچ پیدا نہیں کرتی تو کسی کام کی نہیں۔ اس میں قصور پھر تعلیم کا نہیں اسے دینے یا لینے والوں کا ہے۔اس بچاری نے تو ایک مشعل کی طرح رستہ دکھا دیا کہ کون سا ٹھیک اور کون سا غلط ہے اب ان پر چلنا تو انسان کا اپنا کام ہے۔ کوئی بھی تعلیم انسان کو برا بننے کا سبق نہیں پڑھاتی لیکن انسان تعلیم کی مانتا بھی کب ہے۔ وہ وتو ہر وقت عقلِ کل بنا پھرتا ہے اور اپنے سے زیادہ کسی کو عقل مند ماننے سے ایسے انکار کرتا ہے جیسے ا سپر کسی نے تہمت لگا دی ہو۔

ہماری گفتگو زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی۔ ہم اسے ہلکا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بخشی روحوں کا امیروں، وزیروں، سفیروں، فقیروں اور دل گیروں میں حلول ہونا تو سمجھ آتا ہے لیکن یہ مزدور پیشہ! ہاں ان میں بھی یہ ارواح پائی جاتی ہیں اور یہ بات بہت فکر انگیز اور فتنہ خیز ہے۔یہ دو وقتوں کی روٹی چار پہر کام کر کے کمانے والے اپنے آپ میں نواب بن بیٹھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے لوگوں میں تو صرف کمبخت فرشتے ہی حلول کرنے چاہیئں لیکن یہ بخشی روحوں کا سنگار کیسے پورا کریں گے۔ یہ مزدور لوگ بھی بعض اوقات کام چور ہو جاتے ہیں۔چاہے محدود طور پر ہی سہی۔ کوئی تو نشہ بھی اختیار کر لیتے ہیں اور پھر عمر بھر کے لئے کام چوری ہی نہیں ہر چوری کرنے لگتے ہیں۔وہ بظاہر تو چوری کرتے ہیں لیکن دراصل خود ہی لٹ چکے ہوتے ہیں۔ اور اگر برنہ لگے تو ایک سچی بات کہہ دوں یہی حال دراصل بخشی روحوں کا بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اوروں کو بے وقوف بنا رہے ہیں لیکن دراصل وقت انہیں نا سمجھ قرار دے چکا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو شاطر سمجھتے ہیں لیکن وقت ان کی بساط الٹ چکا ہوتا ہے فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں ہوتا ورنہ وہ کبھی بھی کام چوری کو عقل مندی یا چالاکی سمجھ کر اس کے دھوکے میں نہ آتے۔ دراصل دھکا دینے والے پہلے خود دھوکا کھاتے ہیں اور پھر کسی کو دیتے ہیں۔ دھکا نہ کھانے والا کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔کیوں کہ اس کیآنکھ اسے رستہ دکھا رہی ہوتی ہے وہ کیوں بھٹکے گا۔

کچھ انسان کے پاؤں میں جوتا پھسلنے والا ہے اور کچھ دنیا کی گلی میں پھسلن بھی بہت ہے۔’بدو بدی‘ انسان پھسلنے کی طرف جاتا ہے۔ بچاتے بچاتے پھسلتا ہے۔اور کوئی ماورائی قوت ہی اسے قابو رکھ سکتی ہے۔ ورنہ :
مری تعمیر میں پوشیدہ ہے اک صورت خرابی کی
یہ خرابی کی صورت پر قابو پانا قطعاً آسان نہیں۔ یہ بات ماننے والی ہے۔ لیکن ایسا بھی کیا کہ انسان کو انسانوں کی زبوں حالی دیکھ کر بھی یہ احساس نہ ہو کہ ان کی بہتری میں اسے بھی کچھ حصہ ڈالنا ہے۔یا کم از کم اسے اپنا کام خود ہی کرنا ہے۔ اس کے اندر اخلاق کا کچھ تو احساس ہو۔ بالکل ہی بے ضمیر ہوجا نا بھی اس کے اندر زبردستی سے نہیں رکھا گیا۔ انسان کی اکثر خرابیاں اس کی اپنی غلط سوچوں کی پیداوار ہیں۔
بخشی روحوں اور کم بخت فرشتوں کا کانسپٹ مردوں پر ہی نہیں عورتوں پر بھی اپلائی ہوتا ہے۔ ان میں بھی کچھ کو کمبخت فرشتوں کی طرح ہر وقت محوِ کار رہتی ہیں اور کچھ بخشی روحوں کی طرح بس آرام ہی کرتی ہیں کیوں کہ وہ اور کچھ کر ہی نہیں سکتیں۔

ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ یہ مسئلہ مزاج کا ہے اور مزاج کی تخلیق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مزاج بنانے والے ہاتھ بھی فرشتوں کے لگتے ہیں کیوں کہ روحیں یہاں بھی بری الذمہ ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ مزاج نہیں بلکہ ماحول کا ہو ۔ کسی کو وہ بخشی روح بنا دیتا ہے اور کسی کو وہ کم بخت فرشتوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے کیوں کہ اس صف میں کوئی بیٹھ نہیں سکتا۔اگر یہ ماحول کا معاملہ ہو تو بھی نا قابلِ حل ہے کیوں کہ ماحول بنانا پھر مزاج کا معاملہ ہے اور مزاج بنانا انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ پھر بھی صبر ہی کرنا بنتا ہے۔ غالبؔ ہی یاد آتا ہے:
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ تو اے مشقِ ناز کر خونِ دوعالم میری گردن پر
قہرِ درویش بر جانِ درویش۔What cannot be cured must be endured.

اب امن پسند ، صلح جو لوگ کہاں جائیں۔ جانا کہاں ہے۔ کہیں نہیں۔ جینا یہاں ، مرنا یہاں۔بس برداشت کرنا ہے اور امید رکھنی ہے کہ کسی نہ کسی دن ، دن بدک جائیں گے۔ یعنی گرمی کے بعد سردی اور سردی کے بعد گرمی کا آنا جانا تو ہوتا ہی ہے اور اسے ہی دن بدلنا کہا جاتا ہے۔بخشی روحوں کے اس اعلیٰ مقدر سے کم بخت فرشتوں کو حسد نہیں کرنا چاہیئے کیوں کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔کم بخت فرشتوں کو غیبت بھی نہیں کرنی چاہیئے جو وہ اکثر کرتے ہیں ورنہ ان کی نیکیاں ان بخشی روحوں کے حصے میں لکھی جائیں گی اور کم بخت فرشتے واقعی کم بخت ثابت ہوں گے انہیں بس چپ چاپ اپنا کام کرتے رہنا چاہیئے۔ اگر بخشی روحوں سے کچھ پوچھنا ہو گا تو سب کا مالک خود ہی پوچھ لے گا۔ہمیں اپنا کام کرتے کرتے دنیا کی نگری سے کوچ کر جانا چاہیئے کیوں کہ یہاں بخشی روحوں کا ہی ہمیشہ راج رہا ہے۔ ہم نے تو کام کرنا ہے ناں۔

یہ بات بھی مدِ نظر رکھنی بہتر ہے کہ کچھ کام اس مالک کے کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ جب لوگ اتنے طاقتور ہو جائیں کہ وہ انسانوں کے قابو نہ آئیں تو انہیں خود قدرت قابو کر لیتی ہے۔ لیکن قدرت ان کو اپنے آپ کو بخشی روحوں سے واپس فرشتوں میں لانے کا موقع پورا پورا دیتی ہے۔کیوں کہ قدرت کا اپنا ایک مزاج ہے، اس کے اپنے ضابطے ہیں، اس کی اپنی پولیس اور رینجر ہے ۔ کوئی بھی اس سے زیادہ طاقتور نہیں۔ وہ بس خاموش تماشائی لگتی ہے لیکن وہ اپنا پوارا پورا ہولڈ رکھتی ہے لیکن اس کا دائرہ کچھ بڑا ہے جو انسان کو ذرا دیر سے سمجھ آتا ہے۔ اگر انسان پہلے لوگوں کی مثالوں سے اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتا تو اس سے پیچھے آنے والے اس کی مثال سے اپنے آپ کو درست ضرور کرتے ہیں۔بخشی روحوں کو جلد از جلد فرشتوں کی صف میں آجانا چاہئے ورنہ فرشتے ان کو اپنی طاقتیں بھی دکھا سکتے ہیں۔

یورپ میں بخشی روحوں کی گنتی کافی کم ہو چکی ہے کیوں کہ وہاں جمہوری نظام چل رہا ہے ہر کسی کو اپنے حقوق کا علم ہے، شعور بیدار ہے اور کام کو کام سمجھ کر کرتے ہیں۔ ہم لوگ کام چوری کے رسیا اور ہٹ دھرمی کے ماہر ہیں۔دوسرے الفاظ میں یورپ میں کم بخت فرشتے زیادہ ہو چکے ہیں اور بخشی روحیں ابھی تک ہمارے ایشیا کا باشندہ بننے کی آرزو کرتی ہیں۔اس تناظر میں دیکھیں تو سوال جنم لیتا ہے کہ کیا وقت کے ساتھ ساتھ بخشی روحوں کا جنم ختم تو نہیں ہو جائے گا جیسے بہت سی پرانی روایات وقت کے دھارے میں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ ایسا لگتا ضرور ہے کہ ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب ہر طرف مغرب کے باشندوں کی طرح کم بخت فرشتے ہی نظر آئیں، اور بخشی روحیں اپنا ناطقہ بند پا کر اس دنیا سے کوچ کر جانے کا ارادہ کر لیں جیسے اس زمانے میں یورپ میں بخشی روحوں کا جینا آہستہ آہستہ حرام ہو گیا ہے اور سب لوگ کام کرنے پر ایمان لے آئے ہیں۔مشرق میں شاہی نظام، فیوڈل لارڈ، جاگیر دار، جہالت، جیسی پناہ گاہیں قائم ہیں اور زمانہ نزدیک میں انہیں کوئی خطرہ بھی در پیش نہیں، اس لئے ابھی یہاں بخشی روحوں کی اجارہ داری برقرار رہنے کا پورا ماحول موجود ہے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 286792 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More