عوام کے مسائل سرکار کی بے حسی کا شکار !

ا س جمہوری ملک کے کروڑوں لوگ قحط ،پانی کی قلت اور مہنگائی جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہورہے ہیں،انھیں روز مرہ کی زندگی جینا دشوار ہوگیا ہے،دیہی اورپہاڑی علاقوں میں اس قدر مسائل درپیش ہیں کہ یہاں رہنے والوں کی زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔کئی ریاستوں میں قحط کی زد میں کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے خودکشی کی راہ اپنائی ہے، جس کی وجہ سے مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں میں بھی کسانوں کی خودکشی کا تناسب بڑھ چکا ہے۔غریبوں اور امیروں کے درمیان حائل خلیج دن بہ دن وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔بھکمری اور فاقہ کشی کا قہر ملک میں ہر سو نظر آرہا ہے، جس کی زد میں بچے بوڑھے ہر عمر کے لوگ ہیں۔گزشتہ کچھ ماہ قبل ودھان سبھا اور راجیہ سبھا کے الیکشن میں ہر پارٹی کے لیڈران نے اپنی سحر انگیز تقریرسے لوگوں کو لبھانے والے وعدے کیے اور لوگوں سے یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ اب ’اچھے دن آنے والے ہیں‘۔ کانگریس اور راشٹروادی تو بڑے بڑے گھوٹالوں میں ملوث ہیں ، ان سے کوئی امید کرنا فضول ہے،اگر وہ عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتی تو وہ کرسکتی تھی، اب ان کی حالت اس کلب ناتواں جیسی ہے ، جو نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا ہے۔ان کے ہاتھوں سے اقتدار جانے کے بعد ان کا ذہنی توازن کھو چکا ہے، اب یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں کہ یہ سڑک پر اتر کر پتھر مارنا بھی شروع کردیں گے ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے دو چار کو نہیں بلکہ پورے ملک سے مخاطب ہوکر کہا ہے ،کہ ’اچھے دن آئیں گے ، اور ضرور آئیں گے‘ ابھی مرکز میں بی جے پی کی حکومت کو قائم ہونے میں چھ ماہ کاعرصہ گزرچکا ہے۔ مگر لوگو ں کی حالت میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ان کی معیاری زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔بلکہ مزید کئی نئے مسائل ڈراونی شکل بن کر عوام الناس کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔اس جمہوری ملک کے ہر گاؤں میں ،ہرریاست میں اور ہر سطح پر متفرق مسائل موجود ہیں، ان مسائل کو سرکار نے اور عوامی نمائندوں نے آگے بڑھ کر حل کرنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے ، ان کا اپنا فرض ہے۔مگر یہ سب بے حس لوگ ہیں ، ان کے کان پر جوں نہیں تک رینگتی۔

عوام کے چھاتی پر مونگ دل کر اور اپنے منہ میں دہی جما کربیٹھنے والے یہ تمام عوام نمائیندے خود کی تنخواہ یا بھتّہ میں اضافہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑنے والے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے والے،عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے پارلیمانی اجلاس میں کہرام مچا کر لوگوں کے مسائل کو بالا ئے طاق رکھنے والے تمام ایم ایل اے اور ایم پی اپنی رنجش اور اختلاف رائے سے کنارہ کش ہوکرایسے موقع پر متحد ہوکر اپنی تنخواہ اور بھتّے میں اضافے کی تجویز فوری طور پر منظور کرلیتے ہیں۔چار سال قبل ایم پی حضرات نے اپنی تنخواہ میں۰ ۳۰ فی صد تک اوربھتّہ میں دوگنا اضافہ کروا کرلیاتھا، مگر وہ بھی ان کے لیے کافی نہیں ہے، ایسی ان کی مانگ ہے، اس لیے اب انھیں مزید ۲۷ سہولیات اور زائد بھتّے کی خواہش ہے، اس وجہ سے اب تمام ایم ایل اے اور ایم پی متحد ہوگئے ہیں، مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے ایم ایل اے اور ایم پی کواپنی اپنی تنخواہوں اور بھتّوں سے لیکر تمام سہولیات میں اضافہ چاہیے۔ایم پی اور ایم ایل نے اپنی تنخواہوں اور بھتّوں میں اضافہ نہ کریں ایسا کہنے والا ایک بھی ایم ایل اے اور ایم پی نظر نہیں آرہاہے۔وہ بھی انسان ہیں اور انھیں بھی مہنگائی کی ضرب لگ رہی ہے، مگر عوام کو بھی اس مہنگائی کی ضرب برداشت کرنی پڑرہی ہے، پھر اس وقت یہ عوام نمائندے کہا جاتے ہیں؟، کہاں اپنا منہ چھپاتے ہیں؟خود کی تنخواہ اور بھتّوں میں اضافے کے لیے یہ سب متحد ہوتے ہیں،مگر عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ کیوں اپنے اتحاد کامظاہرہ نہیں کرتے۔مہنگائی نے عوام کو نڈھال کردیا ہے، مہنگائی کو کم کرنے کے لیے یہ لوگ کیوں پہل قدمی نہیں کرتے۔اگر عوام کے مسائل متحد ہوکر یہ حل کرنے کی کوشش کریں تو یقینا عوام کے یہ مسائل جلد از جلد حل ہوسکتے ہیں اور عوام کو اس کا فائد ہ ہوسکتا ہے۔خود کی تنخواہ اور بھتّے کو جس طرح پارلیمنٹ میں فوری طور پر منظور کیا جاتا ہے، اس طرح عوام کے مسائل کو پارلیمنٹ میں فوری طرح کیوں منظور نہیں کیا جا تا ہے؟انھیں کیوں سالوں سال سر د خانوں میں رکھا جاتا ہے۔

ایم پی کی تنخواہ اور بھتّوں پر غوروخوض کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے اب مزید ۲۷ نئے سہولیات اور مطالبوں کی ایک فہرست سرکار کے سامنے پیش کر دی ہے۔فی الحال ایم پی حضرات کو رعایتی داموں پر گاڑیوں کے لیے قرض دیا جائے گا۔دہلی میں انھیں مفت میں سرکاری فلیٹ یا رعاتی داموں پر سرکاری بنگلہ دیا جارہا ہے۔اب انھیں کم شرح سود پر ہاؤسنگ لون کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ تما م ریاستوں کی راجدھانیوں میں ممبر آف پارلیمنٹ کے لیے گیسٹ ہاؤس کی شاندار سہولت بھی چاہیے، ایسا انھوں نے اپنا مطالبہ پیش کیا ہے۔فی الحال ہر ایم پی کو ۴۰ہزار روپئے بھتہ ملتا ہے، اس میں مزید اضافہ ہو ایسی کمیٹی کی مانگ ہے، اسی طرح ایم پی کے پرسنل اسسٹنٹ کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا جائے گا، ایسا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔سابق ایم پی کو فی الحال ۲۰ہزارروپئے پنشن ملتی ہے، اس میں اضافہ کرکے ۳۵ہزار تک کرنے کے لیے سرکار غور وخوض کر رہی ہے۔اس تعلق سے پارلیمانی کمیٹی نے ماہ ستمبر سے اب تک تین میٹنگ لے کر اپنی رپورٹ یامطالبات کو سرکار کے سامنے پیش کیا ہے۔پارلیمنٹ میں یہ تجویز پیش ہونے کے بعدبلا تاخیر یہ منظورکی جائے گی۔عوام کی بس اتنی خواہش ہے کہ وہ عوام کے مسائل پر بھی اسی طرح کی بیداری کا ثبوت دیں تو عوام کے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہوسکتے ہیں۔مگر افسوس عوام کے مسائل سرکار کی بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں۔
Mohd.Husain Sahil
About the Author: Mohd.Husain Sahil Read More Articles by Mohd.Husain Sahil: 5 Articles with 4122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.