مولانا صابر القادری باڑاوی علیہ الرحمہ کی شخصیت ۔متعدد خوبیوں کی جامع (یوم وصال 18مارچ

مولانا صابر القادری باڑاوی علیہ الرحمہ کی شخصیت ۔متعدد خوبیوں کی جامع (یوم وصال 18مارچ

سیتامڑھی کی سرزمین علم و فضل کی نامور ہستیوں سے آباد رہی ہے ،گیسوئے علم و فن کی مشاطگی میں جہاں بہار کے دیگر ارباب دانش و ناقدین فکر وادب کاخاص حصہ بنے وہیں سیتامڑھی کی کچھ ایسی شخصیات بھی ہیں جن کی علمی اور دینی تابندگی سے ،،عارض بہار ،،کی جاذبیت پر چار چاند لگے ہیں ۔افق علم پر بہت سی ہستیاں مثل آفتاب رونما ہوئیں اور جلوہ بکھیر کر ہم سے رخصت ہوگئیں ،لیکن ان کی علمی و دینی خدمات نجم ثاقب کی طرح مطلع شہود پر جگمگاتی رہیں گی ۔حضور صابر ملت مولانا صابر القادری باڑاوی علیہ الرحمہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو مذہبی درد اور تصلب فی الدین کے لئے ہمیشہ جانے جایئں گے ۔جنہوں نے زندگی کے قیمتی لمحات کو صرف اور قوم وملت کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا ۔آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا ۔آپ کی زندگی ریا اور تصنع سے پاک وصاف تھی ۔ آپ کو استاذ العلماء،استاذالشعراء،صابر ملت جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔

صابر ملت ،آزادی سے چند سال قبل 15اکتوبر 1944کو سیتامڑھی کی معروف علمی بستی ،،باڑا،،کے ایک زمیندار اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد محترم مولوی حاجی اسحاق صدیقی کا شمار بستی کے معز ز اور علمی اشخاص میں ہوتاتھا ۔وہ فارسی زبان کے زبردست عالم تھے،بایں وجہ صابر ملت کو فارسی زبان پربڑی گہری گرفت تھی جیسا کہ آپکے معزز شاگرد مفتی حسن رضا نوری صدر مفتی ادارہ شرعیہ پٹنہ بہاراپنی ایک مطبوعہ تحریر میں رقم طراز ہیں :
،،آپ کو فارسی زبان پر زبردست عبور حاصل تھا ۔آپ نے اس زمانے میں (1980)میں فارسی میں شاعری کی ۔آپ فارسی کی مروجہ کتابیں مثلا گلستاں بوستاں ،پند نامہ اور کریما سعدی کا حکیمانہ درس دیا کرتے تھے ۔،،
صابر ملت عہد طفولیت سے ہی بلند اقبالی ،عمدہ خیالی ،خوب سیرت ،نیک صورت ،خوش گو اور سنجیدہ مزاج کے حامل تھے ۔آپ بچپن سے کافی ذہین تھے آپ کی ذہانت کا چرچا بستی کے ہر فرد کی زباں پر تھا ۔آپ نے ابتدائی تعلیم بستی کے ایک مکتب میں حاصل کی ،آپ کی ذہانت و فطانت دیکھ کر الحاج مولوی عبد الرشید علیہ الرحمہ آپ کو بہت عزیز رکھتے ۔ان کے ہمعصر بتاتے ہیں کہ استاذ محترم کو صابر ملت پر بڑا ناز تھا وہ اکثر فر مایا کرتے کہ،، صابر ،، بڑا ہو کردین و ملت کا عظیم خدمت گار ہوگا اور یہ سچ ثابت ہو ا ۔آپ نے کئی مدرسے قائم کئے اور درس وتدریس کے ساتھ تحریر و تقریر ،دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا ،اور گم کشتگان راہ کو صراط مستقیم پر گامزن کیا ۔

ابتدائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد صابر ملت نے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے ہندوستان کے کے مختلف درسگاہوں کا رخ کیا اور 1970 میں اعلی تعلیم کی تکمیل کے بعد اجمیر شریف آگرہ فرخ آباد ،قنوج،ہزاری باغ، وغیرہ مرکزی مقامات پر تعلیمی خدمات میں مشغول رہے لیکن آپ کی تدریسی ،تنظیمی ،روحانی ،تبلیغی اور تعمیری خدمات کا خصوصی محور مظفرپور شہر رہا ،جہاں آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار دیا ۔ مظفرپور میں ان کی تدریسی خدمات کا آغاز معروف ادارہ دارالعلوم علیمیہ دامودرپور سے ہوتا ہے یہاں ایک عرصہ دراز تک طالبان علوم دینہ کو اپنے علمی فیضان سے سیراب کیا ۔وہاں سے الگ ہونے کے بعد مظفرپور ہی میں مفتی رفاقت علی علیہ الرحمہ کی تحریک پر مولانا سید الزماں حمدوی علیہ الرحمہ کے ساتھ مل کر محلہ امام گنج میں مدرسہ دینہ غوثیہ قائم کیا اور اس کو بام عروج تک پہونچایا ،اس کی تعمیرو ترقی میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کیں ۔آج بھی وہاں کے مقامی باشندوں کو آپ کی قربانی کا اعتراف ہے اس درمیان آپ نے یہ محسوس کیا کہ شہر کا مشرقی حصہ جہالت اور بے دینی کا شکار ہے لہذاس کے سد باب کے لئے کنہولی ڈیہہ نامی محلہ میں امامت کے لئے تشریف لائے ۔امامت کے دوران ہی آپ نے یہاں دین کا ایک عظیم قلعہ تعمیر کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور مسجد سے متصل زمین جو جنگلوں پر مشتمل تھا ،شام تو کیا دن کے اجالوں میں بھی کوئی اس طرف آنے کی ہمت نہیں کرتپاتھا،آپ نے جفا کشی محنت و ایمانداری اور صبر استقلال سے کام لیتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس ناموزوں اور ناہموار زمین کو رشک چمن بنادیا اور 1985میں جامعہ نوریہ معراج العلوم کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔ادارے کی بنیاد کے بعد سے نہ جانے کیسے کیسے مصائب و آلام آپ پر آتے رہے۔کبھی گالیوں کی بوچھار تو کبھی عزت نفس پر حملہ یہاں تک کہ جان سے مارے جانے کی دھمکیاں بھی ملیں لیکن آپ صبر واسقامت کے چٹان بنے رہے اوراپنے مشن کی جانب گامزن رہے ۔ادارہ کے فروغ کے لئے پید ل چل کر کبھی سائکل چلا کر ،دوردراز کا سفر کرکے چندہ فراہمی کرتے رہے اور مدرسہ کی ترویج ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کردیا ،آخر کار آپ کی محنت شاقہ رنگ لائی اور بہت کم عرصے میں ہی ادراہ کی فلک بوس عمارت تیار ہوگئی اور یہ ادارہ شہر میں ایک امتیازی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔جہاں سے آپ نے علم و ادب کا چراغ روشن کیا اور علم شریعت و معرفت کا درس دینے لگے ،آپ کے علم و فضل ،زہد وتقوی ،اخلاق و کردار ،مہمان نوازی ،علم دوستی اور تدریسی کمالات کا شہر ہ دوردور تک ہونے لگا ،طالبان علوم دینیہ اپنی تشنگی بجھانے کے لئے یہاں پہونچنے لگے ،علم و فضل کا چمن سبز و شاداب ہوگیا اوراپنے آپ کو اس کے لئے وقف کردیا ۔آپ نے دین حق کی ترویج و اشاعت اور مسلک اعلی حضرت کی نصر ت و حمایت کے لئے دعوت و تبلیغ ،خطابت تصنیف و تالیف کے علاوہ زندگی کا قیمتی حصہ درس و تدریس کی مقدس خدمت میں گزارے ہیں ۔آپ نے قوم وملت کو ہزاروں حفاظ ،علماء،ائمہ ،خطبائاور ادباءعطا کئے ہیں ،جو اپنے علم و فکر سے قوم کی خدمت میں مصروف کار ہیں ۔

صابر ملت کو شعرو ادب میں بھی کمال کا دسترس حاصل تھا۔ان کی سکیڑوں نعتیں اور غزلیں کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہیں جس کو اہل ادب نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے ۔آپ کے خرد صاحبزادے قاری محمد اطہر علی صابری جو ایک بہترین خطیب و صحافی ہیں کے مطابق حروف تہجی کی ترتیب سے ایک دیوان بھی تیار ہے جو کئی سو صفحات پر مشتمل طباعت کے انتظار میں ہے ۔آپ نے ہر موضوع پر کامیاب شاعری کی ہے ۔آپ کی مطبوعہ کتاب ،،کریما سعدی ،کے مقدمہ میں پروفیسر صفدر امام قادری ایک جگہ رقم طراز ہیں :
،،صابر القادر ی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کی مشق اور ریاضت میں تو کمی نہیں ہے ہر مضموںن کے کئے اس کے پاس آسان یا حسب ضرورت مشکل ،ہر طرح کے الفاظ صف باندھے ہوئے کھڑے ہیں ۔فارسی زبان سے تعلق،عربی سے واضح وابستگی اور مذہبی علوم سے حد درجہ قربت کی وجہ سے صابر القادری کی شاعر ی میں فکر و فلسفہ اور افادیت کے پہلو ابھرتے ہیں،،

ٓآپ کو حضور مفتئی اعظم ہند سے شرف بیعت حاصل تھا۔ایک نامور خانقاہ سے خلافت واجازت بھی حاصل تھی ،لیکن آپ نے تادم حیات کسی کو مرید نہیں کیا ،ہزاروں افراد نے آپ سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی ،لیکن آپ نے یہ کہ کر منع فرمادیا کہ میںاپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا ۔حالانکہ آپ میں وہ تمام خوبیاں موجودتھیں جو ایک پیر کامل میں ہونا چاہئے ۔

علم و عمل ،زہد وورع عاجزی وانکساری ،بردباری و تواضع کاپیکر ،روح تصوف سے حقیقی معنوں میں آشنا اس جامع شخصیت کو سروش اجل نے 18مارچ 2011بروزجمعہ صبح آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر ہمیشہ ہمیش کے لئے آغوش رحمت میں لے لیا ۔آپ کے جنازے کی نماز دوبار پڑھی گئی ۔آپ کی آخری آرام گاہ آبائی وطن سیتامڑھی کے باڑا بستی میں واقع ہے ۔
ابررحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے ۔حشر تک شان کریمی نازبرداری کرے
Athar Sabri
About the Author: Athar Sabri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.