دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی

آل انڈیاپرسنل لاء بورڈ کا 24واں اجلاس عام مورخہ 22-21؍مارچ2015 جامعۃ الہدایہ جے پور میں منعقد ہونے جارہاہے ۔ بورڈ کی تشکیل 7؍اپریل 1973میں حیدرآباد کے کنونشن میں عمل میں آئی تھی اس سے قبل 28-27دسمبر 1972کو ممبئی میں ایک اجلاس میں قیام بورڈ کی قرارداد پاس ہوچکی تھی ۔ بورڈ کی تشکیل میں اس وقت کے جید علماء اور اکابر دانشوران شریک تھے اور تقریبا ہرء مسلک کی نمائندگی بھی تھی ۔بورڈ کے قیام کا اصل محرک پارلیمنٹ میں متبنیٰ بل کو پاس کرانے کی کوشش تھی جس کے تحت گود لئے بچے کو بھی وراثت میں تمام حقوق حاصل ہیں۔ پارلیمنٹ کی جانب سے اس قانون سازی کو مسلم شریعت میں مداخلت تصور کیا گیا اور مسلمانان ہند کے اجماع نے اسے خارج کردیا۔ بورڈ نے اپنی تشکیل کے فوراً بعد اس معاملے پربھر پور تحریک چلائی اور بالآخر مسلمان اس قانون کے دائرکارسے مستثنیٰ کردیئے گئے ۔ گو کہ یہ قانون آج بھی نافذ العمل ہے اور اس پر مزید قوانین کا اضافہ بھی کیا جاچکا ہے لیکن بورڈ کی کاوشوں سے مسلمان اس وقت قانون کی گرفت سے باہر ہیں ۔ بورڈ کے قیام اور اس کی اس کامیاب تحریک کے پیش نظر مسلمانان ہند نے سکون کا سانس لیا تھاکہ اب ہندوستان میں شریعت اسلامی کے تحفظ کے لئے تمام مسالک کے علماء اتحاد و اتفاق کے ساتھ ایک میز پر بیٹھیں گے اور نہ صرف شریعت مطہرہ کو تحفظ فراہم کریں گے بلکہ تدوین دین کا اجتماعی فریضہ بھی انجام دیں گے ۔ اور بورڈ مسلمانوں کا ایک ایسا متفقہ ،متحدہ اور مشترکہ پلیٹ فارم ہوگا جو ایک پریشر گروپ کی طرح کام کرتے ہوئے حکومت ہند پر ہر وقت دباؤ بنائے رکھے گا کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کر ے جس سے شریعت ایکٹ 1937کی نفی ہوتی ہو۔ واضح رہے کہ دستور ہند کی دفعہ 44اس شریعت ایکٹ 1937سے پورے طور پر متصادم ہے ۔کیونکہ جہاں ایک طرف شریعت ایکٹ یہ کہتا ہے کہ’’ جہاں دونوں فریق مسلمان ہوں وہاں عائلی تنازعات کے فیصلے کے لئے شریعت ایکٹ نافذ ہوگا‘‘۔ جبکہ دستور ہند کی دفعہ 44کہتی ہے کہ ’’حکومت ہند کی ذمے داری ہوگی کہ وہ مسلسل ایسا ماحول تیار کرنے کی کوششیں کرتی رہیں کہ بالآخر ملک کے تمام طبقات ایک یکساں سول کوڈ کو اختیار کرنے پر آمادہ ہوجائیں‘‘۔ گویا شریعت ایکٹ کی ضرورت ہی ختم ہوجائے ۔ اس دفعہ کی موجودگی میں مسلمانوں کے اسلامی عائلی نظام پر ہر وقت ایک تلوار لٹکی رہتی ہے کہ جانے کس وقت حکومت ایک یونیفارم سول کوڈ پیش کردے ۔ مسلمانوں نے روز اول سے ہی یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے دستور اساسی کے صفحہ اول پر ہی تحریر کیا ہے کہ ’’ ملک کی آزادی کے بعد ہی سے ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء میں ترمیم و تغیر کی بات شروع کردی گئی اور پرسنل لاء کو ختم کردینے اور یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی تائید میں آوازیں اٹھائی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ اس محاذ پر مسلسل کاوش کی گئی یہانتک کہ بالواسطہ قانون سازی کے ذریعے مسلم پرسنل لاء کو ختم کر کے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا راستہ ہموار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جانے لگی۔‘‘

مذکورہ اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دفعہ 44کی وجہ سے مسلمانان ہند اپنے عائلی قوانین کو لے کر فکر مند رہے ہیں اور اسے بچانے کی جدو جہد آزادی سے پہلے بھی کی جاتی رہی ہے بورڈ سے پہلے یہ کاوشیں کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے ہر حال میں جاری تھیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ دستور کے نافذ ہوجانے کے بعد 1971تک حکومت نہ تو شریعت ایکٹ میں کسی تبدیلی کی جرأت کر سکی اور نہ ہی یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی بات ہی کرسکی۔دوسری بات یہ ہے کہ جس یونیفارم سول کوڈ سے اس قدر دہشت محسوس کی جارہی ہے وہ ہے کیا۔ آج 67سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی حکومت، کوئی سیاسی جماعت ، کوئی سماجی گروہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یونیفارم سول کوڈ ہوگا کیا؟ کیا وہ صرف ہندو قوانین پرمشتمل ہوگا؟ کیا اس سے سکھ ، عیسائی، جین ، قبائلی اور دلت متاثر نہ ہونگے۔ ہندوستان مختلف مذاہب ، مکاتب فکر ، طبقات اور ذاتوں اور قبیلوں پر مشتمل ملک ہے اس میں محض ہندو اور مسلمان نہیں رہتے ۔ سب ہی طبقات کے الگ الگ رسوم ورواج ہیں۔ قوانین ہیں ، ضابطے ہیں ، شادی بیاہ، طلاق جائیداد ووراثت کے قوانین سب کے ہی مختلف ہیں اور تقریباً ہر طبقہ اپنے عائلی نظام کو لے کر حساس ہے ۔ ایسے میں یہ خدشہ صرف مسلمانوں کو ہی کیوں لاحق ہے کہ یونیفارم سول کوڈ سے شریعت پر عمل آوری کی راہ مسدودہوجائیگی ۔ نیز جو لوگ حکومت ہند او رملک کی فسطائی ذہنیت سے اس قدر خائف ہیں انہوں نے آج تک یہ سوال کیوں نہیں کیاکہ یکساں سول کوڈکیا ہوگا۔ کون با اختیار ہوگا کہ وہ اس سول کوڈ کا خاکہ پیش کرسکے ۔ کیا حکومت ہند اس کا خاکہ پیش کرے گی یا حکومت کی تشکیل کردہ کوئی کمیٹی یا کمیشن اس کا خاکہ تیار کرے گا ۔ یا کوئی عوامی تنظیم اس کی ذمے داری لے گی ۔ آخر کون کرے گا۔ کب کرے گا او رکیسے کرے گا اور کیا کرے گا؟ ان میں سے کوئی سوال مسلمانوں کے کسی ادارے ، انجمن یا بورڈ نے آج تک عوامی سطح پر نہیں کیا ، بس ہم سب ایک زبان سے پکار اٹھتے ہیں کہ ہمیں یکساں سول کوڈ منظور نہیں ہے۔ کسی چیز کو جانے پہچانے بغیر اس کا انکار ہر قسم کے عقلی تقاضوں سے بعید ہے ۔ اگر ہم نے انکار کے بجائے سوال کیا ہوتا تو یقین جانیئے اتنی متنوع سماج میں اس سوال کا جواب کسی سے بن نہ پڑے گا ۔ عملاً اس ملک میں کسی یکساں سول کوڈ کو وجود ممکن ہی نہیں ہے ۔ اسی لئے دستور میں دفعہ 44کی موجودگی کے باوجود آج تک یکساں سول کوڈ کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا جاسکا ۔ اگر موجودہ اور سابقہ حکومتوں سے یہ سوال کیا جائے کہ گزشتہ 67سال میں دفعہ44کے حصول کے لئے حکومتوں نے کیا کارکردگی انجام دی ہے یا اس جانب کیا پیش رفت ہوئی تو کوئی بھی حکومت اس کا معقول جواب دینے سے قاصر ہوگی۔ایسے میں محض مفروضے کی بنیاد پر پوری امت کو ملک کی دیگر اقوام کی حریف بنادینا کوئی عقل مندی نہیں ہے ۔

متبنیٰبل کے بعد 1986میں شاہ بانوکیس سامنے آیا اس وقت بھی بورڈ نے ایک شدید تحریک چلا کر پارلیمنٹ میں قانونی تبدیلی کروانے کی کامیابی حاصل کی مگر یہ کامیابی بھی ادھوری رہی کہ اکثر عدالتیں اس قانونی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر من مانے فیصلے کر رہی ہے ۔ تیسری تحریک بابری مسجد کی بازیابی کی تحریک ہے جس میں بورڈ نے قانونی لڑائی کو اس وقت اپنے ہاتھ میں لیا جب کہ مسجد شہید ہوگئی تھی اور جو قانونی لڑائی بورڈ نے لڑی اس کے بارے میں لبراہن کمیشن کی رپورٹ اور اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے جج جسٹس صغیر احمد نے اپنے فیصلے میں بورڈ کے وکیل کا نام لے کر منفی تبصرے کئے ہیں اور کہا کہ یہ وکیل عدالت کے سامنے وافر دستا ویزات پیش کرنے میں ناکام رہے اور یہ کہ کیس پیش کرنے میں بھی ناکام رہے ۔اس سلسلے میں قابل غور امر یہ بھی ہے کہ ملک میں ایسے بہت سے نامور وکیل موجود ہیں جوا س مقدمے کو بورڈ کی جانب سے مفت لڑنا چاہتے تھے مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا معروف وکیل سدھارتھ شنکر رے ان میں سے ایک نام ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن آرزوں امیدوں اور تمناؤں و توقعات کا ساتھ بورڈ کا خیر مقدم کیا تھا اور واقعہ یہ ہیکہ بورڈ کی ملک کو اشد ضرورت ہے مگر بورڈ ان توقعات کو پورا کرنے میں ناکام کیوں نظر آرہا ہے ۔ بورڈ کا دستور بظاہر ایک جمہوری دستور ہے جس میں ہر چار سال کی مدت کے بعد انتخاب کی گنجائش موجود ہے مگر گذشتہ 42سال میں بورڈ کو محض چارہی صدور میسر آسکے جو اپنی اپنی وفات تک بورڈ کے صدر ہے ۔ اس طرح گزشتہ 42سال میں بورڈ کو کل دو جنر ل سیکریٹری نصیب ہوئے ان میں ایک اپنی عمر اور شدید علالت کے باوجود ابھی تک جنرل سیکریٹری ہیں اسی طرح سیکریٹر ی بھی تقریباً سب ہی تاحیات ہو چکے ہیں ۔ نیز اراکین عاملہ کی بھی بڑی تعداد تاحیات ہی لگتی ہے ۔میقاتی ارکان میں بھی کسی تبدیلی کی گنجائش کسی رکن کی وفات کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے ۔گزشتہ 42سال میں بوورڈ کے علی الرغم ’’علماء ومشائخ بورڈ‘‘ ، آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ اور خواتین پرسنل لاء بورڈ جیسے دیگر بورڈ بھی اس لئے سامنے آگئے کہ احناف کے علاوہ دوسرے مسلکوں کے علماء کو قرار واقعی نمائندگی نہیں مل سکی ۔ مولانا علی میاں ندویؒ کی رحلت کے بعد جب صدارت کامسئلہ سامنے آیا تو مولانا کلب صادق صاحب کا نام بھی ذکر میں آیا مگر بورڈ کے ایک بہت سینئر رکن عاملہ نے فرمادیا کہ کاش وہ سنی ہوتے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بورڈ میں محض نائب صدور کے عہدوں پر نمائشی نمائندگی دے کر ہی بورڈ کو مشترکہ پلیٹ فارم بتا دیا جاتاہے۔ وگرنہ ہر مسلک کے علماء کو یک بعد دیگرے اس عہدۂ جلیلہ پر فائز کیوں نہیں کیا جاتا۔ نیز بورڈ کےء دیگر عہدوں اور اراکین میں بھی دیگر مسالک کے لوگوں کی متناسب نمائندگی کیوں نہیں ہے۔محض لیاقت اور صلاحیت کا واسطہ دے کر بورڈ کو احناف کے قبضے میں ہی کیوں دے دیا گیا ہے ۔پتہ نہیں ارباب بورڈ امت مسلمہ ہند کو بانجھ کیوں سمجھتے ہیں۔ ملک میں آج بھی بڑے بڑے دانشوراور علماء موجود ہیں جوانتہائی اخلاص کے ساتھ دفتر سے سڑک تک کام کرتے ہیں اور نتیجہ خیز کام کرتے ہیں مگر وہ بورڈ میں شریک ارکان کے منظور نظر نہ ہونے کی وجہ سے کبھی بورڈ میں شریک نہیں کئے گئے ۔ اس طرح بورڈ نئے جوش ، تازہ خون اور نئی افکار سے محروم رہ کر محض آدھی ادھوری خانہ پری سے ہی کام چلا رہا ہے ۔ خود بورڈ کے اپنے کئے ہوئے فیصلوں پر کوئی عمل در آمد نہیں ہور ہا ہے۔ عدالتیں روز غیر شرعی فیصلے کررہی ہیں مگر بورڈ نے اب تک کتنے مقدمات خود عدالتوں میں داخل کئے ہیں ؟ اصلاح معاشرہ کی تحریک کا کیا انجام ہوا دار القضاء کے ملک کے گوشے گوشے میں قائم کرنے کے فیصلے کا کیا حشر ہوا ؟بورڈ کے قیام سے ابتک شریعت لاء کی تدوین (Codification of Muslim law)کا کام باقی ہے۔ سید شہاب الدین صاحب کے باربار متوجہ کرنے کے باوجود اسی ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور اس تساہلی کا نتیجہ ہے کہ ملک کی مختلف عدالتیں روز خلاف اسلام فیصلے دے رہی ہیں ۔ الغرض بور ڈ اپنے فرائض منصبی سے تو لاپرواہ ہوچکا ہے مگر سیاسی نوعیتکے معاملات کو بورڈ میں گھسیٹ کر خود اپنا قد بلند کرنے کی زیادہ فکر کررہے ہیں ۔ ابھی حالیہ اجلاس عام میں بھی سننے میں آرہا ہے کہ گؤ ذبیحہ اور ہر قسم کے ذبیحے پر قانونی پابندی کی جو بحث ملک میں جاری ہے بورڈ کے کچھ ارکان اس معاملے میں بھی بورڈ کو گھسیٹنا چاہتے ہیں حالانکہ کلی طور پر یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس کا مسلمانوں کے عائلی نظام سے کچھ تعلق نہیں اور اسی اعتبار سے بور ڈ کے دائر کار میں بھی نہیں آتا۔ لیکن اگر بورڈ نے اس قسم کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی تو یقینا یہ ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا اور ہندو مسلم اشرارجو ملک کو فرقہ واریت کی بھٹی میں جھونکنے کے لئے مستقل سرگرم عمل ہیں ان کے ہاتھ مزید مضبوط ہوجائیں گے ۔ بورڈ کے ذمے داران کی پہلی ذمے داری ہے کہ بورڈ کی اہمیت کسی طور پر کم نہ ہونے دیں۔ اس میں سرگرم اور مخلص افرادِ امت کے لئے وسعت پیدا کریں۔ شرعی امور کے دائرے سے باہر قدم نہ نکالیں ۔ مسلمانوں کوشک اور خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنے سے گریز کریں ۔1947کی ذہنیت سے نہ سوچ کر 2015میں ہی جیئیں۔ بلاشبہ اس طریقے سے نہ صرف تحفظ شریعت کی اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہوگا۔ بلکہ ملک کی فرقہ وارانہ یکجہتی کے قیام میں بھی ممدومددگار ثابت ہوسکے گا۔
Safi Rahman
About the Author: Safi Rahman Read More Articles by Safi Rahman: 15 Articles with 8680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.