شیعہ سنی محاذ جنگ ۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فرمان خداوندی ہے «وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعَاً وَلَا تَفَرَّقُواْ» (سوره آل عمران: 103) کہ اے مسلمانو! اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا۔
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔

سوریہ (شام) میں عوامی انقلاب کو کچلنے اور ایک ڈکٹیٹر کی کرسی کو بچانے کیلئے شیعہ عسکری تنظیم کہ جو اب تک یہودیوں سے بر سر پیکار تھی ، میدان جنگ میں اتر آ ئی ہےاور شامی فوج کی مدد کیلئے کسی بھی کاروائی سے دریغ نہیں کر رہی، سنی معصوم عوام اور مظلوم مجاہدین پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ یہ خبر ایک حربے کے طور پر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی گئی مگر اس کے بعد کیا ہوا کہ جن کو اسرئیلی میڈ خبر ساز ادارے معصوم عوام یا مظلوم مجاہدین کہ رہے تھے ، ان کے کارنامے ساری دنیا کے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ جب انہوں نے جھاد النکاح جیسا غیر اسلامی عمل اور اسلام کے ماتھے کا بد نما داغ اوراسلامی تاریخ کا بھیانک باب اسلام جیسے پاکیزہ مذہب کے نام پر شروع کیا کہ جس عمل کی اسلام میں گنجائش تو در کنار ،تصور تک کرنا محال ہے اور صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ سنی ، شیعہ ، عیسائی اور دوسرے غیر مسلم مردوں ، عورتوں اور بچوں کے سر قلم کرنا شروع کئے اور نہ صرف شیعوں بلکہ سنی قبائل پر حملے کر کے ان کی عورتوں کو لونڈیاں قرار دینے لگے تو دنیا کو ان کی حقیقت معلوم ہوئی کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تو اسلام جیسے پاک و پاکیزہ مذہب کو بد نام کرنے اور اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنے کے درپے ہیں۔

کچھ عرصے کے بعد جب اس گروہ نے عراق پر چڑھائی کی اور اسلامک اسٹیٹ بنانے کا نعرہ لگایا توسنی قبائل نے ان لوگوں کا سنی سمجھ کر بھر پور ساتھ دیا لیکن کچھ ہی عرصے میں یہ سنی قبائل بھی اس بات کوجان گئے کہ یہ کسی قسم کا شیعہ سنی محاذ نہیں ہے اسی لئے کردوں نے ان کے خلاف مزاحمت اور اپنے علاقوں میں نہ صرف ان کو گھسنے نہیں دیا بلکہ وہاں سے ان کو برے طریقے سے شکست دے کر مار بھگایا۔

ایرانی سپاہ پاسداران اور القدس فورس کی عراقی فوج کی مدد سے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہونے لگا کہ یہ جنگ، شیعہ سنی جنگ ہے اور عراق میں شیعہ ،سنی مسلمانوں کے مابین محاذ کھل گیا ہے۔ لیکن جب عام آدمی دیکھتا ہے کہ عراقی فوج کی مدد کیلئے صرف ایرانی نہیں بلکہ عراقی عوام ، سنی قبائل کے جنگجو بلکہ عیسائی جنگجو بھی شامل ہیں تو اب یہ بات ہضم کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ اس شیعہ سنی محاذ میں ایک طرف پوری دنیا سے جمع ہونے والے(نام نہاد) مجاہدین کا وجود اور دوسری طرف اس علاقے کی تمام نمائندہ جماعتیں چاہے وہ سنی ہوں ، شیعہ ہوں یا غیر مسلم اس کی حقیقت کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہیں کہ یہاں شیعہ ،سنی جنگ نہیں بلکہ معاملہ کچھ اور ہے اور اس ساری کہانی کے پیچھے کچھ مخصوص مفادات پوشیدہ ہیں۔

جس طرح پاکستان نے مجاہدین تیار کر کے افغانستان میں جہاد کیلئے بھیجے تھے اسی طرح اس جنگ میں ترکی اور سعودی عرب نے مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ کے علاوہ زخمیوں کے علاج کی سہولیات فراہم کی ہیں۔ لیکن جب افغانستان سے مجاہدین واپس لوٹے تو پاکستان میں اس دن کے بعد سے امن ایک خواب سا بن کر رہ گیا ہے اسی طرح اب جبکہ عراق اور شام سے شکست کھا کریہ مجاہدین واپس پلٹ رہے ہیں تو ان دونوں ممالک کو شدید خطرات لاحق ہیں کہ جن کی گونج آج کل تمام پلیٹ فارم پر سنی جا رہی ہے اور یہ ممالک اپنے دوست ملکوں سے اس معاملے سے نمٹنے کیلئے مدد کے خواہاں ہیں۔

پاکستان میں شروع سے ہی بغیر کسی تفرقہ بازی کے شیعہ ،سنی علماء ،خود کش حملوں کی مذمت کرتے آ رہے ہیں اور ان لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔ لیکن علماء کا ایک محدود طبقہ ایسا بھی ہے جن کی ہمدردیاں اس گروہ کے ساتھ ہیں اور وہ علماء ان خود کش حملوں کو امریکی ڈرون حملوں یا پاکستان کی ہر دل عزیز افواج کی کاروائیوں کا رد عمل بیان کرتے ہیں ۔

یہ گروہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی بات کرتا ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام تلوار و بندوق کے زور پر نافذ کیا جائے گا؟ کیا اسلام کو یہ جاہل اسلحہ بردار لوگ نافذ کریں گے کہ جن کو اسلام کی بنیادی معلومات تک نہیں ہیں؟ کیا اسلام کو نافذ کرنے کیلئے مساجد، امام بارگاہوں ، مندروں اور گرجا گھروں پر حملے کرنا ضروری ہیں؟ یہ کون سا اسلام ہو گا جو بچوں کے سکولوں پر حملے کر کے بے گناہ معصوم جانوں کے خون سے ہولی کھیلے بغیر نافذ نہیں ہو سکتا؟ یہ کیسا اسلامی نظام ہو گا جس کو نافذ کرنے کیلئے سینما اور قحبہ خانے تو راستے کا پتھر نہیں ہیں مگر مسجد،امام بارگاہ، عبادت خانے اور علم و شعور کے مراکز ان کی راہ کے روڑے ہیں؟۔

میرے خیال میں مصر میں جو حکومت اخوان المسلمین نے قائم کی وہ ایک حد تک اسلامی تھی ۔ ٹھیک ہے کہ اس حکومت نے اسرائیل سے اپنے تعلقات خراب نہیں کئے تھے لیکن امریکہ و اسرائیل کی آنکھوں میں اس حکومت کا چبھنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حد تک یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں مسلمانوں کی بھلائی تھی، لیکن ان کے پاس محکم بنیادیں اور طویل المدت نظام کی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ نظام جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

اسلامی نظام حکومت کی ایک مثال ایران میں بھی موجود ہے کہ جس میں امریکی و یورپی حمایت یافتہ بادشاہت کو ختم کر کے اسلامی نظام نافذ کیا گیا، ۳۶ سال سے یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس اسلامی حکومت میں شیعہ مذہب کے مسلمانوں کے علاوہ سنی مسلمان اور غیر مسلم بھی رہتے ہیں۔ اس اسلامی حکومت میں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نظام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے آغاز سے اب تک یہ امریکہ و اسرائیل کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا آ رہا ہے اور ایران ،انقلاب سے لے کر آج تک امریکہ کی شدید پابندیوں کا شکار ہے اور آئے روز مختلف حیلوں بہانو ں سے ان پابندیوں کو سخت سے سخت تر کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ ایران کے ہی ایٹمی پلانٹ سے ہے کیونکہ ایران نے جو بھی اسلحہ بنایا ہے وہ مختلف جنگوں میں حزب اللہ، الفتح یا حماس نے اسرائیل پر استعمال کیا ہے اور کسی دور میں بھی یہ تفریق نہیں کی کہ جس تنظیم کی مدد کی جارہی ہے اس کا تعلق کون سے مذہبی فرقے سے ہے بلکہ یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں کا تعلق سنی فرقے سے ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ فلسطین کی سب سے زیادہ مدد ایران ہی کرتا ہے اور اسرائیل کو خطرہ ہے کہ اگر ایران ایٹم بم بنا لیتا ہے تو اس کا تجربہ اسرائیل پر ہی کرے گا۔

جہاں تک پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات ہے تو جو لوگ بھی یہ نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں بلکہ تمام لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ اسلامی نظام لانے کی کوشش کریں۔ اس نظام کے بنیادی اصول خواہ شیعہ فقہ پر استوار ہوں یا سنی فقہ پر، سنی فقہ میں سے خواہ فقہ شافعی کا نظام لاگو ہو یا فقہ حنبلی یا فقہ مالکی یا فقہ حنفی سے اس کو اخذ کیا جائےلیکن خدا را! یہ ایک ایسا نظام ہو جس میں تمام مسالک کی مساجد کے ساتھ ساتھ باقی غیر اسلامی ادیان کے عبادت خانے بھی محفوظ ہوں۔ایسا نظام جس میں لاری اڈے، ریلوے اسٹیشن، سکولوں اور ہسپتالوں میں خود کش حملے نہ ہوں۔اور لوگ خوراک اور روزگار کی کمی کا شکار ہو کر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں۔ ہاں ایسا ہی نظام ضروری ہے اور انشاء اللہ ایسا ہی نظام پاکستان میں نافذ ہو کر رہے گا۔
sajid khan
About the Author: sajid khan Read More Articles by sajid khan: 13 Articles with 9730 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.