ترقی کا سفر چین کے سنگ

چین معیشت، دفاع، ٹیکنالوجی، سماجی، سائنسی اور زرعی شعبوں سمیت تمام شعبہائے زندگی میں اپنی کامیابیوں کا لوہا منوا چکا ہے۔ دور حاضر کی امیر ترین اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل مغربی ریاستوں کے تھنک ٹینکس بھی چین کی برق رفتار ترقی پر انگشت بدنداں ہیں۔ اقوامِ عالم کی حالیہ تاریخ میں یوں تو کئی ملکوں نے ترقی کے مراحل طے کیے ہیں، لیکن جس طرح عوامی جمہوریہ چین نے خود کو گزشتہ دو اڑھائی عشروں میں ایک علاقائی قوت سے عالمی طاقت میں تبدیل کیا ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس پر دنیا بھر کے ماہرین حیران ہےں۔ 1 ارب 35 کروڑ 73 لاکھ 80 ہزار افراد پر مشتمل چین نے محض گزشتہ 25 برسوں کے اندر اپنے 50 کروڑ شہریوں کو خط افلاس سے نکال کر متوسط طبقے میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا اقتصادی معجزہ ہے، جس پر دنیا بھر کے معاشی ماہرین محو حیرت ہیں۔ چین نے معجزانہ طور پر ترقی کی منازل طے کی ہیں، اسی لیے گزشتہ سال 142 برسوں بعد پہلی مرتبہ امریکا کا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کا اعزاز صرف چین ہی چھیننے میں کامیاب ہوا ہے۔ چین کی معیشت اب تقریباً 17.6 کھرب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو کہ امریکا کی 17.4 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ چین دنیا میں خام ملکی پیداوار کے حساب سے چوتھا ملک ہے اور تیزی سے مزید ترقی کر رہا ہے۔ اگر چین ایسے ہی ترقی کرتا رہا تو جلد ہی اسے دنیا کی ایک عظیم طاقت (Power Super) تسلیم کرنا پڑے گا۔ چین ایک اشتراکی (Socialist) ملک ہے، مگر اس کی ستر فیصد خام ملکی پیداوار نجی شعبہ میں ہوتی ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جسے اپنے معاشرتی ڈھانچے کو تباہی سے بچانے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنی غیر ضروری ترقی پر روک لگانا پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی قوم دنیا میں اپنا معاشی مقام بنانے اور سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ملک میں مسلسل اصلاحات کرتی رہتی ہے۔ معاشی اشاریوں (Indicators) کے مطابق چین کی خام ملکی پیداوار کی تقسیم آبادی میں سب سے زیادہ مناسب ہے۔ 2006 میں چین کی خام ملکی پیداوار 1978 کی نسبت 10 گنا زیادہ تھی۔ چین کی ترقی کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چین میں 23000 سے زیادہ بند (ڈیم) ہیں۔ 2005 میں اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے 30 ارب امریکی ڈالر زیادہ تھیں۔ 2006 میں چین میں 70 ارب امریکی ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اسی سال چین دنیا میں سب سے بڑے زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے والا ملک بن گیا۔ تیزی سے ترقی کی وجہ سے 1981 سے 2001 کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد 53 فیصد سے کم ہو کر صرف آٹھ فیصد رہ گئی ہے۔

چین کے صدرڑی چنگ پنگ مارچ کے آخری ہفتے میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ وہ 23 مارچ کو اسلام آباد میں یوم پاکستان کی تقریب میںمہمان خصوصی کے طور پر شرکت کریں گے۔ اپنے قیام کے دوران چینی صدرگوادر میں جاکر پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے قیام کی عظیم بین الاقوامی شاہراہ کی تعمیر کا افتتاح بھی کریں گے۔ چینی صدر کے دورے کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے چین کے وزیر خارجہ فروری میں پاکستا ن کا دورہ کر چکے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے دورہ ¿ پاکستان کے موقع پراس امر کی یقین دہانی کرائی کہ چائنا پاکستان کے ساتھ معاشی سے لے کر سیکورٹی کے امور تک اپنا بھر پور تعاون جاری رکھے گا۔ حالات کی کوئی اونچ نیچ، پیچ و خم ان دونوں ممالک کے مابین انتہائی گہرے اور مستحکم تعلقات پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ پاکستان اور چائنا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر پیش قدمی جاری رکھیں گے اور چائنا اس سلسلے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ چائنا ہر حالت میں پاکستان سے اپنے دوستانہ روابط برقرار رکھے گا۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاک چین تعلقات گزشتہ کئی عشروں سے دنیا بھر میں مثالی نوعیت اختیار کر چکے ہیں، کیونکہ اس دوستی کو نہ تو بدلتے ہوئے موسم متاثر کر سکے اور نہ ہی داخلی، علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں اس مثالی دوستی پر اثر انداز ہو سکیں ہیں۔ چین کے سابق صدر ”ہوجن تاﺅ“ نے چند برس قبل اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران کہا تھا: ”پاک چین دوستی نہ صرف سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے، بلکہ یہ شہد سے زیادہ مٹھاس پر مبنی ہے“۔ جبکہ 2013 کو اپنے دورہ پاکستان کے دوران اس مثالی دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے چینی وزیر اعظم نے پاکستانی دوستی کو سونے سے زیادہ قیمتی اثاثہ قرار دیا تھا۔ چین اور پاکستان دیرینہ دوست ہیں۔ چین ہر شعبے میں معاونت کرکے پاک چین دوستی کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ چین کی معاونت سے شروع کیے گئے کئی میگاانفراسٹرکچر پراجیکٹس نے پاکستان کی معاشی اور دفاعی شعبے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان میں گو ادر بندرگاہ کا اہم ترین منصوبہ بھی شامل ہے۔

یہ بات بالکل بجا ہے کہ چین کی معاونت سے پاکستان میں بہت سے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں، لیکن اب پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ چین کی عقل دنگ کردینے والی اقتصادی، معاشی، دفاعی اور سائنسی ترقی کے بنیادی اسباب پر ریسرچ کرکے اسے پاکستان میں قابل تقلید بنائیں۔ اگر پاکستانی حکمران چین کے ساتھ دوستی اور اس کی معاونت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے چین کے نقش قدم پر چلیں تو پاکستان بھی چین کی طرح ترقی کا سفر تیزی کے ساتھ طے کر سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات رہائش، روزگار، تعلیمی و طبی سہولیات، سوشل سیکورٹی اور مواصلات سمیت چھ سات ہی ہوتی ہیں، جن کے شعبوں کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ ان چند شعبوں کو چلانے کے لیے پاکستان میں وزرا کی ایک بڑی سی فوج ہے۔ اس کے باوجود پاکستان ترقی کا سفر طے کرتے دکھائی نہیں دیتا، بلکہ صرف صاحب اقتدار طبقہ ترقی کر رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس سرے سے نہ تو کوئی ”ویژن“ ہے اور نہ ہی وہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہی چاہتے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ چین، جس کا رقبہ پاکستان سے پانچ گنا تا آٹھ گنا ہے اور آبادی پاکستان سے کئی گناہ زیادہ یعنی ایک ارب 40 کروڑ ہے، اس قدر بڑے ملک کو چلانے والے وزرا کی کل تعداد نصف صد سے بھی کم ہے۔ یہ نصف صد وزرا ہی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کا ملک سنبھال کر نہ صرف تیز تر ترقی کر رہے ہیں، بلکہ ہمارے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں وزرا کی ایک فوج ہونے کے باوجود کچھ بن نہیں پڑتا۔ چین میں بھی ہماری طرح ”انسان“ ہی آباد ہیں۔ جب چین ایک ارب 40کروڑ آبادی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کا لوہا منوا سکتا ہے تو کیا ہمارے حکمران چینی دوستوں سے ترقی کا ”بھید“ معلوم کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکتے؟
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 639143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.