بچوں کے حقوق

اسلام ایک ایسا خوبصورت دین ہے جس سے خوبصورت دین کہیں بھی نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہ صرف ایک جذباتی بات نہیں، ایک حقیقت ہے۔ اسلام ہے کیا ۔ اسلام دین فطرت ہے۔ ایک انسان کیلئے جو سب سے بہتر ہے وہی اسلام ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں جیسی راہنمائی اسلام میں ملتی ہے دنیا کے کسی مذہب میں موجود ہی نہیں ہے۔ کیسے سونا ہے، کیسے کھانا ہے ، کیسے پینا ہے، کیسے چلنا ہے، کیسے کھانسنا ہے، غسل کیسے کرنا ہے، ٹائلٹ میں کیسے جانا ہے اور جا کر رفع حاجت کیسے کرنی ہے، بال کیسے رکھنے ہیں، شادی کب کرنی ہے۔ غرضیکہ ہر انسانی ضرورت کے بارے میں واضح ہدایت موجود ہے۔ انسانی زندگی میں جو نئی چیزیں آرہی ہیں اسلامی احکامات کا علم رکھنے والے ان کے بارے میں ہدایات اسلام ہی سے پاتے ہیں۔ جس طرح انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک ہر بات کی ہر مسئلے کی راہنمائی موجود ہے اسی طرح والدین اور بچوں کے بارے میں بھی واضح ہدایات موجود ہیں۔ لیکن عجیب سی بات ہے عام طور پر تذکرہ یا تاکید صرف والین کے بارے میں ہوتی ہے۔

بچوں کا مقام تو ایک بیکار سی شے کی مانند ہے۔ جب چاہا مار لیا۔ جب چاہا ڈانٹ دیا۔ جب چاہا ڈرا دیا۔ جب چاہا جو مرضی کروا لیا۔ بچے پر والدین کے حقوق شروع ہونے سے بہت پہلے ہی بچوں کے حقوق والدین پر شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یوں لگتا ہے کہ جیسے بچوں کے حقوق کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ابھی لڑکی اور لڑکے کی شادی بھی نہیں ہوئ ہوتی۔ ابھی صرف یہ سوچا جا رہا ہوتا ہے کہ شادی کس سے کی جائے تو اسی وقت سے مستقبل میں ہونے والی اولاد جس کی روح ابھی دنیا میں آئی ہی نہیں اس کا حق اس کے ہونے والے باپ پر نافذ ہو جاتا ہے کہ وہ لڑکا جو کل کا باپ ہے شادی کیلئے نیک اور صالح لڑکی کا انتخاب کرے اور اس پر لازم ہے کہ لڑکی کا انتخاب اسلامی ہدایات کے مطابق کرے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ کل قیامت کے دن اس کے بچے اس کی شکایت کریں کہ ہمارے باپ نے ایسی عورت سے شادی کی جو دیندار نہ تھی اور ہماری ماں نے ہماری اسلامی تعلیم و تربیت نہ کی۔ ہم گناہ کرتے رہے لہٰذا آج ہمارے باپ کو بھی ہمارے ساتھ جہنم میں بھیجا جائے۔ ان لوگوں کیلئے غور کا مقام ہے جنہیں اولاد کے حقوق کا کبھی احساس نہیں ہوتا۔

اور جب کوئی شادی کیلئے اسلامی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نیک اور صالح لڑکی کا انتخاب کرتا ہے تو درحقیقت دنیا، قبر اور قبر کے بعد کی آنے والی زندگی کی بیشمار خوشیوں کا دروازہ نہ صرف اس پر بلکہ اس کے تمام کنبے پر کھل جاتا ھے۔ اسلامی ہدایات کی روشنی میں ایک نیک لڑکی اس کی بیوی بنتی ہے تو یہی نیک لڑکی اس کے بچوں کی ماں بنتی ہے اور یہ ماں اپنے خاوند کے شانہ بشانہ بچوں کی تربیت کرتی ہے تو یہ بچے انڈین گانوں پر رقص کرنے کی بجائے تلاوت اور نعت سن کر جھومتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب عام طور پر بچے بڑے ھوتے ھیں تو اکثریت کو دین چھہ کلمے پڑھنے، بچپن میں ایک دفعہ قرآن پڑھنے، چند سورتیں پڑھنے اور بڑے ہو کرجمعہ اور عید کی نماز پڑھنے تک محدود ہوتا ہے۔ کچھ اس سے بہتر بھی ہوتے ہیں وہ نماز روزے کے پابند ہوتے ہیں اور اس سے آگے کی سمجھ تو خوش نصیبوں کو ہوتی ہے جن کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دین کی آخری حد ان کی نماز نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی نماز تو ایک ایسا ستون ہوتی ہے جس پر وہ تمام عمر ایک مسحور کن دینی عمارت بناتے ہی جاتے ہیں اور پھر اس وقت جب اکثر والدین اپنی اولاد کی بدولت طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی نافرمانیوں کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ہی لگائے ہوئے پودے کا کڑوا پھل کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ والدین جنہوں نے شادی کے وقت اسلامی اصولوں کو مدِّنظر رکھا تھا یہ اپنے بچوں کی فرمانبرداری کا لطف اٹھاتے ہیں۔ جب یہ والدین دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ان کی اولاد دین سے بیگانے والدین کی اولاد کی طرح گناہِ جاریہ نہیں بلکہ صدقہ جاریھ بنتی ہے۔ اچھی اولاد کے اچھے چال چلن کی بدولت قبر اور محشر میں رحمت ان کا نصیب بنتی ہے۔ ایک خوبصورت نظام ہے۔ والدین بچوں کی اسلامی تربیت کرتے ہیں اور ان کا بچہ ایک اچھا مسلمان بن کر اپنے والدین کی خدمت بھی کرتا ہے اور ایک مفید شہری بھی بنتا ہے۔ ذرا ماضی پر نظر دوڑائیں۔ والدین نیک تھے تو بچے بھی ان کی تصویر بنے اور جب ان بچوں نے معاشرے میں باگ دوڑ سنبھالی تو مسلمانوں کے عروج کی کہانیاں تاریخ کا حصہ بن گئیں لیکن آج کے والدین بدل گئے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ آج ہمارے اکثر مسائل ایسے ہی والدین کی مرہھون منت ہیں۔ خود بھی دین سے بیگانے اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اولاد بھی ان کی تصویر۔ صرف یہاں تک نہیں بلکہ ایسی مثالیں موجود ھیں کہ بچے نے کسی اچھے کی وجہ سے اچھے اعمال کرنے کی کوشش کی تو گھر والوں نے بچے کی سخت مخالفت کی۔ فرمایا کہ ابھی تم جوان ہو، یہ کام بڑھاپے میں کرنے کے ہیں۔ اکثر والدین کا کردار بچوں کے حوالے سے صرف اتنا ہے کہ کھانے پینے اور پہننے کو دے دیا۔ جب چاہا مار لیا۔ بچے بڑے ہوئے تو شادی کر دی۔ بچے کس نے کس لئے دیے ہیں ۔ اولین مقصد کیا ہے۔ یہ ذہنوں سے نکل چکا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آجکل اکثر لوگ ایسے ہیں جو بچوں کی نامناسب حرکتوں سے پریشان رہتے ہیں۔ شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنی ساری زندگی کے اہم فیصلوں میں باقی سب کام کرتے ہیں لیکن تمام زندگی ایک فرض کی طرح اسلام سے فاصلہ قائم رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بڑی بڑی ڈگریاں تو لے دے دیتے ہیں لیکن اسلامی احکام نہیں سکھاتے۔ جب ایسے لوگوں کو اولاد کے برے کردار کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے ہی لگائے ہوئے پودے کا کڑوا پھل کھانا پڑتا ہے تو اولاد کا کوستے وقت انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کیا انہوں نے اپنی اولاد کو ان کا پہلا حق دیا تھا۔ کیا بچپن میں ان کی اسلامی تربیت کا اہتمام کیا تھا اگر جواب نفی میں ہے تو پھراس روایت کو یاد رکھیں کہ جس نے اپنی اولاد کی دینی تربیت نہیں کی اس کا اپنی اولاد سے فرمانبرداری کی امید رکھنا حماقت ہے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 112538 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More